مقدمہ: مسلم خواتین ۔ ایکٹیوزم کی راہیں
محی الدین غازی کے قلم سےمتوازن اسلامی نقطہ نظر کی وضاحت
سید سعادت اللہ حسینی
اسلامی تاریخ کے تابناک زمانوں میں خواتین نے اپنا یہ رول بہت خوبصورتی سے نبھایا ہے۔حالیہ زمانوں میں اسلامی تحریکوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں اس رول کے احیا کی سنجیدہ کوششیں کی ہیں اور آج ان کے زیر سایہ مسلمان خواتین ہر میدان میں گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں۔
مسلم معاشروں اور اسلامی حلقوں میں خواتین کا کردار اب ساری دنیا میں تیزی سے بدل رہا ہے۔ خواتین سرگرم سماجی اور تحریکی کردار ادا کرنے کے لیے آگے آرہی ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات بھی انجام دے رہی ہیں۔ کچھ جگہوں پر یہ کردار اضطراب بھی پیدا کررہا ہے۔ خواتین اور ان کے رول سے متعلق بعض رائج تصورات اور مقامی تہذیبی قدروں سے یہ رجحان کہیں کہیں متصادم بھی سمجھا جاتا ہے۔اس پس منظر میں درست اور متوازن اسلامی نقطہ نظر کی وضاحت ایک اہم ضرورت ہے۔
اسلام کے نزدیک گھر اور خاندان سے متعلق امور عورت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا کوئی سماجی کردار مطلوب نہیں ہے۔ اسلام کی اسکیم میں عورت ، سماج سے کٹی ہوئی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک ذمہ داررکن ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور دعوتِ دین کے فریضوں میں جو خالصتاً سماجی رول ہیں، عورتوں کوبھی شامل کیا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَهُ إِنَّ اللَهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔(”مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار و معاون) دوست ہیں۔ وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ یقینا رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غلبہ اور حکمت والا ہے۔“ توبہ: 71)
اسلامی تاریخ کے تابناک زمانوں میں خواتین نے اپنا یہ رول بہت خوبصورتی سے نبھایا ہے۔حالیہ زمانوں میں اسلامی تحریکوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں اس رول کے احیا کی سنجیدہ کوششیں کی ہیں اور آج ان کے زیر سایہ مسلمان خواتین ہر میدان میں گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں۔
اس رول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نسوانی شخصیت کو ایک مستقل اور جداگانہ شخصیت تسلیم کیا گیا ہے۔ بہت سے فرائض مردوں اور عورتوں کے درمیان مشترک ہیں لیکن کچھ ذمہ داریاں خاص خواتین سے متعلق ہیں اور کچھ خاص مردوں سے متعلق۔صنفی کرداروں Gender Roles کا تصور اسلام کا اہم تصور ہے۔ اسلام نے عورت کونسوانی رول کے لیے امپاور کیا ہے اور اسے وہ قوتیں،اختیارات اور سہولتیں بخشی ہیں جو اس رول کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں۔ اسے ان ذمہ داریوں سے محفوظ رکھا جو اس کے لیے دہرے بوجھ کا باعث اور اس کی نسوانی ذمہ داریوں سے متصادم ہوں۔ معاشی ذمہ داریاں اس رول میں رکاوٹ ہوسکتی تھیں اس لیے اسے معاش کی فکر سے آزاد کردیا ہے۔ معاشی آزادی ضرور بخشی لیکن کوئی معاشی ذمہ داری نہیں رکھی۔ اس کی کفالت بھی اس کے شوہر کے اوپر واجب کردی۔ اسلام نے خاندان کے مستحکم ادارےکے ذریعہ اسے تحفظ بخشا،لیکن اس کے کردار کو صرف گھر کی چار دیواری تک بھی محدود نہیں رکھا ہے بلکہ دعوتی و تحریکی اور سماجی کاموں کی وسیع دنیا میں کارہائے نمایاں کے بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں۔ حجاب کے ذریعے اسے وقار اور سماجی تحفظ عطا کیا اور سماجی زندگی اور صنفی روابط Gender Relationsکے ایسے اصول دیے ہیں جن کے نتیجے میں ایک خاتون پوری بے فکری ، ذہنی سکون اور احساس تحفظ کے ساتھ اپنا سماجی کردار ادا کرسکتی ہے۔
