مولانا غلام احمد وستانویؒ

ایک معلم و رہنما جو علم کے دریا میں تلاطم پیدا کر گیا

خورشید عالم داود قاسمی

جب کبھی مولانا غلام محمد وستانویؒ کا تذکرہ ہوگا، تو ان کا نام صرف ایک روایتی عالمِ دین کے طور پر نہ لیا جائے گا، بلکہ وہ صاحبِ بصیرت تعلیمی رہنما، ایک مخلص سماجی مصلح، اور ایک انقلابی شخصیت کے طور پر تاریخ کے اوراوراق میں روشن رہیں گے۔
مولانا کچھ عرصے سے علیل تھے اور ان کی بیماری کی خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے موصول ہو رہی تھیں۔ دنیا بھر میں ان کے خیرخواہ ان کی صحت یابی کے لیے دعا کررہے تھے لیکن انہوں نے اپنی مہلت حیات مکمل کرکے 4 مئی 2025 کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔
ان کے سانحۂ ارتحال سے ہم نے محض ایک فرد کو نہیں بلکہ ایک عہد ساز رہنما، ایک روشن خیال معمارِ قوم اور ایک بصیرت افروز داعی کو کھو دیا ہے۔ یہ وہ شخصیت تھی جس نے ملت کی فکری و تعلیمی تشکیل میں ایسا گراں قدر کردار ادا کیا جو تاریخ کے اوراق پر سنہری حروف سے رقم رہے گا۔
مولانا وستانویؒ، اگرچہ علمی اعتبار سے ایک روایتی دینی مکتب کے فرزند تھے مگر ان کا وژن، ان کی جہدِ مسلسل اور ان کا فکری افق روایتی دائرے سے کہیں آگے کا تھا۔ انہوں نے نہ صرف ہزاروں مدارس، مکاتب اور مساجد کا قیام عمل میں لایا بلکہ ملک و بیرونِ ملک جدید تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھ کر ایک نئی راہ متعین کی۔
وہ اپنے عزم اور فراست سے ان ہزاروں بچوں کے لیے امید کی کرن بنے جو تعلیم و تربیت کے متلاشی تھے۔ ان کے قائم کردہ ادارے محض درس گاہیں نہیں بلکہ ملت کی تقدیر سنوارنے والے قلعے تھے جہاں سے علم کے چراغ روشن ہوئے اور جن کی روشنی نے ملت کے نوجوانوں کو مختلف شعبۂ ہائے حیات میں خدمات کے لیے تیار کیا۔
آج اہلِ نظر حیرت سے سوال کرتے ہیں کہ آخر ایک روایت سے جڑا ہوا عالمِ دین کس طرح نہ صرف دینی افق پر بلکہ جدید تعلیم کی وسعتوں میں بھی اتنا ہمہ گیر اور کامیاب منصوبہ ساز بن گیا؟ مگر یہی تو ان کی انفرادیت تھی—کہ انہوں نے وقت کی نبض پہ ہاتھ رکھا، امت کی ضرورتوں کو پہچانا اور ایک ایسی راہ دکھائی جو ماضی کی روشنی اور حال کی ضرورتوں کو یکجا کرتی ہے۔
مولانا غلام محمد وستانویؒ جب بھی یاد کیے جائیں گے انہیں صرف ایک دینی عالم کے طور پر یاد کرنا ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ ان کی شخصیت ایک ہمہ جہت پیکر کی صورت میں تاریخ میں زندہ رہے گی—جہاں وہ ایک بصیرت افروز مفکر، ایک دردمند مصلح، ایک پُرجوش انقلابی،
اور ایک باکمال معمارِ ملت کے طور پر پہچانے جائیں گے۔
ملّت کا عظیم محسن
مولانا وستانوی ایک مخلص اور پرعزم انسان تھے۔ ان کے دل میں دینی وابستگی کا گہرا احساس تھا اور وہ ملت کی فلاح و بہبود کے بارے میں گہری فکر رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنی ملت کے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ وہ کمیونٹی کی ضروریات کے مطابق سوچتے اور پھر اپنی سوچ کو حقیقت میں بدلنے کی منفرد صلاحیت رکھتے تھے۔ انہیں یہ سمجھ تھی کہ کمیونٹی کے بچوں کو علم کی روشنی کی ضرورت ہے۔
