مولانا ابو البيان حمادؒ

بر صغیر میں تحریک اسلامی کے ابتدائی ایام کے آخری عینی شاہد

اے یو آصف سینئر صحافی ، نئی دلی

29جنوری 2023کی علی الصبح بنگلورو میں ہمہ جہت شخصیت مولانا عبد الرحمن خان عرف ابو البیان حماد کے سانحہ ارتحال سے دنیائے فانی سے ایک ایسی تاریخی شخصیت رخصت ہوگئی جو کہ صرف 178 دنوں سے اپنی حیات سنچری (Century) پوری نہ کر سکی۔ انہیں 1940 کی دہائی کے وسط میں بر صغیر میں بانی تحریک اسلامی سید مودودیؒ کی قربت دار الاسلام پٹھان کوٹ اور ان کے رفیق اور دارالعروبہ دانشمنداں (جالندھر) کے سر پرست مسعود عالم ندویؒ سے مزید تعلیم و تربیت اور دینی تعلیم کے بعد ان کی نگرانی میں تحریک اسلامی کے عروج اور بقاء پر تحقیق کرنے کا فخر حاصل تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی طبی حیات میں جب بھی کوئی ان کے پاس حاضر ہوتا تھا تو وہ تقسیم وطن سے قبل کے ان لمحات کا ذکر کرتے ہوئے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ میں 14 تا 16 اکتوبر 2011 کو معروف تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز ( آئی او ایس) کی سلور جوبلی تقریبات کے موقع پر بنگلورو میں ’گلوبلائیزنگ دنیا میں میڈیا کی طاقت‘ پر منعقد بین الاقوامی کانفرنس میں سید تنویر احمد صاحب کے ساتھ شریک تھا ۔ایک ہوٹل میں اچانک رات کے کھانے کے دوران امیر جماعت اسلامی ہند سید جلال الدین عمریؒ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے برجستہ بڑے احترام سے ان کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے راقم الحروف سے کہا کہ ’’ان سے ملیے یہ میرے استاد محترم مولانا ابوالبیان حمادؒ ہیں‘‘۔ پھر ایک صحافی کو اور کیا چاہیے تھا ؟ ان کی رہائش گاہ میں اگلے روز صبح کے ناشتہ پر خصوصی انٹرویو لینے پہنچ گیا اور بڑے سے ڈائننگ ٹیبل پر مختلف قسم کے ڈشز (Dishes) کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ ناشتہ ہے یا کھانا؟ اس پر مولانا محترم نے بڑے ہی دلچسپ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کے نارتھ میں صبح کا ناشتہ بقدر بادام ہوتا ہے جبکہ ہمارے ساوتھ میں بقدر گودام‘‘۔ ناشتہ کے دوران اور اس کے بعد انہوں نےبہت تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک اسلامی کی تاریخ کے چند گم شدہ ابواب پر روشنی ڈالی ۔
تاریخی لحاظ سے ابوالبیان حماد بہت ہی اہم تھے۔ برصغیر میں تقسیم وطن سے قبل تحریک اسلامی کے ابتدائی دور میں اس کے ارتقا کے یہ عینی شاہد تھے۔ 1941میں لاہور میں تاسیس جماعت اسلامی 1943میں دربھنگہ (بہار) میں اولین علاقائی اجتماع اور 1944میں پٹھان کوٹ (پنجاب) میں دوسرے علاقائی اجتماع کے بعد 19تا21اپریل 1945 کو پٹھان کوٹ میں ہی منعقد ہونے والے پہلے آل انڈیا اجتماع اور 25اور26اپریل 1947کو مدراس میں حلقہ جنوبی ہند اجتماع میں بنفس نفیس شریک رہے اور ان کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے 1945-46میں پٹھان کوٹ میں واقع مرکز جماعت اور دانشمنداں جالندھر میں مرکز دارالعروبہ میں پورا ایک برس گزارا۔ اس دوران تحریک کی تاریخ سازی کو قریب سے دیکھا۔ نیز اس زمانے کی معروف تحریکی شخصیات کے ربط میں بھی رہے۔
