مولانا محمد علی جوہر:قومی و ملی زندگی کا ایک درخشاں کردار
جوش و جنون اور ایثار کا پیکر ایک رہبر جس نے اپنی جدوجہد سے قوم کو ایک انقلاب کے لیے تیار کیا
ڈاکٹر ثناء اللہ شریف
"اردو زبان نے آزادی وطن کی تحریک میں مجاہدانہ کردار ادا کیا ہے۔ درحقیقت یہ محض ایک زبان ہی نہیں بلکہ خود ایک مجاہدِ آزادی بھی ہے۔ اس کی اولوالعزمی اور سرفروشانہ جدوجہد کی گواہ وہ انقلابی صدائیں ہیں جو آج بھی تاریخ میں گونج رہی ہیں۔ ’سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘ کی للکار ہو، یا ’ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں‘ کا نعرۂ مستانہ، ’انقلاب زندہ باد‘ کا جوش ہو یا حب الوطنی سے لبریز وہ ولولہ انگیز ترانے جو قوم کے آہنی عزم کی تصویر ہیں— ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘، ’وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے‘ اور قومی یکجہتی کا پیغام دینے والا ’ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘ جیسے نغمے اردو کی عظمت اور اس کے انقلابی کردار کے شاہد ہیں۔”
نئی نسل کو آج یہ بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ ہمارے اسلاف نے حصول آزادی اور یکجہتی کے لیے کیا کردار ادا کیا ہے اور تاریخ سے واقفیت کرانا بھی ضروری ہے۔ محسن الملک سرسید احمد خاں فرماتے ہیں:
’’کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ بے عزتی کوئی نہیں کہ وہ اپنی قومی تاریخ کو بھول جائے اور اپنے بزرگوں کی کمائی کھو دے‘‘
ملک عزیز ہندوستان کی تاریخ میں مختلف نشیب و فراز آئے۔ ۱۸۵۷ء کے صدمے نے تو تلوار کو شکست دے دی تھی مگر حوصلوں کو نہیں۔ انگریزوں نے ضعیف و کم زور شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے سر سے تاج اتار لیا تھا مگر ملت کے نوجوانوں کو تازیانہ بخشا تھا جب کہیں مائیں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی ترغیب ایک مذہبی فریضے کی حیثیت دیتی تھیں۔ ایسی ہی ایک ماں ’’بی امّاں‘‘ کی تربیت و حوصلہ افزائی کی وجہ سے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی تحریک آزادی کے علم بردار بن گے۔ جنہیں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال شاہین اور شہباز جیسے القاب سے نوازا تھا۔
بولیں بی اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ساتھ تیرے ہیں شوکت علی بھی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا
کلمہ پڑھ کر خلافت پہ مرنا
ہوتے میرے گر سات بیٹے
کرتی سب کو خلافت پہ صدقے
ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں میں مولانا محمد علی جوہرؔ کا مقام نہایت اعلیٰ و ارفع ہے۔ان کے انقلابی جذبے ایثار و قربانی اور حوصلہ مندی نے قوم کو خوابِ غفلت سے جگایا۔غلامی کا احساس دلایا۔ انہوں نے اس خوابیدہ قوم کے دل میں تحریر و تقریر اور شعر و ادب کے ذریعہ ایک تڑپ پیدا کر دی۔ اس کو ایک عظیم انقلاب کے لیے تیار کیا۔ ان کے اخبار’’ کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ نے لوگوں میں عمل کی روح پھونکی اور حصول آزادی کے لیے جان تک قربان کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔
مولانا محمد علی جوہر نے ان لوگوں کی گود میں پرورش پائی اور ان بزرگوں کی آنکھیں دیکھیں جنہوں نے جنگ آزادی کے خونین مناظر کا مشاہدہ کیا تھا۔ جنہوں نے آخری مغل تاج دار کو ملک بدر ہوتے دیکھا تھا اور دیار غیر میں سپردِ خاک ہونے کی خبر یں سنی تھی۔لال قلعہ اور دہلی کے امراء و روساء کو لٹتے اور در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے دیکھا جو فقر و فاقہ کے ماحول میں خاک نشین ہوگئے تھے۔
مولانا نے جو کچھ حق سمجھا پورے وثوق اور ہمت سے اسے لکھا اور کسی طرح کا خوف ان کے دل اور قلم کی روانی کو متاثر نہ کرسکا۔ انگریزی حکومت کے خلاف ایک ایک جملے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ انگریزی اقتدار کے ظلم و جبر کا راستہ اختیار کیا۔ قیدو بند اور نظر بندی بھی ان کے حوصلوں کو قید نہ کرسکی۔ وہ گفتار کے ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے۔ رہائی کے بعد مختلف جلسوں میں انہوں اقتدار کے خلاف اس جنگ کا اعلان کیا جس کاذکر وہ اپنے اخبار میں کرتے تھے۔
