
موجودہ حالات میں امتِ مسلمہ کو در پیش چیلنجز اور ان کا حل ۔ مسلمان کیا کریں؟
علم، اخلاق، تقویٰ اور دعوت کے ذریعے دین کی نمائندگی کریں
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
امتِ مسلمہ اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف دشمنانِ اسلام کی یلغار ہے تو دوسری طرف امت اندرونی خلفشار، فکری انحراف، افتراق و انتشار، عدمِ اتحاد، ایمانی کمزوری اور اخلاقی پستی کا شکار ہے۔ عصرِ حاضر کے کئی بڑے چیلنجز ایسے ہیں جن کا اگر سنجیدگی سے ادراک کرکے مثبت لائحہ عمل طے نہ کیا گیا تو یہ امت کی مزید تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ذیل میں ان چیلنجز کا تجزیہ اور ان کے ممکنہ حل پیش کیے جا رہے ہیں۔
پہلا چیلنج: مسئلہ فلسطین اور اہلِ غزہ پر ظلم و ستم
فلسطین کا مسئلہ امتِ مسلمہ کے لیے سب سے بڑا المیہ بن چکا ہے۔ خصوصاً غزہ میں اہلِ ایمان کو 650 دنوں سے پانی، غذا، دوا اور بجلی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم کر کے ان پر بدترین بمباری کی جا رہی ہے۔ دواخانے، اسکولس، مساجد اور رہائشی عمارتیں تباہ کی جا چکی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کی کوشش ہے کہ اہلِ فلسطین بھوک، پیاس، زخموں اور بیماریوں سے بدحال ہو کر اس حد تک مجبور ہو جائیں کہ ہتھیار ڈال دیں اور اپنی سر زمین چھوڑ دیں۔ یہ سراسر ظلم، انسانیت کے خلاف جرم اور نسل کشی ہے، لیکن عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ایران سے جنگ کے بعد اسرائیل نے شام پر بھی حملہ کر دیا ہے۔ اہلِ غزہ کی تباہی کے ساتھ وہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کر کے ان کو بھی بے گھر کیا جا رہا ہے۔ دو ریاستی حل کے بجائے ابھی بھی یہ شیطان ملک گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
حل: امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ وہ مسئلہ فلسطین پر زبانی مذمت سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرے۔ سب سے اہم اقدام یہ ہے کہ اہلِ غزہ کے لیے تمام مسلم ممالک اور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے میں مخلص، یکسو اور متحد ہوں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض ممالک ابھی تک اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں اور سوائے ایران اور اس کے حلیفوں کے سب امریکہ اور اسرائیل کے خوف میں مبتلا ہیں۔ بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ عرب ممالک کے حکم راں نہیں چاہتے کہ حماس-اسرائیل جنگ میں حماس ایک فاتح بن کر ابھرے۔ ان کو اس بات کا ڈر ہے کہ ان کے عوام اس سے حوصلہ پا کر اپنی سیاسی آزادی کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں۔ ایران کے جوابی حملے کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ اسرائیل ناقابلِ تسخیر نہیں ہے لیکن ابھی بھی ان ممالک کا تذبذب باقی ہے۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں مستقبل کی غالب قوت جو بھی ہو وہ ان کی بادشاہت کو باقی رکھنے والی ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سارے مسلم ممالک مل کر اہلِ غزہ کے حق میں سیاسی، سفارتی، مالی اور انسانی بنیادوں پر مدد کرتے لیکن ان کے اندر اتحادِ عمل کا فقدان ہے۔ اگر مسلم ممالک متحدہ طور پر اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں اس ظلم کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتے تو اسرائیل کی اتنی ہمت نہ ہوتی کہ وہ اس قدر سفاکی کے ساتھ غزہ میں ظلم ڈھاتا۔