ابوالبیان حماد کا آبائی وطن مالور (کرناٹک) تھا۔ یہیں 25جولائی 1923کو یہ پیدا ہوئے۔ بعد میں تاحیات بنگلورو میں قیام رہا۔ والد عبداللطیف خاں اور والدہ آسیہ بیگم نے ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ دارالسلام عمر آباد سے 1936-44میں انہوں نے عالم و فاضل کیا۔ وہیں انہوں نے ایک استاد مولانا سید صبغۃ اللہ بختیاری سے خوب فیض حاصل کیا۔ یہ استاد محترم وہی تھے جو کہ 25تا31اگست 1941کو منعقدہ جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں شریک 75خوش نصیب شخصیات میں شامل تھے اور تاسیس کے بعد امیر جماعت مولانا مودودی کی نیابت کے لیے چار نائب امرا مختلف علاقوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ بنائے گئے تھے ان میں سے یہ بھی ایک تھے۔ یہ حلقہ دکن و مدراس کے انچارج تھے ۔ جامعہ دار السلام میں رہنے کے سبب انہیں یہ ذمہ داری دی گئی تھی۔ لہذا اپنے استاد مولانا بختیاری کے ذریعے ابوالبیان حماد تحریک اسلامی سے پوری طرح واقف ہوگئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جامعہ دار السلام نے 44-1936 عالم فاضل کی اسناد لینے کے بعد قرآن کریم میں مہارت حاصل کریں اور پھر تحریک اسلامی کے عروج اور بقاء پر ریسرچ کریں ۔
چنانچہ عمر آباد سے فراغت کے بعد لاہور میں جامعہ قاسم العلوم پہنچے اور وہاں 1944-45میں قیام کے دوران مشہور و معروف مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری کی سر پرستی میں تخصص فى التفسیر قرآن کیا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری سے بھی فیض حاصل کرنے امرتسر گئے۔ لاہور میں قیام کے دوران انہوں نے مولانا مودودی سے دارالاسلام پٹھان کوٹ میں حاضری کی اجازت مانگی تاکہ تحریک اسلامی کے عروج و ارتقاء پر وہاں جا کر مطالعہ و تحقیق کر سکیں۔ لہذا امیر جماعت مولانا مودودی کی ہدایت پر قیم جماعت میاں طفیل محمد نے جواب دیتے ہوئے مولانا مودودی کی جانب سے منظوری دے دی کہ وہ دارالسلام حاضر ہو سکتے ہیں۔ ابوالبیان حماد کے لیے یہ اجازت نامہ عید کی خوشی سے کم نہیں تھا۔ انہوں نے فوراً ہی پٹھان کوٹ کا پروگرام بنالیا اور لاہور سے ٹرین کے ذریعے دارالسلام سے قریب سرنا ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ وہاں پلیٹ فارم پر اترتے ہی مولانا مودی کی ہدایت کے مطابق ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان کا نام پوچھا اور پھر بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ مصافحہ کیا اور کہا کہ وہ انہیں لینے آیا ہے۔ ان کے منع کرنے کے باوجود اس شخص نے بڑے اصرار کے ساتھ ان کا سارا سامان اپنے سر اور کاندھے پر اٹھالیا۔ اسٹیشن سے دارالاسلام چند میلوں کی دوری پر تھا۔ منزل مقصود پہنچنے پر جب انہوں نے وہاں موجود کچھ رفقاء سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور نہیں عجز و انکساری اور سادگی کا نمونہ ملک غلام علی تھے ۔وہی ملک غلام علی جو کہ بعد میں فیڈرل شریعت کورٹ پاکستان کے جج اور کے تحریک اسلامی سے متعلق کئی کتابوںکے مصنف کے طور پر معروف ہوئےجب ابوالبیان حماد جسٹس ملک غلام علی کا تذکرہ کر رہے تھے تو اس وقت نے ان کی آنکھیں آبدیدہ تھیں۔
