مجھے کتابوں سے بچائو
(انشائیہ )
محمد اسد اللہ ، ناگپور
9579591149
( دنیا میں بے شمار آفتیں، بلائیں اور مصیبتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے کچھ زمینی ہیں اور کچھ آسمانی۔ان سے بچاؤ کی خاطر ہم رات دن دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔بلاؤں کی اس قطار میں طوفان، زلزلے اور فسادات بھی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بیگم کو ارضی و سماوی دونوں قسم کی بلاؤں میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ مشہور ہے ’رشتے آسمانوں میں بنتے ہیں‘ اور مرزا غالبؔ کا یہ مصرع بھی موصوفہ ہی کی شان میں ہے۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
مصائب کی اس فہرست میں یقینا کہیں بھی کتابوں کا ذکر نہیں ہے پھر ہم نہ جانے کیوں کتابوں سے پناہ مانگ رہے ہیں؟
کتابوں کی اشاعت سے متعلق موجودہ صورتِ حال سے اگر آپ واقف ہیں تو یہ جانتے ہوں گے کہ آسمانی کتابوں کے منکرین کے علاوہ زمینی کتابوں سے بیزار لوگوں کا بھی ایک بڑا طبقہ روئے زمین پر موجود ہے ۔ یقینا کتابیں علم کا خزانہ ہیں اور نعمت کہلاتی ہیں،تاہم وقت اور انسانوں کو بدلتے اور رحمتوں کو زحمتوں میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔یہی کچھ فی زمانہ کتابوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔بہت زیادہ وقت نہیں گزرا اردو کے کسی نامور محقق کا ایک بیان ہم نے کسی رسالے میں پڑھا (پھر چند دیگر ادیبوں نے بھی اس بیان کو دہرا دیا تھا) بہرحال اس محقق نے اپنے مداحوں اور دوستوں سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ تحفتاً انہیں اپنی کتابیں نہ بھجوائیں کیونکہ اب ان کے گھر میں کتابیں رکھنے کے لیے جگہ نہیں ہے۔ یہ پڑھ کر اس صاحبِ علم کے بارے میں ہمارے نیک خیالات اور خوش فہمیوں کے سارے قلعے مسمار ہوگئے بلکہ غصہ بھی آیا کہ جس زبان نے انہیں یہ مرتبہ عطا کیا اس کی کتابوں کی ایسی تحقیر!
کل جس صورتِ حال کو ہم قابلِ نفرت سمجھتے تھے وقت نے ہمیں ان ہی حالات میں لا کھڑا کر دیا ہے۔مذکورہ محقق کے نظریاتِ بد میں آج ہم خود کو گھرا ہوا پاتے ہیں۔ہم اب کتابوں سے اسی طرح بیزار ہیں جیسے کوئی مفلس کثرتِ اولاد سے پریشان ہوجاتا ہے اور ہم اس پریشانی کی واحد مثال نہیں ہیں،بے شمار مل جائیں گے، خاص طور پر ادیب اور شاعر حضرات وغیرہ۔
ادیبوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کتابوں کے درمیان جنم لیتے ہیں اور پھر کتابیں ان سے تولد ہونے لگتی ہیں۔ تخلیقات کو اولاد معنوی کہا جاتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ موجودہ دور کی اکثر تخلیقات میں معنویت مفقود ہے صرف اولادیت باقی رہ گئی ہے۔ کبھی یہی معنویت کتابوں کو گھر میں سنبھال کر رکھنے کا جواز تھی اب کتابوں کا پھیلتا ہوا مادی وجود انہیں گھر سے چلتا کرنے کا سبب ہے۔ اب اکثر لوگ اپنے گھروں میں کتابیں سجا کر مہذب اور تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ڈگریاں تو کتابوں ہی کی مدد سے حاصل کی جاتی ہیں۔ ہمارے ایک شناسا خود کو ادیب ثابت کرنے کے لیے ان ہی کتابوں کو محبوب کی زلفوں کی طرح گھر بھر میں بکھرا کر رکھتے ہیں۔ کوئی ادیب،ناقد یا محقق اگر واقعی ادبی کام انجام دے رہا ہے تو اس کی الماریوں میں کتابیں دھول کھاتی پڑی نہیں رہ سکتیں اور نہ انہیں سجانے کا اسے ہوش رہتا ہے۔ کتابوں کی تزئین کاری ہوش والوں ہی کا کمال ہے۔
