!ملک کی معیشت کے لیے کیا ہوگا ہمارا اگلا منصوبہ

بجٹ کا ایک بڑا حصہ تعلیمی امور کے لیے مختص ہونا چاہیے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

دیش کی کل جی ڈی پی قدرے بہتر مگر عوام کی یکساں شمولیت ناگزیر
ملک کے انتخابی نتائج نے کافی راحت دی ہے اور ووٹرس نے واضح کر دیا ہے کہ سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والی کسی بھی بے کار اور ناکارہ طور طریقے کی ضمانت اب ممکن نہیں ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک ڈکٹیٹر شپ اور جانب داری کی وجہ سے کرونی کیپٹلزم میں پھنس کر رہ گئے ہیں جس سے بڑے کاروباری گھرانے اور کارپوریٹس معیشت کے سبھی عوامل کو کنٹرول کرنے لگے ہیں۔ اس سے پوری قوم کو زبردست نقصان ہوتا ہے۔ سیاسی لیڈر اور کارپوریٹس کی چکی میں پس کر غریب عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ انہیں حکومت کی دی ہوئی خیرات پر گزر بسر کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے جس سے قوم کی عزت نفس متاثر ہوتی ہی ہے اور جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کو بھی بڑے بڑے خطرات کا سامنا ہے لیکن انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ ووٹروں کی بڑی تعداد نے ہندو-مسلم کی اندھ بھکتی، مسجد-مندر، مسلمان، گوشت مچھلی، رام مندر کی پرتشٹھا اور مجرا جیسے نعروں کے پیچھے دوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے ہی منافرت کے زہر کو اپنے ذہن سے کھرچ کر باہر کردیا ہے اور وہ ملک کے سامنے آنے والے چیلنجوں کو پہچان رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کو اس راہ پر چلنے کی اجازت ہرگز دینے والے نہیں ہیں۔ ابھی ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ آخر ہماری معیشت کا کیا ہوگا؟ کل جی ڈی پی کے معاملے میں گزشتہ دو سالوں میں معیشت میں بہتری آئی ہے۔ 2023-24 میں 8.2 فیصد کا اضافہ ایک اچھا مظاہرہ ہے۔ مگر ہم جب گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں تو تصویر دوسری ہی نظر آتی ہے۔ ملک میں سماجی اور معاشی عدم مساوات بہت ہی زیادہ ہے۔ اس لیے مڈل کلاس کو معاشی جدوجہد میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مختلف طرح کے ڈیٹا سے ہم تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جی ڈی پی میں ترقی کا فائدہ چند امیروں کو ہوتا ہے کیونکہ متبادل کے طور پر کچھ بھی دستیاب نہیں ہے۔ مینوفیکچرنگ اور عوامی خدمات جیسے شعبوں میں نوکریاں ناپید ہیں اور صورت حال بد سے بدتر ہوگئی ہے۔ 2018-19میں ملک میں لیبر طبقہ 42.5 فیصد زرعی شعبے سے منسلک تھا جو پہلے سے خستہ حال رہا ہے اس کے بعد مزید بگڑ گیا ہے۔ 2022-23 میں یہ 45.8 فیصد ہوگیا ہے۔ کیونکہ ہمارا پورا دھیان بڑی کمپنیوں اور کارپوریٹ کی مدد میں لگا تھا۔ غریبوں اور مڈل کلاس کے بڑے حصے کی آمدنی میں بڑی تنزلی آئی ہے۔ کالج سے نکلے نوجوانوں کو بے انتہا بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کسان اور چھوٹے کاروباری گزر بسر کے لیے بڑی جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ 2016 کی نوٹ بندی اور اس کے بعد کی جی ایس ٹی کے نفاذ نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ملک میں بے روزگاری ایک اہم ایشو اور چیلنج ہے جس پر دھیان دینا ضروری ہے جس کے لیے کئی طرح کے عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہوگی کیوں کہ بے روزگاری آسمان کی بلندی پر ہے لوگوں کے ہاتھ میں پیسے نہیں ہیں تو خرچ کیا کریں گے۔ بچت تو نچلی سطح پر ہے۔ قرض لے کر لوگ اپنا کسی طرح گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم مہنگائی پر غور کرتے ہیں تو ہمارے ملک کی شرح مہنگائی 4.8 فیصد ہے جو زیادہ ہے لیکن بہت زیادہ بھی نہیں ہے۔ غذائی اشیاء کی مہنگائی 8.7 فیصد زیادہ اور سبزیوں کی مہنگائی گزشتہ چار ماہ میں 27 فیصد زیادہ پر آگئی ہے جو تشویشناک ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ غذائی اشیاء اور سبزیوں کی زیادہ شرح مہنگائی کا اثر غریب خاندانوں پر امیروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ محض 4.8 فیصد کی کل مہنگائی کی بات کرنے سے زمینی سطح پر بات واضح نہیں ہوتی۔ مگر ایسے مسائل کا حل ہمیں تلاش کرنا ہوگا اور ملک کے ماہرین معاشیات سے پارٹی کی سطح سے اوپر اٹھ کر دیکھنا ہوگا۔ ملک کو معاشی بہتری پر لے جانے کے لیے جس کا فائدہ سبھوں کو ہو، ہمیں اپنی غلط پالیسیوں کی اصلاح کرنی ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں حوصلے سے کام کرنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں بے حد و حساب وسائل، صلاحیتیں اور مہارتیں ہیں۔ ہمیں اور سیاسی رہنماوں کو اس کی شناخت کرنی ہوگی اور بہت نرمی اور خوبی سے ایسی مہارتوں کا استعمال کر کے اہم منصوبوں اور ضابطوں پر فیصلہ کرنا ہوگا۔
