پروفیسر محسن عثمانی ندوی
مولانا عتیق احمد بستوی کو لوگ ایک فقیہ اور عالم دین کی حیثیت سے ہی جانتے تھے، ابھی کچھ دن پہلے ان کی کتاب ’’تاریخ دولت عثمانیہ – ترکی کی تاریخ‘‘ اہل نظر کے سامنے آئی۔ اس کتاب نے اہل علم کے دلوں میں جگہ بنا لی، اب لوگ ان کو ایک مؤرخ کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں۔ لوگوں نے ادیب کو شاعر بنتے اور شاعر کو ادیب بنتے تو بہت دیکھا ہے لیکن فقیہ کو مؤرخ بنتے ہوئے کم دیکھا ہے۔ اب اس مؤرخ نے سفر نامے کے ادب میں بھی قدم رکھ دیا ہے اور اس کی گل افشانی گفتار سے ایک بہترین سفرنامہ وجود میں آگیا ہے۔ مولانا عتیق احمد بستوی کا قلم حرمین شریفین کی وادیوں سے گزرا اور مقاماتِ حرم نے ان کے حریمِ دل پر اثر ڈالا ہے جس کا اظہار ان کے شگفتہ قلم سے ہو گیا ہے، لیکن حرمین شریفین کے سفر کے بعد مسافر جب شام پہنچا تو اس کا قلم انشاء کے پھول کھلاتا اور شوقِ فراواں کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے اس سرزمین شام پر قدم رکھا جس کی صبح جاں نواز ابھی نمودار ہوئی ہے۔
مولانا عتیق احمد بستوی ایک معتبر عالم دین، مورخ اور دیدہ ور محقق ہیں۔ انہوں نے شام کے علماء سے ملاقات کی اور وہاں کے کتب خانوں کی زیارت کی اور نادر مخطوطات کا تذکرہ کیا۔ ایک عام آدمی کے سفرنامے اور ایک محقق عالم دین کے سفرنامے کے درمیان یہی فرق ہوتا ہے۔ مولانا عتیق احمد بستوی جب شام پہنچتے ہیں تو وہاں کے کتب خانوں میں داخل ہوتے ہیں اور نایاب مخطوطات کے بارے میں نوٹس تیار کرتے ہیں، علماء سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ شیخ احمد کفتارو اور سعید بوطی اور بہت سے دوسرے شیوخ سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ ان حضرات سے راقم سطور کی بھی ملاقات ہو چکی ہے۔ ملاقات کا ذکر اس نے اپنے سفرنامہ ’’دنیا کو خوب دیکھا‘‘ میں کیا ہے اور یہ کتاب قاضی پبلشرز دہلی سے شائع ہوئی ہے۔
مولانا عتیق احمد بستوی کے شام کے سفر میں سب سے زیادہ تذکرہ اگر کسی ہندوستانی شخصیت کا آیا ہے تو وہ مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کا آیا ہے، کیونکہ شام کے علما و اعیان ان سے بے حد محبت کرتے تھے اور ان کی کتابیں پڑھتے تھے۔ ایسا ہی تجربہ راقم سطور کو بھی ہوا جب وہ شام کے شہر حلب میں اس وقت گیا تھا جب مولانا علی میاں ندویؒ کا انتقال ہو چکا تھا، جب حلب کے ایک عالم دین نے راقم سطور سے مولانا علی میاںؒ کے بارے میں پوچھا تو ان کو مولانا کے انتقال کی خبر دی گئی۔ یہ سن کر وہ آبدیدہ ہو گئے اور رونے لگے۔ حالاںکہ انہوں نے مولانا علی میاں ندویؒ کو کبھی دیکھا بھی نہیں تھا، صرف ان کی کتابیں پڑھی تھی، ایسی محبوبیت شاید ہی کسی شخصیت کو حاصل ہوئی ہو ،ان کی اس کیفیت کو دیکھ کرمجھے کسی کا یہ شعر یاد آگیا ؎
ایک آنسو اور اس میں داستانِ صد ملال
کتنے دریا قطرۂ شبنم میں لہرانے لگے
مولانا علی میاں ندویؒ کی شخصیت بھی کیا شخصیت تھی کہ کوئی ان کو بہت بڑا عارف اور صوفی سمجھتا ہے، کوئی ان کو مؤرخ اور ادیب گردانتا ہے، کوئی ان کو عربی زبان کا بہترین ادیب، خطیب اور انشاء پرداز سمجھتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ ان کے پیام انسانیت کی تحریک بھی غیر معمولی تحریک تھی، اس کا اصل مقصد ہندوستان میں دعوت دین کا پلیٹ فارم تیار کرنا تھا، کیونکہ ہر پیغمبر نہ صرف اپنی قوم کی زبان سے واقف ہوتا ہے بلکہ اس کے اکابر واصاغر سب سے نام بنام واقف ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ان کے درمیان میں پہنچ کر کہتا ہے: ’’لا تعبدوا إلا إیاہ۔‘‘
