ابو فہد
محلوں کی سطح پر مختلف صلاحیتوں کے افراد اور اداروں کو باہم دگر الجھے بغیر منظم طریقے سے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے
آج دنیا میں جو سیاسی ومعاشرتی نظام رائج ہے اس میں اوپر سے نیچے تک بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ اور طرفہ یہ ہے کہ اس نظام کی اصلاح کی کوششیں بھی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں، بعض مذہبی افراد خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اصلاح کی غرض سے چند دو چند منتشر باتیں کہتے ہوئے اور چھوٹی موٹی کاوشیں کرتے ہوئے ضرور نظر آتے ہیں اور وقتاً فوقتاً چیختے بولتے سنے جاتے ہیں، اسی طرح بعض جدید تعلیم یافتہ حضرات بھی بعض اوقات بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور دل کو موہ لینے والی گفتگو فرماتے ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ خود ان کے پاس بھی کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے، یا شاید وہ خود نہیں چاہتے کہ معاشرے میں سیاسی ومعاشی اور معاشرتی اصلاحات کی جائیں کیونکہ وہ خود بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور خود بھی اسی فساد زدہ معاشرے اور بگڑے ہوئے سسٹم سے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس میں ہمہ شمہ سب برابر ہیں، کسی کو دوش دینا بھی ٹھیک نہیں لگتا اور کسی کو نامزد کرنا بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
اور یہ پھر بھی بہت زیادہ تعجب خیز بات نہیں ہے کیوں کہ دنیا میں پائے جانے والے سبھی مذاہب میں اور سبھی طرح کے نظامہائے سیاست ومعیشت میں مادیت اپنے پورے اثرات اور صفات کے ساتھ سرایت کر گئی ہے۔ مادیت جو روحانیت کی ضد ہے اور جو انسان کی سوچ کا دائرہ بہت تنگ کر دیتی ہے،ایک مادہ پرست انسان کو اپنے آپ اور اپنے کنبے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ مادہ پرست انسان کے مزاج اور نفسیات کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ اگر اسے ایک سونے کی وادی دے دی جائے پھر بھی اس کی خواہش یہی ہوگی کہ کاش اسے ایک اور سونے کی وادی مل جاتی۔ مادہ پرست انسان کا پیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ یعنی صرف موت ہی اس کی خواہشات کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ اس لیے یہ کوئی زیادہ تعجب خیز بات بھی نہیں ہے، البتہ زیادہ تعجب خیز بات اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ اسی دنیا میں مسلم قوم بھی رہتی ہے اور قابل قدر تعداد میں رہتی ہے، اسباب بھی اس کے پاس مہیا ہیں اور اس کے پاس ایک ناقابل تسخیر کتاب یعنی کلام اللہ بھی موجود ہے اور پھر اس کے پاس رسولؐ اور اصحاب رسول کا اسوہ اور نمونہ بھی موجود ہے اور اپنی تمام تر آب وتاب کے ساتھ موجود ہے پھر بھی وہ اسی بگڑے ہوئے اور فساد زدہ نظام کے ساتھ پہلو پہلو چل رہی ہے!
