مولانا مودودی: شخصیت اور فکر

محمد عارف اقبال

علّامہ سید ابوالاعلیٰ مودودی (25 ستمبر 1903- 22 ستمبر 1979) کا شمار مسلم دنیا کی چند عبقری علمی و تحریکی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کی شناخت ایک دینی، فکری اور تحریکی رہنما کے طور پر ہوتی ہے۔ علامہ نے ابتدا میں اپنے والد سیّد احمد حسن صاحب کی نگرانی میں تعلیم و تربیت حاصل کی۔ اس کے بعد اورنگ آباد (مہاراشٹر) کے ایک مدرسہ سے فوقانیہ (میٹرک) پاس کیا۔ دارالعلوم حیدرآباد میں بھی کچھ عرصے تعلیم حاصل کی، بعد ازاں اپنے فن کے ماہر مختلف اساتذہ سے فیض اٹھایا۔ ذاتی مطالعے کو خصوصی اہمیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ 1918 میں ہی وہ اخبار مدینہ بجنور کی ادارت سے وابستہ ہوگئے اور تحریک خلافت میں بھی حصہ لیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے اخبار ’مسلم‘ کی ادارت کے بعد اس کے دوسرے آرگن ’الجمعیۃ‘ کی تقریباً دوسال ادارت کی۔ اسی اخبار میں (مولانا) محمد علی جوہر کی ترغیب سے متاثر ہوکر جہاد کے موضوع پر مضامین لکھے۔ بعد میں ’الجہاد فی الاسلام‘ کے نام سے 1930 میں دارالمصنفین سے کتاب شائع ہوئی۔ اس سے قبل 1928 میں الجمعیۃ اخبار سے استعفیٰ دے کر علامہ مودودی 1930 سے 1934 تک حیدرآباد (دکن) میں نواب یوسف علی خاں سالار جنگ کی خواہش پر تبلیغ اسلام اور علمی و تحقیقی کام کے لیے مقیم رہے۔ دارالترجمہ عثمانیہ کے لیے بھی علمی کام انجام دیا۔ کئی کتابیں منظر عام پر آئیں جن میں عربی سے اردو میں فلسفہ کی کتاب ’اسفار اربعہ‘ کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ ان کی ایک مشہور کتاب ’تاریخ دکن‘ بھی ہے۔ اسی دوران میں علامہ مودودی کی ملاقات تحریک عالمگیر قرآن مجید کے بانی مولوی ابو محمد مصلح (سہسرامی) سے ہوئی۔ اس وقت ان کی ادارت میں رسالہ ’ترجمان القرآن‘ نکل رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ تصنیف و تالیف میں مشغول تھے۔ جب ان کی رفاقت علامہ مودودی سے ہوئی تو ان کو محسوس ہوا کہ علامہ مودودی جو کئی رسائل و اخبارات کے ایڈیٹر رہ چکے تھے اور ان کا علمی و ادبی رجحان غیر معمولی ہے تو ابومحمد مصلح (علیہ الرحمہ) نے ترجمان القرآن کے اجرا اور اس کی اشاعت کے صرف چھ ماہ بعد اس رسالے کو علامہ مودودی کے ہاتھوں فروخت کرنے میں عافیت محسوس کی۔ انہوں نے ترجمان القرآن میں تقریباً 92 سال قبل ایک مضمون لکھا تھا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں علامہ مودودی کے تعارف میں کچھ اس طرح لکھا:
’’شفیق مکرم مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی ذات تعارف کی محتاج نہیں۔ جمعیت علمائے ہند کا آرگن اخبار الجمعیۃ جس خوبی اور جس قابلیت کے ساتھ آپ کی ادارت میں نکلتا رہا ہے اس سے عوام اور خواص سب ہی واقف ہیں اور خوش قسمتی سے ذاتی طور پر جن سے آپ کی ملاقات ہے وہ کہہ سکتے ہیں کہ الجمعیۃ اور ترجمان القرآن کی ایڈیٹری کے لیے کس قدر صحیح انتخاب کا لفظ صادق آتا ہے۔ تصنیف کے اندر مصنف کی روح موجود ہوتی ہے اور قارئین کے اندر ایک حیثیت سے وہ حلول کرجاتی ہے اس لیے اب ترجمان القرآن بھی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے ظاہر و باطن اور قول و فعل کا آئینہ ہوگا۔ اور پھر اس سے وہی مدعا حاصل ہوگا جو اول روز سے نصب العین قرار پاچکا ہے۔ تحریک قرآن کی کامیابی کے سلسلے میں سب سے پہلے دو کام کرنا طے پایا تھا۔ ایک تو فضا کا قرآنی فضا بنانا دوسرے اشخاص کا پیدا کرنا۔ اور ظاہر ہے کہ یہ وہی کرسکتا ہے جو ہمہ قرآن ہو۔ جس کے قول و فعل میں مطابقت ہو اور جس کا وظیفہ حیات قرآن پاچکا ہو۔‘‘ (ماخوذ ترجمان القرآن، محرم ۱۳۵۲؍ ہجری حیدرآباد دکن۔ بحوالہ سہ روزہ دعوت 31 اکتوبر 1979، مفکر اسلام سیّد مودودی نمبر)
تحریک عالمگیر، قرآن مجید کے بانی (مولانا) ابومحمد مصلح صاحب (سہسرامی) کی مذکورہ بالا شہادت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے علامہ مودودی کا ظاہر و باطن کیسا تھا اور کس اعتماد کے ساتھ ابومحمد مصلح صاحب نے اپنا ’ترجمان القرآن‘ ان کے حوالے کیا تھا۔ جن دو مقاصد کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، علامہ مودودی کو جب محسوس ہوا کہ قرآن کی فضا ہموار ہوچکی ہے اور چند مخلص اشخاص بھی ذہنی و فکری اور شعوری طور پر تیار ہوچکے ہیں تو لاہور میں 75 افراد پر مشتمل ایک اجتماع 26 اگست 1941 کو منعقد ہوا۔ اسی اجتماع میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا اور متفقہ طور پر جماعت اسلامی کے پہلے امیر علامہ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو منتخب کیا گیا۔ واضح ہو کہ 75 افراد پر مشتمل اس اجتماع میں جو مخلص حضرات شریک تھے ان میں نوجوان سید ابوالحسن علی ندوی اور منظور نعمانی صاحب بھی تھے۔
علامہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے انتقال (22 ستمبر 1979) سے قبل جماعت اسلامی میں عام طور پر تحریکی شخصیات پر لکھنے، ان کی خدمات کو اجاگر کرنے اور شائع کرنے کی روایت نہیں رہی ہے۔ غالباً سب سے پہلے پاکستان کی جماعت اسلامی نے اس کام کا آغاز کیا۔ معروف صحافی مجیب لرحمٰن شامی نے علامہ مودودی کے انتقال کے بعد ایک ضخیم کتاب ’ایک شخص ایک کارواں‘ کے عنوان سے ترتیب دی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا گیا۔ اردو اور انگریزی میں علامہ سیّد مودودیؒ کی تحریکی خدمات پر کئی کتابیں شائع ہوئیں۔ پروفیسر خورشید احمد کی ایک کتاب ادبی موضوع پر ’ادبیات مودودی‘ بھی شائع ہوئی۔ ڈاکٹر امتیاز احمد نے ایک کتاب ’مولانا مودودیؒ کی نثر نگاری‘ لکھی۔ ہند و پاک میں خطوط مودودی بھی کئی جلدوں میں شائع ہوئی۔ سید مودودی کے حوالے سے نہ جانے کتنے موضوعات پر کتنی کتابیں لکھی گئیں، اس وقت اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ تاہم دسمبر 2015 میں پہلی بار علامہ سید مودودی کی خدمات کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے ایک عاشقِ مودودی اور جماعت اسلامی ہند، حیدرآباد کے رکن محترم احمد ابو سعید صاحب کی ایک تحقیقی کتاب شائع ہوئی۔ کتاب کا عنوان ہے ’عصر حاضر کے امام العالم و قائد اعلیٰ – مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی: حیات و خدمات، ماہ و سال کے آئینہ میں‘۔ اس کا چوتھا ایڈیشن 5 فروری 2022 کو شائع ہوا ہے۔ اس کتاب کا عالمانہ ’مقدمہ‘ عالمی ترجمان القرآن کے ایڈیٹر پروفیسر خورشید احمد (مقیم لندن) نے لکھا ہے۔ اس وقت یہ کتاب علامہ مودودی کی حیات و خدمات پر واحد کتاب ہے جس میں ترتیب کے ساتھ ماہ و سال کو ملحوظ رکھتے ہوئے تاریخی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے مطالعے سے محقق و مرتب کی محنت شاقہ کا بجا طور سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
