معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ کا طریق تربیت

انسانی تاریخ کے کامل ترین انقلاب کے پس پردہ بہترین انسانوں کی تیاری کار فرما

جاویدہ بیگم ورنگلی

دعوت واصلاح کے لیے فطری انداز، مخاطب کی ذہنی سطح کا لحاظ اور موقع ومحل کی رعایت ضروری
انسانوں کی تربیت کرنا ایک مشکل ترین کام ہے۔ پھر تربیت بھی ایسی کہ تربیت یافتہ افراد دوسروں کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی اتباع کرو گے کامیاب ہو گے‘‘۔ (مشکوۃ)
معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ نے اپنی تعلیم و تربیت سے انسان کی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔ یہ انقلاب انسان کی زندگی کے ایک پہلو میں نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں پیدا کیا، عقائد بدل گئے سوچنے کا انداز بدل گیا، پسند نا پسند کے معیارات بدل گئے۔ مشاغل و دلچسپیوں میں نیا رنگ پیدا ہوا۔ روح و ضمیر میں احساس جاگ اٹھا۔ آپ نے اپنی تربیت سے صحابہ کرام کی زندگیوں میں قوت عمل و کردار کی پختگی پیدا کی۔ آپ نے انسان کے شب و روز کے انداز کو بدل دیا اور عمل کا پیکر بنادیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا ہر روز سورج طلوع ہوتا ہے تو انسان کی انگلیوں کے ہر پورے پر صدقہ واجب ہوتا ہے۔ صدقہ ادا کرنے کا آسان طریقہ بھی آپ نے بتا دیا۔ دو انسانوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے۔ جب کوئی انسان کسی انسان کے سوار ہونے میں مدد دیتا ہے اس کے سامان کو لاد دیتا ہے یا اتار دیتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ کسی سے اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے۔ ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے۔ تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔ (متفق علیہ)
نبی کریم ﷺ نے مسلمان ہر عمل کو ثواب کا ذریعہ بنایا۔ آپ صحابہ کرام کی تربیت کے لیے مناسب موقع کی تلاش میں رہتے۔ ایک دن آپ کے پاس کچھ قیدی لائے گئے ان قیدیوں میں ایک عورت بھی تھی جس کا بچہ کھو گیا تھا۔ اس کو قیدیوں میں ایک بچہ نظر آیا اس نے شدت جذبات و محبت سے مغلوب ہوکر اس بچہ کو گود میں اٹھالیا اور اپنا دودھ پلانا شروع کر دیا۔ آپ نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ ’’اگر اس عورت کو اختیار دے دیا جائے تو کیا یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟‘‘ صحابہ کرام نے جواب دیا ’خدا کی قسم یہ عورت ایسا نہیں کرسکتی‘‘ اس پر آپ نے فرمایا ’’یہ عورت اپنے بچے پر جتنی مہربان ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے‘‘ (بخاری و مسلم)۔ اللہ کی بے انتہا محبت و رحم و کرم کو صحابہ کرام کے ذہنوں میں جاگزیں کرنے کے لیے آپ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا جبکہ صحابہ کرام کے دل اس منظر کو دیکھ کر بے انتہا متاثر ہوئے تھے۔
نبی کریم ﷺ کی تعلیم و تربیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اگر آپ محسوس کرتے کہ زبانی بات زیادہ فائدہ مند نہیں ہوسکی تو آپ اس بات کو ذہن نشین کرانے کے لیے عملی طور پر کر کے بتاتے۔ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر وضو کے بارے میں سوال کرتا ہے کہ وضو کیسے کیا جائے؟ آپ نے وضو کا طریقہ زبانی بتانے کے بجائے ایک برتن میں پانی منگوایا اور وضو کرکے عملی طور پر بتا دیا کہ وضو کیسے کرنا چاہیے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے اس وضو میں کچھ بڑھایا یا کم کیا تو اس نے حد سے تجاوز کیا اور ظلم کیا‘‘۔
اسی طرح آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ آپ نے منبر پر کھڑے ہوکر امامت کی تاکہ لوگ آپ کے نماز کے طریقے کو واضح طور پر دیکھ سکیں اور آپ ہی کی طرح نماز پڑھیں۔ چنانچہ آپ نے نماز کے بعد ارشاد فرمایا اے لوگو! میں نے ایسا اس لیے کیا کہ تم میری پیروی کرو اور دوسروں کو بھی میرے طریقے کے مطابق نماز سکھاو‘‘۔
ایک مرتبہ آپ نے فرمایا ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہوں گے یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنی درمیان کی انگلی اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہوتا یہ ایک دوسرے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ یعنی یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں آپ کے اس قدر قریب ہو گا۔ یہ بات جو آپ نے انگلیوں سے بتانی ہے وہ اس قدر موثر ہے جو بھی آپ کے اس ارشاد مبارک کو پڑھے یا سنے گا وہ یتیم کی کفالت کرکے جنت میں آپ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔
ایک دفعہ آپ نے ایک مومن کا دوسرے مومن کا تعلق کیسا ہونا چاہیے اس کو بتانے کے لیے پہلے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں جال بنا کر دکھایا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا مومن، مومن ایک عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو پیوست کیے ہوئے ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر جال بناکر دکھایا (بخاری و مسلم)
