موجودہ حالات میں منصوبہ بند عصری تقاضوں کی ضرورت
ملک میں بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیائی لہر کا سامنا کرنے کے لیے چند اقدامات لازماً کیے جائیں
سالم فاروق ندوی ،علی گڑھ
ملک کی موجودہ صورتحال سے اس وقت کون نا واقف ہے؟ ہر روز نت نئے فتنے اپنے سر ابھارنے میں کس قدر عجلت سے کام لے رہے ہیں، غنیم کی ہر چال اس وقت کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے اور اس کا ہر داؤ کار گر اور ہر تیر ہدف کو چھوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، بابری مسجد پر رام مندر کی تعمیر مکمل ہونے جا رہی ہے۔ گیان واپی مسجد کا کیس اس وقت عدالت میں زیر سماعت ہے، ملک کی ہزاروں مسجدوں پر ہندتو کی ناپاک نظریں لگی ہوئی ہیں۔ مسجدوں سے گزر کر اب یہ ناپاک نظریں مدرسوں، خانقاہوں اور درگاہوں تک پہنچ گئیں ہیں۔ ملک بھر کے آثار قدیمہ جو یہاں کی شان بان سمجھے جاتے ہیں ان کو باوجود تاریخی حقائق و شواہد کے مندروں اور دیوی دیوتاؤں کے پوجا استھانوں کی طرف منسوب کیا جارہا ہے۔ ان سب میں حیران کن بات یہ ہے کہ ایک طرف ہر طرح کے مضبوط ثبوت کے ہوتے ہوئے بھی حقیقت کا انکار تو دوسری طرف چند فرضی عرضیاں اور پیٹیشن دائر ہونے پر کارروائی شروع کردی جاتی ہے۔ مسلم معاشرے کو ہر طرح سے کمزور و ہراساں اور ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ نسل نو اور وہ طبقہ جو تعلیم و خواندگی سے نا بلد ہے اس کی ذہن سازی کے لیے کچھ تاریخ سے نا آشنا یوٹیوبر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر تاریخی حقائق کا انکار کرکے جھوٹی اور من گھڑت باتیں، جن کا تاریخ سے دور دور تلک کوئی واسطہ نہیں ہے، بیان کر رہے ہیں اور ناخواندہ طبقہ کی بری طریقے سے ذہن سازی میں لگے ہوئے ہیں۔ چند سالوں کے بعد یہی ویڈیوز بطور دلائل عدالت میں پیش کی جائیں گی جن کی بنیاد پر یکے بعد دیگرے فیصلے کئے جائیں گے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اور یہ وقت نہایت ہی غور طلب ہے۔ ایسے وقت میں ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ حالات کی نبض کو پرکھ کر صحیح تشخیص کریں اور جو علاج بھی میسر ہو اسے اپنے لیے کار آمد سمجھیں۔ مسلم منافرت کی آڑ میں کوئی ظلم و جور ایسا نہیں ہے جو مسلمانوں پر نہ کیا جارہا ہو، خواہ وہ حجاب، طلاق ثلاثہ، این آر سی، سی اے اے، مسئلہ کشمیر، قضیہ فلسطین سے متعلق ہو یا پھر مسلم جماعتوں و مسلم علاقوں میں وہاں کے مسلم باشندوں کو پریشان کرنا ہو۔حتٰی کہ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم نو جوانوں تک پر لاٹھیاں چلا کر بلا ثبوت ایف آئی آر درج کرکے اپنے اقتدار کا نشہ دکھایا جا رہا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروٹیسٹ پر یکطرفہ کارروائی کی گئی ہے جبکہ وہ لوگ حقوق انسانی کی حفاظت اور مظلوم فلسطیینیوں کے لیے پر امن یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اپنی اس اظہار رائے کے لیے میدان میں اترے تھے جس کی انہیں یہاں کے آئین نے اجازت دی ہے، لیکن:
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