’مولانا مودودی: شخصیت اور فکر‘ از ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی پر اظہار خیال کرنے سے قبل تمہید کے طور پر چند باتیں اس لیے تحریر کی گئیں کہ جس تاریخی شخصیت کا یہاں ذکر ہے، اس کے پس منظر کی ایک جھلک قاری کے سامنے آجائے۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر رفیع الدین فاروقی کی اس کتاب کی اشاعت کا جواز بھی سمجھ میں آجائے کہ یہ کتاب بھرتی کے طور پر نہیں لکھی گئی بلکہ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ کتاب بھی منفرد ہے۔ واضح ہو کہ ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی نے عثمانیہ یونیورسٹی (حیدرآباد) سے ایم فل اور پی ایچ-ڈی کی ڈگریاں بھی علامہ سید مودودی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی مقالات لکھ کر حاصل کی ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے علامہ مودودی کی ابتدائی صحافتی خدمات کے حوالے سے دو جلدوں میں مقالات مسلم اور چار جلدوں میں الجمعیۃ اخبار کے مضامین کو جمع کیا ہے نیز دیگر کاموں کے ساتھ ان کی ایک اہم کتاب ’تفہیم القرآن میں اصول التفسیر‘ شائع ہوئی ہے۔
زیر نظر کتاب اس لحاظ سے بےحد اہم ہے کہ اس میں علامہ سید مودودیؒ کے فکر و نظر اور تحریکی مزاج کا جائزہ ان کی اپنی تحریروں کے آئینہ میں لیا گیا ہے۔ ایک طرح سے یہ کتاب سید مودودی کی جملہ تصانیف کے تعارف و تجزیے پر مشتمل ہے۔ تفسیری سرمایہ پر روشنی ڈالتے ہوئے رفیع الدین فاروقی ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’تفہیم القرآن میں عصری تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک طرف مغربی فلسفہ اور مغربی تہذیب کی وجہ سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ پر اس کے مضر اثرات کا مسئلہ تھا۔ دوسری طرف خود وہ فتنے تھے جو مسلم معاشرے میں پیدا ہوکر ملت کو پراگندہ کر رہے تھے، مثلاً قادیانیت، منکرین حدیث وغیرہ۔ اس کے ساتھ تجدد پسندوں نے عقلیت کی اساس پر اسلام کو قطع برید کرکے تاویلوں کی خراد پر چڑھا دیا تھا۔ اور تیسری طرف خود اسلام کی تفہیم کا مسئلہ تھا، یعنی اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے بجائے مذہب سمجھا جانے لگا تھا جس کا تعلق انسان کی نجی زندگی سے ہوتا ہے۔‘‘ (صفحہ 370)
سات ابواب اور ضمیمے پر مشتمل اس کتاب کی ابتدا (صفحہ 11 تا 20) میں ولادت سے وفات تک کی Chronology تاریخی ترتیب سے دی گئی ہے۔ سید مودودی کی جملہ خدمات کو ’ایک نظر میں‘ سمجھنے کے لیے یہ کرونالوجی بےحد معلوماتی اور مفید ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ’’مولانا مودودی کو ان کی تصانیف، فکر اسلامی کی تجدید اور نفاذ شریعت کی جدوجہد کے مدنظر دنیا کے 500 علما نے ’پہلے بین الاقوامی شاہ فیصل ایوارڈ‘ کے لیے تجویز (Recommend) کیا تھا جو ان کے انتقال سے قبل (فروری 1979 میں) دیا گیا۔ اس کے ساتھ انہیں دو لاکھ ریال کا چیک بھی پیش کیا گیا تھا لیکن مولانا نے اس کو ادارہ معارف اسلامی کے حوالے کردیا تاکہ اسے علوم اسلامی کے فروغ میں استعمال کیا جاسکے۔‘‘ (صفحہ 45)
