
مجرموں کے لیے ان کے اعمال خوش نما بنا دیے جاتے ہیں
صہیونیت کا خود فریبی کا خواب اور قرآن کا قانونِ انتقام
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
آج دنیا یہ دیکھ کر سخت دہشت زدہ ہے کہ کس طرح اسرائیل کا سفاک وزیر اعظم، وہاں کے لیڈر اور یہاں تک کہ اسرائیلی عوام بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کا غزہ کے بشمول سارے فلسطین پر قبضہ ہو جائے، چاہے اس کے لیے غزہ کی ساری آبادی کو بھوک اور پیاس سے مار ڈالنا کیوں نہ پڑے۔ یہ ایسی ضد اور ہٹ دھرمی ہے جو خود اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اگر یہ صہیونی اہل غزہ کی قربانیوں کی قیمت اس طرح ادا کریں کہ وہ دو ریاستی حل پر راضی ہو جائیں تو اس سے یقینی طور پر اسرائیلی ریاست باقی بھی رہ سکتی ہے اور اپنا کھویا ہوا وقار حاصل بھی کر سکتی ہے۔ لیکن فلسطین کے تمام لوگوں کو بے دخل کر کے واحد اسرائیلی ریاست کا خواب خود اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال دے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ظالم جتنا ظلم کرے گا اتنی ہی اس کی عمر کم ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔ "ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے” جہاں تک اہل غزہ کا معاملہ ہے ان کا یقین محکم ہے کہ ان کے لیے شہادت ہی میں راحت اور کامیابی ہے اور وہ ارضِ مقدس کی حفاظت کے عزم سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ صہیونی اتنے سفاک اور خونخوار کیوں ہو گئے ہیں؟ اس کا جواب قرآن میں یہ دیا گیا ہے کہ دراصل ان کے برے کرتوت ان کے لیے خوش نما بنا دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ترجمہ) بھلا کچھ ٹھکانا ہے اس شخص کی گمراہی کا جس کے لیے اس کا برا عمل خوش نما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھ رہا ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ (سورۃ فاطر:۸) کسی قوم پر اللہ کے عذاب کی یہ واضح علامت ہے کہ ان کے اندر سے صحیح سوچ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے اور ان کے بدترین جرائم بھی ان کے لیے خوش نما بنا دیے جاتے ہیں۔ ان صہیونیوں کا یہ عقیدہ کہ وہ اللہ تعالٰی کے چہیتے ہیں، ان کے دلوں میں اتنا رچ بس گیا ہے کہ ان کا بچہ بچہ سمجھتا ہے کہ وہی دنیا میں سب سے اعلیٰ و افضل ہیں اور یہ ان کا ہی حق ہے کہ وہ دنیا کو کنٹرول کریں۔ اس زعم میں مبتلا ہو کر وہ دجال کے انتظار میں ہیں جو ساری دنیا کو ان کے کنٹرول میں دے دے گا۔ ان کی سوچ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے لیے حالات کو ان کی خواہش کے مطابق سازگار بنا دیا ہے تاکہ وہ اپنے جرائم کی سب سے نچلی سطح تک پہنچ جائیں۔ چنانچہ ان کے لیے ایک طرف سوپر پاور کو ان کا حامی بنایا گیا ہے تو دوسری جانب اسرائیل کے اطراف ایسے حاکموں کو بٹھا دیا ہے جن کی بدولت اسرائیل کا وجود ممکن بنا ہوا ہے۔ ان حالات کی پیشن گوئی قرآن میں ’حبل من اللہ‘ اور ’حبل من الناس‘ کی صورت میں کی گئی ہے جو آج پوری ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے (سورۃ آل عمران : ۱۱۲) لیکن اس ظاہری اور عارضی غلبہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ذلت و پھٹکار کا ذریعہ بنا دیا ہے۔
