محمد مسلمؒ : ’دعوت‘ کا معمار، شعور کا پاسبان

وہ مدیر جس کے لیے صحافت ایک مقدس مشن تھا

0

ابو منیب

صحافت محض خبروں کی ترسیل کا نام نہیں۔ یہ ایک ایسا فن اور فریضہ ہے جو سچائی کو تلاش کرنے، اسے دیانت داری کے ساتھ بیان کرنے اور سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔ صحافت ایک امانت ہے — جس میں قلم کی حرمت، خبر کی صداقت اور تجزیے کی شفافیت کو مقدم رکھا جاتا ہے۔
اس جامع اور بلند تعریف کو اگر مجسم شکل میں دیکھنا ہو تو محمد مسلمؒ جیسے مدیر اور صحافی کی طرف نگاہ جاتی ہے، جنہوں نے صحافت کو مشن کے طور پر اپنایا اور اپنی زندگی، اپنے قلم اور اپنے کردار سے اس فن کے جوہر کو پوری عظمت کے ساتھ آشکار کیا۔ ان کی شخصیت اور تحریر میں وہ وقار، سنجیدگی، اور فکری توازن تھا جو آج کی صحافت میں خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔
محمد مسلمؒ کا شمار ان معدودے چند صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے صحافت کو نہ صرف ایک پیشہ، بلکہ ایک فکری مشن کے طور پر اپنایا۔ وہ ان قلم کاروں میں سے تھے جنہوں نے صحافت کو محض معلومات کی ترسیل کا ذریعہ نہیں بلکہ امت کی رہنمائی کا ایک موثر وسیلہ بنایا۔
فکری بلندی، خلوص اور اصول پسندی—یہ اوصاف یوں ہی کسی کو ورثے میں نہیں ملتے۔ محمد مسلمؒ نے ان سب کا خراج سخت محنت، مسلسل جدوجہد، اور قربانیوں سے ادا کیا۔ ان کی شخصیت کا پختہ خمیر بھوپال کی علمی فضا اور ان کے ابتدائی تعلیمی ماحول سے اٹھا تھا۔ 1920 میں محلہ جہانگیرآباد میں آنکھ کھولی اور علم کی پہلی کرن اپنے نانا کی صحبت میں حاصل کی، جن سے اردو، عربی، فارسی اور انگریزی کی ابتدائی تعلیم پائی۔ یہیں سے ان کے اندر وہ فکری پختگی اور لسانی وسعت پیدا ہوئی، جو آگے چل کر ان کی صحافت کا امتیاز بن گئی۔
1935 میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا اور محض 18 برس کی عمر میں صحافت کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ 1938 میں بھوپال کے باوقار روزنامے ندیم سے بطور سب ایڈیٹر وابستگی نے ان کی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ کم عمری کے باوجود ان کی سنجیدگی، زبان پر دسترس اور حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر جلد نمایاں ہونے لگی۔ یہی صفات تھیں جن کی بنیاد پر وہ 1947 میں ندیم کے مدیر بنائے گئے۔
لیکن یہ صرف ایک پیشہ ورانہ ترقی نہ تھی؛ یہ جرأتِ اظہار، بے باکیِ فکر، اور اصولوں کی پاسداری کا سفر تھا۔ 1946 کی غذائی تحریک میں حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کے سبب پہلی بار جیل کی صعوبتیں جھیلیں اور 1948 میں اپنی بے لاگ ادارت کی پاداش میں پھر گرفتار ہوئے۔ مگر نہ لہجہ بدلا، نہ لب و لہجہ نرم ہوا۔
1953 میں بھوپال کو خیرباد کہا اور دہلی کا رخ کیا، جہاں جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ’دعوت‘ سے وابستہ ہوکر ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ پہلے مدیرِ معاون کی حیثیت سے اور پھر 1956 میں باضابطہ مدیر کی حیثیت سے وہ اس ادارے کی روح رواں بن گئے۔ 1982 تک وہ دعوت کی ادارت کے منصب پر فائز رہے اور اس دوران جو معیار قائم کیا وہ آج بھی اردو صحافت میں استناد کا حوالہ ہے۔
دعوت کی ادارت ان کے لیے محض ایک عہدہ نہیں بلکہ ایک دینی و ملی ذمہ داری تھی۔ انہوں نے اسے ایسا وقار عطا کیا کہ یہ اخبار نہ صرف جماعت اسلامی ہند کا ترجمان رہا بلکہ اردو صحافت میں اعتدال، تحقیق اور اصول پسندی کی علامت بن گیا۔ ان کی تحریروں میں کبھی تندی نہ ہوتی تھی مگر ان کا اسلوب اتنا مدلل اور باوقار ہوتا کہ مخالف بھی سننے پر مجبور ہو جاتا۔
