مولانا محمد یوسف اصلاحی مرحوم کی حیات وخدمات پر ایک اہم کتاب کی اشاعت
تبصرہ نگار: ابوالاعلی سید سبحانی، نئی دہلی
نام کتاب: حضرت مولانا محمد یوسف اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ: حیات وخدمات
مرتب: ڈاکٹر سلمان اسعد
صفحات: 312
قیمت 450:روپئے
سن اشاعت 2022:
ناشر: اسلامک اسٹڈیز ریسرچ اکیڈمی (پرائیویٹ) لمیٹیڈ، نئی دہلی
رابطہ نمبر 9810757442:
عظیم داعی اور مربّی مولانا محمد یوسف اصلاحی رحمہ اللہ تحریک اسلامی کی ایک بہت ہی قدآور شخصیت، قرآن مجید کے ایک گہرے عالم، زبردست خطیب اور بلند پایہ مصنف تھے۔
مولانا مرحوم نے ساری عمر اسلامی تحریک، اسلامی مشن اور اسلامی دعوت کے لیے غیرمعمولی خدمات انجام دیتے ہوئے گزاری۔ بائیس سال کی عمر میں جماعت اسلامی ہند کے رکن بنے اور پھر مختلف حیثیتوں سے تادم زیست تحریک کی خدمت انجام دیتے رہے۔
مولانا یوسف اصلاحی کی شخصیت کے چند پہلو بہت ہی اہم اور قابل غور ہیں:
مولانا مرحوم جماعت اسلامی ہند کی ایک نمایاں شخصیت تھے اور زندگی بھر جماعت کی خدمت انجام دیتے رہے، لیکن انہوں نے خود کو کبھی جماعت کے حلقہ تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اپنے لیے ایک بڑی دنیا اور ایک بڑے میدان کا انتخاب کیا، اور پھر اپنی شخصیت سے ایک کائنات کو فیض پہنچایا۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں مولانا کی تحریروں اور خطابات کو شوق سے پڑھا اور سنا جاتا تھا۔
مولانا مرحوم نے اپنے لیے اصلاح ودعوت کے میدان کا انتخاب کیا اور اس میدان میں تحریک بلکہ امت کو ایک گراں قدر لٹریچر فراہم کیا۔ “آداب زندگی” مولانا کی مقبول ترین تصنیف ہے جو ہر حلقہ اور ہر مکتب فکر میں یکساں مقبولیت رکھتی ہے۔ آداب زندگی کے علاوہ مولانا کی دیگر تصانیف شعور حیات، آسان فقہ، داعی اعظم، قرآنی تعلیمات وغیرہ بھی اپنے آسان اسلوب، سادہ زبان اور مفید مواد کی وجہ سے عوام وخواص کے درمیان کافی مقبول ہیں۔
مولانا مرحوم نے مختلف مراحل میں کئی اہم پروجیکٹس کا آغاز کیا اور ان پروجیکٹس پر بہت ہی یکسوئی اور توجہ سے کام کرتے رہے، ماہنامہ ذکری اور مکتبہ ذکری اس سلسلہ میں قابل ذکر ہیں۔
مولانا مرحوم کو 1993 میں جامعۃ الصالحات کا ناظم بنایا گیا۔ نظامت سنبھالنے کے بعد مولانا نے ادارہ کو ایک شناخت اور پہچان دی۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قائم اس ادارے نے مولانا کی نظامت میں خوب خوب ترقی کی، بلکہ صحیح معنوں میں یہ ادارہ مولانا کے نام سے ہی پہچانا جانے لگا۔
مولانا مرحوم کی شخصیت سے ملنے والا یہ سبق تحریک اسلامی کے وابستگان کے لیے بہت اہم ہے کہ خود کو ایک مخصوص حلقہ تک محدود رکھنے کے بجائے اپنی افادیت اور اپنی سرگرمیوں کے لیے بڑے سے بڑے میدان کا انتخاب کیا جائے اور اس میدان میں اپنی ایک نمایاں پہچان اور اپنا ایک اونچا مقام پیدا کیا جائے، یقیناً یہ تحریک اسلامی کی ایک بڑی ضرورت کی تکمیل ہوگی، اور اسلامی مشن کی ایک بڑی خدمت ہوگی۔