اس وقت دو انتہائیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک جانب بے انتہا صبر کا مظاہرہ ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اتنے طویل عرصہ سے ۲۰ لاکھ اہلِ غزہ کو بدترین محاصرے میں بھوکا اور پیاسا رکھ کر ان پر بم برسائے جا رہے ہیں اور دواخانوں کو برباد کر کے زخمیوں کو علاج سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اتنے طویل ظالمانہ محاصرے میں اس طرح کی استقامت کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ دوسری طرف ناقابلِ تصور ظلم کی انتہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وعدہ فرمایا کہ وہ طیب کو خبیث سے الگ کر کے رہے گا (سورۃ آلِ عمران: ۱۴۱، ۱۷۹) ایک طرف مومنین، صادقین اور شہداء ہیں تو دوسری طرف انتہائی سنگدل ظالم، منافق اور تماشائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کا امتحان لے رہا ہے۔ اس طویل جنگ کے ذریعے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اہلِ غزہ کو شہداء میں شامل ہونے کا اعزاز عطا فرمائے (سورۃ آلِ عمران: ۱۴۰) اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ ایران کی طرح دوسرے مسلم ممالک بھی جرأت کا مظاہرہ کریں اور وہن کی بیماری سے چھٹکارا حاصل کریں جس کا ذکر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ کثرت کے باوجود مسلمانوں کی حیثیت خس و خاشاک کی طرح ہوگی۔ وہن کی بیماری سے مراد دنیا کی محبت اور موت کا خوف ہے۔ مسلم ملکوں نے دشمنوں کی سرکوبی کے لیے اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے بجائے اس کو دشمنوں ہی کے ہاتھوں سونپ دیا اور اپنے شہروں کو خوبصورت عمارتوں سے مزین کرنے میں لگ گئے۔ وہ نہیں چاہتے کہ امریکہ و اسرائیل ان سے ناراض ہوں اور ان کے جنت نما شہروں پر اسرائیل کا حملہ ہو۔ اسی کیفیت کو حدیث میں وہن سے تعبیر کیا گیا۔
دوسرا چیلنج: مسلم ممالک کی عسکری و سیاسی کمزوری
مسلمان ممالک پہلے عسکری طور پر کمزور ہو کر منافقت کا شکار ہوئے اور اب پوری طرح اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے سرنگوں ہو چکے ہیں۔ وہ اتحاد سے بھی محروم ہیں اس لیے کہ ان کے سامنے کوئی ایسا مقصد نہیں ہے جو ان کو آپس میں متحد رکھتا ہو۔ اگر یہ اپنے حقیقی دشمن کو مشترکہ دشمن سمجھتے تو ان میں اتحاد پیدا ہوتا اور وہ سب مل کر اس کے خلاف محاذ بناتے۔ دکھاوے کے لیے یہ ممالک صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں لیکن عملی میدان میں کوئی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں۔ اسلام میں قوت کے دو سرچشمے ہیں: ایک ہے مسلم ملکوں کی عسکری طاقت اور دوسرا ہے اسلام کی فکری طاقت، جس سے باطل نظریات کا ابطال کیا جاتا ہے۔ عسکری طاقت کے پیچھے اسلام کے تصورِ جہاد کا پایا جانا ضروری ہے۔ اسلام کا تصورِ جہاد یہ ہے کہ ہر طرح کے ظلم کا مقابلہ کیا جائے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ قرآن میں حکم ہے کہ مسلمان اتنے طاقتور ہوں کہ دشمن کو ان کے اوپر ہاتھ ڈالنے کی ہمت ہی نہ ہو (سورۃ الانفال: 60) مسلم ممالک اسلام کی قوت کے ان دونوں ہی سرچشموں سے محروم ہیں۔ انہوں نے ایمان کا سودا کر لیا اور اسلام دشمن طاقتوں ہی کی پناہ میں عافیت سمجھنے لگے۔ یہ امریکہ سے قیمتی داموں پر فرسودہ اسلحہ خریدتے ہیں جبکہ ان کو خود پتہ نہیں ہے کہ کس کے خلاف یہ اسلحہ استعمال ہونا ہے۔ انہوں نے امریکہ کے کہنے پر ابراہیمی معاہدہ (Abraham Accord) کی حامی بھری تھی۔ اگر 7 اکتوبر سے اس جنگ کا آغاز نہ ہوتا تو اب تک یہ معاہدہ عمل میں آ چکا ہوتا۔ اس معاہدہ کے تحت اسرائیل کی بالادستی کو تسلیم کرنا اور اس سے تجارتی تعلقات استوار کرنا تھا۔