جلیان والا باغ کی دہشت، انگریزوں کی شاطرانہ چالیں، وزارت کی کرسی کی پیش کش، اپنوں کی مخالفت، اہل خانہ کی کسم پرسی اور صحت کی خرابی راستے کی رکاوٹ نہیں بنے بلکہ اپنی منزل مقصود کے حصول میں آخری سانس تک استقامت سے جمے ڈٹے رہے۔ انہوں نے جو کچھ کیا اور جو کچھ لکھا اسی کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ اور دنیا نے اس عظیم شخص کو دیکھا جو اپنے ارادوں میں سنگ و آہن سے زیادہ مضبوط تھا جسے سیم وزر کے انبار بھی نہ خرید سکے تھے۔
مولانا محمد علی جوہر مختلف بیماریوں سے متاثر تھے جس کا ذکر انہوں یوں کیا:
’’میری کیفیت یہ ہے کہ قلب کی حالت درست نہیں۔ بینائی میں فرق آگیا ہے، پاؤں متورم ہیں، ذیابطیس کا عارضہ ہے۔ بیماریوں کی اس طویل فہرست سے جو میں نے پیش کی ہے۔ جس آدمی کے حواس بجا ہوں وہ ان بیماریوں کے ساتھ ۷ میل کا سفر بھی طے نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی میں خشکی اور سمندر کے سات ہزار میل کا سفر طے کرکے یہاں پہنچا ہوں کیوں کہ جہاں ہندوستان اور مسلمانوں کا معاملہ آجاتا ہے وہاں میری حالت دیوانوں کی سی ہو جاتی ہے۔(محمد علی جوہر، حمیدہ ریاض صفحہ ۵۴)
مولانا محمد علی ۱۰/ دسمبر ۱۸۷۸ء کو یوپی کے ضلع رام پور میں ایک ممتاز خاندان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد رام پور کے نواب کے دربار میں ایک بڑے منصب پر فائز تھے۔ محمد علی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اس کے بعد بریلی کے ہائی اسکول میں ان کا داخلہ ہوا۔مزید علی گڑھ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے بی اے کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور اپنی غیر معمولی استعداد و لیاقت کی بنا پر آکسفورڈ سوسائٹی کے ممبر مقرر ہوئے۔ یہ پہلے ہندوستانی تھے جن کو یہ اعزاز ملا۔
۱۹۳۰ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن پہنچنے تھے۔ انہوں نے اس قدر جوش و جذبے سے بھر پور تاریخی تقریر کی کہ آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، ماں کی تصویر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی اور کانوں میں آواز ٹکرانے لگی۔’’ بیٹا وطن کی آزادی اور خلافت پر اپنی جان لڑا دو‘‘ دل بھر آیا۔ گرج کے ساتھ زور سے مٹھی ڈائس پر ماری اور کہا:
’’آج جس مقصد کے لیے میں یہاں آیا ہوں وہ یہی ہے کہ میں اپنے ملک کو اس حالت میں واپس جاؤں، جب کہ آزادی کا پروانہ میرے ہاتھ میں ہو۔ میں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جاؤں گا۔ ایک غیر ملک ہی سہی جب کہ وہ آزاد ہے مرنے کو ترجیح دوں گا۔ اگر آپ مجھے آزادی نہیں دیں گے تو پھر مجھے قبر کے لیے جگہ دینی پڑے گی۔ ‘‘
"The proclamation of freedom should be given in my hands or you ought to give the place for a grave”
ہندوستان کے عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر اور ملت اسلامیہ کا یہ شیر لندن کی کانفرنس میں گرج کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا اور ۴/ جنوری ۱۹۳۱ء کو ربِ حقیقی سے جاملا۔ پروردگار نے ان کی خواہش کا پورا پاس و لحاظ رکھا۔وہ انبیاء کی سرزمین، حرم اول، بیت المقدس ان کی آخری آرام گاہ بن گئی۔
ان کی نماز جنازہ ہندوستان اور مختلف ملکوں میں بڑی تعداد میں ادا کی گئی۔
ان کے انتقال پر گاندھی جی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا تھا’ مولانا کا انتقال ایسے وقت میں ہوا جب ملک کو ان کی سخت ضرورت تھی، انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے زبردست کام کیا تھا۔
بقول ڈاکٹر ذاکر حسین ’’وہ ہماری قومی و ملی زندگی کی اجمالی تصویر تھے۔ اس قائد کے سینے میں جو آگ تھی اس کی چنگاری سے ملتیں بیدار اور مردہ قومیں زندہ ہو جاتی ہیں۔
