مولانا محمد یونس جونپوری مسلکی تعصب کے خلاف تھے
علماء کو علمی روایتوں کے فروغ کے لیے محدود مفادات اور خود ساختہ مصلحتوں سے باہر آنا ہوگا
ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
مولانا محمد یونس جونپوری جب شعور کو پہنچے ہوں گے تو انہوں نے بھارت کی حریت کی پوری داستان کا مشاہدہ کیا ہوگا کیوں کہ یہی وہ دور تھا جب آزادی کی تحریک شباب پر تھی، لیکن افسوس کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات نے آزادی کے بعد مسلمانوں کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہ حقائق تاریخ کے صفحات سے کبھی بھی معدوم نہیں کیے جاسکتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھارت کی آزادی کے لیے جو جتن کیے وہ بڑے اہم اور تاریخ کا زریں باب ہے۔ اس کے باجود آج ملک میں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ان کی تاریخ کو نہ صرف خرد برد کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے جو بھارت جیسے تکثیری معاشرے کے لیے مناسب نہیں ہے۔ مسلمانوں کی ملک سے وفاداری کا ثبوت مانگنا غیر منطقی اور تعصب پر مبنی رویہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ملک میں باہمی یگانگت کو برقرار رکھا جائے اور یہاں کے تنوع پسند اقدار کو قائم رکھا جائے اور ان روایات کو فروغ دیا جائے جن سے سماج پر امن رہ سکے۔
یہ ایک صداقت ہے کہ علمی، فکری اور نظریاتی طور پر عالمی افق پر مولانا محمد یونس جونپوری کی جملہ علمی مساعی کو یاد رکھا جائے گ۔ وہ بھارت کے ایک ممتاز اور جید عالم دین تھے۔ انہوں نے اپنے علم و فضل اور تحقیق و تدوین سے معاشرے کو علمی و فکری طور پر سیراب کیا۔ انہوں نے ملک کے معروف دینی ادارہ مظاہر علوم جدید سہارنپور میں تدریس کا فریضہ انجام دیا اور درس و تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے تدوین و تصنیف کا بھی گراں قدر سرمایہ مرتب کیا۔ ان کا اختصاص علم حدیث تھا لیکن دیگر علوم پر بھی آپ کو دستگاہ حاصل تھی۔ جب ہم مولانا محمد یونس جونپوری کے علمی و فکری ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں توسع اور اعتدال نظر آتا ہے، مسلکی عصبیت اور فکری جمود سے پاک ہے۔ در اصل توسع اور وسعت نظر ہی وہ پہلو ہے جس سے ہم اپنے علمی و فکری سطح میں پیہم اضافہ کر سکتے ہیں اور علم و تحقیق کی دنیا میں اپنی شناخت قائم کرسکتے ہیں۔ اگر ہم کسی فکر اور نظریہ کے اسیر ہوجائیں تو پھر ہمارے ذہن میں وہ استحکام نہیں آتا ہے جو آنا چاہیے۔ ضمناً یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسلک و مشرب کے تابع ہونے کا یہ مقصد قطعی نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی وجہ سے حق بات کو پس پشت ڈال دیا جائے اور اپنے مسلک کے مطابق چیزوں کی تعبیر و تشریح پیش کی جائے۔ مسلکی عدم عصبیت کا ایک علمی گوشہ یہ بھی ہے کہ آپ کسی فکر و نظر اور فقہی مسلک سے وابستہ ہوتے ہوئے حق بات کا اعتراف کریں اگرچہ وہ رائے یا بات آپ کی عقیدت پر نقد کرتی ہے۔ اس تناظر میں جب ہم مولانا محمد یونس جونپوری کے ملفوظات اور تحریری ادب کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے فقہ حنفی کی اتباع کرتے ہوئے حقائق و معارف کا اعتراف کیا ہے چنانچہ محمود حسن حسنی ندوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
"جہاں تک حضرة الشیخ مولانا محمد یونس کا جونپوری کا تعلق ہے، فقہ سے اور اصول سے اول اشتغال اور پھر مسلسل پچاس سال سے زائد حدیث شریف سے غیر معمولی شغف اور اشتغال تام نے جس میں ان کی قوت یادداشت اور سرعت ذہن اور پھر خشیت ربانی اور تقویٰ وانابت کی صفت نے ان کو نہ صرف فقہیات بلکہ کلامی مسائل میں بھی اجتہاد کے مقام پر فائز کر دیا تھا جس میں ان کے وسعت مطالعہ، تبحر علمی اور زمانے کے تقاضوں اور حالات کو بھی دخل تھا، لیکن وہ ان کی کمال احتیاط کی بات تھی کہ وہ نصوص پر گہری نظر رکھ کر بھی دوسروں کو ان مسالک پر عمل پیرا رہنے کی تلقین فرماتے جن کے متعلق وہ لوگ ہوتے البتہ خود اقرب الی القرآن والسنہ کو اختیار کرتے اور اس سلسلہ میں اپنی جو رائے مناسب سمجھتے بیان کردیتے۔ رسوخ فی العلم رکھنے والے کا یہی انصاف اور امانت کی ادائیگی کا حق ہے”
