مولانا سید جلال الدین عمری افکار و آثار

نام کتاب : مولانا سید جلال الدین عمری افکار و آثار
مرتب : اشہد رفیق ندوی
معاونین: محمد انس مدنی، محمد صادر ندوی
صفحات: 584
اشاعت: 2022ء
قیمت: 600
ناشر: ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ
ملنے کا دوسرا پتہ : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی
مبصر : مجتبیٰ فاروق

مولانا سید جلال الدین عمری دورِ حاضر کے عظیم محقق تھے جو اسلامی مفکر کی حیثیت سے علمی دنیا میں مشہور ومقبول ہوئے۔ انہوں نے اسلام کی فکری روایات کی ترجمانی میں مثال قائم کی۔ ان کا فکری و علمی کام ایسا ہے جو بہت ہی کم لوگوں نے انجام دیا ہے۔ آپ نے زندگی کے قیمتی لمحات علمی وتحقیقی کاموں میں صرف کیے۔ یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مولانا ان چیدہ افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسلامی فکر کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ فکر اسلامی کے متعدد پہلوؤں پر انہوں نے نہایت قیمتی اضافہ کیا جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
آپ کثیر التصانیف مصنف تھے اور متنوع موضوعات پر ان کی ستر سے زائد کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔انسانی حقوق اور خواتین کے مسائل پر مولانا عمریؒ نے سب سے زیادہ کام کیا ہے، جسے اہل علم نے کافی سراہا۔گزشتہ 26 اگست2022ء کو مولانا انتقال کر گئے تو ان کے افکار وخدمات اور ان کے آثار پر معروف علمی ادارہ ’ ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ ‘نے دو روزہ سمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جو 18 اور 19 ستمبر 2022ء کو مرکز جماعت اسلامی (دہلی) کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔ اس میں ملک بھر سے معروف اہل علم نے شرکت کی۔ سمینار میں افتتاحی واختتامی اجلاس کے علاوہ پانچ اکیڈمک سیشنز میں پچاس کے قریب مقالہ نگاروں نے مولانا عمری کے افکار وخدمات پر مدلل ومفصل مقالے پیش کیے جنہیں بعد میں بہت ہی عرق ریزی اور نہایت کد وکاش کے ساتھ قلیل مدت میں ’’مولانا سید جلال الدین عمری افکار و آثار‘‘ کے عنوان سے مولانا اشہد جمال ندوی اور ان کے معاونین محمد انس مدنی اور محمد صادر ندوی نے بہت ہی دلکش اور دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ اس مجموعہ مقالات کو ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی نے عمدہ ڈیزائین کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ مولانا کی وفات کے فوراَ بعد سمینار کی صورت میں بزم کو سجایا گیا اور اس کے اختتام کے فوراَ بعد سمینار کے مقالات کو معیاری طباعت کے ساتھ منصہ شہود پر لایا گیا۔ مرتبین نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ ایسے مقالات مجموعے میں شامل ہوں جو اپنے موضوع کا بھرپور احاطہ کرتے ہوں تاکہ قارئین کے معلومات میں بھرپور اضافہ ہو۔
زیرِ نظر مجموعہ مقالات کو پندرہ حصوں (Sections) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ابتدائیہ ہے جس میں صدر ادارہ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اور سکریٹری ادارہ مولانا اشہد جمال ندوی نے سمینار اور مجموعہ مقالات کا پس منظر بیان کیا ہے۔اس کے بعد اشہد جمال ندوی کے استقبالیہ کلمات، امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی کا کلیدی خطبہ اور ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا خطبہ صدارت مجموعہ کے مشمولات میں شامل کیا گیا ہے۔ جناب سید سعادت اللہ حسینی نے کلیدی خطبہ میں مولانا سے متعلق قیمتی بات یہ کہی ہے کہ ’’اوائل عمر میں مولانا مرحوم نے ایک فیصلہ کیا۔ خود کو تحریک اسلامی کی علمی خدمات کے لیے وقف کیا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اسی مقصد کے لیے بہار وخزاں کے سارے موسم اور روز وشب کی ساری ساعتیں وقف کر دیں۔ایسی ہجرت کی کہ زندگی بھر وطن لوٹنے کا کبھی خیال بھی شاید ان کو نہیں آیا‘‘ (ص:34) ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے صدارتی خطبہ میں کہا ہے کہ مولانا کے دو کام ایسے ہیں جو انہیں دوسرے مصنفین سے ممتاز کرتے اور ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع کردیتے ہیں۔ان کا پہلا کام ’ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کا استحکام اور اس کی ترقی کے لیے بھرپور جدوجہد ہے اور ان کی خدمات کا دوسرا اہم میدان سہ ماہی مجلہ ’تحقیقات اسلامی‘ کا اجرا ہے) ص36:-37 )
مجموعہ مقالات کا دوسرا حصہ شخصی نقوش پر مشتمل ہے جس میں معروف مفکر پروفیسر خورشید احمد، حافظ محمد ادریس، پروفیسر عبد الرحیم قدوائی، ڈاکٹر محمد سعود عالم قاسمی، ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی، پرواز رحمانی، محمد رفیع کلوری، سید صفی اطہر، کاکا سعید احمد عمری، مولانا عتق احمد بستوی اور ابوالاعلیٰ سید سبحانی کے تاثراتی مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ یہ مضامین اگرچہ ضخامت کے لحاظ سے کافی مختصر ہیں لیکن فکرِ وخیال کے لحاظ سے کافی دلچسپ اور فکر انگیز ہیں۔ کتاب کا تیسرا حصہ تحقیق وتصنیف کے عنوان سے ہے جس میں پانچ مقالات کو جگہ دی گئی ہے لیکن اس حصے میں ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا مقالہ بعنوان ’’مولانا عمری کی غیر مطبوعہ تصانیف‘‘ اور ڈاکٹر غازی محی الدین کا مقالہ ’’مولانا سید جلال الدین عمری کی تصانیف کی چند خصوصیات‘‘ کافی اہمیت کے حامل ہیں۔
دعوت دین مولانا کی علمی وتحقیقی مصروفیات کا ایک اہم میدان رہا ہے اور اس تعلق سے مجموعہ مقالات میں ایک مکمل حصہ رکھا گیا ہے جس میں پانچ وقیع مقالات کو شامل کیا گیا ہے۔اس حصے میں پروفیسر کنور محمد یوسف امین نے ’’مولانا عمری کے دعوتی منہج میں اسلام کے عالمی تہذیبی کردار کی نمائندگی‘‘ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی نے ’’اسلام کی دعوت۔مولانا عمری کی تحریروں کے حوالے سے‘‘ محمد انس مدنی نے ’’دین کا داعی۔مولانا سید جلال الدین عمری‘‘ محمد طارق بدایونی نے ’‘اشاعت اسلام کے لیے قوت کا استعمال مولانا عمری کے افکار کا مطالعہ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ مجموعہ میں’’قرآن مجید سے شغف‘‘ کے عنوان سے بھی ایک حصہ ہے جس میں مولانا عمر اسلم اصلاحی اور ڈاکٹرالطاف احمد مالانی کے مقالات شامل ہیں۔
ایک اور حصے میں مولانا کی فقہی بصیرت پر مشتمل تین اہم مقالات کو جگہ دی گئی ہے جن میں ڈاکٹر وارث مظہری، ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی اور محمد صادر ندوی کے مقالات شامل ہیں۔ ان تینوں مقالہ نگاروں نے مولانا کی فقہی بصیرت اور ان کے فقہی خدمات کو اپنے مقالات میں مدلل انداز میں اجاگر کیا ہے۔اسلامی معاشرت مولانا سید جلال الدین عمری کا میدان ان کا اختصاص رہا ہے اور اس ضمن میں انہوں نے حقوق نسواں اور انسانی حقوق پر بہت عمدہ اور قابل رشک کام کیا ہے۔یہ ایسا کام ہے جسے لوگ حوالے اور مرجع کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مجموعہ مقالات میں اسلامی معاشرت پر دس وقیع مضامین کو شامل کیا گیا ہے جن میں مولانا کی متعدد تصانیف کا تعارف وجائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مولانا سید جلال الدین عمری کا اسلوب نگارش کیا ہے؟ اس کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے اس موضوع پر ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی، ڈاکٹر حسن رضا، پرفیسر محمد فہیم اختر ندوی، ڈاکٹرسکندر اصلاحی کی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ اسلوب نگارش کے تعلق سے مولانا ظفر الاسلام اصلاحی لکھتے ہیں: ’’مولانا کی تصانیف کے مطالعہ سے ان کی تحریروں کے جو امتیازات سامنے آتے ہیں ان میں زبان کی سادگی،اسلوب بیان کی عام فہمی، بھاری بھر کم تراکیب ومشکل اصطلاحات سے احتراز،تکلف وتصنع سے دوری، قرآن و حدیث سے براہ راست استفادہ اور عصری مسائل کی عکاسی خصوصی ذکر کے مستحق ہیں‘‘(ص 62:) مولانا کے تحقیقی وعلمی منہج کے بارے میں پروفیسر محمد فہم اختر ندوی لکھتے ہیں کہ ’’مولانا نے ان موضوعات پر لکھا جن پر دینی حلقے کم قلم اٹھاتے ہیں۔ اس اسلوب اور طرز میں لکھا جو علمیت اور معقولیت کا امتزاج تھا۔اس منہج کو اپنایا جو حلقہ واریت سے دور اور تعصب سے نفور تھا‘‘(ص391:)
مولانا کے خطبات ودروس کو بھی مجموعہ مقالات میں کور کیا گیا ہے اور اس تعلق سے دو مقالات شامل کیے گئے ہیں۔مولانا کی خدمات کا ایک دائرہ جماعت کی قیادت بھی ہے اور آپ نے طویل عرصے تک فکری خدمات کے ساتھ ساتھ تنظیمی قیادت کا فریضہ بھی بحسن وخوبی انجام دیا ہے اور سات وقیع مقالات میں ان کی تحریکی وملی قیادت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ چوبیس صفحات پر مشتمل ایک اہم مقالہ بہ عنوان ’’مولانا عمری اور پروفیسر مشیر الحق کے درمیان علمی مکالمہ اقبال کے نظریہ اجتہاد کا مطالعہ‘‘ بھی کتاب میں شامل ہے جس میں ڈاکٹر عبید اللہ فہد نے دونوں بزرگوں کے درمیان علمی مکالمہ پر سیر حاصل بحث کی۔مجموعہ مقالات کا ایک حصے میں کئی اصحاب علم نے خراج عقیدت پیش کیا ہے جن میں پروفیسر محسن عثمانی، ڈاکٹر منظور عالم،مولانا محمدطاہر مدنی،ڈاکٹر حمید اللہ مرازی، ڈاکٹر تابش مہدی،ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی اور ڈاکٹر رضوان احمد رفیقی قابل ذکر ہیں۔ دو روزہ سمینار میں جن اہل علم (مولاناخلیل الرحمٰن سجاد نعمانی، مولانا محمد فاروق خاں،جناب ایس امین الحسن، ڈاکٹر حسن رضا،پروفیسر کنور محمد یوسف امین اور جناب سید سعادت اللہ حسینی) نے سیشنز میں میں صدارتی خطبات پیش کیے ہیں، انہیں بھی ضبط تحریر میں لایا گیا ہے اور مجموعہ مقالات کا ایک اہم حصہ بنایا گیا ہے۔یہ سبھی خطبات منفرد خصوصیات کے حامل ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ خطبات زیرِ نظر کتاب کا اصل مغز ہیں۔ کتاب کے آخر میں روداد و قرارداد سمینار اور مولانا عمری کی تصانیف کی فہرست بھی دی گئی ہے۔
چونکہ مولانا نے حقوق نسواں پر عمدہ کام کیا ہے اور اس تعلق سے زیرِ نظر مجموعے میں سات ایسے مقالات بھی شامل کیے گئے ہیں جنہیں خواتین نے ضبط تحریر میں لایا ہے۔یہ ایک عمدہ پیش رفت ہے۔ مجموعی طور پر مقالات معیاری اور حوالہ جات سے مزین ہیں۔زبان وبیان اور اسلوب کے لحاظ سے بھی ہر مقالہ منفرد نوعیت کا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ مجموعہ مولانا عمریؒ کی فکر وشخصیت کو جاننے اور ان پر علمی کام کے لیے نشان راہ ثابت ہو گا۔
***

 

***

 مولانا سید جلال الدین عمری نے حقوق نسواں پر عمدہ کام کیا ہے اور اس تعلق سے زیرِ نظر مجموعے میں سات ایسے مقالات بھی شامل کیے گئے ہیں جنہیں خواتین نے ضبط تحریر میں لایا ہے۔یہ ایک عمدہ پیش رفت ہے۔ مجموعی طور پر مقالات معیاری اور حوالہ جات سے مزین ہیں۔زبان وبیان اور اسلوب کے لحاظ سے بھی ہر مقالہ منفرد نوعیت کا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ مجموعہ مولانا عمریؒ کی فکر وشخصیت کو جاننے اور ان پر علمی کام کے لیے نشان راہ ثابت ہو گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023