مولانا آزاد سے نئی نسل کی  عدم واقفیت لمحۂ فکریہ

سابق وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد یا سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام!

اسداللہ، ناگپور

خطیب الہند کے حالات زندگی اور ملک کے لیے ان کی خدمات سے آنے والی نسلوں کو واقف کروایا جائے
گزشتہ دنوں حکومت کو اچانک خیال آیا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے یومِ پیدائش کو یومِ تعلیم کے طور پر منایا جائے۔ مولانا آزاد پر حکومت کی نظر پڑنے کی دیر تھی کہ تعلیمی اداروں میں دھوم مچ گئی۔ سب نے محسوس کیا کہ واقعی مولانا ہمارے ملک کی عظیم شخصیات میں سے ایک تھے۔ ہمارے نظامِ تعلیم کی ایک قابلِ ذکر خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں بے شمار چیزیں اچانک وارد ہوتی ہیں اور اسی سرعت سے چلی بھی جاتی ہیں۔
  یہ حکم یقیناً  لائقِ مبارکباد تھا، اس لیے کہ ایک فارسی مقولہ کی رو سے دیر سے آنے والے درست ہوا کرتے ہیں۔ (دیر آید درست آید) ذرا غور کیجیے کہ اس مقولے نے ہمیں کس قدر سہولتیں فراہم کی ہیں۔ اسی کے سبب ہماری تمام تقریبات تاخیر سے شروع ہوتی ہیں۔ صدر ِ جلسہ، بغیر کوئی کارنامہ انجام دیے اپنے آپ کو درست ثابت کر نے کے لیے جلسہ گاہ میں تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ ملک کی آزادی، سماجی تبدیلیاں اور دیگر انقلابات بھی ہمارے ملک میں اسی لیے تاخیر سے آئے کہ کیوں کہ اس مقولے کا مطلب بہت جلدی ان کی سمجھ میں آگیا تھا، البتہ بیرونی ممالک میں آنے والے انقلابات فارسی زبان سے نابلد رہے اسی لیے وقت پر پہنچنے کی غلطی کر بیٹھے۔ بہر حال آمدم بر سرِ مطلب، مولانا آزاد کو یوں بھی ہمیں یاد کرنا تھا کہ وہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرِ تعلیم تھے۔ مولانا ابولکلام آزاد کی شخصیت محتاجِ تعارف نہ سہی مگر ہماری نئی نسل اس تعارف کی واقعی محتاج ہے، بلکہ کم علمی کے لحاظ سے وہ لوگ غربا و مساکین میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ مولانا آزاد کو متعارف کروانا اس لیے بھی ضروری تھا کہ مولانا کی رحلت کو ایک زمانہ ہو گیا اور وہ زمانہ جو انہیں ان کے کارناموں کے حوالے سے جانتا تھا اب بدل چکا ہے۔
  نئی نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آنجناب کون تھے۔ اس ضرورت کو میں نے اس دن شدت کے ساتھ محسوس کیا جب میں نے جونئیر کالج کے ایک طالبِ علم سے پوچھا کہ بتاؤ تمہاری نظر میں مولانا ابوالکلام آزاد کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ یہاں یہ واضح کر دوں کہ میں اس زمانے میں شہر ناگپور کے ایک ایسے ادارے میں تدریس کے فرائض انجام دے رہا تھا جس کے نام میں اتفاق سے مولانا آزاد (برائے نام ہی سہی) شامل تھے۔
اس طالب علم نے میرے سوال کے جواب میں کہا کہ مولانا کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ناگپور میں مولانا آزاد ہائی اسکول و جونئیر کالج قائم کیا۔
  دوسرا صدمہ مجھے اس وقت پہنچا جب ایک تقریب کی تیاری کے سلسلہ میں میرے دوست نے مجھ سے درخواست کی کہ اسے مولانا آزاد کی ایک تصویر درکار ہے۔ میں نے بلا مبالغہ درجنوں دکانوں کی خاک چھانی اور ہر جگہ سے یہی جواب ملا کہ ہاں ہے نا! اور ہر جگہ مولانا آزاد کی تصویر کے پردے میں، سابق صدر جمہوریہ ہند، اے پی جے عبدالکلام، برآمد ہو ئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ تصویر مولانا آزاد کی نہیں ہے تو کچھ دکان داروں نے دانتوں تلے انگلی دبالی۔
  حد تو تب ہوئی جب ایک دکاندار نے سابق صدر جمہوریہ ہند اے پی جے ابوالکلام کی تصویر تھمادی تو ہم نے صاحبِ تصویر کو مولانا ماننے سے انکار کیا تو کہنے لگا کہ  پچھلی گلی میں مولانا آزاد کے نام پر ایک اسکول ہے وہاں کے لوگ تو اسی تصویر کو رکھ کر مولانا آزاد کی جینتی کئی سال سے منا رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ مولانا آزاد کی تصویر نہیں ہے۔
بعض دکانداروں نے ہماری جہالت کو قابلِ رحم جان کر در گزر کیا (اگرچہ ان کے چہرہ سے چھلکتا ہوا یہ تاثر ہم سے چھپا نہ رہ سکا کہ پڑھے لکھے لوگ اس قدر نادان بھی ہو سکتے ہیں!) بعض اپنی حیرانی کو ظاہر ہونے سے روک نہ پائے اور اس قسم کے جملے سنائی دیے :
یہ ابوالکلام نہیں تو کیا گاندھی جی ہیں؟
گروجی! آپ مسلمان ہو کر اور پڑھے لکھے ہو کر بھی ابوالکلام جی کو نہیں جانتے!
