معاشرہ کی اصلاح اور خواتین

عورتیں گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اصلاح کے دائرہ کو کیسے وسیع کرسکتی ہیں؟

سید اسعد گیلانی

ہمارے معاشرہ کی عورتوں میں دین داری کے جذبات کے باوجود ناخواندگی عام ہے۔ اصلاح پسند خواتین ہمسایہ کی خواتین کو ناظرہ قرآن پڑھانے، دین کی اچھی اچھی باتیں بتانے کے ذریعے اور ہمسائے کے بچوں کو معمولی تعلیمی مدد دے کر ان پر اپنے اصلاحی پروگرام کے اثرات ڈال سکتی ہیں اور بتدریج محلہ کی خواتین میں چغلی اور غیبت کے ماحول کو دینی تعلیم کے ماحول میں بدل سکتی ہیں
خواتین کے ذمہ مردوں کا یہ عمومی حق ہے کہ وہ انہیں گھروں میں سکون مہیا کریں اور جو مرد دین کی سر بلندی کی جنگ بھی لڑ رہے ہوں۔ ان کا کام دو گنا، مشقت دوگنی اور نتیجتاً تکلیف بھی دوگنی ہو جاتی ہے۔ ان کے لیے تو خصوصاً گھروں میں راحت و سکون کی فضا پیدا کریں۔ جو مرد زندگی کی معاشی دوڑ اور دیگر منصبی فرائض کے ساتھ ساتھ اقامت دین کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں ان کی مشکلات بھی ہے حد و حساب ہوتی ہیں، انہیں جہاد زندگانی کے دوران جن مختلف مورچوں پر لڑنا پڑتا ہے وہ اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی جسمانی اور ذہنی قوتوں کو بحال کرنے کے لیے گھروں کا پرسکون ماحول اور تعاون کی فضا موجود ہو، اس فضا کا مہیا کرنا جہاد میں شریک سپاہی کو پیچھے سے رسد و امداد فراہم کرنے کے مترادف ہے جس کا اجر اللہ کے نزدیک بہت بڑا ہے اور یہ سکون اور فضا دین دار خدا ترس اور نیک خواتین ہی فراہم کر کے دے سکتی ہیں۔ ناخدا ترس خواتین تو الٹا اپنے دیگر مزید مطالبات پیش سر کر کے زنجیر پا بننے کی کوششیں کرتی ہیں تاکہ ان کے مرد اپنی ساری توجہات صرف ان کی مادی ضروریات پر ہی مرکوز کر دیں حالانکہ دین دار مردوں کی دینی جدوجہد ہی دراصل خواتین کو امداد و نصرت کا وہ موقع فراہم کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ آخرت میں رضا الہی پاکر کامیاب و کامران ہوسکتی ہیں۔ یہی تو وہ چیز ہے کہ جب خواتین نے حضورؐ سے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! مرد تو اللہ کی راہ میں جہاد کر کے آخرت میں بڑے بڑے درجات پالیتے ہیں اور ہم گھروں میں ان کے بچے پالتی رہتی ہیں اور جہاد اور شہادت جیسی بڑی نیکی سے محروم رہتی ہیں؟ تو حضورؐنے انہیں اطمینان دلایا تھا کہ تمہارا جہاد تمہارے گھروں میں ہے۔ بلاشبہ ہر گھر کی چھوٹی سی ریاست کے تمام شعبوں کو چلانا اس کی آمد و صرف کو متوازن رکھنا، نئی نسل کی پیدائش، پرورش اور تربیت کر کے اسے قوم کے حوالے کرنا اور اس میں ان کے دین کے ابتدائی اسباق مستحکم طور پر پیوست کرنا، جہاد زندگانی میں مردوں کی پشت پناہی کرنا اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر ان کی ڈھارس بندھانا اور انہیں اپنا اور اپنے گھر والوں کا بوجھ کم سے کم محسوس ہونے دینا اور تسلی و تشفی کے الفاظ سے کش مکش حیات کے لیے تازہ دم کر دینا یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے جسے اگر خواتین حسن و خوبی سے انجام دیں تو وہ اپنے حسن عمل کا بہترین صلہ آخرت میں پائیں گی۔
