مفاد پرست سیاست دانوں نے بھارتی آئین میں ترمیم اور قوانین سے سمجھوتہ کرنا آسان بنا دیا
جدوجہد آزادی کی تاریخی و اخلاقی اہمیت پامال۔ تاریخ کی کتابوں میں زیادہ تر اعلی ذات سے تعلق رکھنے والے قائدین ہی کا ذکر
چترانگدا چودھری
ترجمہ: سلیم الہندی
آزادی ہند کے فراموش کردہ کرداروں پر کتاب لکھنے والے پی سائی ناتھ سے انٹرویو
جب بھارت اپنی آزادی کی پچھترویں سالگرہ کا جشن منا رہا تھا تب ایک تجربہ کار صحافی، آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے چند غیر معروف سپاہیوں اور بھارت کی خود مختاری اور اس کے شہریوں کی آزادی کے درمیان فرق کی نشاندہی کرتا ہے۔
ہندوستان کی آزادی کی پچھترویں سالگرہ کے جشن کے موقع پر میگسیسے ایوارڈ یافتہ ایک تجربہ کار صحافی پی سائی ناتھ نے اپنی کتاب The Last Heroes Foot Soldiers of Indian Freedom میں دیہی علاقوں کے ان مردوں اور خواتین کی، آزادی کے لیے کی گئی جدوجہد اور ان کے حقیقی کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ گزشتہ بیس سالوں کے دوران ملک کی بیشتر ریاستوں میں کیے گئے سروے کی بنیاد پر انہوں نے جنگ آزادی میں حصہ لینے والے ایسے بے شمار گمنام اور غیر معروف مجاہدین آزادی کے حالات زندگی بیان کیے ہیں جن کے ناقابل تسخیر کارناموں اور ان کی سخت محنت کو عوام جانتے ہی نہیں۔ ان کا اشارہ ملک کی آزادی کی جدوجہد میں گھریلو خواتین کی اہم ترین خدمات کی طرف بھی تھا جنہوں نے آزادی کی جنگ میں لڑنے والے ان کے مرد افراد خاندان کو وقت پر کھانا پکا کر دیا، ان کی غیر موجودگی میں گھر اور باہر کے ضروری کام خود انجام دیے۔ اس کتاب میں انہوں نے کچھ سماجی عناصر یعنی ڈاکووں کا ذکر بھی کیا ہے۔ روزنامہ’دی ہندو‘ کے دیہی امور کے ایڈیٹر اور People’s Archieves of Rural India کے اساسی ایڈیٹر سائی ناتھ کہتے ہیں کہ میری تمام سابقہ کتابوں کے مقابلے میں میری یہ کتاب Everybody Loves A Good Draught میرے لیے شخصی طور پر ایک بہترین جذباتی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔
یہ اندازہ لگانا میرے لیے بھی مشکل ہے کہ اس وقت بھارت کی جنگ آزادی میں حصہ لینے والے سپاہیوں میں سے آج کتنے سپاہی زندہ ہیں۔انہوں نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے اجراء کی جانے والے فہرستوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آج ملک میں تیئیس ہزار مجاہدین آزادی بقید حیات ہیں لیکن یہ سرکاری اعداد و شمار میرے لیے ناقابل اعتبار ہیں کیوں کہ ان فہرستوں کی تیاری صد فی صد متعصبانہ بنیادوں پر کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد، ماہرین کو آگاہ کرنا ہے کہ اب بھی وقت ہے کہ تاریخی ریکارڈ کو حقیقت سے مربوط کیا جائے۔ انہوں نے لکھا کہ اگلے پانچ چھ برس بعد، ملک میں ایک بھی مجاہد آزادی زندہ نہیں ملے گا جس نے بھارت کی آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا ہو۔ اس کتاب میں انہوں نے آزادی کی لڑائی میں حصہ لینے والے جن سپاہیوں کا ذکر کیا ہے ان میں سب سے کم عمر سپاہی کی عمر بیانوے سال ہے اور زیادہ سے زیادہ عمر والے سپاہی کی عمر ایک سو چار سال ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس! ان شخصیتوں سے ہندوستان کی نئی نسل نہ کبھی ملاقات کرپائے گی نہ انہیں دیکھ سکے گی نہ ان سے بات چیت ہی کرسکے گی نہ انہیں سن سکے گی کہ وہ کون ہیں اور نہ ان سے یہ پوچھ سکے گی کہ انہوں نے جنگ آزادی میں کیوں حصہ لیا تھا؟ اس کتاب میں بے شمار مضامین ایسے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ بھارت نے انگریزوں سے کیوں آزادی حاصل کی، کیوں کہ آج ملک کے شہریوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ ہمارے آباء واجداد نے انگریزوں سے ملک کو کیوں آزاد کروایا تھا۔جدوجہد آزادی کے گمنام کرداروں کو روشنی میں لانے کے مقصد سے تحریر کردہ کتاب کے مصنف سے لیے گئے انٹرویو کا خلاصہ یہاں پیش ہے۔