ہندوستان کے علماء اور داعیانِ دین نہ تو لسانِ قوم سے واقف رہے ہیں اور نہ قوم سے، اس لیے ان کی اصلاح کی کوششیں مسلمانوں کے درمیان محدود رہی ہیں، آج بھی برادرانِ وطن تک دین کو پہنچانے کا وہی راستہ بہتر ہے جسے مولانا علی میاں ندویؒ نے اختیار کیا تھا،یعنی پہلے ان کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنا، میرے نزدیک مولانا کا یہ کام وہ عظیم کام ہے جس کی توفیق گزشتہ صدیوں میں بہت کم لوگوں کو مل سکی ہے۔ مولانا کے انتقال کے بعد مولانا وحید الدین خان نے ان پر مضمون لکھا تھا، جس کا نام تھا ’’صدی کی شخصیت‘‘ اور سچ یہ ہے کہ مولاناصدی کی نہیں ’’صدیوں کی شخصیت‘‘ تھے۔مولانا کو برادران وطن تک دین اسلام کو پہنچانے کی بہت فکر تھی اور کہا کرتے تھے کہ اگر دین اسلام کو برادران وطن تک نہیں پہنچایا گیا تو یہاں اسپین کی تاریخ دہرائی جائے گی۔
شام کے سفر کے بعد مولانا عتیق احمد بستوی کا راہوار قلم یورپ کے قلب لندن کی گزرگاہوں تک پہنچتا ہے۔ وہ لندن کے جمال فتنہ انگیز اور حسن دل آویز سے کم متاثر ہوتے ہیں، وہاں بھی وہ اہل دانش اور اہل علم سے ملاقاتیں کرتے ہیں لیکن لندن کی چکا چوند سے ان کی نظر خیرہ نہیں ہوتی۔ وہاں بھی وہ برٹش کونسل لائبریری اور انڈیا آفس میں پہنچ کر اپنی ذوق کی کتابیں نکلواتے ہیں اور ان سے نوٹس تیار کرتے ہیں۔ اقبال نے اپنے بارے میں کہا تھا:
دل میں لندن کی ہوس لب پر ترے ذکر حجاز
مولانا عتیق احمد بستوی کی تحریروں سے لندن کی ہوس کا کوئی اظہار نہیں ہوتا ہے، ہوس اگر ہے تو کتابوں کی، کتاب خانوں کی اور علماء کی۔ اقبال نے ایک دوسری جگہ لندن اور پورے یورپ کے بارے میں اپنی کیفیت کا ان الفاظ میں اظہار کیا ہے:
نشستم با نہ کویانِ فرنگی
ازاں بے سوز تر روزے نہ دیدم
مولانا عتیق احمد بستوی نے وہاں مشہور میوزیم کی بھی زیارت کی اور علماء سے ملے۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی جو اپنی صحت کی وجہ سے لندن میں جا کر مقیم ہو گئے تھے، ان سے بھی ملاقات کی۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بڑے قابل، فاضل اور بہترین صحافی اور عالم دین تھے۔ انہوں نے آخر میں قران مجید کی تفسیر بھی لکھی ہے جو مکتبہ الفرقان سے شائع ہو رہی ہے۔ یہ ان کا آخری تصنیفی اور علمی کام ہے اور انہیں شبلی کی زبان میں یہ کہنے کا حق تھا:
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
***
مولانا عتیق احمد بستوی ایک معتبر عالم دین، مورخ اور دیدہ ور محقق ہیں۔ انہوں نے شام کے علماء سے ملاقات کی اور وہاں کے کتب خانوں کی زیارت کی اور نادر مخطوطات کا تذکرہ کیا۔ ایک عام آدمی کے سفرنامے اور ایک محقق عالم دین کے سفرنامے کے درمیان یہی فرق ہوتا ہے۔ مولانا عتیق احمد بستوی جب شام پہنچتے ہیں تو وہاں کے کتب خانوں میں داخل ہوتے ہیں اور نایاب مخطوطات کے بارے میں نوٹس تیار کرتے ہیں، علماء سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024