مادیت کی اس مہیب دوڑ میں حلال ذرائع کی تھوڑی کمائی پر مطمئن رہنا، ساده زندگی کو بلا کسی احساس کمتری کے اختیار کرنا۔ دین داری میں اپنے سے بہتر کی طرف اور دنیا داری میں اپنے سے کمتر کی طرف دیکھنا، جھوٹے معیار زندگی، کھوکھلی عزت اور دنیوی وقار پر نہ ریجھنا، حلال رزق کے حصول کی جان لیوا کش مکش کے اندر شوہر کی جاں گسل جدوجہد میں اسے سہارا دینا اور حلال کی کمائی پر اپنے اطمینان کا عملی اظہار کرکے اپنے شوہر کو اطمینان دلانا یہ وہ ضروری صفات ہیں جن کی مدد سے مردوں کی پست ہوتی ہوئی ہمتیں بھی بلند ہوجاتی ہیں اور ان کے سست پڑتے ہوئے قدم بھی تیز تر ہو جاتے ہیں اور یہی وہ طرز عمل ہے جس کے سبب باطل کے خلاف حق کے جہاد میں عورتوں کا کثیر حصہ رکھا گیا ہے ۔
اصلاح کا گھریلو پروگرام
پھر اس عظیم جہاد کے درجات بھی عورتوں کے لیے بلند سے بلند تر ہوجاتے ہیں۔ جب وہ اصلاح کے کام میں اپنے ان فرائض کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دائرہ اثر میں مزید کام کرتی ہیں اور ان دائرہ کار مزید پھیلا دیتی ہیں۔ کتنے ہی گھر ہیں جہاں دین داری عورتوں میں مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہے اور وہ اپنی دینداری کا پر تو اپنے حسن کردار اور پرحکمت پیہم اور مدہم طرز عمل سے گھر کے مردوں پر بھی ڈال سکتی ہیں۔ اس لیے کہ عورتوں کو قدرت نے مردوں پر اثر انداز ہونے کی زبردست قوت عطا فرمائی ہے۔ اس قوت کو اگر وہ بروئے کار لائیں اور بگاڑ کے بہتے دریا میں خود بھی بہنے نہ لگیں بلکہ اپنی قوت نفوذ سے مردوں کو بھی بگاڑ کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کریں تو جتنی آسانی سے وہ یہ کام کرسکتی ہیں شاید باہر سے کسی اصلاحی تحریک کا کارکن ان پر اتنے آسانی سے اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ بڑے سے بڑا بگڑا ہوا مرد بھی اپنے گھر کے اندر بگاڑ پسند نہیں کرتا، بلکہ حسن عمل کی فضا کو پسند کرتا ہے۔ اس پسندیدگی کے جذبے سے فائدہ اٹھا کر وہ گھر کی فضا کو دین داری، خدا خوفی نیکی اور بھلائی کےاثرات سے بھر سکتی ہیں جس میں مرد مزاحم نہ ہوں گے اور پھر اس فضا میں انہیں متاثر کر کے وہ انہیں اصلاح کے کام میں لگا سکتی ہیں۔ پھر اس سے مزید آگے عزیزوں اور ہمسایوں کا ایک قریب ترین دائرہ ہے جس میں وہ اپنے اثرات کو پھیلا سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرہ کی عورتوں میں دین داری کے جذبات کے باوجود ناخواندگی عام ہے۔ اصلاح پسند خواتین ہمسایہ کی خواتین کو ناظرہ قرآن پڑھانے، دین کی اچھی اچھی باتیں بتانے کے ذریعے اور ہمسائے کے بچوں کو معمولی تعلیمی مدد دے کر ان پر اپنے اصلاحی پروگرام کے اثرات ڈال سکتی ہیں اور بتدریج محلہ کی خواتین میں چغلی اور غیبت کے ماحول کو دینی تعلیم کے ماحول میں بدل سکتی ہیں ۔
محلہ میں دائرہ اصلاح