خواتین کو بااختیار بنانے کا مغربی اور فیمینسٹ نظریہ، مردوں اور عورتوں کے درمیان غیر فطری کشمکش کو جنم دیتا ہے۔ مذکورہ بالا قرآنی حوالے سے واضح ہے کہ اسلام مردوں اور عورتوں کے درمیان حریفانہ کشاکش کی نہیں بلکہ محبت و تعاون اور تکامل باہمی complementarity کی فضا کو پروان کو چڑھاتا ہے۔آج یہ ضرورت ساری دنیا میں اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان وہ غیر فطری کشمکش ختم کی جائے جو جدید مغربی تہذیب نے پیدا کی ہے اور خواتین کو اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کے بھرپور استعمال کے وہ مواقع فراہم کیے جائیں جن سے دنیا کے بہت سے روایت پرست معاشروں نے انہیں محروم کر رکھا ہے۔ عورتوں کا امپاورمنٹ یہ نہیں ہے کہ وہ مرد بن جائیں اور دہری ذمے داریوں کے بوجھ سے دب جائیں اور دوسری طرف نسوانی کردار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتوں کو ہر حال میں صرف باورچی خانے تک محدود رکھا جائے۔
خواتین سے متعلق اسلام کا یہ تصور ، اسلام کے عدل و اعتدال پر مبنی مزاج کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ اس معاملے میں قدیم روایت پرستی اور جدید نسائیت feminism نے جو انتہا پسند رویے اختیار کیے ہیں ان دونوں کے نقصانات سے دنیا اچھی طرح واقف ہوچکی ہے اور اس صورت حال نے اسلام کے معتدل تصور کی معقولیت کو نمایاں کرنے کے بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت جہاں ایک طرف خواتین اور خاندان کا مسئلہ اسلام کے حوالے سے سب سے زیادہ زیر بحث مسائل میں سے ایک ہے،وہیں دوسری طرف، خواتین اور خاندان سے متعلق اسلام کی تعلیمات اسلام کی طاقت اور اس کی کشش کا ایک اہم سرچشمہ بھی بن گئی ہیں۔ متعدد مطالعات یہ بتاتے ہیں کہ مغربی معاشروں میں خواتین کے درمیان قبول اسلام کا بڑا سبب عورت اور خاندان سے متعلق اسلام کی تعلیمات ہیں۔گویا اسلام کا خاندانی نظام اور عورت کو اسلام میں دیا گیا مقام، اُن امور میں شامل ہے جن کے باعث اسلام میں جدید دور کے لوگوں کو کشش محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام مخالف طاقتوں کا ایک اہم ہدف مسلمان عورت اور اسلامی خاندان ہے۔آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے جو کوششیں ہورہی ہیں ان میں ایک اہم کوشش یہ ہے کہ مسلمان شریعت اور شریعت کے عائلی قوانین سے دستبردار ہوجائیں یا ان میں ’’اصلاحات‘‘کے لیے تیار ہوجائیں۔
خواتین سے متعلق اسلام کی تعلیمات مسلمانوں کے قول و عمل سے جتنی زیادہ نمایاں ہوں گی ، ان شاء اللہ خاندانی نظام کے زوال سے پریشان معاصر دنیا ، اتنی ہی تیزی سے اسلام کی طرف متوجہ ہوگی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی مسلمان اسلامی اصولوں کی عملی شہادت میں ناکام ہیں۔ خواتین کی آزادی اور اختیارات کے اسلامی ماڈل کتابوں میں ضرور درج ہیں یا تاریخ کا جز ہیں لیکن آج کی دنیا میں چلتے پھرتے بہت کم نظر آتے ہیں۔ مسلم سوسائٹی عملاً روایتی قدامت پسندی اور گمراہ کن روشن خیالی کا ملغوبہ ہے۔الا ماشاء اللہ۔ ایک طرف جاہلی تہذیبوں کے اثرات تیزی سے مسلم معاشرے میں بلکہ دیندار گھرانوں میں بھی سرایت کررہے ہیں۔ بے راہ روی عام ہوتی جارہی ہے۔ تہذیبی قدروں کا حصار کمزور ہوتا جارہا ہے۔ شاپنگ مالوں اور تفریح گاہوں میں، کام کی جگہوں اور کال سینٹروں میں مسلمان مرد و خواتین کی جانب سے بھی بے حیائی کی سرحدوں کو چھوتے مناظر عام ہونے لگے ہیں۔ دوسری طرف دینی حلقوں میں اسلام کی اصولی تعلیمات اور مقامی تہذیبی رواجوں کے درمیان فرق کا شعور ابھی بھی عام نہیں ہوپایا ہے۔ اکثر دینی تحریکوں اور اداروں میں خواتین کا عملی کردار یا تو ہے ہی نہیں یا برائے نام ہے۔ متعدد دین پسند گھرانے ہیں جہاں خواتین کی دینی سرگرمی پسند نہیں کی جاتی اور انتہائی باصلاحیت خواتین کی صلاحیتیں بے فیض رہ جاتی ہیں۔ خواتین کا داخلہ ان مساجد میں بھی ناپسندیدہ ہے جو شاپنگ مالوں اور بازاروں میں یا ہائی وے اور ریلوے اسٹیشنوں کے قریب واقع ہیں اور جہاں ان کا داخلہ ان کی اہم دینی ضرورت ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم آج بھی بعض حلقوں میں قابل اعتراض ہے۔ ان عملی انحرافات کا بھی یہ تقاضا ہے خواتین کےسلسلے میں متوازن موقف وضاحت کے ساتھ سامنے آئے۔