اس کتاب کے لکھنے میں آپ کا کیا مقصد ہے؟
میں نے یہ کتاب ان گمنام مجاہدین کے نام لکھی ہے جو میرے نزدیک تحریک آزادی کے میدان میں جدوجہد کرنے والوں میں سب سے زیادہ اہم رہے۔ ان گمنام سپاہیوں کے کارناموں کو عوام کے سامنے اجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی جدوجہد کے واقعات کو قلمبند کرنا ہم سب کا فرض بنتا ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں جو ان جانبازوں کی خدمات کا صلہ بھی ہے اور حق بھی۔ ہم جانتے ہیں کہ ملک کی گمنام لیکن ممتاز شخصیتوں کے کارناموں کے واقعات کا ذکر سرکاری روایتی تاریخی دستاویزات میں نہیں ملتا۔ عموماً موجودہ سیاسی قائدین کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اس لیے وہ ان کا ذکر سرکاری دستاویزات میں درج کروانا پسند نہیں کرتے۔ اس سے بڑھ کر محکمہ آثار قدیمہ اور سرکاری کتب خانے، مکمل سنسرشپ کے پابند ہیں۔ ویسے بھی انہیں تاریخی حقیقتوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ یہ ادارے سرکاری احکام کی روشنی میں حکام کی مرضی اور منشاء کے مطابق تاریخی ریکارڈ محفوظ کرتے ہیں۔ اسی لیے ان غیر اصولی غیر دیانت دارانہ نکات سے ہٹ کر میں نے یہ کتاب پوری ایمانداری کے ساتھ، خاص طور پر ملک کی نوجوان نسل کے لیے لکھی ہے جنہیں ملک کی قدیم حقیقی تاریخ سے جان بوجھ کر دور رکھا گیا ہے جو ایسے اصلی ہیروں کو نہیں پہچانتے۔ کتاب نوجوانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے ان محسنوں کو ان کے زندہ اور بے لوث کارناموں کے ذریعے پہچانیں، انہیں یاد رکھیں۔ یاد رکھیے! بھارت کی آزادی کا انقلاب کسی قائد کی وجہ سے برپا نہیں ہوا بلکہ ان جاہل عوام کی تحریک میں شمولیت سے ہوا جو اپنی جان و مال، اولاد و خاندان کی پروا کیے بغیر آزادی کی جنگ میں خود اپنی مرضی سے شامل ہوئے تھے۔ 1931 میں گاندھی جی کے ایک خط کے متعلق انہوں نے لکھا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے بڑے بڑے انقلابات، عظیم قائدین کی وجہ سے ہوئے ہیں، ہرگز نہیں! درحقیقت انقلابات کا سبب عوام ہی ہوتے ہیں جن کی کاوشوں سے سب کچھ ممکن ہوتا ہے۔ اسی خط میں گاندھی جی نے 1914 میں جنوبی افریقہ سے لندن جاتے ہوئے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے کہ کیسے لندن میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا تھا۔ اس موقع پر ایک بااثر سماجی تنظیم نے اس جلسے میں سروجنی نائیڈو کے بشمول گاندھی جی کی تعریف کرتے ہوئے ان کی عزت افزائی کی۔ چنانچہ ایک کے بعد ایک دیگر مقررین گاندھی جی کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے۔ ان تقریروں کے درمیان گاندھی جی اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنا شروع کیا کہ میری خوبیوں کی بنیادیں بہت کمزور ہیں، میں ان تعریفوں کا مستحق نہیں ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ سراسر غلط بیانی ہے اور دروغ گوئی بھی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر میں ایک اور بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے تنہا جنوبی افریقہ کی جنگ نہیں جیتی نہ یہ میرا کوئی شخصی کارنامہ ہے بلکہ اس کامیابی کا سہرا جنوبی افریقہ میں کام کرنے والے لاکھوں بھارتی مزدور اور دیگر افراد کے سر جاتا ہے جن کے بغیر یہ کام ممکن نہیں تھا۔ اس موقع پر انہوں نے ایک بھارتی مزدور ہوتھیا سنگھ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنا کنٹراکٹ ختم کرکے وطن پنجاب لوٹ چکا تھا۔ جب اسے جنوبی افریقہ میں جدوجہد آزادی کی تحریک کے آغاز کا پتہ چلا تو وہ فوراً رضاکارانہ طور پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنوبی افریقہ آگیا اور تحریک میں شامل ہوگیا۔ اس تحریک کے دوران اسے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ جیل کے جس کمرے میں گاندھی جی کو رکھا گیا تھا اسی کمرے میں ہوتھیا سنگھ کو بھی رکھا گیا۔ گاندھی جی بیان کرتے ہیں کہ اس سے بات چیت کے دوران میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اس تحریک میں کیسے آگیا جب کہ وہ اپنے ملک میں آزاد تھا؟ اس نے جواب دیا کہ جب میرے ساتھی یہاں آزادی کی جنگ لڑ رہے ہوں تو میں کیسے اپنے ملک میں چین و سکون سے رہ سکتا تھا، اس لیے چلا آیا۔ پولیس نے گرفتار کرلیا اور یہاں پہنچا دیا۔ افسوس کی بات یہ رہی کہ چند ہی دنوں میں جیل ہی میں ہوتھیا سنگھ کا انتقال ہوگیا۔ ہوتھیا سنگھ جو ایک آزاد انسان تھا صرف اپنے ساتھی مزدوروں کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑنے بھارت سے جنوبی افریقہ آیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ کتاب میں نے اسی گمنام سپاہی کے بارے میں لکھی ہو، تاکہ لوگوں کو وقت کے ایک خاص آدمی کا کردار دکھا سکوں۔ اسی طرح بھارت کی جنگ آزادی میں حصہ لینے اور اپنی جانیں گنوانے والے نامور اور گمنام سپاہیوں کی ایک طویل فہرست ہے، ایک شاندار سلسلہ بھی ہے لیکن یہ فہرست کچھ ترقی پسند شرفاء تک محدود ہو کررہ گئی ہے۔ ویسے بھی ان دنوں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں زیادہ تر اونچی ذات سے تعلق رکھنے والوں ہی کے نام شامل کیے جانے لگے ہیں۔
شاید آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ بھارت سرکار نے ملک کی آزادی کی پچھترویں سالگرہ کا جشن منانے کے لیے ایک ویب سائٹ جاری کی ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس ویب سائٹ میں ایک بھی تصویر، ویڈیو، مضمون یا گانا کسی ایسے مجاہد آزادی کا نہیں ہے جو آج بھی بقید حیات ہے۔ آپ کو یہ تو ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ اس ویب سائٹ میں آخر کس کی تصویریں ہیں؟ ہاں! اس ویب سائٹ میں تمام تصویریں صرف نریندر مودی کی ہیں جس میں وہ جگہ جگہ تقریریں کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ ہم ہماری نوجوان نسل کو ضرور معاف کردیں گے کیونکہ وہ بھارت کی آزادی کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر نریندر مودی کی ان تصویروں کو دیکھنے کے بعد وہ ضرور یقین کرنے لگی ہے کہ مودی نے ہی بھارت کو انگریزوں سے آزادی دلائی تھی۔ اس کا ثبوت فلم ایکٹریس کنگننا رناوت کا اسکول آف انڈین ہسٹری کو دیا گیا وہ بیان ہے جب اس نے کہا تھا کہ بھارت کو حقیقی آزادی دراصل 2014 کو ملی تھی جب مودی جی بھارت کے پردھان منتری بنے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بھارتی مجاہدین، بھارت میں انگریزوں اور استعماری طاقتوں اور ان کی ہولناکیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے اور ہر مجاہد آزادی دراصل بھارت کی خود مختاری اور عوام کی آزادی میں فرق محسوس کرتے ہوئے یہ جدوجہد کر رہا تھا۔ میری اس کتاب کا آغاز اس کی پہلی ہی سطر میں کیپٹن بھاو کے اس جملے سے ہوتا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ خود مختاری اور آزادی کے لیے ہم سب نے جدوجہد کی تھی اور بالآخر بھارت نے خود مختاری اور بھارتی عوام نے آزادی حاصل کرلی لیکن عوام کے اس حق پر چند مٹھی بھر کوتاہ ذہن افراد کی اجارہ داری آج بھی ہے۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ مجاہدین آزادی نے خود مختاری اور آزادی کے فرق کو اچھی طرح اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ کرنا اور ملک کے حالات پر نظر رکھنا دشوار محسوس ہوتا ہے پھر بھی آپ کی اس کتاب سے خود مختاری اور آزادی کا فرق کیسے نمایاں ہوتا ہے؟