پھر اس کے آگے محلے کی خواتین میں دین کا اجتماعی شعور پیدا کرنے کی جدو جہد ہے جو ہفتہ وار درس قرآن و حدیث کی مدد سے کسی مقررہ مقام پر خواتین کو جمع کر کے انجام دیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک پہنچ کر ایک خاتون دینی کام کی جدوجہد میں اپنی انتہا تک پہنچ جاتی ہے اور ایسا ایک اجتماعی اصلاح کا دائرہ محلہ میں قائم کر کے وہ ہمہ پہلو اصلاح کا ایک بہترین محاذ قائم کر سکتی ہے۔ ایسے اجتماعات کے بے شمار فوائد ہیں، اگر انہیں باقاعدگی سے منعقد کیا جائے اور دیگر اصلاح پسند خواتین کا تعاون اور امداد بھی حاصل ہو جائے تو اس کی مدد سے دوسرے گھروں اور افراد تک اصلاح احوال کا دائرہ پھیل جاتا ہے۔ ہفتہ میں ایک دو بار ڈیڑھ دو گھنٹے اصلاح پسند خواتین کا یکجا بیٹھنا کچھ دشوار بھی نہیں ہے، اور اگر مستقل مزاجی سے ایسے کسی حلقہ درس قرآن کو نبھایا جائے تو بات بتدریج چلتی ہوئی اور گھر گھر پہنچتی ہوئی بہت سی دین دار خوایتن کو اس دائرہ میں سمیٹ لاتی ہے۔
دینی اجتماعات کے فوائد
1۔ ایسے اجتماعات کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ نیک کام کے لیے جمع ہونے اور سوچنے کی عادت پڑتی ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان میں دین کا فہم پیدا ہوتا ہے جس میں مسلسل اور پیہم وسعت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ کسی تفسیر کی مدد سے چند آیات قرآنی کا ترجمہ اور تشریح اور چند احادیث کا ترجمہ ہر بار اجتماع میں شرکت کرنے والی خواتین کو دین کی بہت سی باتیں ذہن نشین کرا دیتا ہے جس سے ان کے طرز عمل اور روز مرہ کی زندگی پر محسوس اثرات نمودار ہوتے ہیں۔
2۔ ان کا مزید فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اصلاح اخلاق اور تبلیغ دین کے مختلف طریقے سیکھنے سمجھنے اور استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے جس سے انسان میں دین کی حس موجود رہتی ہے اور شعور پیدا ہوتا ہے۔اس طرح آدمی باطل کا بندہ بننے کی بجائے خدا کا بندہ بن کر دین کے لیے اپنی قوتوں کو صرف کرنے کا جذبہ اور احساس باربار حاصل کرتا رہتا ہے۔
3۔ ایسے اجتماعات کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ان کی مدد سے دائرہ اصلاح کو ہمہ پہلو پھیلایا جا سکتا ہے۔ جو خواتین درس دینے کی صلاحیت رکھتی ہوں ان سے کام لیا جائے تو ان کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو مطالعہ اچھا کرتی ہوں ان سے دینی کتب کے مطالعہ کا کام اور جو لکھ پڑھ سکتی ہوں، انہیں خواتین کے مسائل پر لکھنے پڑھنے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے اور خواتین میں جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، ان کے خلاف قلمی جہاد کا کام لیا جا سکتا ہے۔ دیگر خواتین سے ملاقاتیں کر کے انہیں اس کام پر مائل کرنے کے لیے بھی ان اجتماعات میں پروگرام بنائے جا سکتے ہیں۔
4۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بگڑے ہوئے ماحول میں اولادوں کا بگاڑ جو وبا کی طرح پھوٹ پڑا ہے اور جس دردناک صورت حال اور پیچیدہ مسئلہ سے ہر گھر میں والدین دو چار ہیں۔ اس مسئلہ پر اجتماعی ماحول میں سوچنے سمجھنے اور اصلاح احوال کی تدابیر اختیار کرنے کا موقع ملتا ہے اور ایک دوسرے کے عملی تجربات اور نتائج سے فائدہ اٹھانے کی تربیت ہوتی ہے۔ اس طرح خواتین اپنے گھر میں تربیت اطفال کے نئے نئے تجربات کرکے اور نئی نئی تدابیر اختیار کرکے بہتر نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری شائستہ فہم اور دین دار خواتین کا عملی تعاون بھی اس کام میں حاصل ہوتا ہے جس سے تربیت اور اصلاح کے عمل میں کئی گنا قوت پیدا ہو جاتی ہے۔
