ملک چین میں متعدد مساجد نشانے پر

اسلامی تشخص کے خاتمے کی مہم میں آخری کیل بھی ٹھونک دی گئی

اسد مرزا
سینئر سیاسی تجزیہ نگار

مارکسی فلسفے کی دعویدار حکومت کا مخصوص کمیونیٹی کے ساتھ امتیازی سلوک ۔چہ معنی دادرد؟
سال 2018 میں چینی حکومت نے ’اسلام کو چینی اسلام‘ میں تبدیل کرنے کے موضوع پر ایک پانچ سالہ منصوبہ شائع کیا تھا۔ منصوبے کا حصہ ’غیر ملکی تعمیراتی طرز تعمیر نو اور اسلامی فن تعمیر جو چینی خصوصیات سے بھری ہوئی ہو، اسے فروغ دینا تھا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے ایک لیک ہونے والے دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ مقامی حکام کو ’زیادہ گرانے اور کم تعمیر کرنے‘ کے اصول پر عمل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ یہ سب کچھ چین سے اسلام کے تمام نشانات کو مٹانے اور ملک میں اویغور جیسی مذہبی اقلیتوں کو دبانے کے چینی منصوبوں میں اضافہ کرتا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق چین کی آخری بڑی مسجد جس نے عربی طرز کی خصوصیات کو برقرار رکھا تھا، وہ اب اپنے گنبد کھو چکی ہے اور اس کے میناروں میں یکسر تبدیلی کردی گئی ہے، جس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ملک کے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو تباہ کرنے کی حکومتی مہم کی تکمیل ہے۔ ذرائع کے مطابق شادیان کی عظیم الشان مسجد، چین کی سب سے بڑی اور عظیم الشان مساجد میں سے ایک ہے جو کہ اس چھوٹے سے شہر میں نمایاں مقام رکھتی ہے اور چین کے جنوب مغربی صوبہ یوننان میں موجود ہے۔ اس کے مقام پر پچھلے سال تک اکیس ہزار مربع میٹر پر کمپلیکس میں ایک بڑی عمارت نمایاں تھی جس کے اوپر ایک ٹائلڈ سبز گنبد تھا، جسے ہلال کے چاند سے مزین کیا گیا تھا، جس کے اطراف میں چار چھوٹے گنبد اور بلند مینار موجود تھے۔ 2022 کی سیٹلائٹ تصویروں میں داخلی دروازے کو دکھایا گیا ہے جو ایک بڑے ہلال کے چاند اور روشن سیاہ ٹائلوں سے بنے ستارے سے سجا ہوا ہے۔
برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق اس سال کی تصاویر، سیٹلائٹ کی تصاویر اور گواہوں کےبیانات سے پتہ چلتا ہے کہ گنبد کو ہٹا کر اس کی جگہ ہان چینی طرز کے پگوڈا کی چھت لگا دی گئی ہے اور میناروں کو چھوٹا کر کے پگوڈا ٹاورز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ہلال کے چاند اور ستاروں کی ٹائلوں کا صرف ایک دھندلا سا نشان نظر آتا ہے جو کہ پہلے مسجد کے سامنے والے چبوترے کو نشان زد کرتے تھے۔ صوبہ یوننان کی ایک اور تاریخی مسجد، ناجیائینگ، جو شادیان سے سو میل سے بھی کم دوری پر واقع ہے، اسے بھی چینی حکام نے ایک تزئین و آرائش کے پروگرام کے تحت مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔
کارنیل یونیورسٹی کے ماہر بشریات، رسلان یوسوپوف جنہوں نے شادیان میں مسلم اقلیت پر تحقیق کرتے ہوئے دو سال گزارے ہیں، کہا کہ ’’چینی حکام نے اسلام کو چینی اسلام میں تبدیل کرنے کی مہم کے تحت ان دو تاریخی مساجد کی ’تزئین کاری‘ کو اس مہم کی کامیابی قرار دیا ہے۔ دیہاتوں میں جو عرب طرز تعمیر کی چھوٹی چھوٹی مساجد رہ گئی ہیں، ان کو مسمار کرنے یا چینی تزئین و آرائش کے تحت ان کی عمارت کو تبدیل کرنے کی مہم کا مقابلہ کرنا مقامی آبادی کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ چین میں ہی یونیورسٹی آف پلائی ماؤتھ سے وابستہ اسلام کی ایک تاریخ داں ہننا تھیکر نے کہا کہ مسجدوں سے اسلامی نشانات کو مٹانے کی مہم صوبہ در صوبہ آگے بڑھی ہے۔ پہلے بیجنگ سے قرب جوار اور اس کے بعد دور دراز کے صوبوں میں مساجد کے اسلامی نقوش ختم کرنے اور ان کو چینی عمارتوں سے مشابہ تبدیل کرنے کی مہم شروع کی گئی۔ اس فہرست میں یوننان کا نمبر سب سے آخر میں آیا ہے۔