ان کا کہنا تھا ’’خبر مقدس ہے اور تجزیہ امانت۔‘‘ یہی اصول ان کی پوری صحافتی زندگی کا خلاصا تھا۔ وہ ہمیشہ اس بات کے قائل رہے کہ صحافت کا کام محض خبری دوڑ میں شریک ہونا نہیں بلکہ حقائق کی تہہ تک پہنچ کر قوم کی رہنمائی کرنا ہے۔
وہ اردو صحافت کے ان چند مدیروں میں شامل تھے جنہوں نے اپنے قلم کو کبھی بازار کی چوکھٹ پر نہ رکھا۔ ان کے لیے صحافت ایک عبادت تھی اور قاری ایک امانت۔ یہی سبب ہے کہ ان کے زیر سایہ کئی نوجوان صحافی پروان چڑھے، جن میں سے بعض نے بعد میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
محمد مسلمؒ صرف مدیر نہیں تھے، وہ ایک مربی، ایک رہنما اور ایک درویش صفت شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی عاجزی، بردباری اور سادگی نے ان کی تحریر میں خلوص کی وہ گرمی پیدا کی جو دلوں کو چھو لیتی ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف لکھنے کے لیے نہیں بلکہ دل سے سوچنے کے بعد قلم اٹھاتے تھے۔
اردو ایڈیٹرس کانفرنس کے ایک مجلے میں ان کا مضمون "اردو صحافت کے مسائل” آج بھی حیرت انگیز طور پر موجودہ حالات پر صادق آتا ہے۔ انہوں نے اردو اخبارات کی پسماندگی، تربیت یافتہ صحافیوں کی کمی، اور نظریاتی ابہام جیسے مسائل کو نہایت باریکی اور سلیقے سے اجاگر کیا۔
1975 کی ایمرجنسی کے دوران وہ 19 ماہ جیل میں رہے، جس سے ان کی صحت پر گہرا اثر پڑا۔ برین ٹیومر کے ناکام آپریشن کے بعد تین چار سال صاحبِ فراش رہے اور آخرکار 3 جولائی 1986 کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی وفات صرف ایک فرد کا نہیں، اردو صحافت کے ایک عہد کا اختتام تھی۔
دعوت کی ادارت کے دوران انہوں نے ایسا معیار قائم کیا جس کی خوشبو آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ وہ اس اصول پر کاربند رہے کہ "خبر مقدس ہے اور تجزیہ امانت”۔ ان کے زیر سایہ کئی نوجوان صحافیوں نے رشد و ہدایت حاصل کی جنہوں نے آگے چل کر اردو صحافت میں اپنا مقام بنایا۔
محمد مسلمؒ جماعت اسلامی ہند کے بنیادی رہنماؤں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی کوششوں سے مسلم تنظیموں کے درمیان ربط و مشاورت کو فروغ ملا، بالخصوص آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے قیام میں ان کا کردار نہایت اہم تھا۔ ان کا تحریکی مزاج، تحریک سے قلبی وابستگی اور بعد ازاں جماعت اسلامی سے قربت ان کے عملی اور فکری تسلسل کا مظہر تھا۔
اگر کوئی پوچھے کہ زندگی کا حاصل کیا ہے، تو محمد مسلمؒ کی زندگی خود اس سوال کا ایک جیتا جاگتا، خاموش مگر گونج دار جواب ہے — ایک ایسی حیات جو پوری یکسوئی کے ساتھ تحریک کے لیے وقف رہی، ایک ایسا قلم جو امت کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کے لیے مسلسل چلتا رہا اور ایک ایسی شخصیت جو مقصدیت، اخلاص اور استقامت کا مجسم پیکر تھی۔
انہوں نے 65 برس کی عمر پائی لیکن ان برسوں کو اگر گننا ہو تو کیلنڈر کے صفحات نہیں، کارناموں کی فہرست دیکھنا ہوگا۔ نصف سے زائد عمر جماعت اسلامی ہند کے لیے وقف رہی اور جو تندہی، خلوص اور جگرسوزی انہوں نے اس مشن میں صرف کی وہ ان کے مقام کو محض ایک کارکن سے اٹھا کر امت کے اہل الرائے اور مقتدر رہنماؤں کی صف میں لے آئی—ایسے لوگ جن کا نام صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام میں عزت سے لیا جاتا ہے۔