دارالاسلام پہنچنے کے بعد ان کی ملاقات مولانا مودودی، مولاناامین احسن اصلاحی ودیگر رفقاء کرام سے کرائی گئی ۔ پھر انہوں نے جب مولانامودودی سے وہاں رہتے ہوئے تحریک اسلامی پر مطالعہ و تحقیق کے بارے میں اپنی خواہش کو بتایا تو انہوں نے انہیں دار الاسلام کے بجائے پٹھان کوٹ سے کچھ دوری پر واقع بسنتی دانشمندان جاکر دار العروبہ میں رہ کر مسعود عالم ندوی سے فیض حاصل کرنے کی ہدایت کی اور یہ بھی کہا کہ وہ وہاں سے برابر دار الاسلام آتے جاتے رہیں اور دونوں مراکز سے فائدہ اٹھاتے رہیں ۔ اس کے بعد یہ دانشمنداں پہنچے اور مسعود عالم ندوی کی سحر انگیز شخصیت علمی کمال کے اسیر ہو کر رہ گئے ۔ وہاں ان کی موجودگی میں دارالعروبہ کا باضابطہ قیام عمل میں آیا ۔ وہاں پہلے سے تحریک اسلامی کے رہنما اور جلیل القدر عالم دین جلیل احسن ندوی اور اسکالر عمر قطبی موجود تھے ۔ اس طرح ابوالبیان حماد کو العروبہ میں مسعود عالم ندوی سمیت تین عظیم شخصیات اور اساتذہ کی سرپرستی ملی ۔ انہوں نے تحریک اسلامی کی فکری و عملی پہنچ پر زبردست کام کیا ۔ اس لحاظ سے تحریک اسلامی کے ابتدائی ایام میں اس پر ریسرچ کرنے والے یہ پہلے شخص بن گئے۔ دارالعروبہ میں ان تینو ں شخصیات کے علاوہ انہوں نے خود بانی تحریک اور مرکز جماعت میں موجود متعدد اکابر سے بھی خوب استفادہ کیا جن میں میاں طفیل محمد، عبدالجبار غازی، امین احسن اصلاحی، ملک غلام علی، سید عبدالعزیز شرقی، مستری محمد صدیق، نعیم صدیقی اور ملک نصراللہ خاں عزیز قابل ذکر ہیں۔ اسی دوران مرکز میں وقتاً فوقتاً آتے رہے۔ صدرالدین اصلاحی ، اختر احسن اصلاحی، علی میاں، محمد حسنین سید اور محمد شفیع داودی سے بھی ان کی ملاقاتیں رہیں اور برصغیر میں تیزی سے پھیلتی ہوئی تحریک اسلامی کو سمجھنے کی انہوں نے کوشش کی۔
1945میں منعقدہ پہلا تاریخی اجتماع ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا کیونکہ چند دنوں قبل ہی یہ اس علاقہ میں پہنچے تھے۔ وہاں مذکورہ بالا شخصیات کے علاوہ پورے ملک سے متعدد تحریکی افراد تشریف لائے تھے اور مختلف زبانوں میں تحریکی لٹریچر کے ترجمے اور مزید لٹریچر کے علاوہ تعلیم اور درس گاہ اسلامی کے قیام نیز میڈیا پر بھی تفصیل سے بات چیت ہوئی تھی۔
بعد ازاں کسی وجہ سے الہ آباد میں دوسرے آل انڈیا اجتماع میں تو ان کی شرکت نہیں ہوسکی۔ البتہ 25۔26اپریل 1947کو یہ مدراس میں منعقدہ حلقہ جنوبی ہند کے اجتماع میں شریک ہونے عمر آباد سے خاص طور پر آئے جہاں وہ جامعہ دارالسلام میں بحیثیت استاد 1946سے خدمت انجام دےرہے تھے۔
1947میں مدراس کا اجتماع وہی تھا جس کےدوران مولانا مودودی نے اپنے صدارتی خطبہ میں چار نکات پیش کیے تھے جن میں اس بات پر زور ڈالا گیا تھا کہ اب جبکہ وطن عزیز کی تقسیم ناگزیر بنتی ہوئی محسوس ہورہی ہے، ہندوستان میں تحریک اسلامی کے لیے کرنے کا کام یہی ہے کہ اسلام کا مکمل تعارف قرآن و حدیث اور سیرت کے مختلف زبانوں میں ترجموں کے ذریعے کرایا جائے اور یہی کوشش مستقبل میں اٹھنے والی قومی کشمکش کو روک سکتی ہے۔ ابوالبیان حماد نے 2011میں راقم الحروف سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودی کے اندیشے صحیح ثابت ہورہے ہیں اور ان کے مشورے پر ٹھیک سے عمل نہیں کیا جاسکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ہنوز بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
ابوالبیان حماد بانی تحریک کے خطبہ مدراس کو مستقبل میں جھانک کر دیا گیا خطبہ گردانتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ مولانامودودی نے اس خطبہ میں جو کچھ کہا تھا وہ ان کی دور اندیشی وسڈم، ویژن اور ذہانت پر مبنی تھا۔ ان کے خیال میں اس خطبہ میں وہ باتیں تھیں جس کا اظہار اس زمانے میں کسی اور شخصیت کی سوچ اور پلان میں دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں۔