مولانا مرحوم کی وفات پر امیر جماعت اسلامی ہند محترم سید سعادت اللہ حسینی صاحب نے بجا فرمایا تھا کہ ’’مولانا محمد یوسف اصلاحی مرحوم پوری دنیا میں تحریک اسلامی ہند کا چہرہ اور اس کے تعارف کا سب سے بڑا ذریعہ تھے‘‘۔ اس کی بڑی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ مولانا مرحوم نے اپنے لیے ایک بڑے میدان کا انتخاب کیا اور اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کے خوب خوب جوہر دکھائے۔ وذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
مولانا مرحوم کے فرزند ارجمند ڈاکٹر سلمان اسعد صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مولانا کی حیات وخدمات پر ایک گراں قدر مجموعہ مضامین کی ترتیب واشاعت کا پروگرام بنایا۔ مولانا مرحوم پر شائع ہونے والے اس مجموعہ مضامین میں ابتدایئہ کے علاوہ چار اہم گوشے ہیں۔ ابتدائیہ میں ڈاکٹر سلمان اسعد کا تفصیلی مضمون ’’آہ! محترم ابوجان‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا مرحوم کی زندگی کتنی غیر معمولی تھی۔ حیرت انگیز اور دلچسپ واقعات کی پوری ایک کہکشاں ہے جو ڈاکٹر سلمان اسعد کے مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ مضمون کئی پہلووں سے پڑھنے کے لائق ہے، اس مضمون سے مولانا مرحوم کی ایک زبردست انقلابی اور فکر انگیز شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ابتدائیہ میں مولانا کی بنت نسبتی ڈاکٹر عائشہ رحمان کا بھی مضمون شامل ہے۔ ابتدائیہ کے بعد تعزیتی مکاتیب درج ہیں، جس میں بطور خاص مولانا محمد رابع حسنی ندوی، مولانا اصغر علی امام مہدی، پروفیسر عبدالعظیم اصلاحی، ڈاکٹر منظور عالم، مفتی ریاست علی قاسمی، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، مولانا ناصر سعید اکرمی اور جناب عزیز بلگامی کے تعزیتی خطوط شامل ہیں۔آگے منظوم خراج عقیدت کے بعد نقوش و تاثرات کے تحت چالیس مضامین درج ہیں۔ پہلا مضمون امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی صاحب کا ہے، اس مضمون میں مولانا مرحوم کی خدمات کا بہت ہی زبردست انداز میں اور بہت ہی کھل کر اعتراف کیا گیا ہے۔ ایچ عبدالرقیب صاحب کا مضمون ’’داعی، مربّی اور رہنما‘‘ بھی بہت ہی اہم اور فکرانگیز ہے، بلکہ اس مضمون میں مولانا کی فکر اور شخصیت کے کئی انوکھے اور قابل تقلید پہلووں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ اسی طرح محترم جناب فرخ رضا صاحب کا مضمون بھی بہت دلچسپ اور شان دار ہے۔ اس مضمون میں مولانا کی شخصی زندگی کے علاوہ مولانا کی فکر کے امتیازی پہلووں اور بطور خاص مولانا کے بیرونی اسفار سے متعلق بہت سی منفرد معلومات موجود ہیں۔ اس مجموعہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مختلف مکاتب فکر کی شخصیات نے لکھا ہے اور خوب لکھا ہے۔ مولانا کی شخصیت کا تعارف، ان کی خدمات کا اعتراف، اور ان کے ساتھ ذاتی تجربات کا اظہار مختلف مضامین میں طرح طرح سے کیا گیا ہے۔ اس مجموعہ مضامین کو پڑھنے کے بعد ذہن میں خیال آتا ہے کہ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی پوری زندگی علم وفکر اور تحریک ودعوت کے میدان میں گزر جاتی ہے لیکن ان کی زندگی انوکھے واقعات سے بالکل خالی ہوتی ہے، جبکہ اسی میدان کی کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی زندگی انوکھے واقعات سے بھرپور ہوتی ہے۔ مولانا محمد یوسف اصلاحی مرحوم کی شخصیت کچھ ایسی ہی تھی۔ مجموعہ مضامین کو پڑھتے جائیے اور انوکھے قسم کے واقعات کو نوٹ کرتے جائیے۔ ان واقعات سے دین اور خدمت دین کے لیے مولانا کی تڑپ اور لگن، مولانا کی عزیمت، مولانا کے آہنی عزائم، مولانا کی زندہ دلی، مولانا کے وقار اور مولانا کی سادگی اور للہیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
