!ملک کے جمہوری نظام کو کھوکھلا کرنے کی جانب ایک اور قدم

’وَن نیشن-وَن الیکشن‘ کا نظریہ وفاقی نظام کے لیے زہر ہلاہل

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآباد

علاقائی پارٹیوں کا وجود بے معنی ہو جانے کے قوی امکانات
این ڈی اے حکومت نے ملک میں وَن نیشن-وَن الیکشن کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری کرلی ہے۔ 18ستمبر 2024 کو مودی کی مرکزی کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ہے اور پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں اس ضمن میں ایوان میں بل پیش کرنے کا بھی اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے ملک میں ون نیشن-ون الیکشن کے نظریہ کو ناقابل عمل قرار دے دیا ہے۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے یقین ظاہر کیا کہ قومی اور ریاستی اسمبلیوں کے بیک وقت انتخابات سے ہندوستانی جمہوریت مزید مستحکم اور متحرک ہوگی۔ پہلے سے بھی مودی حکومت نے اپنا عندیہ ظاہر کیا تھا کہ ملک اور قوم کے مفاد میں یہ بہتر ہے کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت منعقد کیے جائیں۔2018 اور 2019 میں لا کمیشن سے بھی اس مسئلہ کو رجوع کیا گیا۔ 2024 کے لوک سبھا الیکشن کے انتخابی منشور میں بھی بی جے پی نے تیسری مرتبہ بر سر اقتدار آنے پر ملک میں بیک وقت پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب جب کہ بی جے پی کو تیسری مرتبہ مرکز میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا ہے ایسے وقت حکومت کی جانب سے ایک ملک-ایک الیکشن کا نعرہ دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ نئی حکومت سلگتے ہوئے سنگین مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے اس عنوان کو پھر چھیڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ملک-ایک الیکشن واقعی کیا ملک کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے؟ گزشتہ معیاد کے دوران بی جے پی حکومت نے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔ کووند پیانل کی سفارشارت کو قبول کرتے ہوئے مرکزی کابینہ نے بیک وقت انتخابات کی تجویز کو منظوری دے دی۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت اپنی جاریہ میعاد میں اس پر عمل کرے گی جب کہ اس نظریہ کو روبہ عمل لانے میں کئی دستوری پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ دستور کی کئی دفعات میں ترامیم کرنی پڑیں گی۔ حکومت یہ دلیل دے رہی ہے کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ ہونے کے نتیجہ میں الیکشن کمیشن پر کافی بوجھ پڑ رہا ہے۔ وقفے وقفے سے کسی نہ کسی ریاست میں اسمبلی الیکشن کرانے ہوتے ہیں۔ اس لیے بیک وقت لوک سبھا اور ملک کی انتیس ریاستوں میں الیکشن ہوں تو الیکشن کمیشن کو اپنے فرائض کے ادا کرنے میں سہولت ہو گی۔ بیک وقت انتخابات کے انعقاد کے حامیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس سے ملک بھر کے انتظامی امور میں سدھار آئے گا۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کو نافذ کرنے کرنے کی بار بار نوبت نہیں آئے گی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی پالیسیوں میں یکسانیت لائی جا سکتی ہے۔ سب سے بڑا دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ ایک ملک ایک الیکشن سے ملک کے وسائل کی بچت ہو گی اور الیکشن پر خرچ کیا جانے والا پیسہ عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حکومت کے اس اقدام سے ملک کے وفاقی ڈھانچے کو جو نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا اس سے ملک کا جمہوری نظام تہس نہس ہو جائے گا اور اس کے نتیجہ میں جمہوریت کے خوبصورت نام پر دبے پاؤں آمریت کو ملک میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع ملے گا۔ ملک کی علاقائی پارٹیوں کی اہمیت اور ان کا رول محدود ہو جائے گا۔ جب کہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں علاقائی پارٹیوں کی وجہ سے ہی بی جے پی اپنے عزائم میں کا میاب نہ ہوسکی۔
