ملک کو وشو گرو بنانے میں تعلیمی نظام اور آر اینڈ ڈی کا اہم رول

اگر تعلیمی معیار کو بلند کیا جائے تو غیر ملکی طلبا کی ایک بڑی تعداد بھارت کا رخ کر سکتی ہے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ہمارے ملک کا دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہونے کا دعویٰ ہے مگر ہم علوم وفنون اور ٹکنالوجی کے میدان میں نہایت پیچھے ہیں کیونکہ تعلیم پر بجٹ ہمیشہ کم رہتا ہے۔ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں ہم کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں جس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں پستی کی طرف جارہے ہیں۔ یکم فروری کو پیش کیے گئے عام بجٹ 24-2023 کو حکومت تعلیم اور ہنر مندی کی ترقی کا محرک قرار دے رہی ہے۔ حکومت نے اپنے بجٹ میں جو رقم مختص کی ہے وہ اگرچہ گزشتہ سال کے بجٹ سے کچھ زیادہ ضرور ہے مگر پھر بھی ناکافی ہے اور اس سے ہم کبھی وشو گرو نہیں بن سکتے ہیں۔ کیونکہ ملکی تناظر میں اعلی تعلیم، سماجی اور معاشی بہتری کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ آج ہمارے یہاں چند اچھی یونیورسٹیاں ضرور ہیں مگر ان کا معیار غیر ملکی یونیورسٹیز کے مقابلے میں کافی پست ہے۔ ملک کی چنندہ یونیورسٹیوں کی استثنائیت کے ساتھ ہر جگہ طلباء کی تعلیم و تربیت کا فقدان نظر آتا ہے، جبکہ دوسری طرف فنڈز کی کمی کی وجہ سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تدریسی عملہ بہت کم ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 1.2 لاکھ اسکولس ایسے ہیں جہاں فی اسکول محض ایک ہی استاد متعین ہے۔ مدھیہ پردیش جیسی ریاست میں 16,630 اسکولوں میں فی اسکول محض ایک ہی استاد ہے۔ مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ایک چوتھائی اسکولوں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے۔ ریسرچ کا نیٹ ورک انتہائی خستہ ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے ملک کی کل آبادی میں نوجوانوں کی بڑی تعداد ہے۔ ان کے پاس ڈگری ہے مگر وہ معیاری نہیں ہے۔ انہیں معیاری تعلیم اور ضروری ہنر سے آراستہ کیے بغیر ہم معاشی میدان میں تیز گامی نہیں دکھا سکتے ہیں۔ صرف آٹھ ہزار کروڑ روپے کی اضافی رقم سے جو اگرچہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں زیادہ ہے، ہم کبھی معاشی خوشحالی کی طرف گامزن نہیں ہوسکتے ہیں۔ تعلیمی بجٹ میں کوٹھاری کمیشن کے مطابق جی ڈی پی کا کم از کم چھ فیصد مختص کرنا ہوگا۔ ہم نے نظام تعلیم میں بڑی بنیادی تبدیلی کرتے ہوئے 2020 میں نئی پالیسی (این ای پی) کا اعلان کیا ہے مگر آج تک اسے نافذ کرنے سے قاصر ہیں، کیونکہ ہمارے پاس این ای پی کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر ہی نہیں ہے، اس کے لیے فنڈ کہاں سے آئے گا؟ اس کے باوجود ماہرین اس اقدام کو نظام تعلیم میں بڑے انقلاب کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ اس ایجوکیشن پالیسی کے تحت ملک کو ہنر مند افرادی قوت کب ملے گی؟ اس ہدف کے حصول کا بہت انتظار کیے بغیر ہم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو جو روز گار کی تلاش میں سرگرداں ہیں باہنر کام میں لگائیں۔
ویسے بجٹ میں تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) پر کم از کم رقم مختص کیے جانے کی روایت برقرار ہے۔ اس میدان میں امریکہ 613 ڈالر فی کس خرچ کرتا ہے۔ جبکہ چین 515 ڈالر اور جاپان 173 ڈالر فی کس خرچ کرتا ہے جبکہ ہم فی کس صرف 63 ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ امسال حکومت نے نیشنل ریسرچ فاونڈیشن کے نام سے نیا ادارہ قائم کیا ہے جو محکمہ سائنس اور ٹکنالوجی (ڈی ایس ٹی) کے تحت کام کرے گا۔ اس کے لیے دو ہزار کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جس سے ملک میں ایجادات، تحقیقات اور اختراعات کے کام کو مہمیز ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ ایسے پروجیکٹس کی شروعات کب ہوگی؟ دوسری طرف وزارت سائنس اینڈ ٹکنالوجی کو سولہ ہزار تین سو اکسٹھ کروڑ روپے تفویض کیے گئے ہیں جس میں سے محکمہ سائنس اینڈ ٹکنالوجی کو مزید سات ہزار نو سو بتیس کروڑ روپے دیے جائیں گے۔
آج ہمارے ملک میں اچھے، ذہین، باصلاحیت نوجوانوں کی کمی نہیں ہے۔ نوجوانوں میں ہنر مندی اور اختراعیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے، ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ملک کے اعلی درجے کے معیاری اداروں میں داخلہ کے لیے سخت انٹرنس امتحانات اور مہنگے کورسیز کی وجہ سے لاکھوں طلباء کی ان تک رسائی ممکن نہیں ہو پاتی ہے اور وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار نبھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ آج ہمارے یہاں فرسودہ نظام تعلیم کا دور دورہ ہے۔ ایک طالب علم شروع سے بس تا پچیس سالوں تک ایک ایک کورس کو مکمل کرنے میں صرف کرتا ہے مگر ان کے کورسیز بازار اور صنعتوں سے مناسبت ہی نہیں رکھتے ہیں۔ آج تیز گام ترقی کے دور میں سبھی صنعتیں ڈیجیٹل مہارتوں کے تحت آگے بڑھتی ہیں پھر وہ چند سالوں میں پرانی ہوجاتی ہیں۔ اس لیے آج کے روزگار کو کامیابی سے منسلک رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ملازمین کو بہتر طریقے سے اپنے آپ کو اپ گریڈ کرتے رہنا ہوگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں اکثر صنعتی سرگرمیاں خود کار ہوتی جائیں گی۔ محض وہی لوگ ملازمت سے جڑے رہ سکتے ہیں جن کے اندر روبوٹک اور آرٹیفیشل انٹلیجنس (مصنوعی ذہانت) کو کام میں لگانے کی صلاحیت ہوگی۔ مگر ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کےاندر ایسی تبدیلیوں اور چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت نہیں کے برابر ہے۔
