ملک بھر میں مسیحی برادری کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ

اقلیتوں کو نشانہ بناکر ملک کو ایک خاص شکل دینے کی کوشش

نئی دلی :وطن عزیز بھارت میں اقلیتوں کے لیے جو ماحول بنایا جارہا ہے وہ ملک کی سلامتی،یکجہتی اور سب سے بڑھ کر جمہوریت کے لیے کسی زہر ہلاہل سے کم نہیں ہے۔ اب تک مسلمانوں کے ساتھ جو معاملات روا رکھے گئے سو رکھے گئے لیکن اب مسیحی برادری کے خلاف بھی کئی معاملات سامنے آرہے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں بھی مختلف طریقوں سے ظلم و ستم کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ لہذا اس نفرت بھرے ماحول کو ختم کرنے اور امن و امان کے قیام کے لیے پچھلے دنوں پندرہ ہزار سے زائد لوگوں نے ملک بھر میں مسیحی برادری پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف دلی میں پرامن احتجاج کیا۔ روایتی سفید لباس پہنے اور بازو پر سیاہ پٹیاں باندھے ہوئے مظاہرین میں اسی سے زیادہ گرجا گھروں کے ارکان شامل تھے۔ ساتھ ہی نوجوانوں، چرچ کے رہنماؤں، وکلاء، انسانی حقوق کے کارکنوں، ماہرین تعلیم اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی اس موقع پر اپنا احتجاج درج کروایا۔ مظاہرے میں پنجاب، راجستھان، کیرالا، تمل ناڈو اور شمال مشرقی ریاستوں کے مختلف نسلی کرسچین گروپوں نے شرکت کی جو ملک کی مختلف زبانوں میں ترانے گاتے ہوئے حکومت سے انصاف طلب کر رہے تھے۔
چھتیس گڑھ کے ایک کارکن، بھوپیندر کورا نے نارائن پور کے علاقے کے کرسچین آدیواسیوں پر ہونے والے مظالم پر بیان دیا۔ان کے مطابق دسمبر 2022 میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کو منظم طریقے سے حملہ کرکے ان کے آبائی گھروں اور گاؤں سے نکال دیا گیا اور ان کے سامنے تین راستے پیش کیے گئے تھے کہ یا تو وہ ’گھر واپسی ‘کریں یا گاؤں چھوڑ دیں یا پھر انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ جن لوگوں نے مخالفت کی ان پر حملے کیے گئے، ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کو تباہ کر دیا گیا، ان کی فصلوں کو جلا دیا گیا اور ان کے مویشیوں کو بھی مار دیا گیا۔ اسی طرح 27 دسمبر 2022 کی صبح تین قبائلی کرسچین خواتین کو گاؤں کے ایک اجلاس میں طلب کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دیں۔ انکار پر انہیں سرعام برہنہ کر کے مارا پیٹا گیا۔ مقامی حکام اور خواتین کے قومی کمیشن نے اس کے بارے میں شکایت بھی درج کرائی ہے۔ دو جنوری کو ایک ہجوم نے ضلع کے ایڈکا گاؤں میں ایک کیتھولک چرچ پر حملہ کرتے ہوئے حضرت یسوع اور مریم کے مجسموں کی توڑ پھوڑ کی۔ جبکہ اسی کیمپس میں چھوٹے بچوں کا اسکول بھی چل رہا تھا جب مجرموں نے چرچ پر حملہ کیا تھا۔
اگرچہ ہائی کورٹ نے چار اور گیارہ جنوری 2023 کو حکومت کو ان بے گھر لوگوں کو اس علاقے میں قائم سرکاری کیمپوں میں امداد فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی، لیکن زیادہ تر قبائلیوں نے کچھ دنوں کے بعد اپنے گاؤں واپس کیے جانے کے خوف سے روپوش رہنے کا فیصلہ کیا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی آبائی زمین پر اور اپنی معمول کی زندگی میں واپس جانا چاہتے ہیں لیکن وہ سب سے پہلے پولیس کا تحفظ اور مجرموں کے خلاف کارروائی کے خواہاں ہیں۔
کورا نے کہا کہ باقاعدہ کرسچینوں کے بنیادی حقوق اور عقیدے کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے، بعض اوقات خوراک اور پانی جیسی بنیادی ضروریات کو بھی منقطع کردیا جاتا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ مرنے والوں کو ان کی خود کی زمین پر بھی دفنانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی رازوں کا پردہ فاش کرنے والی رپورٹس نے انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا ہے۔