اس وقت سماج کی سطح پر جو بڑی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں، مسلم خواتین کے کردار کا تعین کرتے ہوئے ان کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ خواتین اب تعلیم میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ بلکہ لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ طرح طرح کی صلاحیتوں سے وہ آراستہ ہورہی ہیں۔مردوں کے علم و صلاحیت کی طرح خواتین کا علم و صلاحیت بھی اسلام اورامت مسلمہ کا اثاثہ ہے، جس کا موثر استعمال امت پر فرض ہے۔ دوسری طرف خواتین پر روایتی گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ انہیں اب نہ چکی پیسنی ہے، نہ جانوروں کو چارہ دینا ہے اور نہ کنویں سے پانی لانا ہے۔ عمر کے بعض مرحلوں میں تواکثر خواتین کے پاس فرصت ہی فرصت ہوتی ہے۔ تیسری طرف ٹکنالوجی نے ایسے مواقع بڑھادیے ہیں کہ وہ گھر بیٹھے بہت سی خدمات انجام دی جاسکتی ہیں۔ اب تو بڑی بڑی کمپنیاں اور ان کے ہزاروں ملازمین گھر بیٹھے ورک فرام ہوم کے ذریعے پوری تجارتیں چلارہے ہیں۔ ان سب سماجی تبدیلیوں نے خواتین کے سرگرم کردار کے مواقع بہت زیادہ بڑھادیے ہیں اور اپنی بنیادی گھریلو ذمہ داریوں کو نقصان پہنچائے بغیر بہت کچھ کرنا ان کے لیے ممکن ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب کی زیر نظر کتاب ان حالات میں خواتین کو ٹھوس عملی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔اس کتاب سے موجودہ حالات میں مسلمان خواتین کا مطلوب سماجی کردار پوری طرح واضح ہوکر سامنے آتا ہے۔ عام مروج اسلوب کے برخلاف اور بجا طور پر اس کتاب میں فاضل مصنف نے راست خواتین کو مخاطب کیا ہے۔ انہیں اصول بھی بتائے ہیں، راہیں بھی دکھائی ہیں اور ان راہوں پر آگے بڑھنے کی طاقتور تحریک اور ترغیب بھی فراہم کی ہے۔ مصنف کی بتائی ہوئی راہ اسلام کے معتدل مزاج اور عدل پر مبنی اسلامی نسائی تصور کی خوبصورت عکاسی کرتی ہے۔ وہ اپنی قارئات کو ان رجحانات سے بھی بچاتے ہیں جو مغربی تہذیب کا سیلاب بلاخیز پیدا کررہا ہے اور ان روایت پرست رویوں سے بھی اوپر اٹھاتے ہیں جو صلاحیتوں کے استعمال اور دینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں۔ دونوں انتہاؤں کے بیچ وہ اسلام کی سواء السبیل ٹھوس دلائل کے ساتھ روشن کردیتے ہیں۔
یہ مصنف کے اسلوب کا کمال ہے کہ انہوں نے بہت ہی سادہ اور آسان زبان میں نسوانی سرگرمیوں کا اسلامی تصور پوری گہرائی اور وسعت کے ساتھ واضح کردیا ہے۔ اس تصور میں خواتین اسلامی اصولوں کی پاسداری اور حیا و عفت اور ستر و حجاب کے تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے، مختلف میدانوں میں سرگرم اور گراں قدر خدمات انجام دیتی ہوئینظر آتی ہیں۔ اس کے لیے فاضل مصنف نے قرآن و سنت سے بھرپور دلائل فراہم کیے ہیں۔ قرآن مجید میں مذکور خواتین کے تذکروں سے اہم نتائج اخذ کیے ہیں اور نبوی معاشرے کے عملی نمونوں سے بھی استدلال کیا ہے۔ قرآن وسنت کے علاوہ، اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار کی مثالیں بھی کثرت سے پیش کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تصور اسلامی تاریخ کے ہر دور میں خاص طور پر دورِ عروج میں پوری طرح کارفرما رہا ہے۔ اُس روشن دور میں خواتین نے علم و ارشاد کی مسندوں کو بھی زینت بخشی ہے اور دعوت و جہاد کے معرکے بھی سر کیے ہیں۔ رفاہ و خدمت کی غیر معمولی نظیریں بھی قائم کی ہیں اور سیاسی و معاشی بصیرت کے حیرت انگیز نمونے بھی پیش کیے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں پر بھی اثرانداز ہوئی ہیں اور تہذیبی و تمدنی ترقیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ دلائل کا تیسرا سرچشمہ تحریک اسلامی کا بنیادی لٹریچر ہے۔ مصنف نے جماعت اسلامی کی رودادوں سے اور مولانا مودودیؒ اور تحریک اسلامی کے دیگر قائدین کی تقریروں اور تحریروں سے اقتباسات نقل کیے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خواتین میں تحریکی سرگرمی کوئی نیا رجحان نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت کا پورا احساس تحریک کے بانیوں اور اس کے اولین رہنماؤں کو بھی تھا اور وہ بھی دعوت و تحریک کے محاذوں پر خواتین کی فعال شرکت کے خواہاں تھے۔
کتاب میں خواتین کی عملی سرگرمی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بھی کہ وہ اسلام کی خاطر جہد مسلسل میں مصروف اپنے شوہروں کی معاون و مددگار اور ان کی پشت پناہ بنی رہیں اور یہ بھی کہ انہوں نے خود بھی اپنے حصے کا کام بھرپور طریقے سے اور آزادانہ انجام دیا۔ ضرورت متقاضی ہوئی تو اپنے شوہروں اور خاندانوں کی بھرپور مخالفت اور شدید مزاحمت کے باوجود اپنے فرائض انجام دیے۔ کتاب میں،جہاں سیاست، معیشت و تجارت، خدمت، دعوت و اصلاح اور علم و فکر کے میدانوں میں کام کے حوالے سے مفید مشورے دیے گئے ہیں وہیں خواتین کی بنیادی ذمہ داری یعنی گھر کے نظم و نسق اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے بھی بہت مفید باتیں شامل کی گئی ہیں۔اس معاملے میں بھی مصنف کی باریک بیں نظر ایسے امور تک بھی گئی ہے جن کی طرف بہت کم توجہ ہوپاتی ہے۔ مثلاً یہ جملہ ملاحظہ ہو:
’’اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آپ کا گھر طنزیہ باتوں، فتنہ انگیز تبصروں اور زہر ناک غیبتوں کا اڈا نہ بننے پائے، وہاں ایسی گفتگو ہو جس سے اللہ راضی ہو اور لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی رغبت ملے۔ ‘‘
یہ کتاب،خواتین کی سماجی سرگرمی کے سلسلے میں ماضی بعید، ماضی قریب، حال اور مستقبل کوایک کڑی میں پرونے کی بڑی کامیاب کوشش ہے۔ ماضی بعید یعنی اسلام کا دور اول، ماضی قریب یعنی وہ دور جب ہندوستان میں اسلامی تحریک اپنے سفر کا آغاز کررہی تھی، حال اور مستقبل یعنی آنے والا زمانہ اور اس کے تقاضے۔ان سب میں خواتین کے کردار کےاساسی اصول مشترک ہیں لیکن عملی طریقے اور تفصیلات مختلف ہوسکتی ہیں۔ مصنف ماضی کی مثالیں دیتے ہیں۔ ان کی بنیاد پر حال میں مطلوب رویے کی وضاحت کرتے ہیں اور مستقبل کے چیلنجوں کے سلسلے میں مفید مشوروں سے نوازتے ہیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب خواتین کے درمیان اسلامی تحریک کے فروغ میں بہت معاون ثابت ہوگی اور اپنی ذمہ داریوں کا شعور رکھنے والی خواتین کو موجودہ حالات میں ٹھوس عملی رہنمائی فراہم کرے گی۔اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبول فرمائے اور اس کا افادہ عام فرمائے۔ آمین
***
***
یہ کتاب،خواتین کی سماجی سرگرمی کے سلسلے میں ماضی بعید، ماضی قریب، حال اور مستقبل کوایک کڑی میں پرونے کی بڑی کامیاب کوشش ہے۔ ماضی بعید یعنی اسلام کا دور اول، ماضی قریب یعنی وہ دور جب ہندوستان میں اسلامی تحریک اپنے سفر کا آغاز کررہی تھی، حال اور مستقبل یعنی آنے والا زمانہ اور اس کے تقاضے۔ان سب میں خواتین کے کردار کےاساسی اصول مشترک ہیں لیکن عملی طریقے اور تفصیلات مختلف ہوسکتی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جولائی تا 08 جولائی 2023