کیا بھارت میں اور بھی کوئی ابوالکلام ہوا ہے؟
شکشا منتری نہیں، بھارت کے راشٹر پتی تھے۔
کسی نے مشورہ دیا کہ آپ مولانا آزاد کو غلط جگہ تلاش کر رہے ہیں، کسی مسلم محلے میں جائیے۔ وہاں تصاویر کی دکان میں مولانا آزاد کی تصویر نہ ملے تو کسی بک ڈپو میں ضرور مل جائے گی۔
چنانچہ مسلم محلے کی ایک دکان میں داخل ہوئے اور مولانا آزاد کی تصویر مانگی تو ایک لڑکا پرانی تصاویر کے ڈھیر سے مولانا محمد علی جوہر کو دریافت کر کے لے آیا۔ تصویر سے گرد جھاڑتا ہوا بولا:  ’لیجیے مولانا!‘
ہم نے کہا ’’مگر یہ مولانا آزاد نہیں ہیں‘‘ اس پر وہ کمالِ بے نیازی سے بولا: لیکن مولانا تو ہیں نا؟ داڑھی ہے ٹوپی ہے اور کیا چاہیے؟
ہم دوسری دکان میں پہنچے۔ وہاں بھی سابق صدر جمہوریہ ہند کی مقبولیت کا سکہ چل رہا تھا۔ ہم نے دکاندار سے کہا: یہ اے پی جے  عبدالکلام ہیں مولانا ابوالکلام آزاد نہیں ہیں۔
اس کے جواب میں دکاندار نے ایسی دلیل پیش کی کہ ہم لاجواب ہوگئے۔ ’’اب پرانے زمانے کے ہیں تو آزاد کہاں سے رہیں گے؟ اور ہم اسے یہ کہہ کر چلے آئے کہ ہاں جنابِ عالی! اب تو اپنے اولین وزیرِ تعلیم کو بھولنے کے لیے پورا بھارت آزاد ہے۔‘‘
  ہم نے ہمت نہ ہاری اور پھر ایک اور دکان میں قسمت آزمائی کی۔ اس بک ڈپو کے مالک نے ہمیں خبر دی کہ ’اب مولانا کی تصویر ملتی کہاں ہے۔ لوگ اے پی جے عبدالکلام کی تصویر رکھ کر ہی کام چلا لیتے ہیں۔ ویسے بھی مولانا آؤٹ ڈیٹید ہوچکے ہیں اور لوگ انہیں بھول بھی گئے ہیں۔ اب تو اے پی جے عبدالکلام کا دور ہے‘
ایک بک ڈپو والے سے پوچھا ’آپ کے ہاں آزاد کی تصویر ہے؟
’کون سے آزاد؟ ہمارے ہاں بے شمار آزاد ہوئے ہیں۔ مولانا ابولکلام آزاد، محمد حسین آزاد، جگن ناتھ آزاد، چندر شیکھر آزاد، غلام نبی آزاد، مشہور قوال اسمٰعیل آزاد، یہ آزاد، وہ آزاد، آزادی کے بعد پورا ملک آزاد ہو گیا ہے۔ آپ کو کون سا آزاد چاہیے؟ ‘
اس کی عام معلومات نے ہماری ہمت بندھائی :’ہمیں مولانا ابوالکلام آزاد کی بڑے سائز کی تصویر چاہیے۔‘
معاف کیجیے! ہمارے ہاں نہیں ہے۔ آپ ان کی کوئی کتاب دیکھیے شاید اس کے کسی کونے میں ان کی تصویر مل جائے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ اتنے سارے آزادوں میں مولانا آزاد اس طرح گم ہو گئے ہیں جیسے ہمارے ملک کے ہر شہری کو حاصل ہونے والی ڈھیر ساری آزادیوں میں فرد کی حقیقی آزادی کہیں گم ہو گئی ہے، اور مولانا آزاد کی حقیقی امیج بھی سکڑ گئی ہے۔
  ان دنوں محکمہ تعلیمات کے حکم پر پورے شہر کے تعلیمی ادارے مولانا آزاد کا یومِ پیدائش منانے پر تلے ہوئے تھے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی یہ فرماں برداری یقینا قابلِ تحسین ہے کہ وہ کسی بڑی شخصیت کی طرف اس وقت تک آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے جب تک سرکار اس نابغۂ روزگار کو ان کے لیے ’محرم‘ قرار نہ دے دے۔ ایک صدر مدرس نے جن کے نامی گرامی اسکول کے نام میں مولانا ابوالکلام آزاد کے نام کو شمولیت کا شرف حاصل تھا، مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ ان کے اسکول کا نام مولانا کے نام پر رکھا ہوا ہے اور وہ شہر کا سب سے قدیم ادارہ ہے۔ اس سال وہ سرکاری حکم پر عمل کرتے ہوئے پہلی مرتبہ مولانا آزاد کا یوم پیدائش منانے جا رہے ہیں۔ موصوف نے مزید اطلاع دی کہ اس دن طلباء کے درمیان چاکلیٹ بھی تقسیم کیے جائیں گے اور ایک ریلی نکالی جائے گی۔ بعد میں کسی نے مجھے بتایا کہ اس ریلی میں بچوں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ نعرے بھی لگائے۔ مولانا آزاد زندہ باد، ایک دو تین چار گاندھی جی کی جے جے کار، جے جوان جے کسان وغیرہ غیرہ (بے چارے معلمین و معلمات بھی مجبور ہیں نئے نعرے کہاں سے لائیں)
   اسی دوران شہر کے سماجی فلاحی اداروں کو مولانا آزاد بے اختیار یاد آئے اور انہوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ریلی نکالی۔ ایک میدان میں بڑا جلسہ منعقد کیا گیا تاکہ مولانا آزاد سے شہر کے سارے طلباء واقف ہو سکیں۔ اس غرض سے بچوں کو مولانا کا گیٹ اپ دیا گیا۔ شیروانی، ٹوپی اور نقلی ڈاڑھی میں ملبوس درجنوں ننھے ننھے، چھوٹے بڑے، دبلے موٹے ہر سائز کے مولانا آزاد لاریوں پر کھڑے نظر آنے لگے۔ سارے شہر نے جان لیا کہ مولانا آزاد ایسے ہی تھے۔ ریلی شہر کے دو اداروں نے شراکت میں نکالی تھی۔
  میں نے دیکھا کہ ایک ٹرک پر اسکول یونیفارم سفید شرٹ پینٹ میں ملبوس ایک لڑکے سے مولانا آزاد کا بھیس بنائے ہوئے لڑکے کی لڑائی ہو رہی ہے۔ مولانا ڈاڑھی لگائے، ٹوپی پہنے اسے ایک پتلی سی لکڑی سے پیٹ رہے ہیں اور مغلظات بکتے جا رہے ہیں۔ کسی نے ایک ٹیچر سے کہا: ارے یہ کیا ہو رہا ہے، روکو ان کو۔ تو ٹیچر کہنے لگا ’بھئی! وہ بھی اس جھلکی کا حصہ ہے جس میں یہ دکھایا جا رہا ہے کہ مولانا آزاد نے کس طرح اپنے قلم اور تقریر سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تھی۔‘
  دوسرے ٹرک پر دو مولانا آپس میں گتھے ہوئے تھے۔ اس کے متعلق ان صاحب سے پوچھا گیا تو کہنےلگے: ’در اصل یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ مولانا آزاد اپنی ابتدائی زندگی میں خود اپنے آپ سے الجھتے رہتے تھی۔ کتنے ہی مذہبی معاملات میں ان کے دل و دماغ میں جنگ چلتی رہتی تھی۔ مولانا کے اندر خود دو مولانا ایک دوسرے سے بھڑے ہوئے تھے۔ یہ اسی کا نقشہ ہے۔‘
 جب ہم میدان میں پہنچے تو دیکھا کہ ہر طرف جوش و خروش کا ماحول ہے اور اس میں مزید جوش پیدا کر نے کے لیے فلمی گیت بجائے جا رہے تھے۔ ہمارے کانوں میں جو پہلے بول پڑے وہ یہ تھے۔’اس دھرتی پہ جس نے جنم لیا، اس نے ہی پایا پیار ترا، یہاں اپنا پرایا کوئی نہیں، ہے سب پہ ماں اپکار ترا،میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے اگلے ہیرے موتی ۔‘
