موسمیاتی بحران کا نیا دور
دنیا بھر میں بدلتے موسم کے سبب ہر جاندار کی زندگی شدید خطرات سے دوچار
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
درجہ حرارت میں اضافہ۔غیر معموملی بارشیں ،سیلاب اور حد سے زیادہ اموات تشویش کا باعث
آٹھ نومبر کو سنٹر فار سائنس اینڈ انوایرنمنٹ نے ہندوستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے رپورٹ پیش کی ہے۔ اس رپورٹ کے اعداد و شمار بہت تشویشناک ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں اس سال کے پہلے نو مہینوں کے دو سو چوہتر دنوں میں سے دو سو پچپن دنوں میں شدید موسمیاتی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں اور ان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تین ہزار دو سو افراد ہلاک اور تقریباً تیئیس لاکھ ہیکٹر فصلوں کو نقصان پہنچا ہے یعنی ستاون لاکھ ایکڑ پر پھیلی ہوئی فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔ تقریباً ڈھائی لاکھ مکانات یا عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں اور دس ہزار سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان تباہ کاریوں کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ شدید موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔
گزشتہ دو سال کے مقابلے میں اس سال شدید موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جیسا کہ سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ اور ڈاؤن ٹو ارتھ ملک میں پیش آنے والی موسمیاتی سے متعلق رپورٹیں شائع کرتے ہیں، اس رپورٹ میں روزانہ جاری کی جانے والی موسمیاتی رپورٹوں اور سرکاری ادارے محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر ان موسمیاتی واقعات کی تفصیلات ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا کلائمیٹ رپورٹ 2023 پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کے پہلے نو ماہ کے دو سو تہتر میں سے دو سو پینتیس دنوں میں موسم کی انتہائی تبدیلی کی دیکھی گئی، اس سال دو ہزار نو سو تیئیس افراد کے ہلاک ہونے کی خبر ہے اور اچانک شدید بارش و گرمی کی وجہ سے اٹھارہ لاکھ ہیکٹر پر پھیلی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ جب کہ اس سال تقریباً تیئیس لاکھ ہیکٹر کی فصلیں خراب ہوئی ہیں، یعنی ہر سال انتہائی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے اور شدید موسموں کی وجہ سے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعات نہیں ہیں، یہ تبدیلیاں ہم خود بھی محسوس کر رہے ہیں، اچانک شدید بارش کا ہونا، پھر اسی طرح سے گرمی میں شدت یہ معمولی واقعات نہیں ہیں۔ آخر ان اچانک ہونے والی تبدیلیوں کی کیا وجوہات ہیں؟ اس پر غور ہونا چاہیے اور اس کے تدارک کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے اس پر بات ہونی چاہیے۔
گزشتہ تین سال سے س
نٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ اور اس میں تحقیق کرنے والے افراد ملک میں انتہائی موسمیاتی تبدیلیوں سے پیش آنے والے واقعات کے پیٹرن پر تحقیق کر رہے ہیں اور اسے اپنی میگزین ڈاؤن ٹو ارتھ میں شائع بھی کر رہے ہیں۔ یہ ادارہ آئی ایم ڈی کے ادارے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈویژن ڈی یم ڈی جو کہ مرکزی حکومت کے وزارت داخلہ کے تحت ہوتا ہے اس کی جانب سے روزانہ اور ماہانہ جاری ہونے والی موسمیاتی رپورٹس کے اعدادوشمار کی بنیاد پر اپنی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرتا ہے اور ساتھ میڈیا میں پیش ہونے والی رپورٹس کو بھی پیش نظر رکھتا ہے۔ ان ریسرچ اسکالروں نے پایا کہ ہندوستان کو اس سال کے پہلے نو مہینوں میں یعنی (ایک جنوری سے تیس ستمبر 2024 تک) یہ تقریباً ترانوے فیصد دنوں کا دورانیہ بنتا ہے اس میں شدید موسمیاتی واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دورانیے میں یعنی 2024، ملک کی تمام چھتیس ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں سے پینتیس ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں انتہائی موسمیاتی تبدیلیوں کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ستائیس ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں پچھلے دو سال کے مقابلے میں اس سال موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید واقعات میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ کرناٹک، کیرالا اور اتر پردیش میں اس سال چالیس سے زیادہ دنوں میں شدید موسمی واقعات رونما ہوئے۔ وہیں کیرالا میں انتہائی موسمیاتی تبدیلی کے واقعات کی وجہ سے سب سے زیادہ پانچ سو پچاس اموات ریکارڈ کی گئی، اسی طرح مدھیہ پردیش میں تین سو ترپن اموات اور آسام میں دو سو چھپن اموات واقع ہوئیں۔ آندھرا پردیش میں سب سے زیادہ پچاسی ہزار آٹھ سو چھ مکانات کو نقصان پہنچا اور مہاراشٹر میں سب سے زیادہ فصلیں تباہ ہوئیں۔
