ملک کے نوجوان انتہا پسندی کا شکار کیوں ہیں؟

ڈی جی پی سطح کی میٹنگ میں جرمن اور برطانیہ کے طرز پر پروگرامس شروع کرنے کا مشورہ

کولکاتہ (دعوت نیوز بیورو)

دائیں بازوکی تحریک سے متاثر نوجوان نہ صرف اندرون ملک بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔ سینئر پولیس افسران کی میٹنگ
پچھلے دنوں نئی دلی میں ڈائریکٹر جنرلز اور انسپکٹر جنرل آف پولیس کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس میڈیا میں زیادہ موضوع بحث نہیں بن سکی حالانکہ اس کانفرنس میں ملک کے نوجوانوں بالخصوص دائیں بازو سے متعلق جماعتوں کی سرگرمیوں اور اس کے رد عمل میں ملک کے اقلیتی نوجوانوں کے مسموم ہوتے ہوئے دل و دماغ سے متعلق جو رپورٹیں پیش کی گئی ہیں وہ ایک بڑے خطرے کی طرف نشاندہی کرتی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنی حساس اور اہمیت کی حامل کانفرنس کی خبریں ٹی وی نیوز چینلوں سے غائب رہیں کیوں کہ ان دنوں ہمارے قومی نیوز چینلس ایک ’’چمتکاری بابا‘‘ کا انٹرویو لینے اور ان پر پروگرامس کرنے میں مصروف ہیں۔اس کانفرنس سے متعلق پرنٹ میڈیا میں جو رپورٹنگ ہوئی وہ بھی فرقہ واریت کے تناظر میں ہی ہوئی، یعنی اس کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالات اور رپورٹوں کے صرف ایک حصے کی رپورٹنگ کرکے یہ باورکرانے کی کوشش کی گئی کہ اس کانفرنس میں پولیس افسران نے مسلم نوجوانوں میں شدت پسندانہ سوچ اور انتہاپسندی کو ایک بڑے خطرے کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ اس کانفرنس میں پولیس افسران نے مسلم نوجوانوں میں انتہاپسندی اور قدامت پسندی میں اضافے کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کی تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں میں اضافے اور اس کے نتائج پر بھی کھل کر گفتگو کی لیکن تقریباً تمام ہی خبروں سے یہ پہلو غائب رہا۔ کانفرنس کی رپورٹ اور اس میں پیش کیے گئے تمام مقالات کو وزارت داخلہ نے اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ بھی کیا تھا مگر محض دو دنوں میں ہی وزارت داخلہ نے اپنی سائٹ سے یہ رپورٹیں ہٹا دیں۔
کانفرنس میں پولیس افسران کے ذریعہ پیش کی گئیں رپورٹس:
بیشتر انگریزی اخبارات میں کانفرنس سے متعلق جو رپورٹنگ کی گئی ہے اس میں صرف ایک پہلو کو ہی اجاگر کیا گیا ہے جو کہ مسلم نوجوانوں سے متعلق ہے جبکہ انڈین ایکسپریس نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانفرنس میں مسلم نوجوانوں کے اندر انتہا پسندی میں اضافے سے زیادہ دائیں بازو کی تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ نیز دائیں بازو کی تنظیموں جیسے وشو ہندو پریشد، ہندو سینا اور بجرنگ دل وغیرہ کی سرگرمیوں اور ان کی نفرت انگیز مہم کے نتائج پر بھی کھل کر گفتگو کی گئی ہے۔ تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ وزارت داخلہ کی ویب سائٹ سے رپورٹ ہٹانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کیونکہ حکومت نہیں چاہتی ہے کہ ہندو دائیں بازو کی تنظیموں کی سرگرمیوں کا زیادہ تذکرہ ہو۔ کیوں کہ اس کے خیال میں جب بھی اس پر بات ہوگی تو وہ خود اس کی زد میں آئے گی اور اس کے کردار پر بھی سوال اٹھے گا۔ 2024 سے قبل دائیں بازو کی تنظیموں کی ناراضگی کا نقصان خود بی جے پی کو ہوسکتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پولرائزیشن اور انتہا پسندی اور نفرت انگیز مہم کا فائدہ کس کو ہوتا ہے اور کون اس کی بنیاد پر انتخاب میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔
ایک سینئر پولیس آفیسر نے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کو بنیاد پرست قرار دیتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت، ہندو قوم پرستی کا احیا اور گاؤکشی پر ہونے والی سیاست اور گھر واپسی جیسی مہمات کی وجہ سے نوجوانوں کے اندر بنیاد پرستی اور شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ دیگر پولیس افسران نے بتایا کہ اقلیتی طبقات میں احساس محرومی کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں اس لیے سیاست میں اقلیتوں کی نمائندگی میں اضافہ اور سرکاری ملازمت میں ریزرویشن کی ضرورت ہے۔ کانفرنس میں سینئر پولیس آفیسر نے ملک میں انتہا پسندی کو تین حصوں، بائیں بازو، دائیں بازو اور اسلامی بنیاد پرستی میں تقسیم کرتے ہوئے ان کا تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے۔آفیسر نے دائیں بازو کی تنظیم آنند مارگ، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندوسینا اور دیگر تنظیموں کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اکثریت پسندی اور اقلیتوں کے خلاف جارحانہ مہم سے ملک کے تکثیری سماج کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔اسلامی انتہاپسندی کے اسباب پر بھی مذکورہ آفیسر نے پی ایف آئی، دعوت اسلامی، توحید اور کیرالا ندوۃ المجاہدین جیسی تنظیموں کی سرگرمیوں کا تفصیل سے تذکرہ کیا اور اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ (پولیس اور انٹلی جس) کا غیر مناسب استعمال، اسکالرز، ماہر نفسیات، سول سوسائٹی کا کم ہوتا ہوا کردار، آن لائن اور آف لائن ذرائع سے ہم آہنگی وامن کے قیام کے لیے کوششوں کا فقدان اور فریم ورک میں خامیوں کی وجہ سے انتہاپسندی میں اضافہ ہوا ہے۔
جرمنی میں دائیں بازو اور انتہاپسندی کے رجحانات کو ختم کرنے اور نوجوانوں کے دل و دماغ کو اس طرح کی مہمات سے بچانے کے لیے علم جرائم کے ماہر اور پولیس کے سابق جاسوس برنڈ ویگنر اور سابق نازی رہنما انگو ہاسل باخ نے EXIT Deutschland پروگرام کی شروعات کی تھی۔اس پروگرام کے ذریعہ دائیں بازو کی تحریک چھوڑ کر نئی زندگی شروع کرنے کے متمنی نوجوانوں کی مدد کی جاتی ہے۔جرمنی میں اس طرح کی کئی تنظیمیں ہیں جو متعینہ خطوط پر کام کرتی ہیں تاہم ڈی ریڈیکلائزیشن اور ایگزٹ اسسٹنس کے لیے سب سے زیادہ تجربہ کار اور کامیاب پروگراموں میں سے ایک ہے۔EXIT-Germany بھی اسی طرح کا ایک پروگرام ہے۔ ان تنظیموں نے گزشتہ چند سالوں میں بڑے پیمانے پر نوجوانوں کی مدد کی ہے۔ مذکورہ آفیسر نے جرمن میں چلنے والے ان پروگراموں کو بھارت میں بھی شروع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ ٹی وی نیوز چینلوں پر مسلمانوں سے متعلق منفی پروپیگنڈے اور اس کی وجہ سے نوجوانوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے برطانیہ میں ’’اسلامو فوبیا‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے۔
دائیں بازو کی بنیاد پرستی فاشزم، نسلی بالادستی اور الٹرا نیشنلزم سے متعلق بھی اس کانفرنس میں کھل کر افسران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔اس کانفرنس میں میڈیا کے کردار اور سول سوسائٹی کے کردار کے متعلق بتایا گیا کہ بابری مسجد کا انہدام ہندو قوم پرستی کے رجحان میں اضافے کے ساتھ گاؤکشی کے نام پر موب لنچنگ اور ’گھر واپسی کی تحریک نوجوان ذہنوں کو بنیاد پرست بنانے کے لیے افزائش گاہ ثابت ہورہی ہے۔ اس کانفرنس میں بی جے پی کی معطل لیڈر نوپور شرما کے ذریعہ نبی کریم ﷺ کے خلاف کیے گئے تبصرے اور اس کے نتیجے میں راجستھان کے اودے پور میں کنہیا لال کا مسلم نوجوان کے ہاتھوں قتل کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہرکسی کو مذہبی تبصرے اور نفرت انگیز تقاریر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے واقعات باقاعدگی سے ہوتے رہتے ہیں۔ لہذا قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