مصنف نے تفہیم القرآن جلد 4 (سورہ الشوریٰ، حاشیہ 20) کے حوالے سے ایک جگہ علامہ مودودی کا موقف نقل کیا ہے:
’’سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی غلطی متصادم ہوتی ہے خود رسول اللہ (ﷺ) کا وہ عظیم الشان کارنامہ ہے جو حضور نے 23 سال کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپ نے تبلیغ و تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کردیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔ کیا آپؐ کا یہ پورا کارنامۂ حیات اقامتِ دین کی عملی تفسیر نہیں ہے۔‘‘ (صفحہ 250)
کتاب ’اسلامی ریاست‘ (صفحہ 344) سے مصنف نے طریقہ انتخاب پر علامہ مودودی کی رائے یوں نقل کی ہے:
’’قرآن اور حدیث میں کوئی متعین طریقہ انتخاب نہیں بتایا گیا۔ یہ لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ جس طریقہ کو چاہیں اختیار کریں۔ عہد خلافتِ راشدہ میں اس زمانے کے تمدنی حالات کے پیش نظر مختلف شکلیں اپنائی گئی تھیں۔ مولانا مودودی کہتے ہیں ’ہم آج کے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے وہ تمام ممکن اور مباح طریقے اختیار کرسکتے ہیں جن سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ جمہور قوم کا اعتماد کن لوگوں کو حاصل ہے۔ آج کل کے انتخابات میں جائز طریقہ میں سے ایک ہیں، بشرطیکہ ان میں وہ ذلیل ہتھکنڈے استعمال نہ ہوں جنہوں نے جمہوریت کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔‘‘ (صفحہ 286)
مصنف نے کتاب سیاسی کشمکش (حصہ سوم) کے حوالے سے لکھا ہے کہ علامہ سید مودودی نے اسلام کے مقابلے میں جاہلیت کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ جاہلیت کی پہلی قسم مشرکانہ ہے۔ جاہلیت کی دوسری قسم راہبانہ ہے اور جاہلیت کی تیسری قسم ملحدانہ ہے۔ ملحدانہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو جانور سمجھتا ہے یعنی مادی فوائد اور لذتوں کو مقصود حیات ٹھہراتا ہے۔ (صفحہ 137)
کتاب ’جلوہ نور‘ (صفحہ 198) سے تبلیغی سرگرمیوں سے متعلق علامہ سید مودودی کی رائے مصنف نے نقل کی ہے۔ ’’…مولانا مودودی کہتے ہیں کہ ضرورت ہے کہ ہمارے علماء اور سجادہ نشین حضرات اپنے حجروں سے نکلیں۔ وہ انبیا کے وارث ہیں ان پر امت کی اصلاح و ہدایت کا ایک بہت بڑا بار ہے۔ اسی طرح حضرات صوفیا اور سجادہ ہائے طریقت جن کے حلقہ ارادت میں کروڑوں لوگ ہیں جن کے ایک اشارے سے زندگیوں میں تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ اس فریضہ کی انجام دہی کے لیے توجہ دیں۔‘‘ (صفحہ 190-191)
علامہ سید مودودی مکمل نظام حیات کے داعی تھے۔ وہ زندگی کے جملہ شعبوں میں اسلام کی روح پھونکنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک تعلیمی ادارے خاص طور پر توجہ کے مستحق تھے۔ انہوں نے 1936 ہی میں (یعنی جماعت اسلامی کے قیام سے قبل) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استفسار پر جامع تعلیمی خاکہ تدوین کیا تھا۔ وہ اپنی کتاب ’تعلیمات‘ (نئے نظام تعلیم کا خاکہ، صفحہ 100) میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’حقیقت واقعہ یہ ہے کہ سائنس کا ہر شعبہ انسان کے دل میں ایمان کی جڑوں کو اور زیادہ مضبوط کردیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ صحیح رخ پر ہو۔ ضروری ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب کو خدا پرستی کی اساس پر مدون و مرتب کیا جائے۔ اور اس کے پڑھانے والے بھی طلبا کو خالقِ کائنات کی معرفت کرائیں، کائنات میں انسان کے خلیفہ ہونے کی پوزیشن سمجھائیں اور زندگی کا مقصد خدا کی خوشنودی کا حصول سمجھائیں۔‘‘ (صفحہ 170)
تعلیمی شعبے کے سلسلے میں علامہ مودودی بہت حساس تھے۔ وہ اپنے ملک (غیر منقسم ہندوستان) ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا کی جامعات کو داعیانہ کردار ادا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک اسلامک یونیورسٹی کا ایک واضح نقشہ تھا۔ مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 170 اور 171 پر لکھتے ہیں:
مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ ہماری دینی جامعات (ازہر، ندوہ، دیوبند وغیرہ) کا نصاب اب زائدالمعیاد ہوگیا ہے۔ اس کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں اور دینی درس گاہوں کے فارغین کے سوچ و فکر میں بہت بڑی خلیج ہے۔ مولانا نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، مدینہ یونیورسٹی اور مراکش اسلامیہ یونیورسٹی کے استفسار پر ان کے نصاب کے لیے ایک جامع خاکہ مرتب کرکے دیا تھا۔ مصنف کے بقول مولانا مودودی کا یہ مشاہدہ تھا کہ تمام مسلم ممالک انڈونیشیا سے لے کر مراقش تک میں دنیوی اور مغربی تعلیم کا چلن ہے۔ کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں اسلام کے نصب العین کے مطابق دنیا کی رہنمائی کے لیے مسلم نوجوانوں کے لیے تیار کیا جاتا ہو۔ مصنف لکھتے ہیں کہ مولانا نے 1936 میں مسلم یونیورسٹی کے استفسار پر جامع تعلیمی خاکہ تدوین کیا۔ شاہ فیصل کی خواہش پر 1960 میں اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ کے لیے تعلیمی نقشہ تیار کیا اور اس کے تاسیسی اجلاس میں شرکت کی۔ 1969 میں اسلامی یونیورسٹی مراقش کی تاسیسی کانفرنس میں انہیں شرکت کے لیے بلایا گیا۔ 1966 میں اسلامی یونیورسٹی مدینہ کے مجلس تاسیس کے رکن بنائے گئے۔ کئی جامعات میں مولانا کی بعض کتابیں داخل نصاب کی گئیں۔ (صفحہ 170-171)
مصنف نے اسلامی یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے قیام سے قبل پٹھان کوٹ میں ادارہ دارالاسلام جو دراصل تحقیقی و تربیتی مرکز تھا، اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی کے نظریہ تعلیم کے ساتھ یہاں ان کا مجوزہ تربیت گاہ کا تخیل پیش کردینا بے جا نہ ہوگا جو انہوں نے 1937-38 کے زمانے میں سوچا تھا۔ وہ ایک جدید طرز کی خانقاہ (انسٹی ٹیوشن) کا تصور رکھتے تھے جس میں کلب، لائبریری، اکیڈمی اور آشرم کی تمام خوبیاں ہوں۔ اور اس کا صدر وسیع النظر روشن خیال عالم ہو جو جدید اور قدیم دونوں علوم پر عبور رکھتا ہو اور دوسروں کی زندگیوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ (صفحہ 173-174)
