معاشی طور پر پس ماندہ طبقات کی لڑکیوں کے لیے عائشہ انصاری کی کامیابی ایک تحریک

’ایم پی پی ایس سی ‘پاس کر کے ڈپٹی کلکٹر بن کر تاریخ رقم کرنے والی مسلم لڑکی کی داستان

0

ابو حرم معاذ عمری

مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والی عائشہ انصاری کی کہانی ایک حقیقت میں بدلنے والے خواب کی مانند ہے، جو نہ صرف عائشہ کی ذاتی محنت کا ثمرہ ہے بلکہ سماج میں تعلیم کی طاقت اور خاندانی حمایت کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ایک آٹو رکشا ڈرائیور کی بیٹی جو مالی مشکلات کے باوجود اپنے خوابوں کی تکمیل کی راہ پر گامزن رہی، آج وہ مدھیہ پردیش پبلک سروس کمیشن (MPPSC) کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے ڈپٹی کلکٹر بن چکی ہے۔ عائشہ کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر انسان کے اندر جرأت اور عزم ہو تو کوئی بھی رکاوٹ اسے اپنی منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔
عائشہ انصاری نے 2020 میں اپنا گریجویشن مکمل کیا اور اسی سال ایم پی پی ایس سی کے امتحان کی تیاری کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انہوں نے مسلسل چار سال تک انتہائی سخت محنت کی، روزانہ کئی گھنٹے پڑھائی کی اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ ان کی یہ محنت اس بات کی غماز ہے کہ تعلیم نہ صرف فرد کی ترقی کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ پورے معاشرتی نظام کے لیے ایک مضبوط ستون ثابت ہو سکتی ہے۔
عائشہ نے ایک موقع پر کہاتھا کہ "تعلیم نہ صرف فرد کے لیے اہم ہے بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے” ان کے مطابق، اگر ہم معاشرتی ترقی کی بات کریں تو تعلیم کا فروغ ہر فرد کے حق میں ضروری ہے، خاص طور پر ان طبقات کے لیے جو ہمیشہ کسی نہ کسی وجہ سے تعلیمی مواقع سے محروم رہے ہیں۔ عائشہ کے والدین جو خود تعلیم سے محروم تھے مگر انہوں نے ہمیشہ اپنی بیٹی کے لیے اعلیٰ تعلیم کی حمایت کی اور اس کے بہترین مستقبل کے لیے راستے ہموار کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔
عائشہ کے والد نے بتایا ’ہم نے کبھی اس کی تعلیم میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔ اس کی کامیابی کے لیے ہم ہمیشہ اس کا سہارا بنے رہے۔‘” عائشہ کی والدہ نے کہا ’عائشہ نے کبھی کچھ نہیں مانگا پھر بھی اس کے والد ہمیشہ اس کی سب سے بڑی حمایت اور حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنےرہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ عائشہ کی کامیابی میں ان کے والدین کا کردار بہت اہم رہا۔ ان کے والدین نے ہمیشہ عائشہ کو تعلیم کے راستے پر چلنے کی آزادی دی، اس کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے اسے کبھی بھی حدود و قیود میں باندھ کر نہیں رکھا۔ عائشہ کی کامیابی یہ پیغام دیتی ہے کہ جب والدین اپنے بچوں کی تعلیم کو اہمیت دیں اور ان کے خوابوں کو اپنی حمایت دیں تو وہ نہ صرف ذاتی سطح پر بلکہ معاشرتی سطح پر بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔اسی طرح ان کی والدہ کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ عائشہ نے اپنی تعلیم کے دوران والدین سے کبھی کچھ نہیں مانگا، یہ پہلو اس بات کا غماز ہے کہ انہوں نے اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے خود پر انحصار کرنا سیکھا۔ ان کے والدین کی یہ سوچ کہ "ہم نے کبھی اسے کسی بھی چیز سے نہیں روکا” ایک بہترین پیغام دیتا ہے کہ اگر کوئی بچہ خود پر اعتماد کرے اور والدین کی مکمل حمایت حاصل ہو تو کامیابی حاصل کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔
عائشہ انصاری کی کامیابی یہ سبق سکھاتی ہے کہ کامیابی ایک دن میں نہیں آتی۔ یہ مسلسل محنت، لگن اور غیر متزلزل عزم کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کامیابی کی راہ میں آنے والی مشکلات کا مقابلہ صرف عزم اور محنت سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ زندگی میں رکاوٹیں آئیں، مالی مشکلات ہوں یا سماجی مسائل ہوں لیکن اگر آپ کے اندر کچھ کردکھانے کا جذبہ ہو تو آپ اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔
عائشہ انصاری جب اپنے نئے کردار میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر فرائض انجام دیں گی تو ان کی کامیابی بے شمار لڑکیوں، خاص طور پر پس ماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو یہ درس دے گی کہ وہ بھی اپنے خوابوں کو حقیقت بنا سکتی ہیں۔ اگر آپ کا عزم مضبوط ہو اور صحیح طریقے سے محنت کریں تو کسی بھی خواب کو حقیقت میں بدلنا آپ کے لیے ناممکن نہیں ہوگا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025