ملک کے دو ستون، مقننہ اور عدلیہ؛ باہم برسر پیکار
جج صاحبان ایک وزیر کے غیرذمہ دارانہ تبصرہ پر برہم۔ پرسنل لاز اور عدلیہ پر منڈلاتے خطرات کے بادل
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
ہندو کوڈ بل کو یکساں سول کوڈ بنانا ممکن نہیں ہے کیونکہ سارے ہندو سماج کا کسی ایک قانون پر اتفاق نہیں ہے
مودی دور حکومت میں سنگھ پریوار نے ایک ایک کر کے یکساں سول کوڈ کے علاوہ اپنے ترکش میں موجود سارے تیر استعمال کر لیے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام کو رام مندر یا کشمیر کی دفعہ 356 میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ آئندہ انتخاب سے قبل یونیفارم سول کورڈ کا کارڈ بھی کھیل کر اسے بے کار کردیا جائے تاکہ بعد والوں کے لیے کچھ نہ بچے۔ یکساں سول کوڈ سے سارے پرسنل لاز کو خطرہ لاحق ہے لیکن چونکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے دین پر عمل کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اس لیے کسی کو اس سے پریشانی محسوس نہیں ہوتی۔ یکساں سول کوڈ کے نتیجے میں ہندو کوڈ بل بھی کالعدم ہو جائے گا۔ہندو کوڈ بل کو یکساں سول کوڈ بنانا ممکن نہیں ہے کیونکہ سارے ہندو سماج کا کسی ایک قانون پر اتفاق نہیں ہے۔ ان کے یہاں ہر برادری کی اپنی روایت ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور وہ اسی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے دو ثبوت تعدد ازدواج اور کم عمر کی شادیاں ہیں۔ تعدد ازدواج کی اجازت مسلم پرسنل لا میں تو ہے مگر ہندو مرد کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ اس معاملے میں مسلمانوں سے پیچھے نہیں ہیں اور قبائلی علاقوں میں تو تعدد ازدواج کی شرح دونوں سے کہیں زیادہ ہے۔
کم عمر کی شادیوں کا بھی یہی حال ہے۔ اسلامی شریعت کے مطابق پندرہ سال کی لڑکی یعنی سن بلوغت پر نکاح کی اجازت ہے اور ہندووں کے لیے یہ قید اٹھارہ سال ہے لیکن ان کے سماج میں کم عمری کی شادیوں کا رواج مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یکساں سول کوڈ نافذ ہو جانے کے بعد جس طرح آج ہندو سماج ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اسی طرح مسلم سماج بھی لازماً کرے گا۔ اس لیے کہ اس کو تو اپنی شریعت پر چلنا ہی ہے۔ حکومت ہند کو بھی اس حقیقت کا احساس ہے۔ مسلمان جب بھی ریزرویشن کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں اس سے محروم رکھنے کی خاطر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ان کے دین میں نسلی امتیاز نہیں ہے اس لیے وہ ریزرویشن کی سہولت سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ یعنی اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ دین اسلام دیگر ادیان سے ممتاز ہے۔ وہ انسانوں کے درمیان بھید بھاو نہیں کرتا۔ دین اسلام کا یہ امتیاز اس کی شریعت کے سبب ہے اس لیے اس کی منفرد حیثیت کو تسلیم کرکے ایک سہولت سے محروم کرنا درست ہے تو انہیں اپنی شریعت پر عمل کرنے سے روکنا سراسر ظلم بھی ہے۔