بھلا ہو اردو اکادمیوں کا اور سرکاری اداروں کا جن کی فیاضیوں کے طفیل ہماری کتابیں دھڑا دھڑ چھپ کر آنے لگیں تو ایسا لگا ہمارا غریب خانہ، ہمارا گھر نہیں رہا کتاب گھر بن گیا ہے۔ شروع شروع میں ہمیں یہ شکایت رہی کہ کتابیں تو چھپ گئیں مگر ادبی دنیا نے انہیں نظر بھر کر دیکھا تک نہیں مگر جلد ہی نظر انداز کیے جانے کا یہ گلہ جاتا رہا کہ اب کتابیں گھر والوں کی نظر میں آنے لگی تھیں بلکہ کھٹکنے لگی تھیں۔ مذکورہ تصانیف دوائے دل تو تھیں نہیں کہ کاروبار آگے بڑھتا،شومی قسمت سے سرمہ مفت نظر ثابت ہوئیں۔ہم نے کسی سے ان کے فروخت نہ ہونے کا ذکر کیا تو کہنے لگے جناب! ان کا ولیمہ کروائیے، دھوم دھام سے رسمِ اجراء کا جشن منائیے۔ ایک ہی کتاب کا کئی شہروں میں،’ مکرر ارشاد ہے‘ کہہ کر اجرا دہرائیے۔ شہر کے ادب نواز موٹے مرغوں کو پکڑئیے۔کتاب بیچنے کے کئی شریفانہ طریقے ہیں۔ صرف اچھا ادیب ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اسے اچھا بزنس مین بھی ہونا چاہیے ورنہ ایسا آ دمی وقت گزرنے پر ادیب بھی نہیں رہ پاتا،آثارِ قدیمہ بن جاتا ہے جناب عالی۔
آپ تو کتاب چھپواکر اپنے منہ میں دہی جما کر بیٹھ گئے۔ادب کے کاروبار میں ایسے رنگ نہیں چڑھتا ’لو دہی لو دہی‘ کہہ کر پھیری والے کی طرح اسے بیچنا پڑتا ہے۔ اگر آپ بذات خود اپنی کتاب کی شان میں ایک جملہ بھی کہیں گے تو ادب کے وہ چرب زبان ستون جو دوسروں سے اپنی تصانیف پر تھوک کے بھاؤ سے مضامین لکھوا کر چھپواتے ہیں آپ کے سر پر خود ستائی کا الزام لگا کر ستانے سے باز نہ آئیں گے۔ ان کی اس حرکت میں یہ پیغام چھپا ہے کہ آپ بھی دوسروں سے یا دوستوں کے نام سے اپنی اور کتاب کی شان میں قصیدے لکھوا کر دنیا کو بتائیے کہ اب اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرہ۔
بد قسمتی سے ہم بھی ادیب ہیں اور چند دوستوں کے اصرار پر ان کی کتابوں پر تبصرے چھپوانے کی خطا کر بیٹھے چنانچہ اب کئی ادیبوں کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی ہر کتاب پر ایک مضمون یا تبصرہ لکھیں۔اسی دوران ایک مقامی رسالے کے ایڈیٹر نے ہمیں پکڑا کہ کوئی مبصر نہیں مل رہا ہے یہ کہہ کر یہ ذمہ داری اور کتابوں کا ایک بنڈل تھمادیا۔ ستم ظریفی یہ کہ جن ادیبوں کی وہ کتابیں تھیں ان کو خبر ملتے ہی انہوں نے اپنی نہ صرف تازہ تصنیف بلکہ پچھلی تمام کتابیں بھجوادیں کہ ان کی روشنی میں کچھ لکھا جائے۔انہیں کیسے سمجھاتے کہ ہمارا دولت کدہ پہلے ہی تجلی زار بنا ہوا ہے۔ ہمارے گھر میں ہماری اپنی ڈیڑھ درجن کتابوں کے بنڈلوں کے علاوہ ہمارے شوق ِ مطالعہ کا حاصل کتابیں، قلم کاروں اور دوستوں کی سوغاتیں،غرض سارا گھر کتابوں سے بھر گیا ہے اور گھر والے اس طوفانِ ادب سے گھبرائے ہوئے ہیں۔
