معاش نبوی کا تحقیقی جائزہ

رسول اللہﷺ کی معیشت اعتدال کے جادہ قرآنی پر مبنی تھی

سہیل بشیر کار؛ بارہمولہ

مشہور محقق پروفیسر یاسین مظہر صدیقی کی180 صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب معاش نبوی ﷺسیرت کے ایک اہم گوشے کا مطالعہ ہے۔ رسول رحمت ﷺکے ذرائع آمدن پر بہت ہی کم لکھا گیا ہے۔اس لحاظ سے اردو میں یہ اولین تحقیق شمار کی جاسکتی ہے، کتاب کو مقدمہ کے علاوہ تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پروفیسر صدیقی قدیم اور جدید علوم پر دسترس رکھتے تھے۔آپ نے قرآن و حدیث، فقہ و تاریخ اور دوسرے موضوعات پر علمی تحریریں لکھیں لیکن آپ کا اصل میدان سیرت رسول ﷺتھا۔
کتاب کا پیش لفظ عصر حاضر کے فقیہ مولانا رضی الاسلام ندوی نے لکھا ہے۔ اپنے پیش لفظ میں وہ مال و دولت کے بارے میں مسلمانوں کے دو نقطہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں لیکن مولانا اس نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں جس کے مطابق کسی کا مال دار ہونا معیوب نہیں بلکہ مال کو انسان کی ضرورت قرار دیا گیا ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ بندہ جائز ذرائع سے مال کمائے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرے، کتاب کے پیش لفظ میں مولانا رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں: ’’اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ آپ نے فقر اور تنگی کی زندگی گزاری۔ سیرت نگاروں نے عموماً آپ کی حیات طیبہ کے اسی پہلو کو ابھار کر پیش کیا ہے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ آپ کا فقر اختیاری تھا۔ آپ کی زندگی میں ہمیشہ فقر اور معاشی تنگی نہیں رہتی تھی، بلکہ اس میں خوش حالی، فارغ البالی اور کشادگی کے ایام بھی آتے تھے۔ زیر نظر کتاب سے ان شاء اللہ سیرت نبوی ﷺکے بعض ایسے پہلو اجاگر ہوں گے جوسیرت کی عام کتابوں میں مذکور نہیں ہیں۔ ‘‘(صفحہ 11)
مقدمہ میں کتاب کے بارے میں مصنف کہتے ہیں کہ زیر بحث مطالعہ میں قریب قریب سارا مواد حدیث شریف کی صحیح اور معتبر و مستند کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے۔ کتب سیرت سے بہت کم مواد لیا گیا ہے۔
کتاب کا پہلا باب ’معاش نبوی مکی عہد میں‘ ہے جس کے تحت مصنف نے پہلے اس سوچ کی نفی کی ہے کہ آپکا معاشی بیک گراؤنڈ کمزور طبقہ سے تھا، مصنف نے ثابت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺکی مکی زندگی ابتدا سے افلاس و غربت کی شکار نہ تھی، آپ کو والد کے اثاثہ اور ترکہ نے آپ کی زندگی کے سفر کی ابتدا کو خوشگوار بنانے میں کافی اہم کردار ادا کیا تھا۔ پھر آپ کو بہت زیادہ پیار کرنے والے دادا اور والدہ ماجدہ کی محبت اور دولت کا سہارا تھا، مصنف لکھتے ہیں کہ آپ نے لڑکپن ہی سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی اور گلہ بانی کا نبوی پیشہ اختیار کیا جو مالی یافت کا سہارا تھا، جس سے آپ کو کئی تجربات سے نوازا گیا اور جب آپ سن شعور کو پہنچے تو آپ نے تجارت کا خاندانی اور قومی پیشہ اختیار کیا۔ آپ نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ جیسی دولت مند عورت سے جب شادی کی تو آپ ایک کامیاب تاجر تھے۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’آپ کی تجارت کا سلسلہ اور غنا حضرت خدیجہ کی دولت و تجارت کی محتاج اور اس پر مبنی نہ تھی بلکہ خود مختار و آزاد تھی البتہ آپ کی دولت و تجارت کو اس سے بہت فیض پہنچا تھا۔ "(صفحہ 51) مکی دور میں آپ مالی حیثیت سے بہت مضبوط تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے نکاح میں اچھا مہر ادا کیا، مکی دور میں آپ کے ماتحت غلام بھی تھے۔
کتاب کا دوسرا باب’ معیشت نبوی ﷺمدینہ منورہ میں ‘ رکھا گیا ہے جس میں مصنف نے پہلے یہ بتایا ہے کہ رسول رحمت ﷺنے جب ہجرت کی تو ان کا قیام پہلے 7 ماہ تک حضرت ابو ایوب انصاری کے ہاں تھاوہ دونوں میاں بیوی اس وقت تک لقمہ نہیں ڈالتے تھے جب تک آپ ﷺتناول نہ فرماتے، اس کے بعد مسجد نبوی میں آپ نے حجرے تعمیر کروائے۔ حجروں کی تعمیر کے بعد آپ نے اپنے اہل وعیال کو مدینہ بلایا، اس کے بعد بہت سے صحابہ کھانے پینے کی اشیاء رسول رحمت ﷺکو بھیجتے ، ساتھ ہی ساتھ بہت سے صحابہ کرام بھی آپ کو گھر پر دعوت دے کر بلاتے۔ اسی طرح آپ کچھ صحابہ کو لے کر دیگر صحابہ کرام کے گھروں میں زیارت کےلیےآتے تو میزبان آپ کو کھانا کھلاتے، ساتھ ہی شادی کی تقریبات میں بھی کھانے پلانے کا بھی اہتمام ہوتا تھا اس باب میں متعدد روایات سے مصنف نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ آپ کے گھر میں ایسا کھانا ہوتا جس سے آپ، آپ کے صحابہ اور ازواج مطہرات تناول فرماتے۔ ان روایات سے اس کی نفی ہوتی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ رسول رحمت ﷺکے گھر میں کھانا کبھی کبھار ہی بنتا تھا۔ مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو وفود رسول رحمت ﷺکے ہاں آتے؛ آپ ان کی ضیافت بھی کرتے تھے،مصنف نے بعض ایسی روایات بھی پیش کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول رحمت ﷺنے سامان زیست کبھی نقد خریدا اور کبھی ادھار، ساتھ ہی مصنف نے ان واقعات کو بھی بیان کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نبوی ولیمے بھی کیے۔ اسی طرح آپ اپنی اور اپنی ازواج کی طرف سے قربانی بھی کرتے تھے۔اسی طرح نبوی اخراجات و مصارف کا ایک ذریعہ ازواج مطہرات کا مال بھی تھا۔ مصنف لکھتے ہیں: ’اس مال نے بسا اوقات آپ کے لیے کافی آسانیاں فراہم کی تھیں یا کم از کم متعدد مواقع پر آپ کو مسرت و شادمانی اور طیب خاطر کی دولت سے لطف اندوز کیا تھا۔ "(صفحہ 88) مصنف نے اس باب میں ان روایات کو بھی جمع کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اور آپ کی ازواج مویشی بھی پالتے تھے، اور یہ آپ کے ذرائع آمدن میں تھے۔ اسی طرح مذکورہ باب میں مصنف نے تفصیل سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ کس طرح مال غنیمت رسول رحمت ﷺکے ذرائع آمدن میں ایک اہم آمدنی کا ذریعہ تھا۔ اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ مدنی معاشرہ میں رسول اکرم ﷺکو ملبوسات مسلم اور غیر مسلم افراد کی طرف سے ہدیہ میں بھی دیا جاتا تھا،ملبوسات پر جو روایات ملتی ہیں؛ ان سے بہت اہم گوشوں پر روشنی پڑتی ہے۔ اس وقت کے معاشرے میں سواری کے جانور بھی اہم رول ادا کرتے تھے۔ سواری کے جانور بھی ہدیے میں دیے جاتے تھے ۔
اسی طرح غلامان نبوی پر بھی بہترین روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف نے مختصر مگر جامع طور پر نبوی ملکیت اراضی پر خوبصورتی سے روشی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں کہ : "روایات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے لیے اسی وسق کھجور اور بیس وسق جَو سالانہ مقرر کر دیا تھا جس سے ان کے گھروں کے خوردونوش کا سامان اور دوسرے اسباب بھی مہیا ہوتے تھے۔ ان عطایائے نبوی پر ان کے پانے والوں کے مالکانہ حقوق نہ صرف پیداوار پر تھے بلکہ اراضی پر بھی تھے۔ چنانچہ وفات نبوی کے بعد کئی ازواج مطہرات نے جن میں ام المومنین حضرت عائشہ بھی شامل و شریک تھیں؛ اپنے حصے کی زمین پر مالکا نہ تصرف حاصل کر لیا تھا یا ان کو بیچ کر دوسری جگہ اراضی حاصل کر لی تھیں۔ ” (صفحہ 108)
مصنف اس باب کا اختتام خوبصورت الفاظ سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "نبوی معیشت اعتدال کے جادہ قرآنی پر مبنی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نعمتوں سے لطف اندوزی کے ساتھ شکرگزاری کی زندگی اور فقر وفاقہ سے پناہ مانگنے کی دعائے نبوی کی زندگی دراصل وہ قناعت و صبر و توکل پر مبنی معیشت تھی جو بقدر کفالت ضروریات کی تکمیل کرتی ہے اور ہر مسلم و مومن کے لیے دنیائے فانی کو آخرت ابدی کے لیے ایک عمل گاہ بناتی ہے۔” (صفحہ 110)
عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ رسول رحمت ﷺنے کبھی زکوٰۃ ادا نہیں کی کیونکہ آپ صاحب استطاعت نہیں تھے؛ کتاب کے تیسرے باب” کیا رسول اللہ ﷺنے زکوٰۃ ادا کی؟” میں صاحب کتاب نےاس مسئلہ پر تفصیل سے لکھا ہے۔مصنف نے مختلف روایات کے تذکرے سے پہلے دو مضامین کی طرح یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول رحمت ﷺکی مالی حیثیت مکی اور مدنی دونوں ا دوار میں بہترین تھی اور آپ کا فقر اختیاری تھا۔ چونکہ یہ مضمون سابقہ دو مضامین کے کافی بعد لکھا گیا ہے لہذا اس مضمون میں سابقہ مضامین سے زیادہ دلائل ہیں۔ اس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺنے مکی دور اور اس کے بعد مدنی عہد میں زکوٰۃ برابر ادا کی۔آپ کی ازواج مطہرات نے بھی مختلف مواقع پر زکوٰۃ ادا کی۔ حجتہ الوداع کے موقع پر آپ نے قربانیاں کی۔۔آپ نے اپنی اولاد کی طرف سے عقیقے بھی کیے۔
بہرحال یہ کتاب اپنے موضوع پر منفرد کوشش ہے۔۔اگرچہ کہیں کہیں محسوس ہوتا ہے کہ دلائل کافی کمزور ہیں لیکن اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں کو یہ کتاب بنیاد فراہم کرتی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023