مولانا سید یوسف سکریٹری جماعت اسلامی ہند سے انٹرویو (دعوت فائلوں سے)
اپنے تشخص کو وقتی سیاست میں گم کردینا خیر امت کے شایان شان نہیں
1940 کے دہے میں جب برصغیر ہند میں تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنے نئے علیحدہ ملک کا مطالبہ کررہا تھا اور جو لوگ اس نظریے کے مخالف تھے ان کی بھی کوئی صحیح منزل نہیں تھی۔ ان حالات میں مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ ان دونوں نظریات کی نفی کرتے ہوئے اپنے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ذریعے مسلمانوں کو قرآن و سنت کی طرف بلا رہے تھے۔ ان کی دعوت یہ تھی کہ مسلمان نہ تو کوئی قوم ہیں اور نہ کوئی بے اصول گروہ۔ بلکہ وہ ایک اصولی امت ہیں جسے دنیا میں اللہ کا دین قائم کرنے اور تمام انسانوں کو اس کی بندگی کی دعوت دینے کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ مولانا مسلمانوں کو اپنا فرض منصبی یاد دلاتے ہوئے اس پیغام کو عام کر رہے تھے کہ مسلمانوں سمیت تمام انسانوں کو دنیوی فلاح اور اخروی نجات کا ذریعہ اسلام اور صرف اسلام ہے۔ ان کی یہ فکر کوئی نئی فکر نہیں تھی اور نہ یہ کسی وقتی غور و فکر کا نتیجہ تھی بلکہ یہ خالصتاً اسلامی فکر ہے۔ نزول قرآن کی روح یہی ہے اور نبی اکرم ﷺ کی پوری سیرت اور آپ کا عمل و کردار اس پر گواہ ہے۔ نیز خلافت راشدہ کا دور بھی اسی اسلامی فکر کا پرتَو ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ گردش حالات کی گرد اس فکر پر جمتی اور چھٹتی رہی۔ مولانا مودودی نے اس گرد کو صاف کرکے انتہائی ہیجان خیز سیاسی حالات اور شدید کشمکش کے دور میں اس لافانی فکر کو دنیا کے سامنے نہ صرف پیش کیا بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک جماعت تشکیل دینے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اگست 1941کو لاہور میں برصغیر کے ممتاز علماء اور دانشوروں کا ایک اجتماع ہوا جس میں پچھتر افراد شریک ہوئے اور اسی اجتماع میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا اور مولانا مودودی اس کے امیر منتخب کیے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ جنگ آزادی ایک نازک اور اہم مرحلے میں داخل ہوچکی تھی اور اس کے کچھ ہی سالوں بعد ملک تقسیم بھی ہوا اور آزاد بھی۔
1947میں برصغیر کی تقسیم اور آزادی کے بعد جماعت اسلامی کے افراد بھی تقسیم ہوگئے۔ آزادی کے فوراً بعد کا دور بھارتی مسلمانوں کے لیے انتہائی سخت اور صبر آزما دور تھا۔ مسلمان حالات سے سہمے ہوئے تھے۔ ان پر ملک کی تقسیم کا بے بنیاد الزام لگایا جا رہا تھا۔ سارے ملک میں فرقہ پرستی کا رقصِ ابلیس اپنے عروج پر تھا۔ اور وقت کے حکم راں بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ان سنگین حالات میں اگرچیکہ جماعت اسلامی کی تنظیم نَو نہیں ہوسکی تھی لیکن اس فکر کے افراد مسلمانوں میں ڈھارس بندھانے اور ان کے احساس کمتری کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی بنیادی دعوت بھی دیتے رہے۔ پھر حالات کے کسی حد تک قابو میں آنے کے بعد ایک اجتماع الٰہ آباد میں اپریل 1948 میں منعقد ہوا اور آزاد بھارت میں جماعت اسلامی ہند کا قیام عمل میں آیا۔ اسی اجتماع میں مولانا ابواللیث ندوی اصلاحی امیر جماعت منتخب ہوئے۔ اس کے بعد سے جماعت اسلامی بھارت میں سرگرم عمل ہے اور حالات کے اتار چڑھاو کا مقابلہ کرتے ہوئے عوام الناس کے سامنے اپنی دعوت پیش کر رہی ہے۔ اس دوران جماعت کو پابندی اور ایمرجنسی کے اندھیرے سے بھی گزرنا پڑا۔ جماعت کے ارکان کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی آج بھی ملک کی منظم ترین اور فعال جماعت ہے۔ اس کی اس حیثیت کو اس کے مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں۔ تاریخ دین وملت اور ملک و قوم کے لیے جماعت اسلامی کی خدمات کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔
اتحاد ملت کے لیے بھی جماعت اسلامی کی کوشش ناقابل فراموش ہیں۔ مسلم مجلس مشاورت کا قیام ہو یا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل کا مرحلہ جماعت اسلامی نے کسی ذہنی تحفظ کے بغیر اسے مستحکم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جماعت اسلامی اگرچیکہ شروع ہی سے سیاست کو شجر ممنوعہ نہیں سمجھتی لیکن اس کے ارکان پر ووٹ دینے کی پابندی تھی۔ لیکن موجودہ حالات میں جماعت اسلامی اپنے مقصد کے حصول کے لیے الیکشن کو بھی ایک اہم ذریعہ سمجھتی ہے۔ چنانچہ 1985 میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ ارکان جماعت پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے انتخابات میں بعض شرائط کے ساتھ اپنا ووٹ استعمال کرسکتے ہیں۔ بہرحال موجودہ سیاسی صورت حال میں جماعت اسلامی ایک اہم کردار ادا کرنے جارہی ہے۔ اس لیے راقم الحروف نے مناسب سمجھا کہ جماعت کے ذمہ دار قائد سے ملک و ملت کو درپیش مسائل پر گفتگو کی جائے۔ اس سلسلہ میں سکریٹری جماعت اسلامی ہند مولانا سید یوسف سے ان کے قیام حیدرآباد کے دوران ربط کیا گیا۔ موصوف نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود انٹرویو دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ قارئین کو یاد رہے کہ مولانا سید یوسف جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ہونے کے علاوہ انگریزی ہفت روزہ ریڈینس (دہلی) کے ایڈیٹر اور کل ہند مجلس مشاورت کے سکریٹری بھی ہیں۔ موصوف سے لیا گیا انٹرویو قارئین کے استفادے کے لیے پیش خدمت ہے۔
سوال: بھارتی مسلمانوں کا بحیثیت امت لائحہ عمل کیا ہو؟
جواب: مسلمان خواہ بھارتی ہوں یا دنیا کے کسی گوشے میں رہتے ہوں، خواہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں، ان کا بحیثیت امت لائحہ عمل خدا اور رسول کی جانب سے ہمیشہ کے لیے طے ہے۔ یعنی جس دین حنیف کے یہ علم بردار ہیں اس کے داعی بن جائیں۔ قول و عمل سے دنیا کے سامنے اس کے گواہ بنیں اور حسب حالات بالعموم اور برسر اقتدارا گروہوں کو تو بالخصوص نیکی کا حکم دینے اور برائیوں سے لوگوں کو روکنے والے بن جائیں۔ یہ فریضہ شہادت حق اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر بحیثیت امت پورے عالم کے مسلمانوں، بشمول بھارتی مسلمانوں کا مستقل لائحہ عمل بن جائے۔
سوال۔ بھارتی سیاسی نظام میں مسلمانوں کی سیاسی حکمت عملی کیا ہو؟
جواب۔ جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں عرض کیا گیا ہے اپنے مستقل لائحہ عمل کے پیش نظر مسلمانان ہند کو بھی اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے یعنی یہ کہ وہ ایک Pressure group بن کر ابھریں تاکہ اپنے مقصد وجود کی ادائیگی میں جو رکاوٹ بھی پیدا ہو یا کھڑی کی جائے اس کا متحدہ طور پر مقابلہ کرتے ہوئے اس طرح کی رکاوٹوں کو دور کرسکیں۔ خواہ اقتدار میں انہیں حصہ ملے یا نہ ملے، بہرحال دین اسلام پر سختی کے ساتھ عمل کرنے اس کی تبلیغ کرنے اور اپنے دینی وملی وجود کے تحفظ کے لیے جو بھی رکاوٹیں دستوری، قانونی، سیاسی، سماجی، معاشی لحاظ سے پیدا ہوں یا پیدا کی جائیں ان کا مقابلہ سیاسی طور پر کرنے کی حکمت عملی مسلمانان ہند کو اختیار کرنا چاہیے۔
سوال: مسلمان کیا سیکولر جماعت کا ساتھ دیں یا اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنائیں؟