5۔ ایسے اجتماعات کا ایک فائدہ بھی ہوتا ہے کہ اس دور میں انسان آلام و مسائل کے ہاتھوں جس درندگی کا شکار ہے اس میں دوسرے ہمدرد انسانوں کے مشورے بھی مل جاتے ہیں اور ہمدرد معاونین کی موجودگی سے ہمت بھی بڑھ جاتی ہے اور دکھ سکھ کے بیان اور اظہار سے ان کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے اجتماعات کی مدد سے داخلی طور پر بہت سے شریف اور دین دار گھرانوں سے روابط کے مواقع پیدا ہوتے ہیں جو انفرادی دکھ سکھ میں مشورے اور شرکت سے ان کا بوجھ کم کر دیتے ہیں اور خارجی طور پر ایسے گھرانوں میں تعاون ہونے سے مردوں میں بھی ایک دوسرے سے میل ملاقات کے مواقع پیدا ہوتے ہیں جس سے بھری آبادیوں میں خود غرضی کے اس اجنبیت زدہ ماحول میں اپنائیت کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے جو بہت سی معاشرتی تسلیوں اور سہولتوں کا باعث بن جاتا ہے۔
اجتماعی فتنوں سے اجتناب
البتہ ایسے اجتماعات کے بے شمار فوائد کے باوجود بعض فتنے اور اندیشے بھی ان سے وابستہ ہوتے ہیں، جن سے بچنے کے عملی اقدامات کا اہتمام کیے بغیر نقصان اٹھانے، غلط فہمیاں پیدا ہونے اور دلوں کے ٹوٹنے اور دوریاں پیدا ہونے کے خدشات بھی موجود ہوتے ہیں۔ ایسے فتنوں سے آگاہی ضروری ہے اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کا اہتمام بھی ضروری ہے۔
1۔ خواتین کے اجتماعات کا سب سے بڑا فتنہ چغلی اور غیبت کی دخل اندازی ہے۔ اگر یہ بلا کہیں گھس آئے تو دین داری اور خدا ترسی کی ساری فضا مسموم ہو کر رہ جاتی ہے اور دلوں کے توڑ پھوڑ کا عمل پوری سرعت اور قوت سے شروع ہوجاتا ہے۔ قرآن نے چغلی اور غیبت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ حضور اکرمؐ نے اسے ایک ایسا زہر قرار دیا ہے جو سات سمندروں کے پانی کو زہریلا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ خدا ترسی اور نیکی کی سرسبز فصل کو جڑ سے تراش دینے والی در انتی ہے اور اجتماع کو انتشار میں اور اتفاق کو بغض و حسد میں تبدیل کردینے والی زبردست قوت اس فعل قبیح یہاں موجود ہے۔ سمجھ دار خواتین کا کام ہے کہ اپنے اجتماعی ماحول کو اس فتنے سے پاک رکھنے کا پورا پورا اہتمام کریں۔
2۔ دوسرا فتنہ باہمی رشک و حسد اور ایک دوسرے کی نقل اور فیشن کا مقابلہ ہے۔ اس کے ذریعہ بھی اجتماع کا ماحول بتدریج زہریلا ہو جاتا ہے اور دوسری خواتین کی نقل سے گھریلو کشمکش نمودار ہو جاتی ہے۔ مردوں کے لیے اس سے بڑا بوجھ اور کوئی نہیں ہوتا کہ ان کے گھر کی خواتین کی طرف سے مادی مطالبات میں اس لیے اضافہ ہو جائے کہ وہ کسی اجتماع سے رشک کے جراثیم لے کر آئی ہوں۔ وہ خود بخود ایسے اجتماعات کے مخالف ہو جاتے ہیں، جہاں ان کے گھریلو اطمینان میں کمی آئے اور بلا لحاظ مالی حالت ان سے مادی مطالبات کا اضافہ ہونے لگے۔
