موجودہ حکومت میں اقلیتوں پر بڑھتے حملے قابل تشویش

بی جے پی کی پالیسیوں کی وجہ سے اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ: ہیومن رائٹس واچ

زعیم الدین احمد حیدرآباد

فسادات کے دوران مندروں کی حفاظت میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کارکنوں کی قربانیاں لائق ستائش
سابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اپنی کتاب فریڈم: میموئرز 1951-2021 میں، اس بات انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہونے والے مسئلہ کو اٹھایا ہے۔ جب سے انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے ہندوؤں کی جانب سے دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر حملوں میں اضافہ کا تذکرہ کیا ہے، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا ہے۔ انجیلا مرکل کے مطابق جب بھی انہوں نے مودی سے اس موضوع پر گفتگو کی تو مودی نے اس کی صاف الفاظ میں تردید کر دی اور کہتے رہے کہ ہندوستان ہمیشہ سے مذہبی رواداری کا ملک تھا اور آج بھی ہے۔ لیکن انجیلا مرکل مودی کے اس انکار سے سخت اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بدقسمتی سے حقائق مودی کے دعوے کی تردید کرتے ہیں اور سچائی کچھ اور ہی کہتی ہے۔‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’پریشانیاں و مسائل اب بھی جوں کی توں برقرار ہیں۔ بہر حال مذہبی آزادی کسی بھی جمہوریت کا ایک اہم جزو ہوتا ہے۔‘‘
انجیلا مرکل کی وزیر اعظم مودی سے اپنی پہلی ملاقات جرمنی میں 2015 میں ہوئی تھی، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ مودی کو دکھاوا بہت پسند ہے، اپنے آپ کو پروجیکٹ کرنا انہیں بہت پسند ہے، اس ملاقات میں مودی نے اپنی "انتخابی مہمات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک اسٹوڈیو میں اپنی تقریر ریکارڈ کرواکر اس کا ہولوگرام بنوایا اور اس ہولوگرام کو پچاس سے زیادہ مختلف مقامات پر پیش کیا گیا جس کو ہزاروں لوگوں نے دیکھا۔” ہمیں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ مودی نے 2014 کے عام انتخابات میں انتخابی مہم کے دوران ہولوگرام کا استعمال کیا تھا۔
عجیب اتفاق ہے کہ انجیلا میرکل کی یادداشتوں والی کتاب ہی کی طرح ایک اور کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ ہندوستان میں مقیم جرمن کے سابق سفیر والٹر لِنڈنر نے بھی اپنی کتاب میں ملک میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے بارے میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ جس وقت وہ دہلی میں بطور سفیر مقرر تھے، ان کے قیام کے دوران ہونے والے واقعات کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اپنی کتاب ہندوستان سے یورپ کو کیا سیکھنا چاہیے میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے تعلقات روس سے اور بھی گہرے ہوئے ہیں جب کہ وہ یوکرین پر حملے کر رہا تھا۔ مسٹر لنڈنر نے 1970 کی دہائی میں ایک بیک پیکر اور موسیقار کے طور پر پہلی بار ہندوستان کا دورہ کیا تھا، انہوں نے اپنی کتاب میں اس وقت کی ہندوستان کی روحانی کیفیت اور اپنے حالیہ سفارتی دور کے بارے میں لکھا ہے۔ ہندوستان اور بین الاقوامی سطح پر اس کی پوزیشن سے متعلق لِنڈنر مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے اقلیتوں کے حقوق اور دیگر جمہوری آزادیوں پر ہندوستان کی شبیہ پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ جرمن میڈیا میں یہ بات بھی گشت کر رہی ہے کہ کہیں ہندوستان ’ہندو آمریت کی طرف‘ تو نہیں بڑھ رہا ہے؟ وہ اپنا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ مودی سرکار اور ان کا سپورٹ کرنے والے گروہوں پر کوئی روک نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں پر تشدد، ’لو جہاد‘ جیسی کارروائیاں کرتے ہیں اور ’گاؤ رکھشا‘، کے نام پر مسلمانوں کو مسلسل نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مودی کی پالیسیاں ہندو ثقافت کو پروان چڑھانے والی ہیں، چنانچہ جس کے نتیجے میں مودی کو ’ایک پاپ اسٹار، ایک نجات دہندہ‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