جواب۔ اس کا جواب پورے ملک کے لیے یکساں طور پر نہیں دیا جاسکتا۔ ہر ریاست کے حالات یکساں نہیں ہیں۔ اصولی طور پر بھارت جیسے غیر مسلم اکثریتی ملک میں اورطاس کے موجودہ سیاسی نظام کے پس منظر اور انتخابی قوانین (Electoral laws) کے تحت صرف مسلمانوں پر مبنی کوئی سیاسی جماعت کی تشکیل خارج از امکان ہے اور حکمت و مصلحت کے خلاف بھی۔ کسی ریاست میں اگر اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے کے موقف میں ہوں تو صاف ذہن اور کھلے دل کے غیر مسلموں کو ساتھ لینا ضروری ہے۔ کسی سیکولر جماعت کا ساتھ دینا چاہیں تو اپنے تشخص کی برقراری کے ساتھ سیکولر جماعت کا مسلمان ساتھ دیں۔ اپنے وجود کو بعض سیاسی اغراض کی خاطر دوسروں میں گم کردینا ایک خیر امت کے شایان شان نہیں ہے۔ کسی سیکولر پارٹی کا ساتھ دیں تو اپنے شرائط (Terms) پر ساتھ دیں جس طرح امریکہ میں یہودی اقلیت میں رہتے ہوئے دیتے ہیں۔
سوال: کیا بھارت کا سیکولر ڈھانچہ مسلمانوں کے حقوق کا ضامن ہے؟
جواب : بڑی حد تک، بشرطیکہ پوری دیانت داری کے ساتھ اس پر عمل ہو۔
سوال: مسلمان بڑھتی ہوئی جارحانہ فرقہ پرستی کا مقابلہ کس طرح کریں؟
جواب: یہ مقابلہ مسلمان یکا و تنہا ہرگز نہ کریں۔ غیر مسلموں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی اس صورتحال پر سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ پوری سنجیدگی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے مگر ان کے پاس کیڈر (cadre) نہیں ہے یا ہمت و جرات کی کمی ہے۔ یا تو وہ مایوس ہیں یا بد دل یا ان طریقوں سے واقف نہیں جن کو اختیار کرکے کامیابی کے ساتھ اس کا توڑ کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان اس سلسلہ میں رہنمائی کا رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس طرح کے صاف ذہن افراد کو جمع کرکے ان کو ساتھ لے کر متحدہ طور پر اس جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ نیز مسلمان ہی کے پاس یہ نسخہ کیمیا ہے کہ برائی کا جواب بھلائی سے دیں۔ نفرت کا جواب محبت سے دیا جائے، تب جا کر جانی دشمن بھی جگری دوست بن سکتا ہے اور تاتاریوں جیسے فاتحین کی صفوں سے کعبہ کے نگہبان پیدا ہوسکتے ہیں۔
سوال: موجودہ سیاسی صورتحال میں جماعت اسلامی ہند کی کیا پالیسی ہوگی؟
جواب: اوپر کے سوال کے جواب سے جماعت کی پالیسی کا اشارہ مل سکتا ہے۔ جماعت ایک غیر سیاسی پارٹی ہے۔ مگر موجودہ حالات میں سیاسی عمل اور سیاسی رجحانات پر اثر انداز ہونا ضروری سمجھتی ہے۔
سوال: آنے والے عام انتخابات میں بھارتی مسلمانوں کو کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ؟
جواب: نہ صرف مسلمان بلکہ سوچنے سمجھنے اور ملک کے مفاد کو عزیز رکھنے والے غیر مسلم عناصر اور جماعتوں کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ آنے والے عام انتخابات میں وہ متحدہ طور پر انتشار پسند فسطائی اور فرقہ پرست طاقتوں کو برسر اقتدار نہ آنے دیں۔ ہندتوا سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ نے ان کے عزائم بلند کردیے ہیں ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ ملک میں جگہ جگہ مذہب کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کوئی قوت پنجاب کے سکھوں کو خالصتانی ریاست کشمیریوں کو اسلامی حکومت، میزوروم، ناگالینڈ وغیرہ کے عیسائیوں کو عیسائی ریاست ، دلتوں کو دلت، ریاست دراوڑیوں کو دراوڑ ریاست کے قیام کا وعدہ کرنے ان کو انتخابی مقصد بنانے سے روک نہیں سکتی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مسلمان سیکولر پارٹیوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ باہمی مفاہمت کے ذریعے اپنا ایک مشترکہ امیدوار ان ملک دشمن عناصر کے خلاف کھڑا کریں۔ بصورت دیگر مسلمان اس بات کا جائزہ لیں کہ بلا لحاظ مذہب و ملت کون سیکولر پارٹی کا امیدوار اتنا مضبوط ہے کہ وہ فرقہ پرست پارٹیوں کے امیدوار کو ہراسکے اور ایسے مضبوط امیدوار کے حق میں یہ اپنا متحدہ ووٹ استعمال کریں۔