3۔ ایسے اجتماعات کا تیسرا فتنہ بے جا تنقید اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر شدت اور گرفت ہے۔ بگڑے ہوئے ماحول میں سے اگر کچھ خواتین دینی جذبہ کی مدد سے کھینچ کر یکجا ہوتی ہیں تو ان میں ماحول کے بگاڑ کے غیر شعوری اثرات تو ظاہر ہے کہ ابتدائی طور پر ضرور کچھ نہ کچھ پہلے سے موجود ہوں گے۔ اگر اصلاح کے لیے کوشاں خواتین خوردہ گیری اور تنگ دلی سے کام لے کر اصلاح عمل میں شدت اختیار کریں گی اور ہر ایک کو اپنے ہی حاصل کردہ معیار پر رکھیں گی اور چاہیں گی کہ ہر خاتون فی الفور اس معیار پر پوری اترے تو اس کا نتیجہ بغض و عناد کی صورت میں رونما ہوگا اور اصلاح کی رفتار کو تیز کرنے کا شوق موجودہ مدھم رفتار کو بھی ختم کر دے گا اور بتدریج دائرہ اصلاح سمٹتا چلا جائے گا۔ اس سلسلے میں لباس سب سے زیادہ اور سب سے پہلے زیر بحث آنے والا مسئلہ ہے۔ بلاشبہ بگڑے ہوئے ماحول نے لباس میں ستر کے حدود کا احترام بہت حد تک کم کر دیا ہے۔
باریک اور موٹے دوپٹوں کی بحث، پوری اور چھوٹی آستین کا جھگڑا، شلوار کی تنگ اور کھلی مہری کا مسئلہ، ڈھیلی اور تنگ قمیصوں کا قصہ یہ ساری باتیں ایک تدریج اور حکمت ہی سے حل ہو سکتی ہیں اور اس کے لیے نصیحت اور اصلاح کا طریقہ کی دوسروں کی عزت نفس، فہم دین اور اہتمام دین کے جذبہ کے مطابق اختیار کیا جانا چاہیے۔ جہاں شدت آئے گی وہاں ردعمل آئے گا۔ یہاں تنقید آئے گی وہاں شیطان کو عزت نفس اور پندار کا مسئلہ کھڑا کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ ایسا طرز عمل بہر حال اختیار نہیں کیا جانا چاہیے کہ اصلاح تو نہ کر سکیں البتہ دوسرے کے شیطان کو بھڑکا کر اسے اصلاح کے دائرے سے دور لے جانے کا باعث بن جائیں۔ یہی معاملہ اچھے اور برے سادہ اور قیمتی لباس اور زیورات کی کمی بیشی میں بھی پیش آسکتا ہے۔ بالکل ابتدائی شرکت کرنے والی خواتین میں نمائش لباس و زیورات کا جذبہ بھی ہوسکتا ہے لیکن اسے خوب صورتی سے نظر انداز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایسی کسی چیز پر کوئی ردعمل بھی ظاہر نہ کیا جائے اور کسی قسم کی ناپسندیدگی یا پسندیدگی نمایاں نہ ہونے پائے تو وہ نمائش کا جذبہ بتدریج خاموشی سے سرد پڑجاتا ہے۔ اس سے پریشان ہونا بھی غلط ہے اور اسے نمونہ بنا کر خود اس کا شکار ہونا اور اپنے مردوں کو دوسروں کا نمونہ بتا بتا کر انہیں زچ کرنا بھی مہلک ہے، جس سے پرہیز از حد ضروری ہے۔
اسی طرح ایسے اجتماعات میں ہرقسم کے گھرانوں سے خواتین آتی ہیں بلکہ بیشتر غریب گھرانوں کی خواتین ہی ان سے دلچسپی لینے میں اولیت کا مقام حاصل کرتی ہیں۔ حکمت دین کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ خواتین میں غربت و امارت کا کوئی امتیاز محسوس نہ ہونے پائے۔ نشست و برخاست میں، نہ بات چیت میں، نہ طرز عمل اور سلوک میں، اور نہ ہی مہمان داری اور باہمی تعلقات میں، اس لیے کہ اس مادی دور میں قناعت و توکل کی دولت بڑی چیز ہے، لیکن وہ دینی فہم کی گہرائی کے ساتھ ساتھ ہی حاصل ہوتی ہے۔ ورنہ معیار زندگی کی اندھی دوڑ میں غرباء میں احساس غربت اس شدت سے ہوتا ہے کہ آبگینہ ٹھیس کھانے کے لیے بس ہر وقت تیار ہی رہتا ہے اور معمولی طرز عمل کا فرق اشارہ کنایہ اور چھوٹی سی بات تک ان کے احساس عزت نفس کو مجروح کرنے کے لیے کافی ہوجاتی ہے جس سے اجتماع کے مقصد کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ اس لیے مساوی طرز عمل اور یکساں برتاؤ کا اہتمام کرنا، ان خواتین کا بہت بڑا فریضہ ہے جو ایسے اجتماعات کے اہتمام میں پیش پیش ہوں۔ چھوٹے سے چھوٹا امتیازی سلوک بھی ساری فضا مسموم کرکے انہیں دور کرنے کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ چائے، پانی، شربت، بات چیت، پروگرام میں حصہ، مشورے، نشست و برخاست طرز گفتگو۔ غرض کوئی بات بھی ایسی امتیازی نہ ہونے پائے کہ جس سے کوئی خاتون اسے اپنی غربت کا سب قرار دے کر دل توڑ بیٹھے۔ اس فتنے سے بچنے کے لیے ایسی خواتین کو خصوصی اہتمام سے سلوک کی مساوات کا اطمینان دلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
خواتین کا مقام بلند
حقیقت یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کے کام میں باشعور و دین دارخواتین بہت عمدگی سے اپنا حصہ ادا کرسکتی ہیں بلکہ معاشرے میں نمودار ہونے والے مختلف غلط رجحانات تو ایسے ہوتے ہیں جنہیں خواتین اول قدم پر ہی اپنی انفرادی کوششوں سے گھروں کے اندر روکنے کا سب سے زیادہ اور موثر کام کر سکتی ہیں۔ شوہروں کے لیے ذہنی و جسمانی سکون کے ساتھ روحانی تسکین کا بھی سامان ہم پہنچا سکتی ہیں جس سے کوئی مرد بھی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اولادوں کو دین داری کا اولین سبق اپنے قول و عمل سے دے کر ان میں دین کی بنیادیں مستحکم کرسکتی ہیں۔ گھروں میں قناعت توکل، سکون، امن کی فضا پیدا کرکے مردوں کی قوت کار میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
کم آمدنیوں کو اپنے سلیقے اور محنت سے استعمال کرکے عزت و آبرو اور خود داری سے رہنے کا سامان مہیا کرسکتی ہیں۔ اپنے تعاون، رفاقت اور ہمت افزائی سے مردوں کو دینی اور دنیوی ترقی کے دروازے تک پہنچا سکتی ہیں۔ اپنے کردار کی قوت سے اپنے ہمسایوں اور عزیزوں میں اپنا عمدہ نمونہ دے کر کتنے ہی گھروں میں اصلاح احوال کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ دینی اجتماعات، اپنے اخلاق کی عمدگی، شائستگی، تواضع، ادب و احترام اور حسن خلق سے کتنے ہی دلوں میں دین داری کا شوق پیدا کر سکتی ہیں۔ ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک کے ذریعے ہمسایوں کی روایتی چشمک کو ختم کرکے اپنے آس پاس ایک ہمددرد، مہذب، دین دار اور معاون ماحول پیدا کر سکتی ہیں اور دین کے لیے ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کر کے ان مجاہدات میں شامل ہو سکتی ہیں جن کے لیے حضور اکرمؐ نے ان کے گھروں کو ہی میدان جہاد قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی ہی وہ مائیں ہوتی ہیں جن کی رضا مندی اور خدمت کو باپوں کے مقابلہ میں بھی تین تین بار فضیلت اور فوقیت کا درجہ دیا گیا ہے اور ایسی ہی ماؤں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے۔ ایک مسلمان خاتون کے لیے ایک قابل فخر بلند مقام ہے جو اس کے لیے دین نے اسے دیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ بلند مقامات کے حصول کے لیے پیہم جدوجہد مسلسل محنت ایثار و قربانی اور نفس کشی وہ شرائط ہیں جو کبھی نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔
(کتاب ’عورت اور اسلامی انقلاب‘ سے ماخوذ)
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اگست تا 26 اگست 2023