بے شک کچھ مجبوریاں بھی ہیں اور کچھ حالات کے تقاضے بھی ہیں اور کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو ناگزیر ہیں اور رائج نظام کے پہلو بہ پہلو چلنے پر مجبور کرتی ہیں، پھر بھی اس کے پاس جو روحانی و اخلاقی نظام ہے وہ اس کے مطابق زندگی گزارنے کا اگر تہیہ کرلے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ایسا نہ کر سکے۔ نظام تو پیغمبروں کے لیے بھی ایسا ہی فساد زدہ تھا، بلکہ پیغمبروں کی بعثت ہی اکثرو بیشتر ایسے میں سماج میں ہوئی جس میں زیادہ بگاڑ تھا اور جس کا سارا سماجی نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ کم از کم روحانی و وحدانی نظام تو پوری طرح تباہ ہو چکا تھا۔ مگر اللہ کے ان برگزیدہ بندوں یعنی پیغمبروں نے پورے سسٹم کو بدل کر رکھ دیا اور وہ بھی وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود اور مقابل میں کھڑی ہوئی کفر کی بظاہر نا قابل تسخیر طاقت کے باوجود۔ اگرچہ ایسا بھی ہوا کہ بعض پیغمبروں نے صدیوں تک اپنے معاشرے پر محنت کی مگر بہت زیادہ تبدیلی نہیں ہوسکی۔
اس معاملے میں پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کا اسوہ ہم سب کے سامنے ہے، آپ نے کیسے ناگفتہ بہ حالات میں کام کا آغاز کیا اور محض بائیس تیئیس سال کی مختصر سی مدت میں سارے نظام کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔آپ نے نہ صرف یہ کہ کفر وشرک کے نظام کو ختم کر دیا بلکہ اس کی جگہ پر ایک نیا نظام بھی متعارف کرایا بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں عربوں کو ان کے اسی دین براہیمی پر لاکر کھڑا کیا جسے انہوں نے بھلا دیا تھا اور کفر وشرک کے گڑھے میں گردن گردن ڈوب گئے تھے۔ بے شک آج کے حالات میں ہم جیسے لاچاروں کے پاس اتنی ہمت اور حوصلہ تو نہیں ہیں اور اس طرح کی غیبی تائید تو حاصل نہیں ہے جس طرح کی تائیدِ غیبی رسولؐ واصحاب رسول کو حاصل رہی لیکن اسوہ بھی تو انہی کا ہے اور اسی اسوے کی پیروی کرنے کے لیے ہمیں مامور کیا گیا ہے۔ اس اسوے میں صبر بھی ہے اور اقدام بھی ہے، جنگیں بھی ہیں اور صلح بھی ہے، حکمت اور معافی بھی ہے اور سزا اور انتقام بھی ہے۔تدریج بھی اور عجلت و شتابی بھی ہے۔عجلت کی بات تو یہ ہے کہ صرف بائیس تیئیس سال کی مختصر مدت میں صالح انقلاب برپا ہوگیا، صلح، صبر اور امن کی مثال یہ ہے کہ نبی ﷺ نے حدیبیہ میں صلح کی اور وہ بھی بہت دب کر کی اور اگلے دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔ حکمت ومعافی کی مثال یہ ہے کہ فتح مکہ کے وقت جب آپ نے اپنے پرانے دشمنوں پر قابو پا لیا تو بجائے انتقام لینے کے عام معافی کا اعلان فرما دیا: لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ یہ وہی الفاظ تھے جو فتح مکہ سے سیکڑوں سال پہلے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہے تھے۔ یہ وضاحت اس لیے کی گئی تاکہ نظر صرف اس پر نہ رہے کہ نبی ﷺ نے جنگیں لڑیں اور اقتدار قائم کر دیا بلکہ آپ کی حکمت و مصلحت، علم وحلم اور عفو و درگزر پر بھی نظر رہے۔