ہم دو ہمارے دو کی یہ موجودہ حکومت بلند بانگ وعدے کر کے اقتدار میں تو آگئی مگر عوامی فلاح وبہبود کا کوئی ٹھوس کام کرنے میں پوری طرح ناکام رہی ہے۔ اسی لیے اس کو اپنی ناکامی چھپانے کے لیے کبھی سرجیکل اسٹرائیک تو کبھی رام مندر یا کبھی کشمیر تو کبھی یکساں سول کوڈ کا راگ الاپنا پڑتا ہے۔ ہندو ووٹرس کی خوشنودی کی خاطر مسلمانوں کو سبق سکھانے کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور وہ لوگ سارے دکھ درد بھول کر جھانسے میں آجاتے ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال گجرات کے حالیہ انتخاب میں بی جے پی کی زبردست کامیابی ہے لیکن اس سے پہلے بھی ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے۔ نوٹ بندی کے بعد اترپردیش کا صوبائی انتخاب ہوا تو مودی جی نے عوام سے کہنا شروع کیا کہ ’دیکھا سب کو لائن میں لگا دیا کہ نہیں؟‘ یہ سن کر جن سرمایہ داروں کے تئیں عام لوگوں میں نفرت تھی وہ اپنا دکھ درد بھول کر خوش ہو گئے اور بی جے پی کو اتر پردیش میں غیر معمولی کامیابی سے نواز دیا۔ فی الحال مودی اور ان کی ٹیم نے اس طرح اپنے ووٹرس کے جذباتی استحصال میں مہارت حاصل کرلی ہے اور یکساں سول کوڈ کے ذریعہ بھی وہ یہی سب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یکساں سول کوڈ میں کتنا دم خم ہے اور اس سے کتنا سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے یہ جاننے کے لیے بی جے پی نے ایوانِ بالا (راجیہ سبھا) میں اپنے رکن پارلیمنٹ کروڑی لال مینا کے ذیعہ یونیفارم سول کوڈ ان انڈیا بل 2020 کو پیش کروادیا۔ اس پرائیویٹ ممبر بل کو حزب اختلاف کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب ایوان کا صدر اپنی مٹھی میں ہو تو ڈر کس بات کا؟ بی جے پی نے پہلے تو اتر اکھنڈ اور پھر گجرات میں یکساں سول کوڈ کا وعدہ کیا۔ اس کے خلاف مسلمان میدان میں نہیں اترے تو یہ کھیل بے فائدہ رہا۔ حزب اختلاف نے بھی یہ کہہ کر اسے نظر انداز کر دیا کہ فی الحال مرکز میں بی جے پی سرکار ہے لہذا یہ اس کے کرنے کا کام ہے۔ بی جے پی اس معاملے میں پیش قدمی کیوں نہیں کرتی؟ اس سوال نے ان کے غبارے کی ہوا نکال دی اس لیے مرکزی سطح پر بھی کوئی نہ کوئی علامتی اقدام کرنا ضروری ہو گیا۔ اس ضرورت کے پیش نظر بی جے پی نے یونیفارم سول کوڈ کی تیاری کی اور پورے بھارت میں اس کے نفاذ سے جڑے معاملات کے لیے قومی معائنہ اور تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کی درخواست کا پرائیویٹ ممبر بل پیش کروایا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یکساں سول کوڈ سے مسلم پرسنل لا سمیت تمام عائلی قوانین کو خطرہ لاحق ہے لیکن فی الحال تو اس حکومت میں عدلیہ کی آزادی بھی خطرے میں ہے۔ مقننہ اور عدلیہ کے درمیان ایک سرد جنگ چھڑی ہوئی ہے اور مرکزی حکومت چاہتی ہے کہ ای ڈی، سی بی آئی اور الیکشن کمیشن کی مانند عدلیہ کی خود مختاری پر بھی شب خون مار کر اسے اپنا غلام بنالے۔ وزیر قانون کرن رجیجو کے ذریعہ آئے دن عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لینا اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان چپقلش کا تازہ ثبوت چند دن قبل وزیر قانون کرن رجیجو کا سپریم کورٹ کو دیا جانے والا ایک نہایت نامعقول مشورہ ہے۔ کرن رجیجو کو یہ حق ہی نہیں کہ وہ عدالتِ عظمیٰ سے یہ کہیں کہ ضمانت اور مفادِ عامہ کی درخواستوں کی سماعت نہ کی جائے۔ وزیر موصوف نے اس کی وجہ یہ بتائی چونکہ زیر التوا مقدمات بہت زیادہ ہیں اس لیے سپریم کورٹ کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ملک میں فی الحال کتنے مقدمات زیر سماعت ہیں اور کیوں؟ اس کے بارے عدالت سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اس سنگین صورتحال کے لیے حکومت کے ذریعہ دائر کردہ بے شمار مقدمات ذمہ دار ہیں جنہیں سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر قائم کیا جاتا ہے اور حکومت ان کو ٹال مٹول کر کے بے انتہا طوالت دے دیتی ہے۔ بے قصور لوگوں پر یو اے پی اے لگا کر انہیں پریشان کیا جاتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ ججوں کے تقررات میں سرکار کی آنا کانی ہے۔ عدالت عظمیٰ سے لے کر نچلی عدالتوں تک کئی اسامیاں خالی پڑی ہیں لیکن حکومت ان کو پُر نہیں کرتی۔ اس لیے حکومت نے اول تو اپنی نااہلی اور خرمستی کے سبب حالات بگاڑ کر رکھ دیے اوپر سے عدالت کو پروچن دے رہی ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ جس معاملے میں وزیر قانون نے یہ مشورہ دیا اس کو جان کر بیک وقت رونا بھی آتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ کرن رجیجو کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی بنچ نے کہا کہ شخصی آزادی ”قیمتی اور اٹوٹ حق“ ہے۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ اگر ہم یہاں اپنے ضمیر کی آواز سننے کے لیے نہیں ہیں تو پھر کس لیے ہیں؟
ہندوستان کی نچلی عدالتیں حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیسے احمقانہ فیصلہ کرتی ہیں اس کا ایک نمونہ اس وقت سامنے آیا جب اتر پردیش میں سرکاری بجلی کے محکمہ میں برقی آلات چوری کرنے کے نو معمولی مقدمات میں اٹھارہ سال کی جیل کاٹنے والے اکرم کی درخواست زیر سماعت تھی اور رجیجو کہہ رہے تھے کہ اس پر عدالت اپنا وقت ضائع نہ کرے مگر بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے لیے کوئی بھی کیس چھوٹا نہیں ہوتا۔ عدالتِ عظمیٰ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس احمقانہ حکم کو رد کر دیا جس میں ہدایت دی گئی تھی کہ نو مقدمات میں سے ہر ایک میں فی کس دو سال کی سزا ایک ساتھ چلے گی۔ اس طرح اٹھارہ سال کی سزا کا فیصلہ غلط قرار دے دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس کی سزا کو کم کرنے کے بعد کہا کہ برقی آلات کی چوری قتل کا جرم نہیں ہے اور ہائی کورٹ کے اس نا مناسب فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا۔ یہ فیصلہ گو کہ ٹرائل کورٹ نے کیا تھا مگر ہائی کورٹ نے بھی اس کی تائید کر دی تھی۔ اس لیے عدالتِ عظمیٰ نے پوچھا کہ کیا کسی شخص کو برقی آلات کی چوری کرنے پر اٹھارہ سال کے لیے جیل بھیجا جا سکتا ہے؟ کیا یہ کوئی قتل کا جرم ہے؟ ایسی صورت میں اگر مجرم کی سزا میں کمی نہ کی جائے تو یہ اس کے حقوق چھیننے کے مترادف ہے۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ کم از کم ہائی کورٹ کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ مجرم کو مناسب انصاف نہیں دیا گیا ہے۔ اکرم چونکہ اب تک دو سال سے زیادہ کی سزا مکمل کر چکا ہے اس لیے عدالتِ عظمیٰ نے اس کے جیل سے نکلنے کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ یہ تو ایک ایسا معاملہ ہے جس میں عدالت کا فیصلہ ہی احمقانہ تھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ملزم اکرم نہ ہوتا یا یو گی برسرِ اقتدار نہ ہوتے تو اس طرح کا فیصلہ ہی نہ ہوتا۔
عدالتی احکامات کی عمل برداری میں بھی حکومت تساہلی کرتی رہی ہے۔ اس جانب توجہ دلاتے ہوئے سبکدوشی سے قبل سابق چیف جسٹس این وی رمن نے دہلی کے وگیان بھون میں وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی مشترکہ تقریب میں کہا تھا کہ ’’عدالت کے فیصلے حکومتوں کے ذریعہ برسوں نافذ نہیں کیے جاتے ہیں۔ عدالتی اعلانات کے باوجود قصداً غیر فعالیت ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پالیسی بنانا عدلیہ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے لیکن اگر کوئی شہری اپنی شکایت لے کر ہمارے پاس آتا ہے تو عدالت انکار نہیں کر سکتی‘‘ اس واضح نصیحت کے باوجود اپنی اصلاح کرنے کے بجائے کرن رجیجو عدالت کو بن مانگے کا پروچن دے رہے ہیں جو کہ کچرے کی ٹوکری میں ڈالے جانے کا مستحق ہے۔