نیویارک میں مقیم چینی مسلمان ہوئی (Hui) کارکن ماجو نے کہا کہ تزئین و آرائش کے نام پر مساجد کے اسلامی نقوش و پہچان کو ختم کرنے کی مہم دراصل اسلام اور مسلمانوں کی نسل کو تباہ کرنے کے واضح پیغامات ہیں۔
شادیان کی عظیم الشان مسجد، جو سب سے پہلے منگ خاندان کے دور میں بنائی گئی تھی، ثقافتی انقلاب کے دوران ایک بغاوت میں تباہ ہو گئی تھی جسے شادیان واقعہ کہا جاتا ہے، جس کے ذریعے پیپلز لبریشن آرمی نے علاقے میں پیدا ہونے والی مسلمانوں کی بغاوت کو کچل دیا تھا۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔شادیان کی گرینڈ مسجد کو بعد میں حکومتی تعاون سے دوبارہ تعمیر کیا گیا اور اس کی توسیع کی گئی۔ شادیان کی مسجد کا ڈیزائن سعودی عرب میں موجود مسجد نبوی کے ڈیزائن پر مبنی تھا۔ اس میں تین بڑے ہال ہیں اور تقریباً دس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ ہوئی چینی مسلم نسلی اقلیت ہیں، جن میں سے زیادہ تر مغربی چین میں رہتے ہیں۔ 2020 کی مردم شماری کے مطابق یہاں گیارہ۔ملین سے زیادہ ہوئی لوگ موجود ہیں، جو کہ چینی ایغور کی تعداد کے برابر ہیں۔
یوسوپوف نے کہا کہ چین میں جو کچھ گزشتہ پچیس سالوں میں دیکھنے میں آیا ہے اس کا اصل مقصد چینی میں رونما ہونے والے ثقافتی انقلاب کے بعد مسلمان اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے تشخص کو ختم کرنا اور انہیں چین کی hun قوم کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے کا پروگرام ہے تاکہ آہستہ آہستہ ان مذاہب کو یا مذہبی اقلیتوں کو چینی سماج میں ضم کر دیا جائے۔
گرینڈ مسجد کی تبدیلیوں میں سے ایک عمارت کے اگلے حصے پر سونے کی تختی والی عربی تحریر کے نیچے چینی حروف کا اضافہ کیا گیا ہے۔ جس کے چینی متن کا ترجمہ ہے ’’اعلیٰ سچائی کا شاہی محل‘‘ یہ ایک چینی تاؤ اصطلاح ہے جو اب چین میں اسلام کے اوپر چینی غلبہ ثابت کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
مذہب کے بارے میں ایک کتاب The Souls of China کے مصنف ایان جانسن کے مطابق ’’شادیان کی مسجد کی المناک تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چینی حکم راں Hun برتری کو ہر طریقے سے قائم کرنے چاہتے ہیں اور اسی جذبے کے تحت انہوں نے شادیان کی مسجد کی نام نہاد تعمیرِ نو کے بعد اس کا تشخص تقریباً ختم کردیا ہے‘‘
2014 میں چینی حکومت نے اویغوروں کے خلاف ایک سخت مہم شروع کی تھی جو کہ بنیادی طور پر سنکیانگ کے شمال مغربی علاقے میں رہتے ہیں۔ پالیسیوں میں جابرانہ نگرانی کے اقدامات اور سخت سزائیں شامل تھیں۔ آج کے چین میں اسلامی عقیدے کے اظہار کی ممانعت ہے جیسے کہ ڈاڑھی رکھنا یا سر پر ٹوپی پہننا یا لوگوں کو قرآن اور اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرانا وغیرہ۔ اس مہم کے نتیجے میں تقریباً دس لاکھ اویغور اور دیگر اقلیتوں کو ماورائے عدالت حراستی مراکز میں قید کیا گیا، جس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ انسانیت کے خلاف جرائم بن سکتے ہیں۔ چینی حکومت نے ایغور مسلمانوں کے خلاف نام نہاد انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کی مہم سے نمٹنے کے لیے اپنی پالیسیوں کا دفاع کیا ہے۔2018 میں یہ مہم باضابطہ طور پر اسلامی فن تعمیر کو چینی طرز پر تبدیل کرنے تک پھیل گئی تھی۔ فائنانشل ٹائمز کی طرف سے گزشتہ سال شائع ہونے والے ایک تجزیے سے پتا چلا کہ چین بھر میں 2,300 سے زائد مساجد میں سے تین چوتھائی کو 2018 تک تبدیل یا تباہ کر دیا گیا ہے۔