ہم نے جب مکان تعمیر کیا تھا تواس نیک کام کے دوران یہ بھلا بیٹھے تھےکہ ہمارے اندر کتابوں کے مطالعے کا شوقین شخص اور ایک ادیب بھی تشریف فرما ہے۔ عام لوگوں کی طرح ہم نے گھرمیں کتابوں کا کوئی کمرہ نہیں رکھا۔ وقت کے ساتھ جب گھر کے مکین پھولنے پھلنے لگے تو ہمارا مکان اس قدر سکڑتا ہوا محسوس ہونے لگا کہ اس کا ’گھر پن‘ خطرے میں گھر گیا۔ تب ہم نے کچھ کرنے کی ٹھانی۔کسی نہ کسی چیز کو تو دیس نکالا دینا ہی تھا۔ نظر ِانتخاب سب سے پہلے کتابوں پر پڑی، بلکہ لگتا ہے وہ پہلے ہی سے نظر میں تھیں، بس کھٹکٹنے کا عمل ذرا دیر میں شروع ہوا۔ اب جو ان کتابوں پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ کتابیں پورے گھر میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں جیسے کسی ملک میں بے کاری اور بے روز گاری پھیل جاتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھاکہ ان کتابوں کا اپنا کوئی ملک یعنی کمرہ نہیں تھاجہاں کی شہریت انہیں حاصل ہوتی۔ وہ مختلف کمروں مثلاً ڈرائینگ روم ،بیڈ روم ،اسٹور روم ،حتیٰ کہ کچن ( کھانا بنانے سے متعلق کتابیں) اور گاہے بگاہے ڈرائینگ روم کے ٹیبل پر بھی پڑی ہوئی پائی جاتی تھیں کیونکہ انہیں جہاں پڑھا وہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔
بیوی کے لیے تو خیر ان کی حیثیت سوتن کی سی تھی مگر گھر کے دیگر افراد کے ٹھکانوں پر بھی کتابوں نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا تھا۔ ہرچند کہ ہم ہر دوچار ماہ بعد پڑھی ہوئی یا فضول کتابوں کو چور اچکوں اور اٹھائی گیروں کی طرح پکڑ پکڑ کر شہر کی لائبریری کے حوالے کر آتے تھے۔ایک سست قسم کے لائبریرین نے تو ایک مرتبہ ہمیں سخت سست بھی کہہ ڈالا۔اس کا یہ جملہ اب تک یاد ہے کہ ’’جناب! لوگ لائبریری میں کتابیں لینے آتے ہیں اور آپ کتابیں دینے‘۔ بات در اصل یہ تھی کہ ہمارے اس لینے کے دینے پڑجانے پر اس لائبریرین کا کام بڑھ جاتا تھا، رجسٹر میں کتابوں کی انٹری جو کرنی پڑتی تھی۔
کتابوں کو لائبریریوں اور ضرورت مند اور غیر ضرورتمند دوستوں کے حوالے کر کے ہم اکثر خود کو احساس جرم کا شکار پاتے ہیں۔ یہ احساس ایسا ہی ہے جو ان باضمیر یا سست ضمیر لوگوں کو ہوا کرتا ہے جو اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آتے ہیں۔کبھی کتابیں ہماری سوجھ بوجھ اور دانشمندی کی مائی باپ تھیں اب ان کتابوں کا کوئی مائی باپ نہیں ہے۔
ہم کتابوں کے مجرم ہیں اس لیے کہ ہم انہیں چھپواتے ہیں، خریدتے ہیں،بیچتے ہیں، ان کے پی ڈی ایف جمع کر کے یا انہیں الماریوں میں سجا کر اور لوگوں کو ان کی تعداد بتا کر ان پر رعب جماتے ہیں، کتابوں سے شہرت پاتے ہیں، ان کی مدد سے ملازمت اور عہدے حاصل کرتے ہیں،انہیں اونچی ایڑی کی سینڈل بنا کر پہنتے ہیں اور خود کو سماج میں اونچا اٹھاتے ہیں، ان کی مدد سے لوگوں کو نیچا دکھانے لگتے ہیں، مگر انہیں پڑھتے نہیں یا کم پڑھتے ہیں اور زیادہ بتاتے ہیں۔ کتابوں کا ہم پر یہ حق ہے کہ ان کا مطالعہ کیا جائے۔ ہم یہ حق ادا نہ کر کے ان کے مجرم ہیں مگر یہاں معاملہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا ہے۔میں جب بھی کتابوں کو الماریوں میں دیکھتا ہوں (خواہ کسی کی ذاتی ملکیت ہو یا عوامی لائبریری کی) مجھے محسوس ہوتا ہے کہ الماری میں کتابیں نہیں جیل کے اندر قطار میں بیٹھے ہوئے مجرم ہیں۔
ہم پر کتابوں کا یہ حق ہے کہ انہیں پڑھا جائے۔مصیبت یہ ہے کہ ہم یہ حق ادا نہیں کرتے بلکہ بعض لکھنے والے بھی اس کارِ فضول سے جان چراتے ہیں۔ اس سلسلے میں دوران گفتگو ایک نوخیز، ابھرتے ہوئے بلکہ اچھلتے ہوئے ادیب نے اپنی گردن ٹیڑھی کر کے یہ بتایا کہ وہ پڑھتے نہیں صرف لکھتے ہیں۔ ہم نے وجہ جاننے کی کوشش کی تو فرمانے لگے،دوسروں کی کتابیں پڑھنے سے ہمارا ’’رائٹنگ اسٹائیل‘‘ خراب ہو جاتا ہے۔ ہم نے کہا کہ بڑے ادیبوں کی تصانیف کے مطالعے میں تو یہ خطرہ نہیں ہے۔کہنے لگے ایک دو مرتبہ کوشش کی تھی مگر میرے اندر احساسِ کمتری پیدا ہونا شروع ہوگیا ۔بھلا ایک قلم کار میں اعتماد کی کمی پیدا ہوجائے تو وہ کیسے لکھے گا۔