قرآن میں ہے: لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الأحزاب: ٢١) اب قیامت تک کے لیے ہر زمانے میں اور ہر خطہ زمین میں بسنے والے انسانوں کے لیے یہی اسوہ ہے۔ اب ہم کو رسولؐ واصحاب رسول کا ہی اسوہ اپنانا ہے۔ بات خواہ جو بھی اور کام خواہ کچھ بھی ہو۔ اور اس آیت کی تلاوت کرتے وقت یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یہ آیت جنگ کے پس منظر میں آئی ہے لہٰذا یہ سوچ کر خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ ہم تو اپنے شادی کارڈ پر ‘النکاح من سنتی’ لکھواتے ہیں، بسم اللہ پڑھ کر ہر کام کا آغاز کرتے ہیں اور گفتگو میں سبحان اللہ و ماشاء اللہ کہتے ہیں۔اگر ہم میں سے کسی کو یہ غرّہ ہے تو اس کے لیے آیت کا پس منظر جان لینا ضروری ہے۔
اور جہاں تک دنیا اور دنیا کے جھمیلوں اور ذاتی الجھنوں کی بات ہے اور غیروں کی مخالفتوں کی بات ہے تو کام کرنے والوں کی راہ میں دنیا کل بھی مزاحم تھی، آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ اب مزاحمت سے گھبرا کر اپنے فرض منصبی سے غافل ہو جانا تو دانش مندی نہیں ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم دیکھیں کہ اپنے قول و عمل میں، سرگرمیوں اور جد وجہد میں اور اپنے بیانیوں میں لوگوں کی نفسیات، ان کی افتاد طبع، زمانے کے مزاج کا اور موجودہ صورت حال کا کہاں تک لحاظ رکھ پارہے ہیں۔ہم اپنے قول وفعل سے کسی بھی صورت میں لوگوں کو طیش میں لانے اور غصہ دلانے والے نہ بنیں۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کام کیسے اور کہاں سے کرنا ہے تو مخالفت، مزاحمت اور کانٹوں سے بھری دنیا میں کام کا آغاز بے شک وہیں سے کرنا ہے جہاں سے اس کی گنجائش نکلتی ہے۔ مزاحمتوں کو درکنار کرتے ہوئے، مخالفتوں سے بچتے بچاتے ہوئے اور کانٹوں سے دامن سمیٹتے ہوئے کام کا آغاز کرنا ہو گا۔ اگر یہ سب نہیں ہو گا تو کام آگے نہیں بڑھ پائے گا خواہ صلاحیتیں کیسی بھی ہوں اور خواہ تیاریاں جیسی بھی ہوں اور اسباب و وسائل کتنے بھی مہیا ہوں۔
جو حضرات رات دن اسی کام میں ہیں، مضامین پڑھ رہے ہیں، تقریریں کر رہے ہیں اور سن رہے ہیں، میٹنگوں میں اور جلسہ و جلوس میں شرکت کا بھی معمول بنا رکھا ہے، شعری نشستوں میں بھی ٹھاکے لگا لیتے ہیں، جو عالِم ہیں، پروفیسر ہیں، لیکچرر ہیں اساتذہ ہیں۔ اسی طرح جو لوگ جماعتوں اور تنظیموں سے وابستہ ہیں یا ان کی چھوٹی بڑی سیاسی وابستگیاں ہیں، میونسپلٹی کے کام کاج کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، الیکشن لڑتے ہیں اور لڑاتے ہیں وہ شاید یہی سوچتے ہوں گے کہ کام تو ہو رہا ہے، دوڑ دھوپ تو رہی ہے،چاہے جیسی بھی ہو رہی ہے لیکن ہو تو رہی ہے پھر بھی حالات قابو میں نہیں آ رہے ہیں، معاشرہ سدھار پر آمادہ نہیں ہے تو کیا کیا جائے؟ لیکن اگر وہ ان لوگوں کے آنکھیں اور کان مستعار لے کر دیکھیں اور سنیں جو جاب میں ہیں، دکانوں میں ہیں اور دوسرے چھوٹے بڑے کاروبار میں الجھے ہوئے ہیں، جو اسکول اور مدرسہ نہیں گئے، اگر گئے بھی تو درمیان میں ہی چھوڑ کر گھر بیٹھ رہے، تو انہیں اندازہ ہوگا کہ یہاں تو ہر چیز مردہ پڑی ہوئی ہے، ایک سوکھے پتے سے لے کر ہرے بھرے درخت تک اور کرتے اور شرٹ کے کالر اور بٹن سے لے کر سوٹ اور چندری کی گوٹا کناری تک ہر چیز سراپا سوال بنی ہوئی ہے اور زبان حال سے کہہ رہی ہے:
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب
ایک آبلہ پا وادیِ پرخار میں آوے
