معاشرے کی ترقی ضابطہ اخلاق میں مضمر

خان عرشیہ شکیل،ممبئی

زندگی گزارنے کے بنیادی اصول جن میں ہمارے طرز معاشرت ،طرز زندگی، طرز عمل اور طرز گفتگو وغیرہ تمام معاملات کا احاطہ ہوتا ہے۔ ان تمام جگہوں پر اگر ہم ضابطہ اخلاق کے پابند ہوں تو یہ ہماری زندگی کو حسین ہی نہیں بناتے بلکہ معاشرے کے لیے مفیدبھی ثابت ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو زندگی بوجھل بن جاتی ہے اور معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔
فرد اور معاشرے کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا تعلق ہے۔ہر فرد اپنی ایک فکر رکھتا ہے جس کے تحت وہ معاملات کرتا ہے۔
’’شفافیت،ایمانداری،عہد و پاس کا لحاظ اور عزت و احترام وغیرہ اخلاقی اقدار ہیں۔اس کے برعکس کرپشن،نا انصافی، تشدد، قتل و غارت گری وغیرہ غیر اخلاقی اقدار ہیں جو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
عائلی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی کی کامیابی کا راز ضابطہ اخلاق میں مضمر ہے۔
آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور یہ اسے ملنا چاہیے لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔اگر یہ حد سے تجاوز کر جائے تو پھر انسانی زندگی بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے۔میری زندگی میری مرضی کے نام پر آج ہونے والی بے راہ روی سے ہم سب واقف ہیں، جس کی بد ترین مثال آئے دن ہونے والے جنسی جرائم،موب لنچنگ وغیرہ ہیں۔2 جنوری 2024 کو دی ہندو اخبار میں چھپی رپورٹ کے مطابق عورتوں کے استحصال کے 28811 شکایات درج کی گئی ہیں جن میں 50 فیصد رپورٹس صرف اتر پردیش سے ہیں۔ان میں سے بھی جہیز کے 4797 چھیڑ چھاڑ کے 2349 اور جنسی استحصال کی 1537شکایتیں درج کرائی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ کرپشن کا بازار بھی گرم ہے۔ کرپشن پرسیبشن رینک میں انڈیا 180 ممالک میں 93ویں مقام پر ہے۔طاقت کے غلط استعمال سے غریب پریشان ہے۔ بلڈوزر کارروائی سےلوگ بے یار و مددگار بنے پھر ر ہے ہیں۔ غرض سماج سے امن وسکون ختم ہوتا جا رہا ہے ۔
آج کے دور میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سب سے زیادہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے کی جارہی ہے جن میں جھوٹ پھیلانا،تمسخر کرنا،دل آزاری،مذہب کی توہین اورغیر اخلاقی زبان کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔
ہم کائنات کے نظام پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سارا نظام ایک ضابطہ اخلاق میں بندھا ہوا ہے۔ سورج، چاند ستارے اپنے اپنے مدار میں گردش کرتے ہیں۔اگر یہ مدار سے باہرآجائیں تو ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں اور دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ سورہ الرحمن میں فرماتا ہے کہ ’سورج و چاند ایک حساب کے پابند ہیں، اور آسمان کو بلند کیا اور اس میں میزان قائم کی‘ غرض کائنات پر غور و فکر سے ہمیں حدود کی پاسداری کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
قرآن کریم انسانوں کو مخاطب کرتا ہے اور انہیں انسانیت کا درس دیتا ہے۔نیک و صالح بننے کی ترغیب دیتاہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتاہے ۔شراب جو ام الخبائث ہے اسے حرام قرار دیتا ہے، سود کو حرام قرار دے کر صدقات کو پروان چڑھاتا ہے۔سورہ بنی اسرائیل میں ضابطہ اخلاق کی بہترین مثال ملتی ہے۔فرمایا گیا ’عہد کی پابندی کرو بے شک عہد کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ پیمانے سے دو تو بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔‘ غرض قرآن زندگی کو ضابطہ اخلاق سکھاتا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے اس سے تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہےاور آخرت کی باز پرس اور انعام کے طور پر جنت اور سزا کے طور پر جہنم کا تذکرہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:’لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ‘(ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا )یعنی اسے بہترین جسمانی ساخت کے ساتھ ساتھ سوجھ بوجھ رکھنے والا، صحیح و غلط کا ادراک کرنے والا اور بھلائی و برائی کی پہچان کرنے والا بناکر بھیجا گیا ہے ۔
ہم کو چاہیے کہ اپنا احتساب کریں ۔اپنے اعمال کا جائزہ لیں،غلطیوں کی اصلاح کریں’ منفی رویوں سے بچیں۔اخلاقی حدودں کے اندر رہ کر زندگی گزاریں۔تب کہیں جاکرمعاشرے میں امن وسکون و سلامتی میسر آ سکتی ہے ۔

 

***

 قرآن کریم انسانوں کو مخاطب کرتا ہے اور انہیں انسانیت کا درس دیتا ہے۔نیک و صالح بننے کی ترغیب دیتاہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتاہے ۔شراب جو ام الخبائث ہے اسے حرام قرار دیتا ہے، سود کو حرام قرار دے کر صدقات کو پروان چڑھاتا ہے۔سورہ بنی اسرائیل میں ضابطہ اخلاق کی بہترین مثال ملتی ہے۔فرمایا گیا ’عہد کی پابندی کرو بے شک عہد کے بارے میں باز پرس ہوگی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 ستمبر تا 07 ستمبر 2024