چودھری نیاز علی ایک مخلص اور ہمدرد انسان تھے۔ انہوں نے علامہ محمد اقبال کے مشورے پر ’ادارہ دارالاسلام‘ کے لیے اپنی 54 ایکڑ اراضی وقف کردی تھی۔ مصنف لکھتے ہیں کہ اکتوبر 1937 میں سید مودودی حیدرآباد سے دہلی آئے اور پھر چودھری نیاز علی کے ساتھ جمال پور (پٹھان کوٹ) ہوتے ہوئے لاہور جاکر علامہ اقبال سے تین ملاقاتیں کیں۔ علامہ اقبال نے سیّد مودودی کا نام تجویز کیا تھا۔ لہٰذا چودھری نیاز علی نے جو ایک بڑے زمیندار تھے، اپنی اراضی سید مودودی کو ’دارالاسلام‘ بنانے کے لیے سونپ دی۔ سید مودودی حیدرآباد سے مستقل طور پر پٹھان کوٹ (جمال پور) آگئے اور ’دارالاسلام‘ کے قیام کی تیاری میں مشغول ہوگئے۔ دریں اثنا 21 اپریل 1938 کو علامہ اقبال کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال پر سید مودودی نے بڑے کرب سے کہا کہ ’میرا روحانی سہارا‘ نہ رہا۔ (صفحہ 174)
اِس وقت بھی پٹھان کوٹ (جمال پور) میں ’دارالاسلام‘ کے آثار و باقیات موجود ہیں لیکن دوسروں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ ’دارالاسلام‘ میں واقع مسجد میں جہاں سیّد مودودی فجر کی نماز کے بعد درس قرآن دیتے تھے، اب مندر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد 1947 میں اس طرح کے المناک سانحے پنجاب میں زیادہ دیکھنے کو ملے۔
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں علامہ مودودی کا موقف بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ مولانا مودودی کے نزدیک عورتوں کی تعلیم بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح مردوں کی تعلیم ہے کیونکہ کوئی قوم اپنی عورتوں کو جاہل اور پس ماندہ رکھ کر ترقی نہیں کرسکتی۔ البتہ عورتوں کی تعلیم میں Home Science کا لازمی مضمون ہونا چاہیے۔ مولانا مودودی اگرچہ مخلوط تعلیم (Co-Education) کے سخت مخالف ہیں تاہم شریعت کے حدود میں عورتوں کی فوجی تربیت کے قائل ہیں۔ مولانا مودودی کے نزدیک ذریعہ تعلیم اردو ہونا چاہیے۔ وہ اردو کے رومن رسم الخط کے سخت مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے رسم الخط کو بدلنے کی حماقت کی گئی تو ہمارا وہ علمی اور ثقافتی ورثہ جو عربی، فارسی اور اردو میں کئی صدیوں سے جمع ہو رہا ہے، وہ سب ضائع ہوجائے گا۔ (صفحہ 172-173)
اس کتاب پر یہ مضمون اگرچہ طویل ہوگیا ہے لیکن بعض اہم نکات واضح کرنے کے لیے یہ ناگزیر تھا کہ زیر تبصرہ کتاب کی کچھ باتیں نقل کی جائیں۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر یقینی طور پر اہم اور منفرد ہے۔ کاش اس کی پروف ریڈنگ اور ایڈیٹنگ پر خصوصی توجہ دی جاتی۔ یہ کتاب تلنگانہ اسٹیٹ اکیڈمی کے جزوی مالی اعانت سے شائع کی گئی ہے۔
***

 

***

 عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں علامہ مودودی کا موقف بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ مولانا مودودی کے نزدیک عورتوں کی تعلیم بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح مردوں کی تعلیم ہے کیونکہ کوئی قوم اپنی عورتوں کو جاہل اور پس ماندہ رکھ کر ترقی نہیں کرسکتی۔ البتہ عورتوں کی تعلیم میں Home Science کا لازمی مضمون ہونا چاہیے۔ مولانا مودودی اگرچہ مخلوط تعلیم (Co-Education) کے سخت مخالف ہیں تاہم شریعت کے حدود میں عورتوں کی فوجی تربیت کے قائل ہیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023