اتر پردیش سے، پاٹسی ڈیوڈ، مذہبی تشدد کے متاثرین کے ساتھ بڑے پیمانے پر کام کرنے والے ایک کارکن اور فتح پور سے تعلق رکھنے والے ایک کرسچین شیودیش نے بتایا کہ یو پی میں رہنے والے کرسچینوں کے خلاف 2021 کا نافذ کردہ تبدیلی مذہب مخالف قانون بکثرت استعمال کیا جاتا ہے اور ملک بھر میں یہیں سے ظلم و ستم کے سب سے زیادہ واقعات رپورٹ بھی ہوتے ہیں۔ یونائیٹڈ کرسچین فورم (یو سی ایف) کی رپورٹ نے بھی حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ 2022 کے کل پانچ سو اٹھانوے واقعات میں سے ایک سو چھیاسی یہاں سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ کرسچینوں کے خلاف ملک بھر میں مذہب کی تبدیلی کے مخالف قوانین کے تحت درج چوہتر مقدمات میں سے چھپن یو پی کے تھے یعنی چار میں سے تین مقدمات کا تناسب اس ریاست میں پایا جاتا ہے۔
شیودیش نے بتایا کہ وہاں کی کمیونٹی پر جبری تبدیلی کا غلط الزام لگایا گیا اور ان کے خاندان کو حکام کی جانب سے بے حسی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ انہیں گرفتار کیا گیا نتیجے میں انہیں کئی دن جیل میں گزارنے پڑے۔ پیٹسی ڈیوڈ نے مزید کہا کہ اصل ایف آئی آر، جس کے تحت فتح پور کے پچاس سے زیادہ کرسچینوں، بشمول ایک گیارہ سالہ لڑکی کو گرفتار کیا گیا تھا جنہیں پولیس نے ہراساں کیا تھا، اس کو الہ آباد ہائی کورٹ نے ناقابل سماعت قرار دیا ہے۔
ڈیوڈ نے ایک اور عجیب و غریب واقعہ یہ بھی بیان کیا کہ 2022 میں ایک ایسے کرسچین کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی جو کہ دو سال قبل فوت ہو گیا تھا۔ اس سے تفتیشی عمل اور مقامی حکام کی اہلیت پر بھی متعدد سوالات اٹھتے ہیں۔ اسی طرح ڈیوڈ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سال رواں کے ابتدائی پچاس دنوں میں یو پی میں کرسچینوں کے خلاف تشدد کے چالیس سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔اسی حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک معاملہ جو تقریباً دو دہائیوں سے زیر سماعت ہے وہ 1950 کے امتیازی صدارتی حکم نامے کو چیلنج کرتا ہے جو صرف ہندو، سکھ اور بدھ مت کے دلتوں کو فوائد اور تحفظات دیتا ہے جبکہ کرسچن اور مسلم عقائد کے پچھڑے ہوئے لوگوں کو اس میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ اگرچہ برسوں کے دوران قائم کی گئی متعدد کمیٹیوں نے جامع طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تمام دلت گروہوں کو درپیش امتیازی سلوک اور مظالم، چاہے ان کا کوئی بھی مذہب ہو، کم و بیش ایک جیسے ہیں، سپریم کورٹ نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں سنایا ہے۔
یونائیٹڈ کرسچین فورم (یو سی ایف) نے کہا کہ 2015 میں، اس کی ہیلپ لائن پر صرف ایک سو بیالیس تصدیق شدہ واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس کے برعکس 2021 میں پانچ سو پانچ واقعات رپورٹ ہوئے تھے اور 2022 میں یہ بڑھ کر پانچ سو اٹھانوے ہو گئے ہیں۔ اوسطاً روزانہ تقریباً دو واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ اتر پردیش، جھارکھنڈ چھتیس گڑھ اور کرناٹک میں اس کمیونٹی کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تشدد کی وجہ سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
غرض اس احتجاج میں شریک افراد نے کہا کہ ہمارا مقصد حکومت کی مخالفت کرنا نہیں ہے بلکہ ہم اپنے معاملات اور حالات کی جانب سب کی توجہ چاہتے ہیں کیونکہ اس کمیونٹی کو ملک کی قیادت اور قانونی نظام پر مکمل بھروسہ ہے، ساتھ ہی انہوں نے تمام شہریوں سے بھی ہمدردی اور یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہونے کی اپیل کی ہے۔
(بشکریہ: انڈیا ٹومارو)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023