آزادی کا حصول دراصل ایک طویل، دشوار گزار، وسیع اور مسلسل جدوجہد تھی۔ جب مجاہدین آزادی نے خود مختاری کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تب ان کے سامنے مقصد واضح تھا۔ ان مجاہدین میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کا مقصد صرف انگریزوں کو ملک سے باہر کرنا تھا۔ مثلاً ایک قبائلی جس کا نام سالہن تھا جو یہ سمجھتا تھا کہ بھارتی جنگلوں میں رہنا بسنا ان قبائل کا حق ہے۔ چنانچہ میں ایک جیپ میں اس کے ایک قریبی رشتہ دار سے ملنے جنگل میں پہنچا۔ جیپ میں مجھے دیکھتے ہی وہ گھنے جنگل میں بھاگ کر چھپ گیا۔ دراصل اس نے مجھے محکمہ جنگلات کا ملازم سمجھا۔ بعد میں لوگوں نے بتایا کہ آج بھی وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محکمہ جنگلات میں کام کرنے والے لوگ ہی انگریز سپاہی ہیں جو اس کی دادی اور جنگل میں رہنے بسنے والے اس کے قبیلے کے دیگر لوگوں کو وقتا فوقتا آکر دہشت زدہ کرتے رہتے ہیں۔ آج بھی وہ لوگ محکمہ جنگلات کے ملازمین کو انگریز حکومت کے نمائندے ہی سمجھتے ہیں۔ ان حوادث کی روشنی میں خود بخود یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خود مختاری ایک بڑا محاذ تھا جسے ہم نے حاصل کرلیا ہے لیکن آج بھی ہماری آزادی پر چند موقع پرست خود غرض افراد کی اجارہ داری ہے۔جنگل میں قبائلیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ہم نے محسوس کیا کہ وہ بنیادی حقوق ہی تھے جن کی بنیاد پر مجاہدین نے آزادی حاصل کی تھی لیکن عملاً آج سرکاری پالیسیوں کے رہنمایانہ اصول جو کہ ایک بہترین طرز حکومت کی بنیاد ہونے چاہئیں، وہ سراسر ان قبایلیوں کے خلاف ہیں۔ حالاں کہ دستور ہند کے مطابق عوام کو دیے جانے والے تمام حقوق ایکدم واضح ہیں، خصوصاً ضرورت مند شہریوں کو خوراک اور غذا کی فراہمی کے حقوق۔ آج کل بھارت کے آئین میں قوانین سے سمجھوتہ کرنا بہت آسان اور سہل بنا دیا گیا ہے جس کا ہمارے مجاہدین آزادی نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ وہ اگر آج زندہ ہوتے تو ضرور سوچتے کہ انہوں نے کن مقاصد کے حصول کے لیے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی تھی اور موجودہ حکمران طبقہ اپنی حرکات سے کس طرح کا عملی ثبوت پیش کر رہا ہے؟ سوچیے اور غور کیجیے کہ جب ملک کے کونے کونے میں سی اے اے اور این آر سی جیسے مخالف عوام قوانین کے نفاذ کے خلاف ملک بھر میں جگہ جگہ مظاہرے کیوں منعقد کیے جارہے تھے جس میں بوڑھی اور جوان خواتین ان قوانین کے خلاف کیوں اپنی آوازیں بلند کررہی تھیں۔ کیوں کہ عوام بھارت کے آئین پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس لیے نعرے لگا کر مطالبہ کر رہے تھے کہ سب کے لیے انصاف، سماجی آزادی، سیاسی آزادی، اقتصادی آزادی، ملک میں مساوات اور بھائی چارہ کا ماحول پیدا کیا جائے۔
سائی ناتھ کی کتاب میں کئی منفرد مجاہدین آزادی کا ذکر ہے، ان میں سے کسی ایک یا دو شخصیتوں پر روشنی ڈالیے۔
میں تو ان تمام پندرہ شخصیتوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ ہر ایک شخصیت، اپنے خیالات اور عملی میدان میں منفرد مقام رکھتی ہے