تبدیلی کے اسباب ہمارے کرہ ارض میں ہر چیز ایک دوسرے سے مربوط ہے، دنیا کے کسی حصے میں کوئی خرابی ہوتی ہے تو اس کا اثر صرف اسی جگہ تک محدود نہیں رہتا ہے بلکہ اس کے تباہ کن اثرات دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پڑتے ہیں۔ مثلاً کوئی کہیں دونوں ممالک میں جنگ برپا ہو اور وہ آپس میں بمباری کر رہے ہوں تو اس کے ماحولیاتی اثرات وہیں تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ اس کے تباہ کن اثرات دنیا کے دوسرے حصوں پر بھی پڑتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گلوبل وارمنگ ہو رہی ہے اور زمین گرم ہوتی جا رہی ہے، تبدیلی کی ایک دوسری وجہ فوسل فیوول بھی ہے۔ فوسل ایندھن قدرتی توانائی کے ذرائع ہیں جو پرانے پودوں اور جانوروں کی باقیات سے بنتے ہیں، طویل مدت کے دوران زمین کی تہوں میں شدید گرمی اور دباؤ کی وجہ سے یہ نامیاتی مواد کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس میں تبدیل ہوتے ہیں۔ یہ ایندھن "فوسیلائزڈ” توانائی کے ذرائع ہیں۔
فوسل ایندھن بنیادی طور پر بجلی پیدا کرنے کے لیے، اسی طرح بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے اور حرارت فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، لیکن جب اسے جلایا جاتا ہے تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتے ہیں جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ یہ ایندھن جیسے ڈیزل، پٹرول وغیرہ بھی اس میں شامل ہے، ان کے استعمال کی وجہ سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں کرہ ارض کو گرم کر رہی ہیں، جس کی وجہ دنیا کے بہت سے خطوں میں ماحولیاتی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے علاقے جہاں گرمی کی شدت ہوا کرتی تھی وہ اور بھی گرم ترین ہوتے جا رہے ہیں، اسی طرح معمول سے زیادہ شدید بارش کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے، ایسے علاقے جہاں بارشیں نہیں کے برابر ہوتی تھیں اب وہاں شدید بارشیں ہونے لگی ہیں۔ یہ ماحولیات کی انتہائی تبدیلی اکثر لوگوں اور ماحول پر اپنے شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کا بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) انوائرنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج ہی ان شدید اور انتہائی موسمیاتی تبدیلیوں میں پیش آنے والے واقعات کی وضاحت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک بھی ان تبدیلیوں کی شدت کو محسوس کر رہا ہے، کہیں تو شدید بارشیں ہو رہی ہیں وہ بھی بے موسم اور کہیں شدید گرمی، کہیں بادلوں کی گھن گرج کہیں بجلیوں کی چمک، زمین کے کھسکنے یعنی لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات، کسی جگہ سیلاب کی، کبھی سردی کی لہر تو کبھی شدید گرمی کی لُو طوفان، برف باری، تیز ہوائیں اور ریت کے طوفان، ژالہ باری اور آندھی وغیرہ۔ ملک میں پیش آنے والے سارے واقعات کی تفصیل انڈیا میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ (آئی یم ڈی) پیش کرتا رہتا ہے۔
ملک میں گزشتہ نو مہینوں کے دوران دو سو چوہتر دنوں میں سے ستتر دن گرم لہریں یعنی ہیٹ ویو جاری رہیں، اس بلند درجہ حرارت کی وجہ سے دو سو دس افراد ہلاک ہوئے۔ بارش کا موسم عموماً جون سے ستمبر تک رہتا ہے، اس دورانیہ میں انتہائی تباہی کے واقعات دیکھنے میں آئے، اور یہ پینتیس ریاستوں اور یو ٹیس میں دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس عرصے میں تمام ہی ایک سو بائیس دنوں میں سے ایک سو تین دنوں میں شدید بارشیں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گرج، چمک اور پھر طوفان بھی مختلف مواقع پر آتے رہے۔ آسام اس موسم کے دوران سب سے زیادہ متاثر رہا، یہاں ایک سو گیارہ دنوں تک انتہائی موسمیاتی تبدیلیوں کے واقعات رونما ہوئے۔ ملک بھر میں موسم برسات میں شدید واقعات کی وجہ سے مجموعی طور پر دو ہزار سات سو سولہ افراد ہلاک ہوئے اور تیس لاکھ ہیکٹر فصلوں کو نقصان پہنچا۔
اس سال ملک نے کئی ریکارڈ توڑے ہیں۔ اس سال کا جنوری وہ مہینہ ہے جس نے 1901 کا ریکارڈ توڑ دیا، 1901 کے بعد جنوری ہندوستان کا نواں خشک ترین مہینہ ہے۔ جب کہ ماہ فروری نے گزشتہ ایک سو تئیس سال کا ریکارڈ توڑا ہے کیوں کہ اس ماہ میں گزشتہ ایک سو تیئس سال کا سب سے کم درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، جولائی، اگست اور ستمبر میں بھی سب سے کم درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا، جو کہ 1901 کے بعد سب سے کم درجہ حرارت ہے۔