ہوئی برادریوں کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کے لیے اویغوروں سے زیادہ آسانیاں دی گئی تھیں، کیونکہ حکومت انہیں ہان اکثریت کے ساتھ بہتر طور پر مربوط ہونے کے طور پر دیکھتی تھی اور اسے ہوئی علیحدگی کے بارے میں کوئی تشویش بھی نہیں تھی۔ لیکن مساجد کو تبدیل کرنے یا تباہ کرنے کے منصوبوں پر کبھی کبھار ان کی چینی حکام سے جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ سال نجیائینگ مسجد میں منصوبہ بند تزئین و آرائش کی مہم کے خلاف وہاں کے مقامی مسلمانوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اس احتجاج کو بالآخر طاقت کے ذریعے دبا دیا گیا اور تزئین و آرائش کا کام آگے بڑھتا رہا تھا۔شادیان کے مسلمانوں نے اس طرح کا احتجاج نہیں کیا جب گزشتہ سال ان کی مسجد کو تزئین کاری کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ سابق رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ناجیائینگ میں ہونے والے واقعات سے سبق حاصل کیا تھا اور وہ کوئی خونریزی نہیں چاہتے تھے۔
شادیان کی عظیم الشان مسجد عید کے وقت اپریل میں دوبارہ کھول دی گئی تھی۔ نماز گاہ کے اندر سے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کئی نگرانی والے کیمرے یہاں نصب کر دیے گئے ہیں۔ مسجد کے ایک سابق ملازم نے کہا کہ 2020 میں مسجد کی انتظامی کمیٹی نے حکام کی جانب سے نگرانی کے کیمرے نصب کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔شادیان کے مقامی ماحول کے بارے میں علم رکھنے والے متعدد ذرائع سے پتہ چلا کہ اذان نشر کرنے کے لیے گھروں میں وائرلیس اسپیکر تقسیم کیے گئے ہیں، کیونکہ وہاں اذان پر پابندی عائد ہے۔
چین میں مسجدوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ اب بڑی حد تک مکمل ہو چکا ہے، لیکن یہ مذہب بالخصوص اسلام کو حکومت کے نظریے کے مطابق ڈھالنے کے منصوبے کا صرف ایک حصہ ہے۔ فروری میں بیجنگ نے مذہبی اظہار کے حوالے سے اپنے ضوابط کو مزید سخت کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مذہبی عقائد ’چینی فلسفے پر قائم رہیں۔‘ کئی مقامی حکام نے پہلے ہی اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کے مساجد میں جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ناجیائینگ میں نابالغوں پر روزے رکھنے پر بھی پابندی ہے۔
تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ چینی حکومت جو کہ مارکسی فلسفے پر قائم ہے جو سماج کے ہر طبقے کو برابری کی نگاہ سے دیکھنے کی تعلیم دیتا ہے، لیکن چینی حکام مسلمانوں پر چینی فکر ونظر کی بالادستی قائم کرنے کے لیے اس فلسفے سے صاف انحراف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اگر یہ مسلمانوں کو مذہبی آزادی کا اختیار دیتے تو اس سے چین کی عالمی شبیہ کو بھی نقصان نہیں پہنچتا اور وہ ایک ایسا سیاسی نمونہ پیش کرنے میں کامیاب نظر آتے جہاں سماج کا ہر طبقہ مذہبی آزادی کے ساتھ رہنے کے لیے آزاد ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024