یہ تو ایک ادیب کی رائے تھی،کسی حد تک صحیح بھی تھی کہ گھٹیا کتابیں یقینا ہمارے ذوق کو متاثر کرتی ہیں۔عام طور پر ہم کتابیں پڑھتے ہیں نہ اوروں کو پڑھنے دیتے ہیں کہ اچھی کتابیں ہمیں جینے کی جو راہ بتاتی ہیں ہم اس پر چلنا نہیں چاہتے کیونکہ ہم نے اپنے الگ راستے بنا رکھے ہیں، پھر ان پر کون چلے گا۔ میں جب کبھی الماریوں کے شیشوں سے جھانکتی ہوئی عمدہ اور عظیم کتابوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہمیں اس قید خانے سے باہر نکالو،ہمیں بھی اپنی زندگی کے سفر میں شریک کرلو۔ اور کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ لوگوں کو ان کتابوں کی جگہ قید کر دوں اور ان کتابوں کو وہاں سے آ زاد کر کے سماج، سیاست،ادب،مذہب اور تعلیم و تدریس وغیرہ کے سارے میدان ان اچھی اچھی کتابوں کے حوالے کر دوں کہ لو! زندگی کے سارے شعبے اب تم سنبھالو۔ ہم نے تو ہر جگہ کھیل بگاڑنے کے سوا کچھ کیا ہی نہیں۔
عام آدمی کا کتابوں سے کبھی نہ کبھی ایک تعلق ضرور ہوا کرتا ہے خواہ درسی کتابوں کی صورت میں ہو یا بینک کے پاس بک کی شکل میں۔ ہم ٹھہرے ادیب۔کتابیں ہمارا اوڑھنا بچھونا ہیں۔(ہم انہیں بچھاتے ہیں اور لوگ اوڑھتے ہیں،اوڑھی ہوئی چیزوں کو اتار پھینکنا کس قدر آسان ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں) در اصل مکان کی تعمیر کے وقت یہ قطعی خیال نہ آیا کہ زندگی کے اس سفر میں کتابیں بھی ہماری ہم سفر ہیں اور ضروریاتِ زندگی کا حصہ ہیں۔ہمارے گھروں میں مرغیوں، کبوتروں، بکریوں،کتوں اور دیگر جانوروں کی رہائش کا انتظام کیا جاتا ہے۔کتابوں کے لیے ایک کمرہ بنانے کا خیال تک نہیں آتا؟ شاید اس لیے کہ کتابیں بے جان چیزیں ہیں وہ تو چھپکلیوں، مکڑیوں،مچھروں، جھینگروں اور چیونٹیوں کی طرح گھر کے کسی بھی کونے میں رہ سکتی ہیں۔
گزشتہ ماہ ایک صاحب نے جن سے ہماری جان نہ پہچان کہیں سے ہمارا پتہ حاصل کر لیا اور کتابوں کا ایک بنڈل ہمارے نام داغ دیا۔ پہلے یہ مصیبت ایک فون کی شکل میں نازل ہوئی۔کسی کوریئر سنٹر سے کال کر کے بتایا گیا کہ آپ کے علاقے میں ہماری خدمات معطل ہیں اس لیے اپنا پارسل آپ کو خود ہی ہمارے آفس سے لے جانا پڑے گا۔اس ڈر سے کہ کوئی اہم چیز نہ ہو ہم ہفت خواں طے کر کے اس آفس پہنچے تو دیکھا اس بنڈل میں کسی نے اپنے سات شعری مجموعے بھجوا دیے تھے۔ کتابوں کی رسید کی اطلاع نہ دینا بد اخلاقی ہے یہ سوچ کر ہم نے انہیں فون کیا تو ادھر سے حکم صادر ہوا کہ جناب اب ان کتابوں پر تبصرے بھی لکھ دیجیے۔ ہم نے تنگ آ کر وہ کتابیں کسی نیکی کی طرح ایک مقامی لائبریری کے دریا میں ڈال دیں اور اب ہم اسی نامور محقق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ خدا کے لیے ہمیں کتابیں نہ بھجوائیں کیونکہ اب کتابوں کے لیے صرف ہمارے دل میں جگہ بچی ہے گھر میں نہیں۔ اور جو کتابیں ہمیں عزیز ہیں ان کے پی ڈی ایف ہم نے موبائل فون اور کمپیوٹر کے دل میں ناکام حسرتوں کی طرح محفوظ کر رکھا ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023