2019 میں ناگپور میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کرنے والے چند سفارت کاروں میں مسٹر لنڈنر بھی موجود تھے۔ بھاگوت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تنظیم دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ’مذاہب کے درمیان رواداری اور ہم آہنگی‘ کو پروان چڑھانے کوشش کرتی ہے۔ لیکن مجھے ان کے دعوے مشکوک نظر آتے ہیں، کیوں کہ اس تنظیم میں انتہا پسند و بنیاد پرست ہندوؤں کی آواز زیادہ گونجتی ہے، جو آر ایس ایس کو بنیاد پرست اقدامات پر چلاتے ہیں۔ بلاشبہ، جمہوریت میں خیالات کا تنوع ہوتا ہے، جمہوریت میں اس تنوع کی اجازت بھی ہونی چاہیے، لیکن اگر جمہوریت کو ان آوازوں سے اندر ہی اندر نقصان پہنچ رہا ہو تو پھر اسے چوکس ہو جانا چاہیے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ورلڈ رپورٹ 2024 میں کہا ہے کہ، ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت ہیومن رائٹس کارکنوں اور حکومت کے ناقدین، صحافیوں، اپوزیشن پارٹیوں کے سیاست دانوں اور دیگر کو گرفتار کر رہی ہے، ان پر مختلف قسم کے مقدمات عائد کر رہی ہے یہاں تک کہ دہشت گردی جیسے سنگین الزامات عائد کر رہی ہے، جو کہ سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا کی ڈپٹی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا ’’بی جے پی حکومت کی امتیازی اور تفرقہ انگیز پالیسیوں کی وجہ سے اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے، جس سے ملک میں خوف کا ماحول پیدا ہوا ہے اور حکومت پر تنقید کرنے والوں پر سخت کارروائیاں کر رہی ہے‘‘ میناکشی گنگولی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت تشدد کے ذمہ دار افراد کا احتساب کرنے اور انہیں کٹہرے میں کھڑا کرنے کے بجائے، مظلوموں اور تشدد کے متاثرین کو ہی سزا دینے پر اتر آئی ہے، حد تو یہ ہے کہ ان ظالمانہ کارروائیوں پر سوال اٹھانے والے ہر شخص کو ستایا جا رہا ہے۔‘‘ حکام ان کی جائیدادوں پر چھاپے مارتے ہیں، مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگاتے ہیں، اور غیر سرکاری تنظیموں کی غیر ملکی فنڈنگ کو کنٹرول کرنے والے فارن کنٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ کے استعمال کے ذریعے صحافیوں، کارکنوں اور ناقدین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
فروری میں ہندوستانی ٹیکس حکام نے نئی دلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے مارے اور دو حصوں پر مشتمل ایک دستاویزی فلم کو ضبط کرلیا، اس فلم میں مودی حکومت کی مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کو اجاگر کیا گیا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی قوانین کے تحت ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے جنوری میں بی بی سی کی دستاویزی فلم کو بھارت میں بلاک کر دیا گیا۔
31 جولائی کو ریاست ہریانہ کے ضلع نوح میں ہندوؤں کے ایک جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا اور تیزی سے کئی ملحقہ اضلاع میں پھیل گیا۔ تشدد کے بعد جوابی کارروائی کرتے ہوئے حکام نے مسلمانوں کی سیکڑوں جائیدادوں کو غیر قانونی طور پر مسمار کر دیا اور متعدد مسلم نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔ نہ ہائی کورٹ نے بی جے پی کی زیر قیادت ریاستی حکومت سے سوال کیا اور نہ ہی مرکزی حکومت نے پوچھا کہ وہ کس بنیاد پر یہ کارروائیاں کر رہی ہے۔ یہ ایک طرح کی نسلی صفائی نہیں تو اور کیا ہے؟