ہم نے اردو میڈیم اسکول کے ایک استاد سے جو باریش تھے اور ٹوپی پہنے ہوئے حلیہ سے نیم مولانا نظر آ رہے تھے پوچھا:  یہ مخصوص گیت بجانے کا یہ کیا موقع ہے؟
کہنے لگے، ارے صاحب! مزہ آتا ہے خوشی کا موقع ہے، آج مولانا آزاد کا یومِ پیدائش ہے۔مگر یہ میرے دیش کی دھرتی؟
جناب! بات در اصل یہ ہے کہ مولانا آزاد جیسے عظیم لوگ یہاں پیدا ہوئے ہیں اور مولانا آزاد تو سونا تھے، چوبیس کیریٹ کاسونا۔
اگر ہم مولانا آزاد کی ’جائے پیدائش‘ بھارت نہیں بلکہ مکۃ المکرمۃ کہتےتو شائد اس پر نیا تنازعہ پیدا ہوجاتا اسی ڈر سے ہم لوگ آ گے بڑھ گئے۔ شہر کے سب سے بڑے گراؤنڈ میں تمام اردو اسکولوں کے طلبا و طالبات کو جمع کیا گیا تاکہ انہیں مولانا آزاد کی خدمات سے واقف کروایا جائے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس شان دار تقریب کا آ غاز ہوا۔ تقریر کرتے ہوئے مقررِ خاص نے کہا: مولانا آزاد کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے، وہ ہمارے عظیم رہنما تھے۔انہوں نے جنگِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
  میں نے دیکھا کہ کسی اسکول کا ایک معصوم سا بچہ مولانا کے بھیس میں کھڑا بڑے انہماک سے وہ تقریر سن رہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ بچہ نہیں، خود مولانا ابوالکلام آزاد ہیں، عدم آباد سے اس زمین پر اتر آئے ہیں تاکہ اپنے بارے میں قوم کے خیالات سن سکیں۔ مگر یہ کیا؟ مقررِ خصوصی نے مولانا آزاد کو تین جملوں میں ٹرخا دیا اور وہ پھر بتانے لگا کہ ان کی تنظیم نے شہر میں کیا کیا کارنامے انجام دیے۔ کتنے بلڈ ڈونیشن کیمپ منعقد کیے، کتنے وفد لے کر کلکٹر کے پاس گئے۔شہر میں کتنی ریلیاں نکالیں وغیرہ وغیرہ۔ مولانا اپنے بارے میں سننے کے لیے ترستے رہ گئے۔ 
  جلسہ کے بعد اس مقرر کو کئی لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ تم نے مولانا کے بارے میں اتنا کم کیوں کہا؟
ارے میں کیا بولتا، مجھے مولانا کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔ وہ تو اچھا ہوا ماسٹر صاحب نے وقت پر تین جملے گھسیٹ دیے تو جم گیا۔
  دوسری تنظیم کے صدر نے اس کا گریبان پکڑ لیا: تم نے میرا تعارف کیوں نہیں کروایا۔ ہماری پارٹی کے بارے میں تو کچھ بولا ہی نہیں۔ بس اپنی بے تکی ہانکتے رہے۔ اس کے بعد اس کی تنظیم کے صدر نے اسے آڑے ہاتھوں لیا: ’سب سے پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے میرا انٹروڈکشن کیوں نہیں کروایا۔ سارا ٹائم خود ہی کھا گئے‘۔ ایک صاحب وہیں اناؤنسر کو ڈانٹ پلا رہے تھے کہ مجھے تقریر کے لیے مائک پر کیوں نہیں بلایا؟
  اس غبارِ خاطر کے سبب ہنگامہ بڑھنے لگا تو ہم نے اپنا راستہ لیا۔ بچے بھی مولانا آزاد کو دو تین جملوں میں خراجِ عقیدت پیش کر کے اپنے گھروں کی طرف چل دیے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 نومبر تا 18 نومبر 2023