مثلاً باجی محمد، جن کے ساتھ بیٹھ کر ہم ان کی روداد سن رہے تھے۔ انہوں نے اپنی ٹوٹی ہوئی کھوپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نہایت افسوس کے ساتھ کہا تھا کہ ان کی یہ کھوپڑی انگریزوں نے جدوجہد کے دوران نہیں توڑی بلکہ آزادی کے بعد سنگھ پریوار کے غنڈوں نے توڑی ہے۔ یہ بیان کرتے وقت وہ نہایت پرسکون تھے، چہرے پر غصے یا ناراضگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ بلکہ انہوں نے ان غنڈوں کے حق میں دعائیں بھی کیں۔ صالحہ نامی خاتون نے بتایا کہ 1930 میں جب برطانوی سپاہی کسی کو تلاش کرتے ہوئے ان کے گاوں میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے تھے تب ان کے والد کی قیادت میں گاوں والوں نے فوج کا پیچھا کیا تھا اور انگریز سپاہی بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس دلیرانہ کارنامے کی توثیق کے طور پر اس خاتون کے پاس ایک تحریری سند بھی تھی جس میں اس کے والد کے کارناموں کا ذکر اور ان کی تعریف کی گئی تھی۔ بے چاری صالحہ اس وقت فاقہ کشی کی وجہ سے نڈھال تھی لیکن اس بات پر بہت خوش تھی کہ آزادی کے اتنے برس بعد 2002 میں ان سے کوئی ملنے آیا۔ اس موقع پر وہ اپنے مرحوم باپ کو یاد کررہی تھی جسے خود اپنے ہی وطن کے غنڈوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس سانحے کو یاد کرنے کے باوجود اس خاتون کے چہرے پر مسکراہٹ ہی تھی، غصہ یا ناراضگی کے کوئی آثار نہیں تھے، کسی سے کوئی معمولی ناراضگی کا اظہار بھی نہیں کیا۔ اس نے بتایا کہ انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کے دوران اپنے والد اور گاوں والوں کے ساتھ بہت کام کیا اور کہا کہ حکومت کو کم از کم آج ایسی حالت میں مجھ جیسے پریشان حال مجاہدین کا ڈھونڈ ڈھونڈ کر خیال رکھنا چاہیے۔ نوٹ کرنے والی بات یہ رہی کہ اس غیرت مند خاتون نے اس قدر معاشی پریشانی کے باوجود ہم سے کچھ نہیں مانگا۔ایک کے بعد دیگرے، کئی مجاہدین سے ملاقاتوں کے بعد، ہم نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اگر ہم ایسی صورت حال، ان حوادث، مشکلات اور مصیبتوں سے دوچار ہوتے تو کیا ہم وہی ہمت و جرات کا مظاہرہ کرپاتے جو ان مجاہدین نے دکھائی؟ نہ صرف یہ کہ ہمارا جواب نفی میں ہوتا بلکہ ہم تو ایسے ناگہانی حوادث کامقابلہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہمارے لیے ایسا کرنا یقینا ناممکن ہوتا۔ ہم نے ایک خاتون مجاہد آزادی اے لکشمی، سابقہ رکن انڈین نیشنل آرمی سے اڈیشہ کے ایک مقام کوراپٹ میں ملاقات کی جہاں وہ آج کل قیام پذیر ہے اس نے بتایا کہ وہ اپنی گزر بسرکے لیے ایک جگہ گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے کام کر رہی ہے اور کہا کہ اسے شہرت یا پیسہ نہیں چاہیے بلکہ وہ حکومت کے ذمہ داروں سے صرف عزت و احترام چاہتی ہے کیوں کہ اس نے محسوس کیا کہ 1990 کی دہائی میں علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک میں جہد کاروں اور طلباء کا جو حال مقامی پولیس نے کیا تھا وہ قابل رحم ہے۔ کئی لڑکے زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے لیکن آج تک کسی بھی حکومت نے نہ ان کی مالی مدد کی نہ انہیں کوئی طبی امداد پہنچائی گئی حالاں کہ ایسا کرنا حکومتوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ اجمیر راجستھان کے ایک چھیانوے سالہ مجاہد آزادی، شوبھا رام گہروار سے ملاقات کے دوران انہوں نے خالص دیہاتی انداز میں بتایا کہ ہمارا گروہ دراصل دو دریاوں میں تیر رہا تھا ایک دریا جسے ہم نے ’گاندھی واد‘ کا نام دیا ہوا تھا اور دوسرا دریا ’کرانتی واد‘ کہلاتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اجمیر ہی میں ایک گاندھی واد مجاہد آزادی رہتے ہیں جو بم بنانے میں ماہر تھے، وہ خود بم بنایا کرتے تھے اور خود اسے مطلوبہ مقامات پر پہنچانے کا کام بھی کرتے تھے۔ ان گمنام مجاہدین آزادی سے ملاقات کے دوران ہمیں جو سبق ملا، وہ یہ تھا کہ ان مجاہدین کے کارناموں کو ہرگز اندھیروں میں رکھنے کی کسی سطح پر ہرگز کوشش نہیں کی جانی چاہیے بلکہ انہیں یاد رکھنے کی جستجو کی جائے، تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارتی سماج پر ان مجاہدین کے کارناموں کے بہت اچھے اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ متیلو اور لوکی مہاتویہ نامی دو اور مجاہدین آزادی سے بھی ہم نے ملاقات کی جن کے آئیڈیل نیتاجی سبھاش چندر بوس تھے اور قومی ہیرو گاندھی جی تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ان سے بڑھ کر ان کے آئیڈیل، تین مشہور مقامی ڈاکو بھی تھے۔ چنانچہ اس کی تصدیق ایک غیر ملکی مورخ Eric Hobsbawm کی کتابوں میں تین ڈاکووں کے بھارت کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے ذکر سے ہوتی ہے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ بھارت کی جدوجہد آزادی کے واقعات، موجودہ نسل کے ذہنوں سے اوجھل ہوچکے ہیں کیوں کہ آج بھارت کے عوام پر ان کے کوئی اثرات نظر نہیں آتے؟
دراصل، موجودہ حکومت نے جدوجہد آزادی کی تحریک کی تفصیلات، تاریخی اہمیت اور اس سے وابستہ واقعات کو یکسر فراموش کر رکھا ہے۔ ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ آج ہم کسے ہم مجاہد آزادی کہیں؟ ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا دستور ہند کانگریس کے دور میں مرتب کیا گیا تھا؟ ان سوالات کے علاوہ ہم ایک اہم سوال یہ بھی کرنا چاہتے ہیں جو کسی بھی عام شہری سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا وہ جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے بڑے بڑے نامور قائدین کے نام یا ان میں سے کسی قائد کا نام یا کوئی ایک ہی کا نام جانتا ہے؟ اس کا ایک ہی جواب ہوگا۔۔ جی ہاں جانتا ہوں ان کا نام ’بابا صاحب امبیڈکر ‘ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ہم امبیڈکر کے مرتب کردہ ’دستور ہند‘ کو جدوجہد آزادی میں حصہ لینے والے بہادروں کے خواب کی تعبیر سمجھتے ہیں تو ہمیں اس نظریے کو تسلیم اور قبول کرنا چاہیے۔ اس جواب پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہوسکتا ہے کیوں کہ ان کے نزدیک وہ فرقہ پرست تھے۔ کم از کم اس مقام پر ایک بار پھر ہمارے ذہنوں میں بھارت کی خود مختاری اور آزادی کے درمیان فرق واضح ہو جانا چاہیے۔ امبیڈکر نے بلا لحاظ فرقہ و ذات ہر بھارتی شہری کے وقار کو تسلیم کرنے کی وکات بھی کی اور جدوجہد بھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ سر زمین ہند پر آزادی کی لڑائی کے بعد تمام بھارتیوں کے مساویانہ مقام و مرتبے اور وقار کو بحال کرنے کے لیے سب سے بڑی اخلاقی جنگ، امبیڈکر نے ہی شروع کی ہے۔
الگ الگ طبقات کی بنیاد پر سماج کی تقسیم اور قدیم نظام حیات کے خلاف ان کی شروع کی ہوئی اخلاقی جنگ بھارت کی سرزمین پر آج بھی جاری ہے۔