دوسرا پہلو: شیخ حسینہ کی حکومت کو بنگلہ دیشی عوام نے جب سے بے دخل کیا ہے، تب سے ہی بھارتی میڈیا اور بھگوا تنظیموں نے ایک واویلا مچا کر رکھا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہندؤوں کی جانوں کو خطرہ ہے، مندروں کو مسمار کیا جا رہا ہے، ہندوؤں کا قتل کیا جا رہا ہے۔ میڈیا اور بھگوائیوں نے بڑے پیمانے پر اس پروپیگنڈے کو پھیلایا۔ جبکہ بنگلہ دیش میں ہندو مسلم کا مسئلہ سرے سے ہے ہی نہیں، وہاں مسئلہ حسینہ واجد کی غیر جمہوری حکومت اور اس کی غلط پالیسیوں کا تھا، جو تبدیلی کی لہر بنگلہ دیش میں شروع ہوئی وہ حسینہ واجد کے خلاف تھی اور جو کوئی اس کا ساتھ دینے والے تھے ان کو بھی اس تپش کو سہنا پڑا۔ حسینہ واجد کا ساتھ دینے والوں میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی، عوام کا جو غصہ تھا وہ حسینہ واجد کے خلاف تھا، نہ کہ وہاں کے ہندوؤں کے خلاف؟ رپورٹس تو یہ آ رہی ہیں کہ جو کوئی ہندو مندروں کو اور وہاں بسنے والے ہندؤوں کو اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے، ان شر پسند عناصر سے خود مسلمانوں نے اور خاص طور پر وہاں کی مسلم تنظیموں نے ان کی حفاظت کی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کارکنوں نے رات رات بھر جاگ کر ان کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی۔ اس کے بر خلاف ہمارے ملک کے گودی میڈیا کا رویہ دیکھیں کہ یہاں پر جھوٹی خبروں کو پھیلایا جا رہا ہے جبکہ اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے گووندا پرمانک جنرل سکریٹری بنگلہ دیش ہندو مہاجن نے خود کہا کہ کسی بھی ہندو مندر کو مسمار نہیں کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ الٹا بنگلہ دیش عوامی لیگ کے مسلم اور ہندو رہنماؤں نے احتجاجیوں پر حملے کیے ہیں۔
اب کہا جا رہا ہے کہ اگر بنگلہ دیش میں ہندؤوں پر حملے ہوں گے تو اس کے بدلے میں یہاں مسلمانوں پر حملے ہوں گے۔ ہیومین رائٹس واچ مسلسل تین سال سے مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کی رپورٹنگ کر رہی ہے۔ چند بھگوا صحافی کہہ رہے ہیں کہ کچھ فرنج الیمنٹس ہیں اور ایک دو واقعات ہوئے ہیں، میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک دو واقعات نہیں ہیں بلکہ اس ملک کی مذہبی اقلیتوں پر ظلم اب روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی خبر مسلمانوں کی املاک کو گرانے، ان کو جلانے یا پھر موب لنچگ کی آتی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور انہیں اکا دکا واقعات نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہ واقعات منصوبہ بند طریقے سے انجام دیے جا رہے ہیں۔ اگر یہی صورت حال رہی تو ملک کا امن و امان پارہ پارہ ہو جائے گا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ہمارے ملک کی حیثیت اور اس کا وزن گھٹ جائے گا۔ وقت کے رہتے ان شر پسند عناصر سے نمٹنا ہوگا ورنہ اس کے مضر اثرات سے ملک کو شدید نقصان ہوگا۔

 

***

 بنگلہ دیش میں جو کوئی ہندو مندروں کو ، وہاں بسنے والے ہندؤوں کو اوران کی املاک کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے، ان شر پسند عناصر سے خود مسلمانوں نے انہیں بچایا ۔اور خاص طور پروہاں کی مسلم تنظیموں نے ان کی حفاظت کی، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کارکنوں نے رات رات بھر جاگ کر ان کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی۔ اس کے بر خلاف ہمارے ملک کی گودی میڈیا کا رویہ دیکھیں کہ یہاں پر جھوٹی خبروں کو پھیلایا جارہاہے،جبکہ اس حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے گووندا پرمانک جنرل سیکریٹری بنگلہ دیش ہندو مہاجن نے خود کہا کہ کسی بھی ہندو مندر کو مسمار نہیں کیا گیا ہے، بلکہ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش عوامی لیگ کے مسلم اور ہندو رہنماؤں نے احتجاجیوں پر حملے کیے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 دسمبر تا 21 دسمبر 2024