وزیر قانون کرن رجیجو کی زبان درازی اپنے حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ انہوں نے پچھلے دنوں ایوان بالا میں عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سارا الزام عدلیہ پر ڈال دیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ججوں کی تقرری کے لیے کالجیم نظام کی جگہ نیا نظام نافذ کرنے پر زور دیا۔ ان کے مطابق ملک کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد پانچ کروڑ کے قریب ہے۔ اس کے لیے ذمہ دار بہت سارے اسباب میں سب سے بڑا سبب ججوں کی تقرری کا کالجیم نظام ہے۔حکومت وقت کو شکوہ ہے کہ ججوں کی تقرری سرکاری دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ رجیجو کے اس مسئلہ کو قابو میں کرنے کے لیے ایوان پارلیمان کے دونوں ایوان کالجیم سسٹم کی جگہ نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن کی وکالت کرتے ہیں۔ اس کی تشکیل کا بل متفقہ طور پر ایوان نے منظور کیا تھا تاہم سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے اسے مسترد کر دیا۔ عدلیہ کی آزادی کو پامال کرنے کی غیر آئینی کوشش کو اگر عدالت عظمیٰ نے مستردکیا تو کیا غلط کیا؟ یہ اس کا حق ہے لیکن رجیجو نے وقتاً فوقتاً ملک کی مختلف شخصیات کے ذریعہ اس قدم کو غلط قرار دینے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام ملک اور ایوان کی سوچ کے مطابق نہیں ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں ایوان میں عدلیہ کی خود مختاری پر یہ سب سے بڑا حملہ تھا اس لیے سپریم کورٹ کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ کالیجیم سسٹم کے حوالے سے وزیر قانون کرن رجیجو کی تنقید پر سپریم کورٹ نے سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا‘‘ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے اس بات پر ناراضی ظاہر کی کہ کالیجیم کی سفارش کے باوجود حکومت اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری میں تساہلی اور آنا کانی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یعنی حکومت کا معاملہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے جیسا ہے۔ جسٹس سنجے کشن کول کی قیادت میں دو رکنی بنچ نے رجیجو کے جواب میں کہا کہ کالیجیم کے ذریعہ نام بھیجے جانے کے باوجود حکومت ججوں کی تقرریاں نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ’نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیشن‘ کے نافذ نہ ہونے کی وجہ سے ناراضی کے طور پر ایسا کیا جا رہا ہے؟ انہوں نے نفس مسئلہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ناموں کو منظوری نہیں دی جا رہی ہے سسٹم کام کیسے کرے گا؟ کچھ نام تو ڈیڑھ دو سال سے زیر التواء ہیں۔ اس پر عدلیہ اپنی ناراضی کا اظہار بھی کر چکی ہے۔ جسٹس کول کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ حکومت نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیشن کے نافذ نہ ہونے کی وجہ سے ناراض ہے اس لیے کالیجیم کے سفارش کردہ ناموں کو منظور نہیں کیا جاتا۔