حل: مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ عسکری، سائنسی اور تعلیمی میدان میں خود کفیل بنیں جس طرح ایران نے بننے کی کوشش کی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) جیسے پلیٹ فارموں کو مؤثر اور فعال بنایا جائے۔ مسلم ممالک کے درمیان دفاعی معاہدات کیے جائیں تاکہ دشمنوں سے مقابلے میں ایک امت کے طور پر ان میں فوجی اتحاد ہو۔ مسلمانوں کو اپنی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانے، ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے اور خود انحصاری کی راہ اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔
تیسرا چیلنج: مسلمانوں کا قرآن سے دوری اختیار کرنا اور شرک و بدعات میں مبتلا ہو جانا
برِ صغیر میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ دین کے نام پر شرک، بدعات اور خرافات میں بری طرح مبتلا ہے۔ غیر اللہ سے استعانت، قبروں پر سجدے، جھوٹے پیروں کے تقدس اور غیر شرعی رسوم و رواج نے اسلام کی اصل روح کو ختم کر دیا ہے۔ جس گناہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ناقابلِ معافی بتلایا ہے وہ امتِ مسلمہ میں پوری طرح سرایت کر گیا ہے۔ جس امت کو اللہ تعالیٰ نے توحید کا علم بردار بنایا تھا، وہی امت شرک کا عملی نمونہ غیر مسلم ہموطنوں کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ دوسری قوموں کے پاس ہدایت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے لیکن امتِ مسلمہ کے پاس تو اللہ کا آخری کلام، خالص حالت میں قرآن کی صورت میں موجود ہے۔ حاملِ قرآن ہو کر شرک کا ارتکاب کرنا اس جرمِ عظیم کی شناعت کو بہت بڑھا دیتا ہے۔
حل: اصلاحِ عقیدہ کی مہم چلائی جائے۔ علما اور دینی اداروں کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کریں۔ خطباتِ جمعہ میں عوام الناس میں قرآن کی آیات کے ذریعے شرک کی مختلف صورتوں کو پیش کیا جائے۔ شرک، اللہ کی ذات، صفات، حقوق اور اس کے اختیارات میں کیا جاتا ہے۔ عوام الناس کو بتلایا جائے کہ جس طرح عبادت میں شرک سے بچنا اہم ہے، اسی طرح سے استعانت میں بھی شرک سے بچنا بہت اہم ہے، اس لیے کہ شرک اللہ کے نزدیک سنگین جرم ہے۔ بدعات اور شرکیہ نظریات کی علمی بنیادوں پر تردید کی جائے اور عوام کے اندر فہمِ قرآن پیدا کیا جائے۔
چوتھا چیلنج: دینی تعلیم سے محرومی اور دین سے روایتی تعلق
کثیر تعداد میں ایسے مسلمان موجود ہیں جو دینِ اسلام سے صرف نام کا تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں نہ قرآن کی سمجھ ہے اور نہ سنت کا علم ہے۔ وہ دنیا حاصل کرنے میں اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ آخرت کی تیاری کا تصور تک غائب ہو گیا ہے۔ روایتی ایمان جو وراثت میں ملتا ہے بہت کمزور ہوتا ہے جو بڑی آسانی سے تشکیک و ریب کا شکار ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگ ایک چھوٹا سے فتنے یا آزمائش کے موقع پر بآسانی ایمان کا سودا کر سکتے ہیں۔ لالچ اور خوف ان کے قدموں کو ڈگمگا سکتے ہیں۔ حقیقی ایمان تو صرف قرآن کو سمجھ کر پڑھنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ (سورۃ الانفال:2) اس لیے کہ قرآن میں ایمانیات کو دلوں میں راسخ کرنے کے لیے پرزور دلائل دیے گئے ہیں۔ روایتی ایمان کو شعوری ایمان میں بدلنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ قرآن کو ترجمہ وتفسیر کی مدد سے پڑھیں اس میں تدبّر کریں۔