مولانا مودودی کی گراں قدر رائے کتنی معنی خیز ہے:
’’لیڈروں سے یہ دنیا نہ کبھی خالی رہی ہے اور نہ رہے گی لیکن اس درویش خدا مست کی قیادت کی شان ہی کچھ اور تھی، پھر اس کے بعد آج تک مسلمانوں میں کوئی لیڈر ایسا نظر نہیں آیا جو سیاسی بصیرت کے ساتھ ایسا گہرا دینی جذبہ رکھتا ہو۔‘‘ جوہرؔ کے عام گوہر
مولانا جمہوریت کے شیدائی اور ملوکیت کے دشمن تھے۔ مختلف مواقع پر انہوں نے اس کا اظہار کیا… ۔۔۔میں اپنے نہاں خانہ تصورات میں شاہوں اور شہزادوں کا تصور نہیں پاتا۔سلطان ابن سعود کو اپنی ملوکیت پر بہت سخت سست کہا۔ آپ کا یہ طریقہ خلفائے راشدین کا نہیں ہے۔۔۔۔۔ اسلامی طرز حکومت کے خلاف ہے۔۔۔۔۔۔ سلطان آپ کی بے باکی کی تاب نہ لاکر جلسے سے اٹھ کر چلا گیا۔۔۔۔۔۔ وہ حق کے شیدائی تھے۔ انہوں نے کیا خوب کہا ہے:
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
سنو بھائیو! ہم مہاتما جی اور ان ہندو بھائیوں کے جو ان کی سرکردگی میں ہمارے شریک حال ہوئے ہیں بے حد ممنون ہیں لیکن یہ یاد رکھیے کہ اگر مہا تما جی ہمارے ساتھ نہ بھی ہوتے بلکہ یہ کہو کہ پیدا بھی نہ ہوتے تب بھی میں یہی کرتا جو میں نے کیا۔۔۔۔۔ہمارا بھروسا مہاتما جی پر نہیں ہے بلکہ خدا پر ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں۔۔۔جو کہتے ہیں کہ مذہب کو سیاست سے علیحدہ رکھو۔۔۔۔۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ مذہب داتون یا مسواک کے جیسا ہو جائے کہ ایک دوسرے کے داتون یا مسواک کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں…… مذہب ساری زندگی کی تفصیل ہے اور زندگی کے ہر شعبے سے اس کو تعلق ہے۔ کرنل ریجوڈ نے مجھے پارلیمنٹ مدعو کیا تھا۔۔۔۔بھائی تمہارا جو جی چاہے کرو مگر اپنے مذہب کو پارلیمنٹ میں نہ لاؤ۔ میں نے کہا کہ میرا مذہب آپ کی پارلیمنٹ تو پارلیمنٹ، آپ کے چکلوں اور شراب خانوں تک میں جائے گا اور وہاں کی گندگیوں کو دور کرے گا۔(محمد علی جوہر)
سیاسی نظریات میں مسلمانوں کے محدود تصور وطن کے خیال کو باطل قرار دیتے ہوئے آفاقیت، عالمِ اسلام کی آزادی کا تصور پیش کیا۔
ایک پراگندہ ذہن نے ’’رنگیلا رسول‘‘ نامی رسوائے عالم کتاب لکھ کر سرور کائنات ذات قدسی کی توہین کی تھی جس سے جوہر بے چین و مضطرب ہوگئے تھے۔ اس کا اثر ان کے دل و دماغ پر ہوا تھا اس کا اندازہ ان کے حسب ذیل بیان سے ہو سکتا ہے:
’’جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے نہ قانون کی ضرورت ہے نہ عدالت کی حاجت۔۔۔۔ محمدؐ کا تقدم میرے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے.۔۔۔.. اگر کوئی بدبخت اس کا اتنا بھی پاس نہیں کرتا کہ اس برگزیدہ ہستی کی توہین کر کے میرے قلب کو چور چور کرنے سے پر ہیز کرے تو مجھ سے جہاں تک ہو سکے صبر کروں گا اور صبر نہ ہو سکے تو اٹھوں گا۔۔۔ یا تو اس گندہ دل گندہ ذہن اور پراگندہ شخص کی جان لے لوں گا یا اپنی جان اس کی کوشش میں کھو دوں گا۔‘‘
ان ہی کا شعر ہے:
ہم کو خود شوقِ شہادت ہے گواہی کیسی
فیصلہ کر بھی چکو مجرم اقراری کا
مولانا محمد علی جوہر خود بھی ایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ ان کے یہ اشعار اردو شاعری کا سرمایہ افتخار ہونے کے ساتھ ساتھ ادب عالیہ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتداء ہماری تری انتہا کے بعد
عقل کو ہم نے کیا نذر جنوں
عمر بھر میں یہی دانائی کی
ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ
دنیا ہی میں بیٹھے ہوئے جنت کی قضا دیکھ
آزادی وطن کے جذبے سے سرشار یہ اشعار کتنے معنی خیز ہیں۔
مجھ سے یہ دیکھی نہیں جاتی تباہی کیا کروں
کچھ سمجھ میں ہی نہیں آتا الٰہی کیا کروں
جاں فروشی کے لیے ہم تو ہیں تیار مگر
کوئی اس جنس گرامی کا خریدار بھی ہو
ان کے علاوہ بھی ان کے بہت سے اشعار زبانِ زد خاص و عام ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025