آج ہمیں معاشرے سے مسلکی عصبیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ علم و فضل اور ایک انصاف پسند محقق و مصنف کی یہ شناخت ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحقیق اور رسوخ کی بنیاد پر کوئی تجزیہ یا تحلیل کرتا ہے، کسی خاص فکر سے وابستہ ہوکر یا کسی مسلک کی عینک لگا کر جب چیزوں کا تجزیہ و تحلیل کیا جاتا ہے تو اس کے اندر آفاقیت نہیں آتی ہے اور علمی تشنگی باقی رہتی ہے۔ شرح صدر نہ قاری کو ہوتا ہے اور نہ خود محقق کو، لہذا اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم کسی نتیجہ پر دلائل و براہین کی مدد سے پہنچیں، کسی بھی مسئلہ پر ہماری تحقیق دو اور دو چار کی طرف واضح ہو۔ یہ کام وہی لوگ انجام دیتے ہیں جو اپنے علمی سفر کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہوتے ہیں اور تحقیق و جستجو میں اپنے اوقات کو صرف کرتے ہیں۔ مولانا محمد یونسؒ جونپوری کی علمی و تحقیقی مساعی سے ہمیں یا مسلکی متعصبین کو سبق لینے کی بے حد ضرورت ہے۔ مسلکی توسع کی ایک اور مثال پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں مولانا عبد السلام ندوی بھٹکلی لکھتے ہیں:
"حدیث سے خصوصی تعلق اور اس کے مطالعہ نے آپ میں وسعت علمی کے ساتھ توسع عملی بھی پیدا کردیا تھا ، ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنا علم حضور ﷺ کے آئینہ سے حاصل کیا ہے، نہ میں شافعی ہوں نہ کوئی اور”
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مولانا محمد یونس جونپوری نے حنفی ماحول میں پرورش پائی تھی، حنفی فقہ پڑھی، فقہ حنفی واصول فقہ حنفی پڑھی بھی ہیں اور پڑھائی بھی ہیں۔لیکن یہ سب باتیں حضرت والا کے لیے بہت اہمیت کی حامل نہیں تھی کہ مسلک کی تعیین کرکے حرف بحرف اس پر عمل کیا جائے اور اس پر سختی کی جائے بلکہ آپ کا مسلک بقول آپ ہی کے "میں خاندانی حنفی ہوں لیکن جوال سیال ہوں”
متذکرہ اقتباس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ علم و فضل اور تحقیق کی بنیاد پر اگر توسع علمی و عملی پیدا نہ ہوسکے تو پھر اس کا بہت زیادہ فائدہ معاشرے کو نہیں ہوپاتا ہے ۔ شیخ یونسؒ نے اپنے مطالعہ اور علمی بصیرت و گہرائی سے جو فکر پیش کی اس میں علمی و فکری ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ سماجی اور مسلکی بقائے باہم کا عنصر بھی شامل ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہماری ناقص فہم و فراست، محدود فکر اور ناقص علم کی بنیاد پر مسلکی و فرقہ وارانہ کشیدگی پروان چڑھ رہی ہے اور ہمارا طبقہ اسی کو دین کی خدمت سمجھ کر انجام دے رہا ہے۔ تصور کیجیے! اتنے متبحر عالم دین جنہوں نے اپنی زندگی درس و تدریس اور مطالعہ کتب میں صرف کردی وہ تمام حد بندیوں اور رکاوٹوں سے باہر آکر گفتگو کرتے ہیں اور مسلکی کشیدگی یا سختی کے سخت ترین مخالف ہیں۔ یہ بات ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ معاشرتی ہم آہنگی اور فکری و نظریاتی توازن کی اس وقت جو ضرورت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ معاشرے میں انتشار کی جہاں دیگر بہت ساری وجوہات ہیں ان میں ایک بنیادی وجہ ہمارا مسلکی اختلاف میں تشدد اختیار کرنا ہے اور اس سے عالمی سطح پر مسلمانوں کی تصویر بہت ہی خراب ہوتی ہے۔ اس لیے امن و امان اور اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنے نیز علمی روایتوں کے فروغ کے لیے لازمی طور ہمیں محدود مفادات اور خود ساختہ مصلحتوں سے باہر آنا ہوگا تبھی جاکر ہم اسلامی اقدار و روایات ہر مبنی سماج کی تشکیل کرپائیں گے۔
شیخ محمد یونس صرف مسلکی توسع ہی کے توسل سے معاشرے میں امن و سکون کو فروغ نہیں دیتے تھے بلکہ آپ کی معیاری تحقیق و تدوین میں بھی ہم آہنگی اور رواداری کے عناصر ملتے ہیں، یقیناً تحقیقی ذوق پر امن معاشرے کا علمبردار ہوتا ہے جو معاشرے اپنی علمی صلاحیتوں اور معیاری فکر و نظر کے توسل سے معاشرے کی خدمت کر رہے ہیں، ان کی وقعت میں چار چاند لگتے ہیں۔ تحقیق و تصنیف سے معاشرے میں رائج غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں تو وہیں حق و باطل میں بھی فرق واضح ہوتا ہے۔ علمی و اخلاقی طورپر جو معاشرے محروم ہوتے ہیں، علم و تحقیق کے فن سے ان کو جلا ملتی ہے ۔ لیکن یہ سب باتیں اس وقت وقوع پذیر ہوں گی جب ہمارا مزاج نہایت محققانہ اور بالغانہ ہو ۔