سوال: کیا مسلم جماعتوں کے اتحاد سے مسلمانوں میں حقیقی اتحاد پید ہوجائے گا؟
جواب: حقیقی اتحاد کی جو تدبیر قرآن نے بتلائی ہے وہ صرف اور صرف دین اسلام کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینا ہے۔ اس کے علاوہ جتنی بھی تدبیریں ہوں گی وہ وقتی، ہنگامی اور ناپائیدار ہوں گی۔ اتحاد کی بنیاد خلوص و للہیت ہے جو کہ دین سے حقیقی وابستگی کی اصل ہے۔ آج افسوس کہ سب کچھ ہے مگر رضائے الہی اور فلاح آخرت کا جذبہ مفقود ہے۔ لہٰذا وقتی طور پر مسلم جماعتوں کے اتحاد سے مسلمانوں کے اتحاد کی صورت پیدا ضرور ہوسکتی ہے۔ مگر حقیقی اتحاد کے لیے دین حق کو بہرحال بنیاد بنانا چاہیے۔
سوال: مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کی وجہ کیا مسلم قیادت ہے یا کوئی اور وجوہات ہیں؟
جواب : اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مسلم قیادت بھی ایک اہم وجہ ہے جو کہ موجودہ حالات میں کہیں نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں کی کوئی ایسی پارٹی یا قائد دور دور تک دکھائی نہیں دیتا جس کے اطراف امت مسلمہ ہند جمع ہوسکے۔ ہر گلی کوچہ میں ایک قائد دکھائی دیتا ہے اور کہیں تو صرف کاغذی اور اخباری ہیں۔ سیاسی بے وزنی ختم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ مسلمان ایک جٹ ہوکر اپنے ووٹ کی قوت کا استعمال کریں۔ یو پی کے مشرقی اضلاع میں مہاراشٹر میں منفی اور کرناٹک اور آندھراپردیش میں مثبت طور پر مسلمانوں نے اس طرح کا مظاہرہ کیا اور سیاسی جماعتوں کو اپنا وزن ثابت کر دکھایا۔ مسلم عوام کی خواہش تو ضرور ہے کہ ان کے قائدین متحد ہوجائیں مگر کیا کیجیے نفسیانیت کو، انا کو، جھوٹی بڑھوتری کو اور شیطانی وساوس کو!
مولانا سید یوسف سے کیے گئے ان سوالات اور ان کے جوابات سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بھارتی مسلمان آج کن مسائل سے دوچار ہیں۔ موصوف نے بہت ہی مدلل اور مختصر انداز میں ان کے تدارک کا بھی حل بتادیا ہے۔ آج ضرورت اسی بات کی ہے کہ مسلم قیادت ازسر نو معروضی انداز میں اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے جمہوری شراکت میں اپنا مناسب اور موزوں حصہ ادا کرسکے۔ جماعت اسلامی ہند کے قائدین کو بھی اس حقیقت کو جان لینا چاہیے کہ جماعت کے تعلق سے عام مسلمانوں اور بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ میں اچھی رائے ہے لیکن اگر جماعت اپنے اعلیٰ اصولوں سے ذرا بھی انحراف کرتی ہے تو پھر عوامی حلقوں میں اس کی قدر و منزلت میں فرق آئے گا ۔
آخر میں عرض کرنا یہ ہے کہ تحریک اسلامی نے اپنی خاص اسلامی فکر کے ذریعے مسلمانوں کے باشعور عنصر پر دنیا میں ہر جگہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ تحریک دنیا کی سب بڑی منظم، فعال اور جامع اسلامی تحریک ہے۔ اس کی آواز کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں گونج رہی ہے۔ تحریک اسلامی کے عالمی اثرات کی ایک جھلک ترکی کے حالیہ انتخابات ہیں جہاں اسلامی جماعت کو دو غیر اسلامی پارٹیوں پر سبقت حاصل ہوئی۔ دنیا کے ہر خطے میں لوگ اسلامی تحریکوں کو بہ نظر استحسان دیکھ رہے ہیں اور اس کے تجربات سے استفادہ کے خواہشمند ہیں۔ بھارت میں جماعت اسلامی اب کوئی غیر معروف کاغذی جماعت نہیں ہے بلکہ یہ ایک متحرک تنظیم ہے جس سے ملت بیضا کے مستقبل کا دامن وابستہ ہے۔ جماعت نے اپنے مختلف تعمیری اقدامات کے ذریعہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں میں بھی اپنا ایک خاص مقام بنالیا ہے۔ یہ بات جماعت اسلامی کے لیے باعث عزت و افتخار بھی ہے اور اسے ذمہ داری کے نازک مقام پر بھی لا کھڑا کر دیتی ہے۔ اب حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ جماعت اپنی جدوجہد کو تیز کردے اوراس وقت تک دم نہ لے جب تک ملک میں اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل محفوظ نہ ہو جائے۔ آج بھارتی مسلمانوں کو ایک با اعتماد قابل قدر اور باصلاحیت تنظیم کی ضرورت ہے جو ملک و ملت کی صحیح خدمت کرسکے۔ اگر جماعت اسلامی اس فریضے کو انجام دیتی ہے تو پھر تاریخ گواہی دے گی کہ مولانا ابوا لاعلی مودودیؒ کے شیدائیوں نے دنیا سے کفر و شرک کی تاریکیاں مٹاکر کفر کی جھاڑ جھنکار صاف کرکے اور ظلم و ستم کی بساط لپیٹ کر انسانیت کو خدا پرستی سے ہمکنار کردیا، اسے امن و سعادت کی گود میں لا ڈالا۔ یہ وہ اہم فریضہ ہے جس کے ادا کرنے کے بعد یقیناً ملک میں امن و سلامتی کی فضا پیدا ہوگی اور قیامت کے روز نبی اکرم ﷺ بندگان حق کو بلا بلا کر فرمائیں گے کہ آؤ حوض کوثر سے میں تم کو اپنے ہاتھ سے جام پلاتا ہوں کیونکہ تم نے مخلوق خدا کو اس وقت زمزم حق پلایا تھا جب وہ ضلالت کے لق و دق صحرا میں تشنگی سے نڈھال ہورہی تھی، اور یہ اس کا اجر بے۔
یہ اتفاق کی بات ہے کہ جماعت اسلامی کا یہ تعارف اور مولانا سید یوسف کا انٹرویو ایک ایسے وقت میں شائع ہو رہا ہے جب جماعت اسلامی ہند آندھراپردیش کے شعبہ تلگو اسلامک پبلیکیشنز کے زیر اہتمام قرآن مجید کے تلگو ترجمہ کی دوسری جلد کی رسم اجرا امیر جماعت اسلامی مولانا محمد سراج الحسن کے ہاتھوں عمل میں آرہی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جماعت اسلامی کا لٹریچر ریاست کی مختلف علاقائی زبانوں میں ترجمے کے مراحل سے گزر رہا ہے اور آئندہ چند سالوں میں ملک کی ہر زبان میں یہ لٹریچر دستیاب ہوسکے گا۔ اب جبکہ انسانیت ایک سچے اور کائناتی دین کی تلاش میں ہے۔ دلوں کے قفل اور ذہنوں کی گرہیں کھولنے کے لیے ضروری ہے کہ مختلف زبانوں میں اسلام کی دعوت کو پیش کیا جائے۔ جماعت اسلامی نے ابتداء ہی سے ملک و ملت کے حالات کو سامنے رکھ کر اسلامی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ عوام الناس تک پہنچانے کے لیے مختلف زبانوں میں ترجمہ و اشاعت پر کافی توجہ دی ہے اور اس طریقہ کے ذریعہ صنم کدہ ہند میں توحید کی روشنی پھیلائی جا رہی ہے۔ قرآن مجید کے تلگو ترجمہ کی رسم اجراء کا آج یہ دن نہ صرف جماعت اسلامی کے لیے بلکہ سارے حیدرآبادی مسلمانوں کے لیے ایک یادگار دن ہے کیونکہ قرآن کے حیات آفریں پیغام کو انسانیت تک پہنچانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
***
مولانا سید یوسف ،حیدرآباد جو جماعت اسلامی ہند کے سابق سکریٹری اور انگریزی اخبار ہفت روزہ’ریڈیئنس‘ کے سابق مدیر رہ چکے ہیں۔ ان سے ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد نے سال 1995 میں ایک انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے اس وقت کی جماعت اسلامی ہند کی صورتحال، مسلمانوں کو درپیش مسائل، وابستگان تحریک اور امت مسلمہ کے سیاسی شعور کے لیے بہترین مشورے دیے تھے۔ چنانچہ آج تقریباً تین دہوں بعد آل انڈیا اجتماعِ ارکان 2024 کی مناسبت سے قارئین کے خصوصی استفادے کے لیے اسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ انٹرویو سہ روزہ دعوت میں 10 جنوری 1996 کو شائع ہوا تھا۔ (ادارہ)
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024