اب اگر کوئی چلائے تو چلائے، ہمیں فرق پڑنے والا نہیں، ہمیں جو کرنا ہے وہ کریں گے۔ ناگفتہ بہ حالات حدود سے اس قدر تجاوز کرچکے ہیں کہ اذان سے بڑھ کر نماز تک پر پابندیاں عائد کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات ہی نہیں بلکہ تیاری عمل میں آچکی ہے۔ نفرت کا سیلاب بلا خیز اس حد تک سر چڑھ گیا کہ اب اسکول ٹیچر ہوں یا ٹرین کے محافظ ہر شخص اس میں ڈوب رہا ہے۔ مذہبی منافرت پھیلانے اور مسلم اقلیتوں کے خلاف تشدد پر اکسانے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسلام مخالف ذہنیت اس قدر زور پکڑتی جا رہی ہے کہ میڈیا سنٹرز سے لے کر عام مزدور بھی فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی جابرانہ و ظالمانہ حملوں کی برملا حمایت کر رہا ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ پوری دنیا، خصوصاً ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے منسوب کیا جا رہا ہے جبکہ اسلام کا دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلام تو محبت، اعتدال اور رواداری کا دین ہے۔
ہندوستان میں مسلم منافرت کا جو سیلاب اس وقت بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ چند سالوں میں کسی نہ کسی بھاری بھرکم شئے کو اپنی ہمراہ بہا لے جائے گا خواہ وہ اقتصادیات سے تعلق رکھتی ہو یا معاشرت سے کیونکہ اس منافرت کے پس پردہ کوئی بڑا معمہ کار فرما ہے جو جلد ہی اپنا سر ابھارے گا اور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ فرقہ واریت ایک ایسا اژدہا ہے جو ہر کسی کو نگلنا چاہتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ کوئی بھی نظریہ، سیاست اور حکومت جو ملک کے تمام شہریوں کو برابری کی سطح سے نہ دیکھتی ہو وہ کسی بھی حال میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ منافرت اور تفریق پر مبنی نظام کسی ایک برادری کو نہیں اجتماعی طور پر پورے ملک کو نقصان پہنچاتا ہے۔کلّیہ یہی ہے کہ نفرت سے نفرت ہی جنم لیتی ہے۔ اس لیے یہ وقت حکمت عملی کے ساتھ کام کرنے کا ہے۔ کوئی بھی اقدام نہایت دور اندیشی و حکمت عملی سے اٹھایا جائے، کوئی بھی فیصلہ دور رس نتائج کو سامنے رکھ کر کیا جائے اور اسی کے ساتھ اپنی ذمہ داری سمجھ کر سرگرم عمل رہا جائے ۔
ان حالات میں سب سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ہماری سبھی ملی تنظیموں کا ایک متحدہ وفاق ہو۔ پروپیگنڈا چینلوں کا مدلل جواب دینے کے لیے انگریزی اور ہندی زبانوں کے علاوہ علاقائی زبانوں میں بھی نیوز چینلز ہوں۔ مساجد کے کردار کو مثالی بنائیں۔ دعوت دین اور امت کی ذہنی و فکری آبیاری کا کام لیں۔ مساجد کو کمیونیٹی سنٹر بنائیں۔ یتیم، مسکین و بے سہارا اور بیواؤں کے لیے راحت سنٹرز، اجتماعی زکوٰۃ و صدقات کا نظام وغیرہ قائم کیا جائے، حتی کہ نکاح کی تقاریب بھی مساجد میں منعقد کرائیں تاکہ شادی کے موقع پر ہونے والی خرافات سے محفوظ رہ سکیں۔ یہی مسجد نبوی کی خصوصیت تھی، لہذا اپنی مساجد کو نبوی طرز پر ڈھالیں۔
اسی طرح اپنی تاریخ کی حفاظت کے لیے قلمی دستاویز تاریخ کی شکل میں تیار کی جائیں، تاکہ کل وہ مسخ شدہ تاریخ جو آج رقم کی جارہی ہے پیش کی جائے گی، تو اس وقت کف افسوس ملنے کے بجائے ہماری نسلوں کے پاس ایک مرتبہ شدہ تاریخ موجود ہو۔ نسل نو کو بھارتی آثار قدیمہ کا صحیح تعارف اور اس کی تاریخ بتائی جائے، حقوق کے حصول میں کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ اسی طرح آئین نے جو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے اور حقوق کا مطالبہ کرنے کے اختیارات دیے ہیں آئین کی حد میں رہ کر ان کا استعمال کیا جائے۔ احساس کمتری، خاموشی، بد زبانی، مخاصمت، تصادم، دل ہی دل میں کڑھنا، دوسرے کو کم عقل سمجھنا ہمارے مسائل کا حل نہیں۔جہاں ایک دانشور نے بات ختم کی ہے ہمیں اس سے آگے کی بات کرنے کا فن سیکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر ریاست میں ایک ’تھنک ٹینک‘ کی تشکیل دی جائے تاکہ وہ عوام اور قائد کے درمیان رابطہ رکھے اور دانشمدانہ مشوروں و منصوبوں پر عمل کرے۔ یہ تھنک ٹینک اور قائد ملک کی اہم سیکولر شخصیات اور سیاسی و سماجی تنظیموں کے ساتھ مضبوط رابطہ بنائیں رکھیں۔ یہ بات کلی طور پر عیاں ہے کہ ہندوستان میں ہم سیکولر طاقتوں کے ساتھ مل کر ہی اپنی حکمت عملی کے ساتھ متعصب، فرقہ پرستوں اور فسطائی قوتوں کے مسلم مخالف منصوبوں اور سازشوں کے تیز دھار کو کند کرسکتے ہیں ۔