کتاب کے آخری حصہ میں مولانا مرحوم کی تصانیف اور افکار کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس گوشے میں پروفیسر ابوسفیان اصلاحی، ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی اور جناب ابوفہد ندوی کے مضامین کافی اہم ہیں۔
ڈاکٹر سلمان اسعد نے یقیناً مولانا محمد یوسف اصلاحی مرحوم کی حیات وخدمات پر ایک گراں قدر مجموعہ مرتب کیا ہے۔ مضامین کے مشمولات، ایڈیٹنگ، ترتیب اور پیشکش، ہر اعتبار سے یہ مجموعہ لائق تحسین ہے۔ البتہ کچھ پہلووں سے کمی یا تشنگی محسوس کی گئی، اس تناظر میں چند مشورے اور احساسات کچھ اس طرح ہیں:
اس مجموعہ کی آئندہ اشاعت میں مولانا مرحوم کی جملہ تصانیف کا ایک بھرپور تعارف بھی شامل کیا جانا چاہیے، بلکہ اگر ممکن ہو تو “کتابیات مولانا یوسف اصلاحی” کے نام سے باقاعدہ ایک کتاب کی تیاری کا پروگرام بنانا چاہیے، جس میں مولانا مرحوم کی تمام کتابوں اور مقالات کا تعارف اور دیگر ضروری تفصیلات موجود ہوں۔ اس سے ایک تو چیزوں کی زمانے کی دستبرد سے حفاظت کا انتظام ہوجاتا ہے، دوسرے کتابوں کے شائقین اور بحث وتحقیق کا کام کرنے والوں کے لیے استفادہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
مولانا مرحوم کے تعلق سے دوسرا اہم کام یہ ہوسکتا ہے کہ ان کے خطوط اور ان کے نام لکھے گئے خطوط کے مجموعہ کی ترتیب کا پروگرام بنایا جائے۔ مولانا مرحوم بہت اہتمام سے خطوط لکھا کرتے تھے، اسی طرح مولانا کے نام مولانا سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ کے علاوہ دیگر اہم اور بڑی شخصیات کے خطوط بھی بڑی تعداد میں مل جائیں گے، ان خطوط کا مجموعہ کافی مفید اور دستاویزی اہمیت کا حامل ہوگا۔
مولانا مرحوم نے دنیاکے مختلف ممالک کا سفر کیا اور مولانا مرحوم کی وفات پر بہت سے ممالک میں تعزیتی نشستیں بھی منعقد کی گئیں، مولانا مرحوم کے اسفار اور ان کی دعوتی خدمات پر بھی ایک بھرپور مقالہ یا کتاب تیار ہونی چاہیے تاکہ مولانا کی خدمات کا صحیح طور پر تعارف ہوسکے اور دوسروں کو بھی مولانا کے نقش قدم پر آگے بڑھنے کی توفیق اور ہمت نصیب ہوسکے۔
بہرحال ایک بار پھر مبارکباد، اللہ اس کوشش کو قبول فرمائے اور اس کتاب میں موجود ذکر خیر کو مولانا مرحوم کی حسنات میں اضافہ کا ذریعہ بنائے، آمین یا رب العالمین۔
***
***
ابتدائیہ میں ڈاکٹر سلمان اسعد کا تفصیلی مضمون ’’آہ! محترم ابوجان‘‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا مرحوم کی زندگی کتنی غیر معمولی تھی۔ حیرت انگیز اور دلچسپ واقعات کی پوری ایک کہکشاں ہے جو ڈاکٹر سلمان اسعد کے مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ مضمون کئی پہلووں سے پڑھنے کے لائق ہے، اس مضمون سے مولانا مرحوم کی ایک زبردست انقلابی اور فکر انگیز شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022