ابوالبیان حماد ایک اچھے استاد، صحافی، مصنف، شاعر و ادیب اور مترجم کے علاوہ قرآن و حدیث میں زبردست مہارت بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے 1946سے چند برسوں قبل تک جامعہ دارالسلام عمر آباد میں درس و تدریس کی ۔ اچھے اور ماہر اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے استاد محترم اور اس زمانے میں تحریک اسلامی کے قائد صبغۃ اللہ بختیاری اور شاکر نائطی کی سرپرستی میں شاعری اور نثری تحریر 1938سے آغاز کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی پہلی غزل ایک کل ہند مشاعرہ میں شیدا کشمیری، ماہر القادری ، تبسم نظامی اور جگر مراد آبادی جیسے عظیم شعرا کی موجودگی میں کہی تھی اور داد حاصل کی تھی۔ ان کے تین شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ایک فردوس تغزل، دوم نغمات حمد و نعت ، سوم بانگ حراہیں۔
نثر میں ایک توحید کی اہمیت و تقاضے، دوم تازیانے بشمول مقدمہ صبغۃ اللہ بختیاری اور سوم سفر حجاز و ا یران ہیں۔ عیاں رہے کہ تازیانے دراصل علامہ ابن حجر عسقلانی کی معرکۃ الارا ’المنہات‘ کا اردو ترجمہ ہے جو کہ پہلی مرتبہ کارخانہ تجارت لاہور سے اور دوسری مرتبہ پرانتک پبلک ہاوس بنگلورو سے شائع ہوکر بہت مقبول ہوا۔ ان کی تیسری مشہور کتاب ’تاریخ کا ایک گمشدہ ورق‘ ہے جو کہ واقعی پڑھنے کے لائق ہے۔
صحافت سے بھی ان کا بڑا گہرا تعلق تھا۔ انہوں نے جامعہ دارالسلام میں چوتھی کلاس میں تعلیم کے دوران قلمی رسالہ الاخلاق کی ادارت کی۔ پھر 1950میں اردو ہفت روزہ ’پیغام‘ اپنے بھائی مولوی ثنا اللہ عمری اور شاگرد سید جلا لالدین عمری کے ساتھ مل کر نکالا اور ایک عرصہ تک چلایا۔ نیز رسالہ اعتدال‘ کی سرپرستی بھی فرمائی۔ انہوں نے ملک نصر اللہ خاں عزیز اور مولانا نعیم صدیقی کی سرپرستی میں اخبار ’کوثر‘ میں صحافتی تربیت لی تھی۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ یہ طبیب بھی تھے۔ انہوں نے حکیم فضل الرحمن سواتی سے علم طب سیکھا تھا۔
صحیح معنوں میں وہ ایک لیونگ ہیریٹیج (Living Heritage) تھے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ آزادی کے بعد ہندوستان میں جماعت اسلامی کی تشکیل نو یعنی جماعت اسلامی ہند کے قیام کو اس سال 16-18 اپریل کو 75 برس ہو رہے ہیں اور یہ اپنا ’امرت کال‘ (Platinum Jubilee) منارہی ہے، تقسیم سے قبل اور بعد کی تاریخ کے یہ عینی شاہد بہت یاد آئیں گے۔ 17 اکتوبر 2011ء کو راقم الحروف سے کہے گئے ان کے الفاظ کانوں میں گونج رہے کہ 1945-46 میں پٹھان کوٹ کا مرکز متحدہ ہندوستان میں نیکی کے نگہبانوں کا ہب (Hub) تھا جہاں بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کی بقا و فلاح اور مختلف شعبہ حیات بشمول معاشرت، تعلیم، معیشت اور شعرو ادب میں خوف خدا کے ساتھ مثبت انداز میں تفکر و تدبر کی باتیں ہوتی تھیں اور منصوبے بنتے تھے۔ پھر یہ سلسلہ بعد تقسیم وطن تشکیل نو کی صورت میں بھی جاری رہا۔ تبھی تو 1974ء میں دلی کے کل ہند اجتماع کو کور کرتے ہوئے معروف صحافی شیام لال شرما نے ٹائمز آف انڈیا گروپ کے اس زمانے کے مشہور ہندی ہفتہ وار ’دنمان‘ (Dinmaan) میں اپنی رپورٹ کی سرخی ’’نیکی کے نگہبانوں کا اجتماع‘‘ لگائی تھی اور میڈیا میں داد پائی تھی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023