جہاں تک ملک کی معاشی ترقی کی رفتار کا سوال ہے تو ملک کی معیشت دنیا کی کسی بھی معیشت کے مقابلے میں سب سے تیز ہے۔ بڑی بڑی ریٹنگ ایجنسیاں خواہ فچ ہو، ایس اے پی گلوبل ہو یا ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سبھوں نے تیز شرح نمو کو 7 تا 8 فیصد پر رکھا ہوا ہے۔ لیکن اس ترقی کا فائدہ سبھوں تک پہنچانے میں کئی طرح کے چیلنجز ہیں۔ سرکاری منصوبوں میں بہت سی خامیاں ہیں۔ ملک کا متمول طبقہ بھرا پرا ہونے کے باوجود غربا اور کمزوروں کو ملنے والی سبسیڈی کا 18.5 فیصد حصہ کھا جا رہا ہے۔ ایسے متمول لوگوں کو باہر نکالنا حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ نچلے طبقے کی کمزور اکیل(ہنرمندی) ان کی آمدنی بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ میکانک، الیکٹریشین اور بڑھئی سے لے کر ریڑھی لگانے والوں کی مہارت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے معاشی عدم مساوات اور آمدنی کی بڑی تفریق کم ہو سکتی ہے اور معیشت میں گروس ویلیو ایڈیڈ کی (GVA) 295 لاکھ کروڑ روپے ہوگیا ہے جو 2016 میں 104.30 لاکھ کروڑ روپے ہی تھا۔ اس طرح سات سالوں میں 190 لاکھ کروڑ روپے یع 182.62 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
تعلیم سب سے اہم شعبہ ہے جس میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جب سے 1951 میں سب سے پہلا انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم کیا گیا تھا، اس کا مظاہرہ بہت ہی قابل تعریف رہا۔ اس شعبہ کی ترقی کے لیے ہمیں اپنے یونیورسٹیوں کو تعمیری، نئے افکار اور لوگوں کی آزادی اظہار کے لیے مقام دینا ہوگا کیونکہ یہ ہماری معیشت کی شاہ کلید ہے لیکن یہ بھی ڈراونی حقیقت ہے۔ ہمارا تعلیم نظام درہم برہم ہے گرچہ دعویٰ وشو گرو بننے کا ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتوں کے مقابلے میں ہمارے ملک میں تعلیم پر سرکاری خرچ بہت ہی کم ہے۔ امسال کے عبوری بجٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں ہمارے ملک میں تعلیم پر سرکاری خرچ بہت کم ہے۔ امسال کے عبوری بجٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اسکولی تعلیم اور تعلیم کے پھیلاو کے مد میں تقریباً 20 فصید کا اضافہ کیا گیا ہے مگر جی ڈی پی کے محض چھ فیصد کو تعلم پر خرچ بڑھانے کی سفارش کی گئی تھی۔ قومی تعلیمی پالیسی (NEP-2020) میں بھی اسے چھ فیصد تک لانے کی بات کہی گئی ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں جی ڈی پی کا 6 فیصد اور چین میں 6.13 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ جاپان میں یہ 7.43 فیصد ہے۔ جرمنی میں تعلیم پر فی الحال 4.6 فیصد خرچ ہو رہا ہے جس میں ریسرچ کا بجٹ شامل نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں یہ صرف تین فیصد سے کچھ زائد ہے۔ سبھی مانتے ہیں کہ بہتر تعلیم و تربیت ہماری معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ آمدنی والے ممالک کم آمدنی والے ملکوں کے مقابلے تعلیم پر دگنا خرچ کرتے ہیں۔ یہی حالت اندرون ملک بھی ہے۔ جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے وہ اچھے اسکولوں میں اپنے بچوں کو بھیج پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے کئی لاکھ طلبا اعلیٰ و معیاری تعلیم کے لیے بیرون ممالک چلے جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان ملک کی معیشت کو تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی نابرابری کا بڑا چکر بنتا چلا جاتا ہے اس لیے ہمیں تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی بڑی ضرورت ہے۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024