مسلم نوجوانوں میں انتہاپسندی میں اضافے کے اسباب پر جو باتیں کہی گئی ہیں ان سے زیادہ اختلافات کی گنجائش نہیں ہے۔ ’’رد عمل‘‘ کا پیدا ہونا انسانی فطرت ہے۔ ماہر عمرانیات بتاتے ہیں کہ جب اکثریتی طبقے میں ناراضگی بڑھتی ہے تو نسل پرستی، فاشزم اور بالادستی جیسی ذہنیت پیدا ہوتی ہے اور جب اقلیتی طبقے میں احساس محرومی بڑھتی ہے تو علیحدگی پسندی میں اضافہ ہوتا ہے۔چنانچہ کانفرنس میں پولیس افسران نے مسلم نوجوانوں کو ریڈی کلائزیشن سے بچانے کے لیے اقتصادی ترقی کے لیے مساوی مواقع فراہم کرنے، سیاسی وانتظامی عمل کا حصہ بنانے، مدارس کی جدید کاری اور اقلیتی علاقوں میں صنعتی اداروں کے قیام کی سفارش کی ہے۔ ایک آفیسر نے کہا کہ بنیاد پرستی اکثر قومی اور بین الاقوامی واقعات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ فلسطینیوں کی حالت زار، افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت، عراق پر امریکہ کا حملہ اور افغانستان میں دراندازی، ڈنمارک کارٹون تنازع، آزادی کے بعد جموں وکشمیر اور حیدرآباد میں فوج کشی، فرقہ وارانہ فسادات، بابری مسجد کا انہدام، 2002 کے گودھرا فسادات اور شہریت ترمیمی قانون جیسے واقعات ہیں جن کی وجہ سے بنیاد پرستی میں اضافہ ہوا ہے۔
اصل خطرہ کیا ہے؟
ڈی جی پی کی میٹنگ اور اس میں پیش کیے گئے تحقیقاتی مقالے کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ اصل خطرہ دائیں بازوں سے ہے یا بائیں بازو سے یا پھر مسلم نوجوانوں کے ریڈیکلائزیشن سے ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ مسلم نوجوانوں اور تنظیموں سے متعلق اس ملک میں خوب باتیں بھی ہوتی ہیں اور وقتا ًفوقتاً ملک کی ایجنسیاں اس سلسلے میں کارروائی بھی کرتی ہیں۔بائیں بازو کی انتہاپسندی کے خلاف ملک کے نیم فوجی دستے کارروائیاں بھی کرتے ہیں مگر دائیں بازو کی جماعتوں کی سرگرمیوں اور اس کے اثرات سے متعلق باتیں کافی کم ہوتی ہیں۔ مودی حکومت کے دور میں شاید پہلی مرتبہ ملک کے سینئر افسران نے دائیں بازو کی انتہاپسندی اور ان کی سرگرمیوں پر کھل کر بات کی ہے اور ملک کے اکثریتی طبقے کے نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے کے لیے جرمنی کے طرز پر پروگرام شروع کرنے کی بھی وکالت کی گئی ہے۔ ملک میں دائیں بازو کی سرگرمیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں، انہی سرگرمیوں کے نتیجے میں بابری مسجد کی شہادت، سیکڑوں فرقہ وارانہ فسادات، یہاں تک کہ گاندھی جی کا قتل بھی ہوا۔ وزیر اعظم مودی کے عروج کے ساتھ ہی دائیں بازو کی جماعتوں کی سرگرمیوں اور ان کے نفرت انگیز مہم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی بہت بدنامی ہوئی ہے۔ دائیں بازو کی سرگرمیوں پر لگام لگانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی بلکہ قومی میڈیا کی اقلیتوں کے خلاف جارحانہ مہم نے اس ماحول کو مزید سازگار بنادیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ذریعہ متعدد مرتبہ اس پر تشویش کا اظہار کرنے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں سوال ہے کہ کیا مرکزی حکومت پولیس افسران کے تشویشات پر توجہ دے گی؟
دائیں بازو کی جماعتیں صرف ملک کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں خطرہ بنتی جارہی ہیں اور اس سے متعلق متعدد حکومتوں کی جانب سے رپورٹیں تیار کی گئی ہیں۔ روسکلڈ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سومدیپ سین نے اپنے ایک مضمون ’’ہندوتوا کی عالمی سطح پر رسائی‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں انہوں نے برطانیہ کے لیسٹر میں ہونے والے واقعات اور اس کے بعد دنیا بھر میں بھارت کی دائیں بازوں کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں ایک سکھ اسکول کے باہر سکھ مخالف نعرے اور سواستک لگانے کی کارروائی ہوئی۔ کینیڈین ماہرین تعلیم کو بھارت میں مودی حکومت پر تنقید کرنے پر ہندوتوا کے حامیوں کی جانب سے ہراساں کیا گیا اور انہیں قتل اور عصمت دری کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل کینیڈین ہندو قوم پرست رون بنرجی نے کھلے عام مسلمانوں اور سکھوں کی نسل کشی کی وکالت کی تھی۔ بنرجی نے ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ مودی جو کر رہے ہیں یہ حیرت انگیز ہے۔ ’’میں جمہوریہ ہند میں مسلمانوں اور سکھوں کے قتل کی حمایت کرتا ہوں کیونکہ وہ مرنے کے ہی مستحق ہیں‘‘