بھارت کی قدیم تاریخ کا گہرائی و گیرائی کے ساتھ مطالعہ کریں تاکہ جو تحریف اس وقت تاریخ میں کی جا رہی ہے اس کا صحیح ادراک کیا جا سکے۔ اپنا سیاسی نیٹ ورک مضبوط بنائیں، گرام پنچایتی سطح سے لے کر اسمبلی و پارلیمانی سطح تک افراد تیار کریں اور ان کو اعلی عہدوں پر فائز کریں۔ عصری تعلیم سے آراستہ وپیراستہ ہو کر اپنے وجود کو ملک کے لیے مفید ثابت کریں کہ ہم میں کچھ ماہر انجینئر، ڈاکٹر، سائنسدان اور ماہرین علوم وفنون ایسے ہوں جو پورے ملک اور ملت کی بلا تفریق خدمت کرسکیں، لیکن اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ یہ افراد ساتھ میں دینی ذہن کے حامل ہوں۔ اپنا کوئی بھی منصوبہ موجودہ سیاسی منظر نامہ کو سامنے رکھ کر تیار کیا جائے۔اس وقت کی رسا کشی اصلاً ہندو مسلم فریقین کے طور پر نہیں اور مسجد مندر کے جھگڑے کے طور پر بھی نہیں، اصل اختلاف سیاست کا ہے اور اسی کی روٹیاں سینکنے کے لیے برسر اقتدار جماعتیں منافرت کا ماحول گرم کرتی ہیں۔ اسلام اور کفر کی راست کشمکش ہو رہی یہ اسلام کو مطلوب ہے۔ ہمیں اپنے اندر فکری تبدیلی لانی ہوگی۔ اختلاف رائے کے ساتھ صحت مند ضابطوں کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔ ملک کے جو حالات ہیں وہ نئے نہیں، قوم اس سے بُرے حالات میں ثابت کر چکی ہے کہ وہ وقت سے نمٹنے کا ہنر جانتی ہے۔ امید ہے کہ جذباتیت کے بجائے مثبت اور فکری رُخ اپنانے سے نتائج قوم و ملّت کے حق میں بہتر طور پر ظاہر ہوں گے۔ اس لیے برادران وطن میں اسلام کی دعوت کا ہدف پورا کریں۔ اپنا سیاسی نیٹ ورک مضبوط کریں، نوجوانوں کو ذہنی، فکری و جسمانی طور پر تیار کریں اور ملک و ملت کی خدمت کا جذبہ ان میں پیدا کریں۔ ہمدردی، ایثار اور محبت کو فروغ دیں، ریلیف کے کاموں کو عام کریں، دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری کو ادا کرنا اپنا فرض سمجھیں، اگر ہم اپنا فرض منصبی ادا کرنا شروع کر دیں تو یہ نفرت وبغاوت کے تیور محبت ومودت میں بدل سکتے ہی۔ اپنے عمل کے ذریعہ اسلام کا سچا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ برادران وطن اور پڑوسیوں کے سامنے اسلامی اخلاق و کردار کی وہ تصویر پیش کریں جو مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے، جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے، تاکہ ان کے ذہن کو جس گندگی سے بھرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کا توڑ ہوسکے۔ برادران وطن کے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں اس وقت بھردی گئی ہیں ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ محبت، ہمدردی، امن و سلامتی کا پیغام عام کریں۔ نفرت کے اس تند و تیز سیلاب کو روکنے کے لیے زمینی سطح پر مضبوطی کے ساتھ کام کیا جائے۔ بچوں کی اعلی اور معیاری تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جائے تاکہ یہی بڑے ہوکر ملک کا مستقبل بن سکیں۔ بچیوں کی دینی و عصری تعلیم کا بندوبست معیاری طریقہ پر کیا جائے تاکہ ارتدادنسواں سے بچیوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ اسلامی تعلیمات پر دل جمعی و فخر کے ساتھ کھڑے ہوں اور زندگی کے ہر شعبہ کو اسلامی اصولوں پر گزاریں۔ اپنے آپسی اختلافات کو محبت میں بدلیں، مسلکی جھگڑے، فرقہ واریت سے گریز اور گروہ بندی و جماعت بندی سے احتراز کیا جائے۔ اللہ کے دین پر، اس کے نظام پر، اس کی شریعت پر، اس کے احکام پر عمل کی پابندی کی جائے، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات ماننا، مضبوطی کے ساتھ اللہ کے دین پر عمل کرتے رہنا، قرآن و حدیث کے دامن کو ہر حال میں تھامے رہنا، آپس میں جھگڑا نہ کرنا، نزاع، تفرقہ، اور بغض و حسد، کینہ و کپٹ سے دور رہنا، یہ سب قرآن کریم کی تعلیمات ہیں جن پر عمل پیرا ہونا ہماری ذمہ داری ہے۔ رائے کے اختلاف میں کوئی حرج نہیں، غور وفکر کے نتائج میں فرق ہو، کوئی حرج نہیں، لیکن ایک دوسرے کی عزت برقرار رکھی جائے، ایک دوسرے سے محبت کی جائے، ہر بڑے کا ادب کیاجائے، ہر چھوٹے پر شفقت کی جائے، سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے رہا جائے، مسلک اور فکر کے اختلاف کو جھگڑوں اور مخاصمتوں کا سبب نہ بنایا جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم خود کو قرآن کا حامل بتاتے ہیں لیکن قرآن کی اسٹریٹجی کو بھولے ہوئے ہیں۔ قرآن کریم تو اہل کتاب کو بھی ساتھ لے کر چلنے اور جن باتوں میں ہم آہنگی پائی جائے ان کو بنیاد بنا کر ڈسکشن کی دعوت دیتا ہے، لیکن حیرت ہے کہ ہم اپنی مسلکی اختلاف کو ایمانی اختلاف سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جزوی اختلاف کو بنیادی اختلاف سے بھی اوپر سمجھتے ہیں، جس کے نتیجہ میں عصبیت، گروہ بندی اور فرقہ واریت جنم لیتی ہے۔ چنانچہ اس سے احتراز کریں۔ ایک نبی کے پیروکار ہیں، امتی بن کر رہیں۔ اتحاد کی طاقت ہی وہ طاقت ہے جو تما م تر ہتھیاروں اور طاقتوں کو کمزور بنا سکتی ہیں، حسن تدبیر ایسا مضبوط ہتھیار ہے جو تیر وتفنگ کو مات دے سکتا ہے۔ آج جو ہمیں بگڑتے حالات دکھائی دے رہے ہیں یہ ظالموں کی ناکارہ چالیں ہیں جو جلد ہی ٹوٹ کر بکھر جائیں گی کفر کی سرشت میں اللہ تعالیٰ نے تفریق و رسوائی رکھی ہے جو ایک نہ ایک دن ظاہر ہوکر رہتی ہے۔اسلام آخر اسلام ہے جس کی فطرت میں عزت و سر بلندی اور اتحاد کو پنہاں کیا گیا ہے۔ خدائے واحد کا لفظِ کُن ہی ظالموں کے تمام تر مکر و فریب کو پانی و فانی بنا دینے کے لیے کافی ہے۔ بس ہمیں چاہیے کہ ہم احتساب رکھیں اور اور اپنی ذمہ داریاں اسلامی اقدار کی پاسداری کے ساتھ ادا کرتے رہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم شیطانی چالوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
***
***
ان حالات میں سب سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ہماری سبھی ملی تنظیموں کا ایک متحدہ وفاق ہو۔ پروپیگنڈا چینلوں کا مدلل جواب دینے کے لیے انگریزی اور ہندی زبانوں کے علاوہ علاقائی زبانوں میں بھی نیوز چینلز ہوں۔ مساجد کے کردار کو مثالی بنائیں۔ دعوت دین اور امت کی ذہنی و فکری آبیاری کا کام لیں۔ مساجد کو کمیونیٹی سنٹر بنائیں۔ یتیم، مسکین و بے سہارا اور بیواؤں کے لیے راحت سنٹرز، اجتماعی زکوٰۃ و صدقات کا نظام وغیرہ قائم کیا جائے، حتی کہ نکاح کی تقاریب بھی مساجد میں منعقد کرائیں تاکہ شادی کے موقع پر ہونے والی خرافات سے محفوظ رہ سکیں۔ یہی مسجد نبوی کی خصوصیت تھی، لہذا اپنی مساجد کو نبوی طرز پر ڈھالیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024