جہاں تک اردو صحافت کی بات ہے، انہوں نے اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ اس فن کی خدمت میں لگا دیا۔ وہ جب لکھتے تھے تو صرف الفاظ ہی نہیں بولتے تھے، خیالات کی گہرائیاں صفحہ قرطاس پر اترتی تھیں۔ وہ اپنے فکری میلان کو چابک دستی سے نہیں بلکہ خاموشی اور گہرے خلوص کے ساتھ قاری کے ذہن میں منتقل کرتے۔ جو کچھ وہ براہِ راست نہ کہہ پاتے، ان کا قاری اسے محسوس کر لیتا تھا۔
ان کی تحریروں میں جھنجھلاہٹ، تلخی یا ماحول سے بے زاری کے بجائے ایک نرم مگر مضبوط جذبہ ہوتا، جو ذہنوں کو سازگار بناتا اور دلوں کو روشنی دیتا۔ ان کے الفاظ نہ نعرہ ہوتے نہ اشتہار—بلکہ دلیل، توازن اور تربیت کا امتزاج ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ’دعوت‘، جو ایک نظریاتی جماعت کا ترجمان تھا، عوام و خواص میں یکساں معتبر اخبار بن گیا۔ مخالفین بھی اسے سنجیدگی سے پڑھتے اور اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتے۔
محمد مسلمؒ صرف ایک صحافی نہ تھے؛ وہ صلح جو طبیعت، عملی مزاج اور فکری بلندی کے حسین امتزاج کی حامل شخصیت تھے۔ ان کی شخصیت میں اردو کے باوقار صحافی اور تحریک کے باشعور کارکن کا ایسا توازن تھا جو بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرچہ جماعت کی دیگر مصروفیات نے انہیں یکسوئی کے ساتھ تصنیف و تالیف کا وقت کم دیا، پھر بھی ان کی جو تحریریں منظر عام پر آئیں، وہ اس قدر مکمل اور مربوط ہوتی تھیں کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ قلم کو اپنا کُل وقت دے رہے ہوں۔
ان کا قلم محض لکھنے کا ذریعہ نہ تھا، وہ قاری کی ذہنی تشکیل، فکری تربیت اور مقصدی شعور کی بیداری کا وسیلہ تھا۔ یہ کوئی معمولی وصف نہیں—ایسا اثر صرف انہی تحریروں سے پیدا ہوتا ہے جن کے پیچھے اخلاص، نظریاتی پختگی اور مسلسل ریاضت ہو۔
آج جب اردو صحافت تجارتی دباؤ، سطحیت اور فکری انتشار کا شکار ہے، محمد مسلمؒ کی زندگی ہمیں وہ معیار دکھاتی ہے جو صحافت کو صرف پیشہ نہیں، مشن بناتی ہے۔ ان کی زندگی کا پیغام آج بھی اتنا ہی واضح ہے: سچائی سے جیو، اخلاص سے لکھو اور امت کے شعور کو جگاؤ۔
محمد مسلمؒ کی سیرت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ صحافت اگر مشن ہو تو وہ امت کا شعور بن سکتی ہے۔ ان کے افکار، انداز اور اخلاص کو مشعلِ راہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اردو صحافت پھر سے عزت، وقار اور فکری گہرائی کی طرف لوٹ سکے۔
انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہم ان کی دیانت، متانت اور مقصدیت کو اپنے پیشہ ورانہ طرزِ عمل میں شامل کریں اور اردو صحافت کو وہ بلندی عطا کریں جس کا خواب انہوں نے اپنی تمام عمر میں دیکھا اور جس کے لیے وہ آخر وقت تک جدوجہد کرتے رہے۔

 

***

 محمد مسلمؒ صرف ایک صحافی نہ تھے؛ وہ صلح جو طبیعت، عملی مزاج اور فکری بلندی کے حسین امتزاج کی حامل شخصیت تھے۔ ان کی شخصیت میں اردو کے باوقار صحافی اور تحریک کے باشعور کارکن کا ایسا توازن تھا جو بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگرچہ جماعت کی دیگر مصروفیات نے انہیں یکسوئی کے ساتھ تصنیف و تالیف کا وقت کم دیا، پھر بھی ان کی جو تحریریں منظر عام پر آئیں، وہ اس قدر مکمل اور مربوط ہوتی تھیں کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ قلم کو اپنا کُل وقت دے رہے ہوں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025