حل: مدرسوں و اسکولوں میں آن لائن اور مساجد میں قرآن فہمی کے کورسس چلا کر قرآن فہمی کو فروغ دیا جائے۔قرآن فہمی کے ذریعے اسلامی عقائد کو نو خیز ذہنوں میں راسخ کیا جائے۔ نوجوانوں کو دینِ اسلام کا علم سکھانے کے لیے جدید اسلوب اختیار کیا جائے تاکہ وہ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ جم جائیں مزید یہ کہ ان کے سامنے دینِ اسلام کو ایک مکمل نظام حیات اور ایک منفرد تہذیب کے طور پر پیش کیا جائے۔
پانچواں چیلنج: ارتداد کی وبا
آج کل سوشل میڈیا پر کچھ ملحدین اور مرتدین قرآنی آیات اور احادیث کو سیاق وسباق سے جدا کر کے پیش کر رہے ہیں تاکہ نوجوان نسل اسلام سے بدگمان ہو جائے۔ دینِ اسلام کی اصل طاقت یہ ہے کہ یہ پوری طرح سے معقولیت پر مبنی ہے۔ اس کے عقائد، عبادات، احکام اور اخلاقی تعلیمات کو منطقی اور سائنسی دلائل سے مبنی بر حق ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اسلام سے متعلق ہر سوال کا معقول جواب دیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان جوابات کے بر وقت نہ ملنے سے کم علم نوجوان یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اسلام بھی دیگر مذاہب کی طرح اندھی تقلید پر مبنی مذہب ہے۔ مرتدین جو اپنے آپ کو سابقہ مسلمان (Ex-Muslims) کہتے ہیں وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں اور اسلامی احکامات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ چند آیات کو یاد کر کے وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس سے پہلے وہ اسلام پر عمل پیرا تھے اور اب مرتد ہونے پر فخر جتاتے ہیں۔
حل: اسلام کی صحیح اور مکمل تعلیمات کو جدید اسلوب میں پیش کیا جائے۔ نوجوان نسل کے شبہات کا مدلل اور سائنسی انداز میں جواب دیا جائے۔ اسلام کی فطری، عقلی اور ہمہ جہت خوبیوں کو اجاگر کیا جائے۔ ایسے افراد کے لیے اصلاحی حلقے قائم کیے جائیں جہاں ان کے سوالات کو احترام کے ساتھ سنا جائے اور علمی انداز میں جواب دیا جائے۔
امتِ مسلمہ اس وقت فکری، عسکری، معاشی اور اخلاقی پستی کا شکار ہے۔ وہ دشمن طاقتوں کی غلامی میں جکڑی ہوئی ہے۔ سیاسی قیادتیں مغرب کی کاسہ لیس بن چکی ہیں اور عوام دینی و اخلاقی زوال کا شکار ہیں۔ ان چیلنجز کا حل یہ ہے کہ مسلمان اپنی اصل کی طرف لوٹیں۔
• جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں، وہاں وہ علم سے لیس ہو کر اپنے عمل، اخلاق اور تقویٰ سے اسلام کی سچی نمائندگی کریں اور دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیں۔
• جہاں مسلمان اکثریت میں ہوں، وہاں اسلامی نظامِ حیات کو نافذ کریں، عدل و انصاف قائم کریں اور ایک صالح اسلامی معاشرہ تعمیر کریں۔
• مسلم ممالک کے حکم راں عوام دوست رویہ اختیار کریں اور شورائیت کے نظام کو اختیار کریں۔ اپنے دفاع کو مضبوط کریں اور مسلم ملکوں کے درمیاں فوجی معاہدات کرکے ایک مضبوط بلاک بنائیں تاکہ دشمنوں کی جارحیت کا متحدہ طاقت سے مقابلہ کیا جا سکے۔
• علماء، دانشور، اساتذہ، میڈیا اور نوجوان مل کر امت کے بیداری کا بیڑا اٹھائیں۔
• امت کے درمیان اتحاد، اخوت اور محبت پیدا کی جائے۔ مسلکی، نسلی اور جغرافیائی تعصبات کو ختم کر کے "اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ” کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
***
امتِ مسلمہ اس وقت فکری، عسکری، معاشی اور اخلاقی پستی کا شکار ہے۔ وہ دشمن طاقتوں کی غلامی میں جکڑی ہوئی ہے۔ سیاسی قیادتیں مغرب کی کاسہ لیس بن چکی ہیں اور عوام دینی و اخلاقی زوال کا شکار ہیں۔ ان چیلنجز کا حل یہ ہے کہ مسلمان اپنی اصل کی طرف لوٹیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025