آسٹریلیا میں بھی ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں اور سکھوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے ہی ایک حملہ آور، وشال سود کو بالآخر سکھوں پر حملوں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا اور اس کے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد اسے مجرم قرار دے کر ملک بدر کر دیا گیا۔ جب وہ بھارت واپس آیا تو اس کا شاندار استقبال کیا گیا۔ آسٹریلیا میں بھی دائیں بازوں کی تنظیموں کے ذریعہ مودی اور ان کی ہندو قوم پرست پالیسیوں کے ناقدین کو خاموش کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ملبورن یونیورسٹی کے آسٹریلیا انڈیا انسٹی ٹیوٹ سے تیرہ اکیڈمک فیلوز نے ہندوستانی ہائی کمیشن کی مداخلت اور تحقیق اور تحریر کو سنسر کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔
2014ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد سے متنازع شہریت ترمیمی قوانین جس میں مسلم پناہ گزینوں کے ساتھ امتیازی سلوک شامل ہے، جموں وکشمیر کی آئینی طور پر خود مختاری کا خاتمہ، 1992ء میں ہندو سخت گیر تنظیموں کے ذریعہ منہدم کی گئی تاریخی مسجد کے مقام پر ایک مندر کی تعمیر اور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران، کارکنان اور ناقدین کے خلاف کارروائی اور اس کے ساتھ ہی اندرون ملک ہندوتوا کے وعدوں کو پورا کرنے میں مودی کی کامیابی نے ان کے حامیوں کو بیرون ملک ’’شاونسٹک فخر‘‘ کا احساس پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ تاہم اس ضمن میں مودی کو قانونی حیثیت دینے میں عالمی رہنما بھی مجرم ہیں، ہندو تارکین وطن کے اس ذیلی حصے کو یہ یقین دلاتے ہوئے کہ ان کے متعصبانہ وژن میں کچھ عالمی ذخیرہ موجود ہے۔ ٹرمپ سے لے کر برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن تک، اور اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے لے کر برازیل کے صدر جیر بولسونارو تک، دائیں بازو کے متعدد سیاست دانوں نے خود کو مودی کے ’’دوست‘‘ کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مغربی رہنما جن کے پاس خاص طور پر دائیں بازو کا کوئی ایجنڈا بھی نہیں ہے، انہوں نے بھی مودی حکومت کے انسانی حقوق کے مایوس کن ریکارڈ پر آنکھیں بند کرلیں۔ اسلاموفوبیا اب ہندوستان کے لیے عوامی اور خارجہ پالیسی کا معاملہ بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم، لیسٹر کو ایک ویک اپ کال کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ ہندو قوم پرستی کو ہندوستانی مسئلہ کے طور پر مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تحریک بین الاقوامی سطح پر چلی گئی ہے اور دوسرے ممالک میں بھی تیزی سے پرتشدد شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ اب ہر جگہ جمہوری اصولوں، مساوات اور انسانی حقوق کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔
***

 

***

 مودی حکومت کے دور میں شاید پہلی مرتبہ ملک کے سینئر افسران نے دائیں بازو کی انتہاپسندی اور ان کی سرگرمیوں پر کھل کر بات کی ہے اور ملک کے اکثریتی طبقے کے نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانے کے لیے جرمنی کے طرز پر پروگرام شروع کرنے کی بھی وکالت کی گئی ہے۔ ملک میں دائیں بازو کی سرگرمیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں، انہی سرگرمیوں کے نتیجے میں بابری مسجد کی شہادت، سیکڑوں فرقہ وارانہ فسادات، یہاں تک کہ گاندھی جی کا قتل بھی ہوا۔ وزیر اعظم مودی کے عروج کے ساتھ ہی دائیں بازو کی جماعتوں کی سرگرمیوں اور ان کے نفرت انگیز مہم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی بہت بدنامی ہوئی ہے۔ دائیں بازو کی سرگرمیوں پر لگام لگانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی بلکہ قومی میڈیا کی اقلیتوں کے خلاف جارحانہ مہم نے اس ماحول کو مزید سازگار بنادیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023