اس عظیم مقصد کی روشنی میں اگر وہ مجاہد آزادی نہیں تھے تو پھر میں بھی نہیں جانتا کہ وہ کون تھے؟ چلیے آپ ہی بتائیے وہ کون تھے؟ ہمیں شک ہے کہ اگر بھارت کی آزادی کے مجاہدین کے نام مٹائے جائیں گے تو سب سے پہلا نام امبیڈکر کا ہی ہوگا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بھارت میں انگریزوں کے دور حکومت کی تاریخ اور ان کے خلاف جدوجہد آزادی کی تحریک کی تفصیلات سے آج کی نوجوان نسل کو اندھیروں میں رکھنے کی بے شمار چالیں عملاً جاری ہیں جس کے خلاف موجودہ نوجوانوں کا رد عمل ان کی تحریروں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میں یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج بچوں کے والدین، ان کے دادا دادی، نانا نانی وغیرہ نے بھی انہیں مجاہدین آزادی کے زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھ نام بتائے ہوں گے جو انہوں نے اپنے والدین سے سنے ہوں گے۔ ہر خاندان کی اپنی کہانی ہے، اپنی علیحدہ قومی سوچ ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح مجاہدین کی زندگیوں کی الگ الگ کہانیاں تھیں۔ چنانچہ اس کتاب کے ذریعے میں نے نوجوانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بزرگوں سے ملک کی آزادی سے پہلے اور دوران جدوجہد عام زندگی اور حالات کی تفصیلات کے بارے میں ضرور آپس میں بات چیت کریں۔ کچھ نوجوانوں نے مجھے لکھا کہ ان کی دادی نے انہیں بتایا کہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف ستیہ گرہ میں حصہ لیا تھا، جس پر انہیں گرفتار بھی کیا گیا تھا اور دو دن انہیں جیل میں بھی رہنا پڑا تھا۔ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد، جدید نوجوان نسل کو بھارت کی تاریخ میں اپنے آباء واجداد کو تلاش کرنے کی ترغیب دینا بھی ہے۔ جب نوجوان اپنے آباء واجداد کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے تو عین ممکن ہے کچھ نوجوانوں کو سبق آموز داستانیں سننے کو ملیں گی۔ چنانچہ بھارت کی گزشتہ تیس سال کی تاریخ میں جس شخصیت کا نام آتا ہے وہ ہے سابق ممبر آف پارلیمنٹ، مشہور شراب کا بیوپاری، قوم کی ہزاروں کروڑ کی دولت لوٹ کر پردیس بھاگنے والا معاشی لٹیرا، وجئے مالیا۔
افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ آج میں موجودہ نوجوان نسل کو غداروں کے ساتھ کھڑا ہوا دیکھتا ہوں۔ 1991میں ہم نے اس نئی نڈر اور عدم مساوات والی جدید دنیا کو تسلیم کیا اور عدم مساوات کو قبول کیا حالانکہ ہماری آزادی کی جدوجہد کا مقصد عدم مساوات کے خلاف لڑنا بھی ہے۔ آج ہم امیر ترین شخصیات اور دولتمند تجارتی خاندانوں کی فہرستوں کا جشن مناتے ہوئے نظر آتے ہیں جو در حقیقت عدم مساوات کا جشن ہے۔ دنیا کے دولت مند ترین شخصیات کی فہرست تیار کرنے والی تنظیم ’فوربس‘ میں بھارتیوں کے نام کی شمولیت پر ہم خوشیاں مناتے ہیں لیکن کسی میں یہ کہنے کی جرات نہیں ہے کہ آج ہمارے وطن میں امیر اور غریب کے درمیان اتنا بڑا خلا کیوں پیدا ہوا ہے؟ اس کے برخلاف اجمیر کے ایک میونسپل کونسلر شوبھا رام گھروار کی زندگی پر ایک نظر دوڑائیے جو دو مرتبہ مقامی میونسپل کونسلر منتخب ہو چکے ہیں۔ یہ آج بھی دلتوں کے اسی محلے میں ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں جہاں وہ سو سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ سیاسی اور سماجی رسوخ کے باوجود انہوں نے آج تک اپنے یا اپنے افراد خاندان کے لیے شہر میں کسی بھی جگہ کوئی حویلی نہیں بنائی نہ کوئی وسیع زمین حاصل کی۔ ان میں دولت مند بننے، زمیندار یا ساہوکار کہلانے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔
سوچیے! آخر وہ پھر کس کے لیے زندہ ہیں؟ اجمیر میں جدوجہد آزادی کے مجاہدین کی یادگار کے طور پر حکومت نے جو زمین دی ہے وہ سرکاری ملکیت ہے جو آج خالی پڑی ہے، جس کی حفاظت کے بارے میں انہیں فکر لاحق رہتی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ جس دن وہ اس دنیا سے رخصت ہوں گے اسی دن مقامی لینڈ گرابرس اور زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے والا لالچی مافیا، ایک بھوکے گدھ کی طرح اس زمین پر یکلخت قبضہ کر لے گا۔ آج بھی اگر وہ چاہیں تو وہ زمین اپنے افراد خاندان کے افراد کے حوالے کرسکتے ہیں لیکن ان کا زندہ ضمیر، اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ زمین سرکاری ہے اس پر سرکار ہی کا قبضہ قائم رہنا چاہیے۔ اس کے بعد اس زمین پر مجاہدین آزادی کی کوئی یادگار قائم کی جانی چاہیے۔ انہیں یقین ہے کہ مقامی عوام اور آنے والی نسلوں کو اس حقیقت کا علم ہو کہ کسی نے اس قیمتی زمین کو غنڈوں سے بچانے کے لیے دستوری حدود میں رہتے ہوئے زندگی بھر مزاحمت کی۔
آپ اپنے قارئین کو اس کتاب کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کے ذریعے میں نے خود مختاری Independance اور آزادی Freedom کے فرق کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خود مختاری اور آزادی، ہمیں صرف عام لوگوں کی جدوجہد ہی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے یعنی زندگی کی بنیادی ضروریات اور سہولتوں سے محروم لوگ، عام متوسط خاندان جنہیں کمتر درجے کی بنیادی مراعات سے بھی دور رکھا گیا ہو آج کے ماحول میں ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا یا میں تو کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہوں۔ مجاہدین آزادی کے کارنامے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم جیسے عام انسان، وطن کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ ملو سوراجیم نے حیدرآباد میں میں منعقدہ تکنیکی ماہرین کے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ سابقہ اور مستقبل کی جدوجہد میں بلاشبہ ایک تسلسل ہے۔ اب نوجوان ماہرین فن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس جدوجہد کو جاری رکھیں جس پر حاضرین نے ملو سوراجیم کو کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہوئے داد دی۔ میں کہتا ہوں میری یہ کتاب عوام کو بتاتی ہے کہ موجودہ دور میں ملک میں رائج عدم مساوات کے سلوک کو کیسے ختم کیا جائے۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ جب ہمارے غریب آباء واجداد بھوکے پیاسے رہ کر جنگ آزادی میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو آج ہم تمام جدید سہولتوں کے ساتھ، عدم مساوات کے خلاف کیوں نہیں لڑ سکتے؟ ہمیں جدوجہد آزادی کے بنیادی نظریات کے خلاف کام کرنے والے عناصر کے خلاف بھی صف آرا ہونا پڑے گا۔ آئین کے مطابق بنیادی اصولوں کو نافذ کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ بھارتی آئین کا دفاع کرنے کی ایک بھاری ذمہ داری اب ہمارے کندھوں پر آچکی ہے۔ سماجی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی انصاف کے حصول تک ہمیں یہ جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔
***
***
یہ کتاب عوام کو بتاتی ہے کہ موجودہ دور میں ملک میں رائج عدم مساوات کے سلوک کو کیسے ختم کیا جائے۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ جب ہمارے غریب آباء و اجداد بھوکے پیاسے رہ کر جنگ آزادی میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو آج ہم تمام جدید سہولتوں کے ساتھ، عدم مساوات کے خلاف کیوں نہیں لڑ سکتے؟ ہمیں جد و جہد آزادی کے بنیادی نظریات کے خلاف کام کرنے والے عناصر کے خلاف بھی صف آراء ہونا پڑے گا۔ آئین کے مطابق بنیادی اصولوں کو نافذ کرنے کے لئے آگے آنا ہوگا۔ بھارتی آئین کا دفاع کرنے کی ایک بھاری ذمہ داری اب ہمارے کندھوں پرآچکی ہے۔ سماجی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی انصاف کے حصول تک ہمیں یہ جد وجہد جاری رکھنی ہوگی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 مارچ تا 18 مارچ 2023