نتیجتاً، انہوں نے مختلف علوم اور فنون کے شعبوں میں متعدد ادارے قائم کیے، جن کی روشنی دور دور تک پھیلنے لگی۔ اللہ کی مدد اور رہنمائی سے انہوں نے جو کامیابیاں حاصل کیں وہ بہت سے اداروں اور تنظیموں کے لیے قابل تقلید ہیں۔
وہ ملت کے عظیم محسن تھے۔ مذہبی اور جدید تعلیم دونوں میں انہوں نے ایک انقلاب برپا کیا۔ ان کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلا دہائیوں تک پر نہیں ہو سکے گا۔
مولانا وستانوی کے مشن کا آغاز
حضرت مولانا وستانوی نے 1979 میں مہاراشٹر کے دور دراز گاؤں اکل کوا میں اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ انہوں نے ایک مسجد سے مکتب شروع کیا؛ اس وقت وہ گجرات کے ضلع بھروچ کے دارالعلوم کنٹھریہ میں استاد تھے۔ اس وقت مکتب میں صرف چھ طلباء اور ایک استاد تھا۔ یہ مولانا وستانوی کے مشن کا آغاز تھا۔
اکل کوا ایک چھوٹا گاؤں تھا جہاں بنیادی سہولیات بھی نہیں تھیں۔ بعد میں وہ چھوٹا سا مکتب بالآخر ایک حقیقی معنوں میں ’’جامعہ۔یونیورسٹی‘‘ میں تبدیل ہو گیا اور دنیا بھر میں ’’جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
ملت کے ہزاروں بچے بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں آنے لگے۔ جو کبھی ایک گاؤں تھا، اکل کوا، علم و فنون کا ایک عظیم مرکز بن گیا جو دنیا کے کئی ممالک میں پہچانا جانے لگا۔
جامعہ اکل کوا کی کامیاب ترقی
جامعہ اکل کوا مولانا وستانوی کی تعلیمی بصیرت اور جامع سوچ کا شاہ کار ہے۔ یہ ایک منفرد تعلیمی ادارہ ہے جو مذہبی اور جدید تعلیم کو ایک کیمپس کے تحت یکجا کرتا ہے۔
ان کی قیادت میں جامعہ اکل کوا نے مختلف پروگرامز متعارف کرائے جن میں دینیات، حفظ کی کلاسز، درس نظامی اور اسلامیات میں متعدد تخصصی کورسز شامل ہیں، ساتھ ہی اردو اور انگریزی میڈیم میں پرائمری سے 12ویں جماعت تک کی تعلیم فراہم کرنے والے اسکولز بھی قائم کیے۔ مزید برآں، انہوں نے جدید سائنس اور فنون کے درجنوں کالجز قائم کیے جو کامیابی سے چل رہے ہیں۔
مولانا وستانوی نے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے روایتی طریقے سے ہٹ کر کام کیا۔ 1993 میں انہوں نے مدرسے کے کیمپس میں اسلامی ماحول میں آئی ٹی آئی ڈپارٹمنٹ قائم کیا۔ اس کے بعد انہوں نے جامعہ اکل کوا کے کیمپس کے قریب کئی کالجز قائم کیے اور مختلف کورسز متعارف کرائے، جیسے: بی یو ایم ایس میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج (ڈپلومہ اور بیچلر) فارمیسی کالج (ڈی فارمیسی، بی فارمیسی، ایم فارمیسی، پی ایچ ڈی) ایم بی بی ایس میڈیکل کالج اور نرسنگ (جی این ایم) نیز اردو اور مراٹھی زبانوں میں ایل ایل بی، ڈی ایڈ اور بی ایڈ کورسز۔
مولانا نے جامعہ اکل کوا کے تحت آفس آٹومیشن، سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ اور دیگر پیشہ ورانہ کورسز بھی شروع کیے۔ ان اداروں کے علاوہ انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں ہزاروں مکتب، مدارس اور مساجد قائم کیے جو ان کے لیے صدقہ جاریہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
یہ ادارے مولانا وستانوی کے وژن کا عملی مظہر ہیں۔ آج یہ ہزاروں طلبہ کی فکری، علمی اور اخلاقی ترقی کے مراکز بن چکے ہیں جو ملک بھر سے طلبہ کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ کیمپس، معیاری ہاسٹلز، لائبریریاں اور دیگر سہولیات دستیاب ہیں جہاں طلباء آرام اور سکون سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