اس تناظر میں جب ہم شیخ یونسؒ جونپوری کے تصنیفی و فکری مزاج کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے نگارش و تدوین کے تمام اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کیا، اسی وجہ سے آج ان کا متوازن علمی ادب معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہورہا ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی ان کے تحقیقی ذوق و شوق کے بارے میں رقم طراز ہیں:
"آپ کے مزاج میں تحقیق کا مادہ تھا، شراح و محققین میں سے کسی ایک کا قول نقل کرنے پر کلی اعتماد کرکے نہیں بیٹھ جاتے یا اپنے اساتذہ و مشائخ کی بات کو حرف آخر سمجھ کر اس سے آگے قدم بڑھانے کو بے ادبی اور علم سے محرومی کا سبب نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان سے محبت ان کی قدر اور ان کے پورے احترام کے ساتھ صحیح بات اور حق کی تلاش میں لگے رہتے اس کے لیے یہ کوشش کرتے رہتے کہ فلاں نے یہ بات لکھی ہے یا نقل کی ہے تو انہوں نے کہاں سے نقل کیا، انہوں نے فلاں کتاب سے لی تو اس کتاب میں کہاں سے آگئی، اس کا تتبع کرتے پھر کہیں نقل کرنے میں یا ان حضرات کے سمجھنے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی، تو اس کی تحقیق کرتے اور صحیح بات اور صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ”
آج ہمارے سماج میں عموماً جو تصور پایا جاتا ہے وہ بڑا ہی خطرناک ہے کہ اگر ہم اپنے شیخ یا استاد کی بات سے آگے بڑھ کر کوئی رائے پیش کریں گے یا پھر کوئی سوال کرتے ہیں تو شیخ و استاد کی توہین سمجھ لی جاتی ہے، یہی نہیں بلکہ شیخ و استاد خود بھی اپنی توہین تصور کرلیتا ہے۔ اس تصور کو شیخ یونس نے فروغ علم کے لیے سد باب بتایا ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ کسی مسئلہ کی تہہ تک پہنچنا ایک محقق کے لیے ضروری ہے اگرچہ وہ مسئلہ کتنی بھی معتبر شخصیت نے پیش کیا ہو، خواہ اس کو بتانے والا آپ کا اپنا عقیدت مند ہی کیوں نہ ہو ۔ اگر تحقیق و تدوین میں عقیدت و احترام کو ملحوظ رکھ کر اپنے علمی سفر کو جاری رکھا جائے تو یقیناً اس سے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ہمارے مدارس کو اس جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ علم و فضل اور درس و تدریس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جو شیخ نے فرمایا دیا وہی حرفِ آخر ہے بلکہ ایک علم کے متلاشی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح سے اس کی چھان پھٹک کرے ۔
شیخ محمد یونسؒ جونپوری نے جو تصور اور فلسفہ حصول علم کے لیے پیش کیا ہے اس میں توازن اور اعتدال ہے، سماجی و عصری تقاضوں کی رعایت ہے اور تحقیق و تدوین کے شائقین کے لیے مشعل راہ ہے۔ بناء بریں اب ضرورت ہے کہ ہم معاشرے کو پر امن بنانے کے لیے وہ جتن کریں جن کی واقعی ضرورت ہے۔ علم و تحقیق کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی طرح کی عصبیت میں ملوث نہ ہوا جائے اور حقائق و معارف کا اتباع کیا جائے اگر یہ رویہ اور رجحان ارباب علم کا بن جائے گا تو لازمی طور پر سماج میں یکجہتی قائم ہوسکے گی ۔
***
***
آج ہمارے سماج میں عموماً جو تصور پایا جاتا ہے وہ بڑا ہی خطرناک ہے کہ اگر ہم اپنے شیخ یا استاد کی بات سے آگے بڑھ کر کوئی رائے پیش کریں گے یا پھر کوئی سوال کرتے ہیں تو شیخ و استاد کی توہین سمجھ لی جاتی ہے، یہی نہیں بلکہ شیخ و استاد خود بھی اپنی توہین تصور کرلیتا ہے۔ہمارے مدارس کو اس جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ علم و فضل اور درس و تدریس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جو شیخ نے فرمایا دیا وہی حرفِ آخر ہے بلکہ ایک علم کے متلاشی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح سے اس کی چھان پھٹک کرے ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024