دوسرا سوال یہ ہے کہ پھر اس کا حل کیا ہے؟ تو حل یہی ہے کہ ہر گلی ہر محلے میں اچھے ادارے ہوں جو مختلف میدانوں میں مختلف طریق کار کے ساتھ کام کریں، ایسے لوگ ہوں جو اس کام کے لیے اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں لگائیں۔ صرف کہنے اور سننے سے تو زیادہ بات نہیں بننے والی ہے۔ اگر محلہ واری سطح پر چھوٹی بڑی کمیٹیاں قائم ہو جائیں جو اپنے معاشرے پر نظر رکھیں اور جیسا بھی ہو سکے اچھائیوں کے فروغ میں اور برائیوں کے سدباب میں لگے رہیں تو بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ بے شک کچھ کام ایسے ہوں گے جنہیں خودکرنا مناسب رہے گا اور کچھ کام ایسے بھی ہوں گے جن کے لیے دوسروں کو اور ایڈمنسٹریشن کو متوجہ کرنا ہوگا۔ جو بھی ہو اور جیسے بھی ہو کام تو ہر حال میں اہل محلہ کو ہی کرنا ہوگا۔ ہر محلے میں کئی کئی کمیٹیاں ہو اور ہر کمیٹی باہم دگر منسلک ہو، اگر ان کمیٹیوں کا، مساجد کا اور اداروں کا باہم دگر تال میل نہیں ہوگا اور کام اور میدان اس طرح متعین نہیں کیے جائیں گے کہ ضرورت کے سارے کام ان اداروں، مساجد اور کمیٹیوں پر تقسیم ہو جائیں تب تک بات نہیں بننے والی ہے۔ اور نہ ہی اس روش سے کوئی بات بننے والی ہے کہ میں اپنی راہ اور تو اپنی راہ، میں اپنے کام میں اور تو اپنے کام میں۔
بے شک یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج ہمارے پاس ادارے بھی ہیں، مدارس بھی ہیں اور اسکول و کالجیز بھی ہیں، تنظیمیں بھی ہیں اور جماعتیں بھی ہیں، اور کسی نہ کسی درجے میں مختلف صلاحیتیں رکھنے والے علماء اور دانشور بھی ہیں، قوم و ملت کے لیے کام کرنے والے اور ملی مسائل میں دل چسپی رکھنے والے بھی ہیں، اگرچہ یہ سب بھی مطلوب تعداد میں نہیں ہیں مگر جتنے بھی ہیں اور جیسے بھی ہیں، ہیں تو ضرور، اور اس کے باوجود اگر حالات قابو میں نہیں ہیں، معاشرہ قابو میں نہیں ہیں تو اس کا یہی مطلب ہے کہ یہ ادارے، جماعتیں اور افراد باہم دگر منسلک نہیں ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں قیل وقال بہت زیادہ ہے، اختلافات زیادہ ہیں، تنقیدیں بہت ہیں، تنقید اور تحقیر تو ایسی چیز ہے کہ ہمارے یہاں اسی سے کام کا آغاز کیا جاتا ہے، حرف اول بھی وہی ہے اور حرف آخر بھی وہی۔تنقید کرنا بھی غلط نہیں ہے لیکن تنقید کرنے کے لیے استدلال ٹھوس ہونا چاہیے، نیت صاف ہونی چاہیے، لب ولہجہ نرم ہونا چاہیے اور سب سے بڑھ کر وقت کی نزاکتوں کا خیال رکھا جانا چاہیے۔
جس طرح ایک انسان کے علاج کے لیے دس طرح کے ڈاکٹر ہوتے ہیں، کوئی دل کا ڈاکٹر ہے اور کوئی جلد کا، کوئی دماغ کا اسپیسلشٹ ہے اور کوئی دانتوں کا ماہر۔ اور ان کا باہم دگر تال میل ہوتا ہے، اپنے اپنے فیلڈ میں سب مہارت رکھتے ہیں لیکن وہ دوسرے ماہرین کی رائے اور مدد کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جس طرح ایک جسم کے لیے دس طرح کی مختلف صلاحیتوں والے دَسیوں ڈاکٹر ہوتے ہیں اسی طرح ہمارا سماج بھی ایک جسم کی مانند ہے بلکہ یوں کہیں کہ ایک بیمار جسم کی مانند ہے اور اس کی اصلاح کے لیے دسیوں بلکہ سیکڑوں مختلف اور اعلیٰ صلاحیتوں والے ڈاکٹروں، علماؤں، پروفیسروں اور انجینئروں کی ضرورت ہے اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ان کے درمیان باہم دگر تال میل اور درکار تعاون و تعامل کی ضرورت ہے، تب کہیں جاکر ہم اپنے معاشرے کو کسی حد تک سدھار سکتے ہیں اور اپنے نظام اور سسٹم کو درست کر سکتے ہیں۔
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
(ابو المجاہد زاہد)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 جنوری تا 11 جنوری 2024