اس سال، آئی ایم ڈی نے راتوں میں درجہ حرارت سے متعلق ڈیٹا جاری کیا، راتوں میں ٹمپریچر کم ہوتا ہے تاکہ انسانی جسم آرام کرسکے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ درجہ حرارت کم ہونے کے بجائے غیر معمولی طور پر زیادہ رہا، دن میں درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے اور کم سے کم چار عشاریہ پانچ ڈگری سے چھ عشاریہ چار ڈگری معمول سے زیادہ ہوا ہے۔ یہ صورت حال انسانی جسم کے لیے اس کی صحت کے لیے شدید نقصان دہ ہے، کیونکہ انسانی جسم کو گرم دنوں میں بھی ٹھنڈا ہونے کا وقت نہیں مل پا رہا ہے۔ مارچ اور جون 2024 کے درمیان، سترہ ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں رات میں ٹمپریچر زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ پانچ ریاستوں اور یوٹیس چندی گڑھ، دہلی، ہریانہ، پنجاب اور اتر پردیش میں جون کے وسط میں رات کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا، چندی گڑھ، دہلی اور ہریانہ میں ہر پندرہ جون سے اٹھارہ جون تک لگاتار چار راتیں "شدید گرم ٹمپریچر” ریکارڈ کیا گیا، جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کا عکاس ہے۔
تاہم، اعداد و شمار پر ابھی تشویش باقی ہے، گوکہ آئی ایم ڈی نے گرم ترین راتوں سے متعلق ڈیٹا جاری کرنا شروع تو کر دیا ہے لیکن اس کے پیش کردہ پیٹرن کو قبول کرنا مشکل ہے، کیونکہ اس میں درجہ حرارت کی قطعی حد کو فراہم نہیں کیا گیا ہے، جیسا کہ دیگر ممالک میں پیش کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے واقعات میں اور اثرات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جیسا کہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، 2022 سے 2024 تک ہندوستان میں شدید موسمیاتی تبدیلی کے واقعات کے دنوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ 2022 میں، پہلے نو مہینوں کے ایام 86 فیصد تھے۔ 2023 میں بڑھ کر 88 فیصد ہو گئے اور اس سال 2024 میں 93 فیصد دنوں میں موسمیاتی تبدیلی ہوئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ انسانی اور معاشی نقصانات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سی ایس ای کی ڈائریکٹر جنرل اور ڈاؤن ٹو ارتھ کی ایڈیٹر سنیتا نارائن نے آٹھ نومبر کو رپورٹ کے ورچوئل لانچ کے موقع پر کہا کہ یہ ریکارڈ توڑ اعدادوشمار موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی عکاسی کرتے ہیں، ایسے واقعات کبھی صدی میں ایک بار رونما ہوتے تھے، اب ہر چار پانچ سال یا اس سے بھی کم عرصے میں رونما ہو رہے ہیں، نارائن نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ "موسمیاتی تبدیلیوں کے واقعات میں اضافہ سب سے زیادہ غریب آبادیوں کو متاثر کر رہاہے، جن کے پاس پیدا ہونے والے نقصان سے بچنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ اس طرح کے خوفناک واقعات ایسے وقت میں پیش آ رہے ہیں، جب کہ تین چیزیں اس وقت ہو رہی ہیں۔ ماحولیات کے سلسلے میں مشکوک ڈونالڈ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آ گئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم اس وقت ایک مایوس کن دور سے گزر رہے ہیں، صنعتی دور سے پہلے والے درجہ حرارت کو ایک عشاریہ پانچ ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کے وعدے میں ناکام ہوگئے ہیں اور تیسرا، یہ کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر گفتگو اب "بورڈ روم کا مسئلہ” نہیں ہے یہ مسئلہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور عمل کا متقاضی ہے۔
***
ملک میں گزشتہ نو مہینوں کے دوران دو سو چوہتر دنوں میں سے ستتر دن گرم لہریں یعنی ہیٹ ویو جاری رہیں، اس بلند درجہ حرارت کی وجہ سے دو سو دس افراد ہلاک ہوئے۔ بارش کا موسم عموماً جون سے ستمبر تک رہتا ہے، اس دورانیہ میں انتہائی تباہی کے واقعات دیکھنے میں آئے، اور یہ پینتیس ریاستوں اور یو ٹیس میں دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس عرصے میں تمام ہی ایک سو بائیس دنوں میں سے ایک سو تین دنوں میں شدید بارشیں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گرج، چمک اور پھر طوفان بھی مختلف مواقع پر آتے رہے۔ آسام اس موسم کے دوران سب سے زیادہ متاثر رہا، یہاں ایک سو گیارہ دنوں تک انتہائی موسمیاتی تبدیلیوں کے واقعات رونما ہوئے۔ ملک بھر میں موسم برسات میں شدید واقعات کی وجہ سے مجموعی طور پر دو ہزار سات سو سولہ افراد ہلاک ہوئے اور تیس لاکھ ہیکٹر فصلوں کو نقصان پہنچا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024