ان اداروں سے مستفید ہونے کے بعد سینکڑوں طلبہ اب قوم اور کمیونٹی کی خدمت میں مصروف ہیں۔ یہ قابل ذکر ہے کہ یہ تمام ادارے اسلامی ماحول میں قائم کیے گئے تھے جو طلباء کو اسلامی فضا فراہم کرتے ہیں۔ ان اداروں اور کالجوں کی اصل ماں جامعہ اشاعت العلوم ہے۔ وہ جامعہ اشاعت العلوم کی پرورش میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ اس وقت برصغیر میں کوئی ادارہ حجم رقبے اور شعبوں کے لحاظ سے جامعہ اکل کوا سے بڑا ہو۔
قرآن مقابلوں کی منفرد و مفید روایت
یہ دور مقابلے اور مسابقت کا ہے۔ جو لوگ موازنہ اور مقابلے کے لیے بے چین ہوتے ہیں وہ جلدی ترقی کرتے ہیں۔ قرآن مجید خود بھی نیکیوں میں صحت مند مقابلے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
خادم القرآن مولانا وستانوی نے جامعہ اکل کوا کی انتظامیہ کے تحت ’’مسابقۃ القرآن الکریم‘‘ کی ایک منفرد اور مفید روایت کا آغاز کیا۔ اس مقابلے میں بھارت بھر سے طلبہ بڑی تعداد میں حصہ لیتے ہیں۔ مقابلے میں حصہ لینے سے پہلے، طلبہ اپنے متعلقہ مدارس میں ایک یا دو ماہ کی مشق کرتے ہیں، اپنے اساتذہ کی رہنمائی میں اور اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں۔
اس مقابلے نے طلبہ میں شعور پیدا کیا ہے۔ وہ طلبہ جو مقابلے میں حصہ لیتے ہیں، خاص طور پر وہ جو حفظ القرآن کر رہے ہیں، قرآن کو اچھی طرح یاد کرنے کی اضافی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ قرآن کو مکمل توجہ اور تجوید کے ساتھ تلاوت کریں۔
مقابلے میں پہلی، دوسری یا تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو مختلف انعامات دیے جاتے ہیں، جن میں اشیاء اور نقد انعامات شامل ہیں۔ جب جامعہ اکل کوا میں مقابلہ ہوتا ہے، تو جامعہ کا ماحول اور بھی خوبصورت اور متحرک ہو جاتا ہے۔
جب میں انکلیشور، گجرات میں تھا تو مجھے ایک بار جامعہ اکل کوا میں مسابقۃ القرآن الکریم میں شرکت کا موقع ملا۔ مقابلے کا منظر بہت خوشی اور مسرت کا باعث تھا۔
ایک عاجز شخصیت
اتنی عظیم شخصیت اور شاندار کارنامے انجام دینے کے باوجود، مولانا وستانوی انتہائی عاجز، سادہ فطرت اور ہمدرد دل کے مالک تھے۔ وہ عالم اور غیر عالم دونوں کا احترام کرتے تھے، وہ سب سے گہری محبت کرتے اور لوگوں سے جلدی جڑ جاتے۔ جب بھی وہ کسی سے ملتے، بڑی محبت سے بات کرتے۔
جب ہم مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سنٹر، انکلیشور، گجرات میں تھے، تو مجھے ان کے خطبات سننے، قریب سے دیکھنے اور ان سے بات چیت کرنے کے مواقع ملے۔ ایک بار کچھ مہمانوں کے ساتھ مولانا اسماعیل مکروڑ کی قیادت میں، مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سنٹر، انکلیشور کے ڈائریکٹر، ہمیں جامعہ اکل کوا کے دورے کا شرف حاصل ہوا، جہاں ہمیں مولانا وستانوی سے ملاقات کا موقع ملا۔ مولانا نے انگریزی ڈیپارٹمنٹ سے متعلق کئی سوالات کیے، اور ہم نے اپنی سمجھ کے مطابق جوابات دیے۔