یہ بھی آج کی بڑی حقیقت ہے کہ ہم ٹکنالوجی کے دور جدید میں رہ رہے ہیں۔ آر اینڈ ڈی، اختراعات اور ایجادات آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جانی چاہیے تاکہ امریکہ، چین اور جاپان جیسے ممالک کو ٹکنالوجی کے میدان میں ٹکر دی جا سکے کیونکہ آج تکنیکی آلات کی تیاری میں تینوں ممالک سرفہرست ہیں، جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان کا تعلیمی نظام انتہائی معیاری اور مستحکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے طلبا اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے حصول کے لیے تمام تر مشقتوں کے باوجود وہاں کی یونیورسٹیوں کا رخ کررہے ہیں۔ بھارت سے بھی طلبا کی ایک بڑی تعداد ملک سے باہر کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ ایک اعداد وشمار کے مطابق 2017 میں چار لاکھ چون ہزار بھارتی طلبا بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے چکے ہیں۔ 2019 میں یہ تعداد بڑھ کر پانچ لاکھ چوراسی ہوگئی تھی اور 2022 میں چھ لاکھ پچاس ہزار نئے طلبا نے حصول علم کے لیے بیرونی ممالک کا رخ کیا۔ بیرون ملک سے ہندوستانی طلبا کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ وزارت خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق فی الحال تیرہ لاکھ بھارتی طلبا غیر ملکوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں طلبا کے بیرون ملک جانے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں تعلیم پر زیادہ خرچ اور طلبا کی ہمہ جہتی ارتقا کا فقدان بھی ہے۔ یہاں محض نصاب پر ہی فوکس کیا جاتا ہے۔ ان کے نشو ونما پر نہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں تعلیم کے لیے باہر جانے سے کروڑوں روپے ان ممالک میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ آر بی آئی کے مطابق 2020 اور 2021 میں ملک چھوڑ کر بیرون ملک تعلیم کے لیے جانے کی وجہ سے غیر ملکی کرنسی میں پانچ بلین روپے کا خسارہ ہوا ہے جو ملکی معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اسی کے مد نظر نئی ایجوکیشن پالیسی 2020 میں دنیا کے سو سرفہرست یونیورسٹیوں کو بھارت میں ان کے کیمپس کے قیام کی سہولت فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے غیر ملکی یونیورسٹیوں کے کیمپس قائم کرنے کا جو معیار مقرر کیا ہے اس کے مطابق مشہور اور نامور غیر ملکی یونیورسٹیز جن کا شمار عالمی پیمانے پر پانچ سو بڑی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے وہ بھارت میں کیمپس کی شروعات کے لیے یو جی سی کی وساطت سے درخواست دے سکتے ہیں۔ مگر اندیشہ یہ بھی ہے کہ ان کیمپسوں میں محض انہیں طلبا کو داخلہ ملے گا جو مالی اور سماجی حیثیت سے مضبوط اور صاحب حیثیت ہوں گے۔ چونکہ یونیورسٹیز نجی ہونے کی وجہ سے تعلیم کے نام پر روزگار ان کا مقصد ہوگا۔ جس ملک میں اس قدر عدم مساوات ہو وہاں غریب اور متوسط طبقےسے تعلق رکھنے والے طلبا کو ان کیمپسوں میں داخلہ مشکل سے مل پائے گا۔ اس لیے ملک کو وشوگرو بننے کے لیے اپنے گھریلو اداروں کو صحیح طور پر چلانے کے لیے باصلاحیت اساتذہ اور مستعد انتظامیہ کو با اختیار بنانا ہوگا۔ طلبا کو خوشگوار ماحول اچھے ہاسٹلس کے ساتھ معیاری انفراسٹرکچر فراہم کرنے ہوں گے تاکہ ہماری یونیورسٹیاں عالمی رینکنگ میں نمایاں مقام حاصل کرسکیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم اس شعبہ میں سرمایہ کاری سے نہ گھبرائیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ بیرون ملک کے طلبا حصول علم کے لیے ہماری یونیورسٹیوں کا رخ کریں گے اور معیشت کو بھی مثبت رخ ملے گا۔
***

 

***

 ملک کو وشوگرو بننے کے لیے اپنے گھریلو اداروں کو صحیح طور پر چلانے کے لیے باصلاحیت اساتذہ اور مستعد انتظامیہ کو با اختیار بنانا ہوگا۔ طلبا کو خوشگوار ماحول اچھے ہاسٹلس کے ساتھ معیاری انفراسٹرکچر فراہم کرنے ہوں گے تاکہ ہماری یونیورسٹیاں عالمی رینکنگ میں نمایاں مقام حاصل کرسکیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم اس شعبہ میں سرمایہ کاری سے نہ گھبرائیں۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ بیرون ملک کے طلبا حصول علم کے لیے ہماری یونیورسٹیوں کا رخ کریں گے اور معیشت کو بھی مثبت رخ ملے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023