ایک ملک-ایک الیکشن کا نظریہ ملک کے وفاقی نظام کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنے گا۔ ریاستوں کی رضا مندی کے بغیر اس نوعیت کی قانون سازی ملک میں انتشار پیدا کر دے گی۔ دستوری پیچیدگیوں کی وجہ سے ہی ایک ملک-ایک الیکشن پر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ 1990 میں لا کمیشن نے ایک ملک ایک-الیکشن کو قابل عمل قرار دیا تھا لیکن اس کی سفارشات پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ملک کی آزادی کے بعد مسلسل چار مرتبہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن بیک وقت ہوئے۔ ان میں 1952, 1956, 1962 اور 1967 کے الیکشن شامل ہیں۔ جب 69-1968میں کچھ ریاستی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیاتو صرف لوک سبھا کے الیکشن 1971 میں کروائے گئے۔ اس کے بعد سے لوک سبھا اور ریاستوں کی اسمبلیوں کے الیکشن الگ الگ ہونے لگے اور وہی سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جب ریاستی اسمبلی کی میعاد پوری ہوجاتی ہے لوک سبھا کے الیکشن کا انتظار کیے بغیر وہاں ریاستی اسمبلی کے انتخابات منعقد کرائے جا تے ہیں۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہر دو چار ماہ میں کسی نہ کسی ریاستی اسمبلی کے الیکشن ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ سال بھر چلتا رہتا ہے۔ بی جے پی حکومت حالات کے اس تناظر میں لوک سبھا اور ملک کی ساری ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن کس طرح کرانے میں کا میاب ہو سکتی ہے۔
حکومت کی ون نیشن-ون الیکشن کی تجویز کے نفاذ کی صورت میں ان ریاستوں کی اسمبلیوں کو کیا تحلیل کر دیا جائے گا جہاں دو، ایک سال پہلے الیکشن ہوا ہے۔ رائے دہندوں نے اپنے نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے۔ ایک سال یا دو سال کی میعاد پر کیا انہیں اسمبلی کی رکنیت سے برخواست کرنا اتنا آسان ہے کہ اس پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا؟ جب اسمبلیوں کی معیاد پانچ سال مقرر ہے تو کیا انہیں ایک ملک-ایک الیکشن کے نام پر وقت سے پہلے تحلیل کر دیا جائے گا؟ قومی پارٹیاں کیا بی جے پی حکومت کے اس نظریہ کو قبول کرلیں گی۔ علاقائی پارٹیاں اس پر بات پر رضا مند ہوجائیں گی کہ لوک سبھااور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہوں؟ وہ کسی بھی صورت میں اس بات کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔ ون نیشن-ون الیکشن کے نتیجہ میں الیکشن کے موقع پر قومی مسائل ہی ابھر کر آئیں گے اور مقامی مسائل نظر انداز کر دیے جائیں گے۔ ملک میں بیک وقت انتخابات سے علاقائی پارٹیوں کا نقصان ہوگا۔ قومی پارٹیاں، قومی ایجنڈے کو لے کر رائے دہندوں کو اپنی طرف راغب کرلیں گی۔ جب کبھی لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہوئے قومی پارٹی کو اس کا فائدہ ہوا۔ 1967 تک کے الیکشن میں کانگریس کو جو کامیابی ملی اس کی اصل وجہ بیک وقت الیکشن تھے۔ کانگریس، مرکز اور ریاستوں میں اپنی حکومت بنانے میں کا میاب ہوتی رہی۔ 1971کے لوک سبھا الیکشن کے بعد ملک کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی آئی۔ ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ ملک میں قومی پارٹیوں سے زیادہ اثر علاقائی پارٹیوں کا ہے۔ بی جے پی، علاقائی پارٹیوں کے اس اثر و نفوذ دیکھتے ہوئے ایک ملک-ایک الیکشن کا راگ الاپ رہی ہے۔ اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ اگر علاقائی پارٹیاں حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی رہیں گی تو ایک دن مرکز میں بھی ان کا اقتدار قائم ہو جائے گا۔ علاقائی پارٹیوں کے زور کو ختم کرنے کے لیے ہی بی جے پی نے ایک ملک-ایک الیکشن کے نظریہ کو آگے بڑھایا ہے۔ اس بات کے پورے امکانات ہیں کہ بی جے پی حکومت اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر حربہ اختیار کرے گی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اسی بنیاد پر ایک ملک-ایک الیکشن کی تجویز کو ملک کے آئین اور جمہوریت کے خلاف قرار دیا ہے۔ انتخابی اصلاحات کے نام پر ملک کو ڈکٹیٹر شپ کی طرف لے جانے کی یہ ایک دانستہ سازش ہے ۔ون نیشن-ون الیکشن کی تجویز بظاہر بڑی خوش نما ہے لیکن اس کے پس پردہ بی جے پی حکومت کے جو عزائم ہیں وہ بڑے خطرناک ہیں۔ یہ نظریہ دراصل ملک کے پارلیمانی نظام کی دھجیاں اُڑا دے گا اور اس کے وفاقی نظام کو منہدم کر دے گا۔ مرکز کو غیر محدود طاقت حاصل ہو جائے گی اور ریاستی حکومتوں کو اس قدر غیر مستحکم کر دیا جائے گا کہ کوئی ریاست مرکز کے رحم و کرم کے بغیر نہیں چل سکے گی۔ مختلف اوقات میں ہونے والے اسمبلی الیکشن سے راجیہ سبھا میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔ بیک وقت الیکشن ہونے کی صورت میں راجیہ سبھا کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ اس بات کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ریاستوں میں صدر راج نافذ کرنے کا چلن بڑھ جائے گا۔ ایک قوم-ایک الیکشن کے پیچھے یہ سازش بھی کام کر رہی کہ کسی طرح ملک کی دیگر پارٹیوں کو اقتدار سے دور رکھ کر خود بی جے پی اقتدار پر قابض رہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک میں ایک مضبوط اپوزیشن قائم ہوئی ہے اس سے بی جے پی بوکھلا گئی ہے۔ اسے اس بات کا خوف کھائے جا رہا ہے کہ کہیں 2029 کے لوک سبھا الیکشن میں انڈیا اتحاد کا میاب نہ ہوجائے۔ اس لیے ایک نئی چال چلتے ہوئے ملک کے عوام کو گم راہ کیا جا رہا ہے۔ سنگین مسائل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ایک ایسے موضوع کو عوام کے درمیان میں لایا گیا جس کی نہ ملک کو ضرورت ہے اور نہ عوام نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں اس انتخابی نظام کو رائج کیا جائے۔ اس وقت ملک جن سنگین چیلنجوں سے نبرد آزما ہے اس پر حکومت کوئی ٹھوس اقدامات کرتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔ منی پور میں اب بھی حالات انتہائی نازک ہیں۔ ڈیڑھ سال کا وقفہ گزر جانے کے باوجود وہاں قتل و غارت گری کا سلسلہ جا ری ہے۔ چین نے ہندوستان کی ریاست اروناچل پر دیش کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس نے ہندوستان کے علاقہ کو اپنے نقشے میں بھی شامل کر لیا ہے۔ ملک کے عوام مہنگائی سے پریشان ہے۔ نوجوان روزگار کے حصول کے لیے دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔فرقہ پر ست عناصر ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ خواتین کی عزت و عفت پر حملے ہو رہے ہیں۔ ان سارے مسائل کے بیچ ایک ملک-ایک الیکشن کو موضوعِ بحث بنانا عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے دور کرنے کا ایک سیاسی حربہ ہے۔ اس کے ذریعہ بی جے پی وقتی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن ایسی بحثوں سے ملک کی ترقی ٹھپ پڑجائے گی۔ اپنی دو میعادوں کے دوران بی جے پی نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں بنایا اور نہ ہی کوئی ٹھوس اقدامات اس ضمن میں کیے گئے۔
اپنی تیسری میعاد کے آغاز کے ساتھ ہی پھر سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بی جے پی متنازعہ موضوعات کو عوام کے سامنے لاکر عوام کو گم راہ کرنا چاہتی ہے۔ ایک ملک-ایک الیکشن کا مسئلہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ لیکن اب عوام کافی با شعور ہو چکے ہیں۔ وہ اس قسم کے ہنگامی موضوعات پر کوئی توجہ نہیں دے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ جو شوشہ چھوڑا گیا ہے اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے اور کیا حربے اختیار کیے جائیں گے۔ حکومت پہلے سے ہی یہ ارادہ کر چکی ہے کہ ملک میں بیک وقت لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوں گے۔ اسی کے خاطر کابینہ نے عجلت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کووند پیانل کی سفارشات کو منظوری دے دی اور آئندہ پارلیمنٹ سیشن میں بل لانے کا بھی اظہار کیا۔ ملک کی سیکولر سیاسی پارٹیوں اور سِول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ ایک ملک-ایک الیکشن کے نفاذ سے رائے دہندوں کی آزادی اور ان کے حقوق پر بھی کاری ضرب پڑے گی۔ ان کا کام صرف پانچ سال میں ایک مرتبہ ووٹ دینے کا ہوگا۔ وہ عوامی نمائندوں سے کوئی سوال بھی نہیں کرسکیں گے اس لیے اس کی ہر سطح پر مخالفت ہونی چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024