ملک کی اس سے زیادہ ابتر صورتحال اور کیا ہوسکتی ہے کہ مقننہ اور عدلیہ سرعام ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔ اس معاملے کو اندرونِ خانہ حل کرنے کے بجائے چوراہے پر لایا گیا۔ ٹائمز ناؤ پر وزیر قانون کرن رجیجو کے انٹرویو نے عدلیہ کو تشویش کا شکار کر دیا اور اسے حکومت کو خبردار کرنا پڑا کہ کالیجیم سسٹم پر کسی کو تحفظات ہو سکتے ہیں مگر جب تک یہ نافذ ہے، یہی ملک کا قانون ہے۔ دراصل سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کے صدر اور سینئر ایڈووکیٹ وکاس سنگھ نے بنچ کی توجہ وزیر قانون کرن رجیجو کے ان تبصروں کی جانب مبذول کرائی۔ وکاس سنگھ کے مطابق رجیجو نے سپریم کورٹ پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے انٹرویو میں کہا کہ ’’یہ کبھی مت کہنا کہ حکومت فائلوں کو دبا کر بیٹھی ہے، اگر ایسا ہے تو حکومت کے پاس فائل مت بھیجیے، آپ خود تقرری کر لیجیے، خود سب کچھ کیجیے‘‘ وزیر کے اس تبصرہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس کشن کول نے کہا کہ ’’جب کوئی اعلیٰ عہدہ پر فائز ذمہ دار شخص اس طرح کی بات کرتا ہے تو ۔۔۔۔ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا‘‘ اس کے ساتھ ہی جج نے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اٹارنی جنرل صاحب، میں نے اب تک میڈیا کی رپورٹوں کو نظر انداز کیا، مگر یہ بہت ہی اعلیٰ عہدہ پر فائز شخص کی طرف سے آ رہا ہے۔ وہ بھی ایک انٹرویو میں (فی الحال) میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ رہا ہوں۔‘‘
جسٹس کول نے اٹارنی جنرل اور سالیسٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’بنچ کے جذبات‘‘ سے حکومت کو آگاہ کر دیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک کے قانون کی پاسداری ہو۔ قانون بنانے والوں کو قانون پامال کرنے سے روکنے اور تنبیہ کرنے سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ کورٹ نے اٹارنی جنرل اور سالیسٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے یہ دھمکی بھی دی کہ ’’آپ دونوں ہی اتنے سینئر ہیں کہ بنچ کے جذبات سے حکومت کو آگاہ کر دیں اور مہربانی کر کے مسئلے کو حل کریں، ہمیں اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کریں‘‘ بنچ نے حکومت کو آگاہ کیا کہ اس سلسلے میں توہین عدالت کا نوٹس جاری نہ کر کے عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اگر حکومت کا یہ رویہ جاری رہتا ہے تو اس پر توہین عدالت کا مقدمہ چلے گا اور وزیر قانون کو کٹہرے میں کھڑا ہو کر اپنا دفاع کرنا ہوگا۔
اتفاق سے اس بنچ میں جسٹس اے ایس اوکا بھی شامل تھے جو گزشتہ سال بنگلور ایڈووکیٹس ایسوسی ایشن کے ذریعہ حکومت کے خلاف داخل کردہ توہین عدالت کی پٹیشن پر سماعت کر چکے ہیں۔ مذکورہ ادارے نے کالیجیم کی سفارش کے باوجود گیارہ ججوں کے ناموں کو منظوری نہ دینے پر حکومت کے خلاف یہ پٹیشن داخل کی تھی۔ اسوسی ایشن نے نشان دہی کی کہ حکومت کا یہ رویہ سپریم کورٹ کے سابقہ حکم کی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے لیے لازمی ہے کہ جن ناموں کو کالیجیم دوبارہ بھیج دے انہیں تین سے چار ہفتوں میں منظور کر لیا جائے۔ اس تنازعہ سے ظاہر ہے کہ نہ صرف پرسنل لا بلکہ عدلیہ کی خود مختاری پر بھی فی الحال خطرے کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔ مودی جی اقتدار سے دستبردار ہونے سے قبل ملک کو کہاں لے جا کر چھوڑیں گے یہ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022