فروری 2017 کی ایک پرکیف شام کو خادمِ قرآن مولانا وستانویؒ نے زامبیا کے شمالی صوبے کے ایک خوبصورت شہر مولنگو کا سفر کیا۔ یہ دعوت مون ریز ٹرسٹ کی جانب سے تھی۔ دس فروری کو ان کی آمد ہوئی اور تیرہ فروری کی صبح وہ اس شہرِ خاموش و پُرنور کو الوداع کہہ گئے۔ وہ یہاں صحیح بخاری کی اختتامی حدیث کی تعلیم و تشریح کے لیے تشریف لائے تھے۔
یہ وہ روحانی لمحہ تھا جب ان کی زبان سے آخری حدیث کی تلاوت و تشریح ہوئی، اور یوں بخاری شریف مکمل ہوئی۔ میں خود ان خوش نصیبوں میں شامل تھا جنہوں نے ان کے قدموں کی چاپ کو خوشبو کی طرح محسوس کیا — ان کا استقبال بھی کیا اور رخصت کے وقت بھی ہم رکاب رہا۔ واپسی کے وقت ان کے ساتھ ایک ہی گاڑی میں سفر کا شرف حاصل ہوا۔ اس دوران کئی علمی، فکری اور اصلاحی باتیں سننے کا موقع ملا۔
اس وقت مولنگو میں مولانا محمد ابراہیم قاسمی شولاپوری مقیم تھے، جو کئی سال تک جامعہ اکل کوا کے طالبِ علم رہے۔ مولانا وستانویؒ ان سے محبت و انسیت رکھتے تھے۔ انہی کی معیت میں ہمیں ان کی خدمت اور قربت کا شرف حاصل ہوا۔ اس سفر کی روداد میں نے تحریر کی جو مارچ 2017 کے شاہرہ علم میں شائع ہوئی — اور یوں یہ لمحات تاریخ کا حصہ بن گئے۔
حضرت کی یہ ملاقاتیں، یہ لمحے، ان کے دل کی وسعتوں کا پتہ دیتی تھیں ۔ جب کبھی ہم ان کے کمرے میں داخل ہوتے، وہ خوشی سے جھوم اٹھتے، دعاؤں سے نوازتے۔ وہ سراپا شفقت تھے، اور ان کی نصیحتیں آبِ حیات کی مانند ہوتیں۔
ایک مربی، ایک معمار : مولانا وستانویؒ کی نصیحتیں
وہ فرمایا کرتے:
’’طلبہ سے شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ میں خود روزانہ مغرب کے بعد دینیات کے ہاسٹل میں جا کر بیٹھتا، جہاں چھوٹے بچے میرے سامنے کھیلتے۔ وہ مجھ سے خائف نہیں ہوتے تھے، بلکہ جانتے تھے کہ میں ان سے خوش ہوتا ہوں۔‘‘
ایک اصولی بات کہی:
’’میں کبھی کسی استاد کو پابند نہیں کرتا کہ وہ میرے سامنے روزانہ پیش ہو۔ کام چلتا رہے، یہی میری خواہش ہے۔‘‘
وہ کہا کرتے :
’’کام لینے کا ہنر، اصل خوبی ہے۔‘‘
اور جب کسی نے دارالعلوم دیوبند سے استعفیٰ کے بعد ان سے پوچھا کہ عدالت کا رخ کریں گے؟ تو فرمایا:
’’میں دارالعلوم دیوبند کے خلاف عدالت کیسے جا سکتا ہوں؟‘‘
دین داری کے جوش سے سرشار شخصیت
مولانا وستانویؒ کا ہر عمل، ہر قدم، خالص دینی جذبے سے لبریز ہوتا۔ وہ کسی صلے، شہرت یا حکومتی اعزاز کے طلب گار نہ تھے۔
ایک بار میں نے ممبئی کی انجمن اسلام کے صدر جناب زہیر قاضی کا قول ان سے بیان کیا کہ’’اگر آپ کو تعلیم کے میدان میں نوبل انعام بھی ملے، تو بھی کم ہے!‘‘
اس پر حضرت نے کہا:
’’بیٹا! میرا ان سب سے کیا لینا دینا؟ میری تمنا صرف جنت ہے۔‘‘
مختصر سوانح — ایک درویش، ایک مدبر
مولانا غلام محمد وستانویؒ یکم جون 1950 کو گجرات کے ضلع سورت کے گاؤں کوسادی میں پیدا ہوئے۔ 1952 میں ان کا خاندان وستان گاؤں منتقل ہوا۔ ابتدائی تعلیم کوسادی اور بڑودہ کے مدارس میں حاصل کی۔ 1964 میں جامعہ فلاح دارین (ترکسر، گجرات) میں داخلہ لیا اور مولانا عبداللہ کپودرویؒ جیسے عظیم مربی کی صحبت نصیب ہوئی۔ پھر 1972 میں مظاہر علوم سہارنپور تشریف لے گئے اور وہاں بھی دورۂ حدیث مکمل کیا۔
بخاری شریف کی تعلیم حضرت مفتی احمد بیمتؒ اور مولانا محمد یونس جونپوریؒ جیسے جلیل القدر اساتذہ سے حاصل کی۔