قرآن میں یہ مضمون تکرار کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ مجرموں کے اعمال ان کے لیے خوش نما بنا دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ فرعون کے عمل کو خوش نما بنا دیا گیا تھا جب وہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو ذبح کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ ’’اس طرح فرعون کے لیے اس کی بد عملی خوش نما بنادی گئی اور وہ راہِ راست سے روک دیا گیا۔ فرعون کی ساری چال بازی اس کی اپنی تباہی کے راستہ ہی میں صَرف ہوئی‘‘( سورۃ مومن :۳۷) مشرکینِ مکہ جب اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے تو اس عمل کو بھی ان کے لیے خوش نما بنا دیا گیا تھا۔ ’’اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوش نما بنا دیا ہے تاکہ ان کو ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان پر ان کے دین کو مشتبہ بنادیں‘‘ (سورۃ الانعام : ۱۳۷) قرآن میں فرمایا گیا کہ کفار کی مکاریوں کو ان کے خوش نما بنا دیا گیا ہے۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے دعوتِ حق کو ماننے سے انکار کیا ہے ان کے لیے ان کی مکاریاں خوش نما بنا دی گئی ہیں اور وہ راہِ راست سے روک دیے گئے ہیں، پھر جس کو اللہ گمراہی میں پھینک دے اس کوئی راہ دکھانے والا نہیں ہے۔‘‘ (سورۃ الرعد: ۳۳) قرآن میں جن قوموں کا ذکر آیا جن پر دنیا ہی میں عذاب نازل کیا گیا ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ شیطان نے ان کے اعمال کو خوش نما بنا دیا ہے۔ ’’اور عاد و ثمود کو ہم نے ہلاک کیا، تم وہ مقامات دیکھ چکے ہو جہاں وہ رہتے تھے۔ ان کے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے خوش نما بنا دیا اور انہیں راہِ راست سے برگشتہ کر دیا حالانکہ وہ ہوش گوش رکھتے تھے۔‘‘ (سورۃ العنکبوت : ۳۸) شیطان نے شرک کے عمل کو شرک کرنے والوں کے لیے خوش نما بنا دیا ہے۔ قومِ سبا کے بارے میں ہدہد نے سلیمان علیہ السلام کو خبر دیتے ہوئے کہا تھا ’’میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے، شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے اور انہیں شاہراہ سے روک دیا، اس وجہ سے وہ سیدھا راستہ نہیں پاتے۔‘‘ (سورۃ النمل :۲۴) دنیا کی اکثریت گمراہی کا شکار ہو کر اس خوش فہمی میں رہتی ہے کہ وہ بہت عقل مند ہے اور وہ جس راہ پر گامزن ہے وہی صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’دنیا کہ زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔‘‘ (سورۃ الکہف : ۱۰۴) اس کے علاوہ یہ مضمون قرآن میں اور بھی جگہوں پر آیا ہے جہاں گمراہ لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کی گمراہی کو ان کے لیے خوش نما بنا دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بارے میں فرمایا گیا ہے اس کو دل فریب بنایا گیا ہے اور لوگ اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں: كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ (سورۃ آل عمران :۱۸۵) آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہےجو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔ رہی یہ دنیا تو یہ محض دھوکے کا سامان ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زندگی کی اصل حقیقت بتائی ہے کہ یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ یہاں انسان طویل زندگی کی خواہش رکھتا ہے لیکن ہر ایک کو موت آ کر دبوچ لیتی ہے۔ اس کے بعد جو زندگی آنے والی ہے وہ ابدی زندگی ہے جہاں جنت بھی ہے اور جہنم بھی ہے۔ جو جہنم سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے وہی کامیاب ہے۔ اس آیت میں انسانوں کو مقصدِ حیات بتایا گیا ہے کہ وہ جنت کے حصول کو اپنا ہدف بنائیں۔ اس آیت کے آخر میں یہ فرمایا گیا ہے کہ دنیا کی زندگی متاعِ غرور یعنی دھوکے کا سامان ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس دنیوی زندگی کو دھوکے سے کیوں تعبیر کیا گیا ہے؟ یعنی ہرغلط سوچ رکھنے والے کو یہ دنیا بظاہر مطمئن کر کے اس کو دھوکے میں رکھتی ہے اور یہ دھوکہ انسان کے لیے ابدی زندگی میں خسارے کا سودا بن جاتا ہے۔ اس دنیا کے بارے میں غلط نظریات ان کے حاملین کو دھوکے میں رکھنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔مثلاً منکرین خدا یہ کہتے ہیں کہ چونکہ خدا کو کسی نے دیکھا نہیں ہے اس لیے خدا کے وجود کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے خدا کی تخلیق کے جلوے ہر طرف ان گنت تعداد میں موجود ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ جب خدا نے ہر شئے پیدا کی ہے تو خدا کو کس نے پیدا کیا؟ جب خدا دنیا کا انتظام چلا رہا ہے تو پھر دنیا میں نا انصافی کا چلن کیوں ہے اور ظالموں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟ معصوم بچوں اور بے قصور لوگوں کو دنیا میں تکلیفیں کیوں پہنچتی ہیں؟ دنیا میں شر کو کیوں پیدا کیا گیا؟ دنیا میں تشدد اور جنگیں مذہب کی بنیاد پر کیوں ہوتی ہیں؟ مذہب اور سائنس میں تضاد کیوں ہے؟ اس طرح کے سوالات گھڑ کے ملحدین یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خدا کو ماننے والوں کو لا جواب کر دیا ہے۔ وہ اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ وہ معاشرے میں دقیانوسی سوچ رکھنے والوں کے مقابلے میں روشن خیال ہیں۔ اس طرح کے سوالات ملحدین اور منکرین خدا کے لیے دھوکے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو امتحان کے لیے پیدا کیا ہے اور امتحان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حق کی تلاش کے راستے میں اشتباہ کا پردہ حائل کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو بنا کر خود کو پردۂ غیب میں چھپا لیا ہے۔مثلاً خدا کا نظر نہ آنا یہ شک پیدا کرتا ہے کہ خدا موجود نہیں ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے خالق کے کمالات کو دیکھ کر اور اس کے احسانات کو محسوس کرکے اس کو پہچانے۔ خالق کے پردۂ غیب میں ہونے کو اشتباہ کا پردہ بنا دیا گیا ہے جس کو چاک کر کے خالق کو پانا ہی انسان کی سب سے بڑی کامیابی قرار دی گئی ہے۔ حق کے ہر متلاشی کے سامنے اشتباہ کا پردہ ہوتا ہے اور شکوک کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے حق کو پانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ چونکہ جنت بہت بڑا انعام ہے اس لیے اس کا حصول بھی ہر کس و نا کس کے لیے آسان نہیں ہے۔ جنت ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے ہے اور ہدایت کا حصول انہی لوگوں کے لیے آسان بنایا گیا ہے جو ہدایت کے طالب ہیں جو ہدایت کے طالب نہیں ہیں ان کے لیے ہدایت کے راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ پہلی رکاوٹ انسان کا استکبار ہے جو ہدایت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نفسانی خواہشات بھی انسان کو ہدایت سے روکنے کا باعث بنتے ہیں۔باپ دادا کی اندھی تقلید میں عقل کو استعمال نہ کرنا بھی ہدایت کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ ان رکاوٹوں کے علاوہ ایک اہم سنگِ میل ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ شکوک و شبہات کے پردوں کو چاک کر کے حق تک رسائی حاصل کرے۔جو سلیم الفطرت لوگ ہوتے ہیں وہ تمام موانعات کو عبور کرتے ہوئے اپنی عقل کا صحیح استعمال کرکے اشتباہ کے پردوں کو چاک کرتے ہیں اور حق کو پا لیتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے لیے جنت رکھی گئی ہے جہاں انسان کی لا محدود خواہشات پوری ہو سکتی ہیں۔ جو لوگ اپنے دلوں میں کجی رکھتے ہیں وہ مضبوط دلائل کے مقابلے میں مہمل شکوک کا بہانہ بنا کر حق کا انکار کر دیتے ہیں، اس انکار کی سزا ان کو یہ ملتی ہے کہ شیطان کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ان کے غلط عقائد و اعمال کو خوش نما بنا کر پیش کرے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرنے والے بھی مہمل قسم کے اشکالات کی بنا پر قوی دلائل کو نہیں مانتے۔ شیطان ان کے اشکالات کو ان کے لیے خوش نما بنا کر پیش کرتا ہے۔ اسی طرح ایک سے زیادہ خداؤں یا اوتاروں کو ماننے والے بھی محض قیاس اور گمان کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ خدا دنیا میں مختلف طریقوں سے ظہور کرتا ہے یا کچھ ہستیاں ہیں جو خدا سے بہت قریب ہیں اور صاحبِ تصرف ہیں۔ وہ اپنے دل کو اس طرح مطمئن کرتے ہیں کہ ان کی تمنائیں، دعائیں اور التجائیں فلاں فلاں معاملے میں پوری ہوئی ہیں اس لیے ان کے گھڑے ہوئے معبود سچے ہیں۔ اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے باپ دادا کے عقائد کو اندھا دھند مان کر خود ساختہ خداؤں کی پرستش کرتے ہیں اور اس خوش فہمی میں ہیں کہ وہ صحیح راستے پر گامزن ہیں۔ تناسخ کے عقیدہ پر اندھا یقین رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جو معذور، محروم اور بد حال لوگ ہیں وہ پچھلے جنم کی بد اعمالیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں چنانچہ ان کو وہ قابل رحم نہیں سمجھتے اور جو خود کو اعلیٰ نسل کا فرد سمجھتے ہیں وہ اس احساس تفاخر میں جیتے ہیں کہ وہ خدا کے سر سے پیدا ہوئے ہیں اور دوسروں پر پیدائشی طور پر فضیلت رکھتے ہیں اور دوسرے ان کے سامنے حشرات الارض کی مانند ذلیل ہیں۔ چنانچہ ایک خود ساختہ آچاریہ نے حال ہی میں یہ بیان دیا کہ سوّر کے پیٹ سے شیر پیدا نہیں ہوتے۔ اس کے نزدیک برہمن اور شودر کی وہی نسبت ہے جو شیر اور سوّر میں ہے۔ اس سے ان لوگوں کی خود ساختہ خوش فہمی پر مبنی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے جس کی بنا پر یہ نچلی ذات والوں پر ظلم کو روا رکھتے ہیں۔
اس وقت صہیونی، فلسطین میں بدترین جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بیس لاکھ کی آبادی کو پانی اور روٹی سے محروم کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہیں۔ اس کے پیچھے بھی ان کا یہ خوش نما عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کی منتخب اور چہیتی نسل ہیں اور ان کو حق ہے کہ دوسروں پر ظلم کرکے ان کو نیست و نابود کر دیں۔ اس طرح شیطان نے ان کے جرائم کو خوش نما بنا دیا ہے۔ اسی طرح برہمن نسل سے تعلق رکھنے والوں کے عقائد کو ان کے لیے خوش نما بنا دیا گیا ہے کہ وہ اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
قرآن کا اعجاز ہے کہ وہ ہر زمانے میں باطل کے علم برداروں کے باطل خیالات کا ابطال کرتا رہا ہے۔ وہ ملحدین اور مشرکین کے اعتراضات کا مضبوط دلائل کے ساتھ جواب دیتا ہے۔ یہ جوابات اہل ایمان کے لیے ایمان کے اضافے کا ذریعہ بنتے ہیں۔کسی بھی زمانے میں فکری محاذ پر قرآن کے مقابلے میں کوئی باطل فکر ٹک نہیں سکی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان نوجوان قرآن ناظرہ تو پڑھ لیتے بلکہ حفظ بھی کرلیتے ہیں لیکن فہم قرآن سے محروم رہنے کی وجہ سے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ملحدین کے اسلام پر اعتراضات سے متاثر ہو کر اسلام کو بھی دوسرے مذاہب کی طرح آستھا اور اندھی تقلید والا دین سمجھنے لگتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے دین اس بات کا ذمہ لیں کہ وہ قرآن فہمی کی مہم چلائیں اور قرآن سے امت کی اصلاح کریں۔
***
اس وقت صہیونی، فلسطین میں بدترین جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بیس لاکھ کی آبادی کو پانی اور روٹی سے محروم کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہیں۔ اس کے پیچھے بھی ان کا یہ خوش نما عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کی منتخب اور چہیتی نسل ہیں اور ان کو حق ہے کہ دوسروں پر ظلم کرکے ان کو نیست و نابود کر دیں۔ اس طرح شیطان نے ان کے جرائم کو خوش نما بنا دیا ہے۔ اسی طرح برہمن نسل سے تعلق رکھنے والوں کے عقائد کو ان کے لیے خوش نما بنا دیا گیا ہے کہ وہ اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 جولائی تا 16 اگست 2025