محمد نصیرالدین
جناب ظہیرالدین علی خان منیجنگ ایڈیٹر روزنامہ سیاست کے انتقال سے دل ابھی مغموم تھے کہ مولانا سید عبدالباسط انور سابق امیر حلقہ متحدہ آندھراپردیش نے داغ مفارقت دے دی۔ یوں تو دنیا میں ہزاروں انسانوں کا روز آنا اور جانا ایک مسلسل عمل ہے لیکن بعض ہستیوں کا دنیا سے رخصت ہونا بڑا شاق گزرتا ہے۔ فضا مغموم ہو جاتی ہے، ماحول افسردہ ہو جاتا ہے اور قلوب کی دھڑکن تھم سی جاتی ہے، حتی کہ اپنے اور غیر، دوست و دشمن اور موافق و مخالف بھی آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتے۔
لائی حیات آئی قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
مولانا سید عبدالباسط انور 1950ء میں حیدرآباد کے ایک معزز سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد نظام کالج سے گریجویشن اور عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے (عربک) پاس کیا۔ چونکہ دینی و مذہبی گھرانے سے تعلق تھا اس لیے بچپن سے دعوت و تبلیغ اور اشاعت دین کی سرگرمیوں سے دلچسپی رہی۔ انہوں نے طلبا و نوجوانوں کی تنظیم حلقہ طلبا اسلامی کی بنیاد رکھی، بعد ازاں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) کو متحدہ ریاست آندھراپردیش میں مستحکم کرنے میں اہم رول ادا کیا اور پھر جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے تو آخری سانس تک جماعت کی سربراہی و مختلف مناصب پر مصروف کار رہے۔ ۱۲ سال تک متحدہ آندھراپردیش کی امارت کے منصب پر فائز رہے۔ عہدے اور مناصب عموماً افراد میں تکبر و انانیت جیسی کمزوریاں پیدا کر دیتے ہیں لیکن سید عبدالباسط انورؒ کی شخصیت ان کمزوریوں سے پاک تھی۔ عاجزی، انکساری و سادگی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ فکر آخرت اور جواب دہی کے احساس سے ہمیشہ لرزاں رہتے تھے۔ شہرت، نام و نمود اور دکھاوا دور جدید کا خاصہ بن چکا ہے لیکن وہ ان خرابیوں سے کوسوں دور رہتے تھے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ دعوت و تبلیغ کے جس کام کو انہوں نے مقصد حیات بنایا ہے وہ بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ موصوف نے اپنا وقت، صلاحیت، آرام و آسائش حتی کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کو تک قربان کر دیا۔ ان کے ساتھی ملک و بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکر متاع دنیا کے مزے لوٹ رہے تھے لیکن یہ سادگی و قناعت کے ساتھ اللہ کی رضا کے حصول میں سرگرم رہے۔
بعض لوگ عہدہ یا منصب ملنے پر اپنا رویہ تک تبدیل کر دیتے ہیں لیکن باسط صاحب کا معاملہ اس کے بالکل برعکس رہا۔ ہر سطح کے افراد حتیٰ کہ ملازمین تک سے گرم جوشی، محبت، ملنساری اور مسکراتے ہوئے چہرے سے ملتے، ہر ایک کی خوشی و غم میں شرکت کرتے، لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرتے، مسائل کو حل کرتے اور پریشانیوں اور تکالیف کو دور کرتے۔ چنانچہ ان سے ملنے والا ہر فرد یہ خیال کرتا کہ مولانا مجھ کو بہت چاہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا کو بڑی ہی اعلیٰ ظرفی اور وسیع القلبی سے نوازا تھا۔ کسی کے تعلق سے بھی چاہے دوست ہو یا دشمن، موافق ہو یا مخالف اپنے دل میں کسی قسم کی کجی یا تنگی نہیں رکھی۔ کھلے دل سے خندہ پیشانی اور مسکراتے ہوئے ملا کرتے تھے۔ ان سے ملاقات کرنا کسی کے لیے دشوار نہیں تھا۔ جماعت نے انہیں مختلف ذمہ داریاں دیں اور انہوں نے تن من دھن لگا کر ہر ایک ذمہ داری کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ایک عرصہ سے وہ شوگر اور دل کے عارضہ میں مبتلا تھے لیکن ذمہ داری کی ادائیگی کہ تئیں کبھی غفلت یا لاپروائی نہیں برتی۔
مولانا سید عبدالباسط انور کے تمام دینی، ملی، مذہبی، فلاحی اور سماجی تنظیموں اور اداروں سے قریبی تعلقات تھے۔ علاوہ ازیں صحافت سے وابستہ احباب سے بھی بڑے خوش گوار روابط رہے۔ ہر قسم کی دینی، مذہبی، اصلاحی و فلاحی سرگرمیوں کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور حتیٰ المقدور تعاون بھی کرتے تھے۔ ملت کی تعلیمی و معاشی بدحالی کے تعلق سے بھی وہ کافی فکر مند رہا کرتے تھے۔ ملت کو جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا وہ ملت کے تمام علما و قائدین اور مختلف تنظیموں کے ذمہ داروں کو جمع کرتے اور حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دے کر پیش آمدہ مسئلہ کے حل کی کوشش کرتے۔
دنیا میں آنے والے ہر انسان کو دیر یا سویر اپنے رب کے حضور لوٹنا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا یقین رکھتے ہیں۔ مولانا سید عبدالباسط انور صاحب نے اپنی دنیوی حیات مکمل کرلی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بساط بھر کوشش و جدوجہد سے پر زندگی گزاری، اپنی زبان و قلم اور اپنے رویہ سے کبھی کسی انسان کو تکلیف نہیں دی۔ عہدے اور منصب کو لے کر اپنے نفس اور اپنی انا کو بے لگام ہونے نہیں دیا۔ اپنی ساری تگ و دو اور دوڑ دھوپ کو محض اللہ کی رضا کے لیے وقف کردیا۔ دنیا و متاع دنیا، عیش و عشرت، ناموری و شہرت سے دور رہ کر ایک عاجز بندے کی طرح زندگی گزاری۔ مولانا سید عبدالباسط انور صاحب کی زندگی، جدوجہد اور کوشش ان کے چاہنے والوں کو آواز دے رہی ہے کہ دعوت دین، اشاعت دین اور تبلیغ دین کے لیے آگے بڑھو اور اللہ کے دین اور رسول اللہ کی تعلیمات سے تاریک معاشرہ، کو منور کرنے اور بے دینی و بے راہ روی کےخاتمہ کے لیے تن من دھن سے سرگرم عمل ہوجاو!!
آخرت میں عمل نیک ہی کام آئیں گے
پیش ہے تجھ کو سفر، زاد سفر پیدا کر
***
***
عاجزی، انکساری و سادگی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ فکر آخرت اور جواب دہی کے احساس سے ہمیشہ لرزاں رہتے تھے۔ شہرت، نام و نمود اور دکھاوا دور جدید کا خاصہ بن چکا ہے لیکن وہ ان خرابیوں سے کوسوں دور رہتے تھے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ دعوت و تبلیغ کے جس کام کو انہوں نے مقصد حیات بنایا ہے وہ بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ موصوف نے اپنا وقت، صلاحیت، آرام و آسائش حتی کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کو تک قربان کر دیا۔ ان کے ساتھی ملک و بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکر متاع دنیا کے مزے لوٹ رہے تھے لیکن یہ سادگی و قناعت کے ساتھ اللہ کی رضا کے حصول میں سرگرم رہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023