جامعہ مظاہر العلوم سے فراغت کے بعد حضرت مولانا وستانویؒ نے گجرات کے ضلع سورت کے قصبہ بودھان میں تقریباً دس دن تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد آپ کو بھروچ (گجرات) کے معروف تعلیمی ادارے دارالعلوم کنٹھاریا میں بحیثیت مدرس تقرری ملی، جہاں آپ نے شعبۂ عالمیت میں تدریسی فرائض ادا کیے۔
اس دوران آپ نے فارسی کی متعدد اہم کتابیں اور اسلامیات کی متوسط سطح کی درسیات بڑی محنت سے پڑھائیں۔ 1983 تک کنٹھاریا میں آپ نے تدریس کا حق نہایت خلوص اور دیانت سے ادا کیا، اور اس کے بعد مکمل طور پر جامعہ اشاعت العلوم، اکولہ کوہ کے قیام، ارتقا اور وسعت میں منہمک ہو گئے۔
خاندان اور اولاد
مولانا وستانویؒ ایک دیندار اور دینی مزاج رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے گھرانے کے افراد، خصوصاً آپ کے بڑے بھائی حافظ اسحاقؒ، ہمیشہ آپ کے مشن میں شانہ بہ شانہ کھڑے رہے اور بے لوث تعاون پیش کرتے رہے۔
آپ کی زندگی کی مسلسل جدوجہد، قربانیاں اور کامیابیاں درحقیقت اُن خاموش دعاؤں، مشقتوں اور محبت بھرے تعاون کا نتیجہ تھیں جو آپ کے عزیزوں کی طرف سے آپ کو حاصل رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت کو نیک سیرت، باصلاحیت اور تعلیم یافتہ اولاد سے نوازا۔ آپ کے بڑے صاحبزادے مولانا سعید وستانویؒ کا انتقال تقریباً دو سال قبل ہو چکا ہے۔
آپ کے دوسرے بیٹے، مولانا حذیفہ غلام محمد وستانوی، نہایت قابل، صاحبِ علم اور دینی و عصری دونوں علوم پر گہری نظر رکھنے والے منتظم ہیں۔ حضرت مولانا کی زندگی ہی میں وہ جامعہ اشاعت العلوم کے نظم و نسق کی ذمہ داری بخوبی سنبھال رہے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد ادارہ کے ذمہ داران نے متفقہ طور پر آپ کو ’’رئیس الجامعہ‘‘ مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اپنی دیانت، صلاحیت اور حکمت عملی کے ساتھ ان شاء اللہ وہ اپنے والد مرحوم کے مشن کو شان و شوکت کے ساتھ آگے بڑھائیں گے۔
تیسرے بیٹے مولانا اویس وستانوی کو ’’نائب رئیس الجامعہ‘‘ کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے معاونِ خاص بن کر ادارہ کے ارتقائی سفر میں بھرپور کردار ادا کریں گے، ان شاء اللہ۔
مولانا وستانویؒ کی تدفین
مولانا غلام محمد وستانویؒ کا انتقال ایک ایسے برگد کے گرنے کے مترادف ہے جس کے سایہ میں نسلیں پروان چڑھیں اور علم و عمل کی روشنی حاصل کی۔ ان کے انتقال نے ہزاروں علما، طلبہ اور عقیدت مندوں کو یتیم کر دیا، جو ان سے رہنمائی، برکت اور دعائیں حاصل کرتے تھے۔
آپ کی نمازِ جنازہ مولانا حذیفہ وستانوی نے جامعہ اشاعت العلوم اکولہ کوہ کے وسیع میدان میں شب کے درمیانی حصہ میں پڑھائی، اور آپ کو مکّرانی گاؤں کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔آج لاکھوں زبانیں ان کے لیے دعا گو ہیں۔ہم بھی دعا کرتے ہیں:
’’الٰہی! حضرت کی مغفرت فرما، ان کے درجات بلند فرما، ان کے قائم کردہ اداروں کو سلامت رکھ، اور ان کے پسماندگان کو صبر و استقامت عطا فرما۔ آمین۔‘‘
( مضمون نگار خورشید عالم داود قاسمی زامبیا میں مقیم ہیں اور Moon Rays Trust School سے وابستہ ہیں )
(بشکریہ : امید ڈاٹ کام )

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025