ایک مرتبہ سفیان بن عبداللہ ثقفیؓ نے اللہ کے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا۔ اے اللہ کے رسول آپ کی نظر میں میرے لیے کونسی چیز خطرناک ہے؟ آپ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر فرمایا ’’اگر یہ آدمی زبان پر قابو نہ رکھ سکے اس کو بے احتیاطی سے نہ بچا سکے تو یہ انسان کے لیے سب سے زیادہ بربادی و ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ اس بات کو آپ نے اپنی زبان پکڑ کر یہ بات مخاطب کے ذہن میں بٹھادی کہ زبان پر قابو رکھنا کس قدر ضروری ہے۔ آپ کا یہ انداز مخاطب کو سمجھا دیا کہ زبان سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اگر اس پر قابو نہ رکھا جائے۔ اسی طرح ایک مرتبہ آپ نے داہنے ہاتھ میں سونا اور بائیں ہاتھ میں ریشم لیا۔ ان دو چیزوں کو ہاتھوں میں لے کر ہاتھوں کو اوپر اٹھایا اور فرمایا یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں کے لیے حرام ہیں اور عورتوں کے لیے حلال ہیں۔ عملی طور پر ہاتھوں میں ان چیزوں کو لے کر ان کی حرمت واضح کر دی۔ لوگوں نے ان کو آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا تو بات دل میں بیٹھ گئی۔
نبی کریم ﷺ تعلیم و تربیت و اصلاح کے موقعوں پر لوگوں کی نفسیات کو مد نظر رکھا کرتے تھے۔ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے۔ اے اللہ کے رسول میں بہت سے گناہ کرتا ہوں مگر میرے اندر مگر میرے اندر اتنی ہمت نہیں کہ ان سب کو چھوڑ دوں البتہ صرف ایک گناہ چھوڑ سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھ سے عہد کرو کہ کبھی جھوٹ نہیں بولو گے۔ وہ شخص آپ سے جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کر کے چلا جاتا ہے۔ اس شخص کے قدم جب بھی کسی گناہ کے لیے آگے بڑھتے ہیں اس کے ذہن میں خیال آتا ہے جب رسول اللہ مجھ سے سوال کریں گے تو میں کیا جواب دوں گا؟
نبی کریم ﷺ بات کو سمجھانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرما تھے۔ اپنے دست مبارک سے زمیں پر ایک سیدھا خط کھینچا اور ارشاد فرمایا ’’یہ خدا کا راستہ ہے پھر اس سیدھے خط کے دائیں جانب دو خط کھینچے اور بائیں جانب دو خط کھینچے پھر فرمایا یہ شیطان کے راستے ہیں اس کے بعد آپ نے سیدھے خط پر ہاتھ رکھا آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے ’’یہ میرا سیدھا راستہ ہے تم اس کو اختیار کرو اور دوسرے راستوں کو اختیار نہ کرو کہ وہ تم کو اس راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کردیں گے۔ اس کی اللہ تعالیٰ نے تمہیں وصیت کی ہے کہ تم تقویٰ حاصل کرو‘‘ (الاانعام ۔۱۵۴)
حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ہمیں سمجھانے کے لیے اللہ کے رسول نے ایک مربع نما شکل بنائی۔ اس شکل کے باہر ایک خط کھینچا اور اس کے درمیان میں چھوٹے چھوٹے خطوط کھینچے پھر مربع کے درمیان میں انگلی رکھ کر فرمایا ’’یہ انسان ہے اور مربع بنانے والے خطوط اس کی موت ہے یہ چھوٹے چھوٹے خطوط حوادث و مصائب ہیں جو انساں پر حملہ کرتے رہتے ہیں اگر ان کا نشانہ چوک جاتا ہے تو بڑھاپا آتا ہے اور مربع کے باہر جو خط ہے وہ انسان کی آرزو و تمنائیں ہیں یہاں تک آدمی کبھی نہیں پہنچ سکتا ۔ اس خاکہ کی مدد سے یہ بات ذہن نشین کرادی کہ انسان اس کی آرزووں کے درمیان حادثات و مصائب میں ہیں پھر موت انسان کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے جس سے کوئی راہ فرار نہیں۔ انسان کو کتنی بھی لمبی عمر کیوں نہ ملے اس کی آرزوئیں ادھوری رہ جاتی ہیں کوئی بھی انسان زندگی میں اپنے آرزووں کی تکمیل نہیں کر پاتا۔ بہت نکلے مرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے والا معاملہ رہتا ہے۔
نبی کریم ﷺ دعوت و تربیت میں تدریج کا اہتمام فرماتے تھے۔ تدریج کا قانون فطری ہے اور تمام مخلوقات میں پایا جاتا ہے۔ آپ تدریج کا کس قدر خیال رکھتے تھے اس کا اندازہ اس نصیحت سے کیا جاسکتا ہے جو آپ نے معاذ ؓ بن جبل کو یمن کا گورنر بناکر روانہ کرتے ہوئے کی تھی۔ فرمایا ’’تم ایک ایسی قوم کی طرف جارہے ہو اہل کتاب ہے تم پہلے انہیں توحید و رسالت کی دعوت دینا۔ جب وہ بات مان لیں کہ اللہ ایک ہے اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں تو پھر انہیں یہ بتانا کہ دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ جب وہ یہ بات تسلیم کرلیں تو پھر انہیں یہ بتانا کہ خدا نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو مالداروں سے لی جائے گی اور غریبوں کی ضروریات پر خرچ کی جائے گی۔
معلم انسانیت ﷺ نے عدل کی بنیاد پر فرد و معاشرہ کی تعمیر کی۔ نعمان بن بشیر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میرے والد مجھے لے کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میرے والد نے میری طرف اشارہ کرکے عرض کیا ’اے اللہ کے رسول، میرے پاس جو غلام تھا وہ میں نے اس بیٹے کو دیا ہے‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ’’کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو غلام عطا کیے ہیں‘‘؟ میرے والد نے کہا ’’نہیں‘‘ اس پر آپ نے فرمایا ’’اللہ سے ڈرو اور اولاد کے سلسلے میں عدل و انصاف اختیار کرو ‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا کہ اس دوران اس کا ایک بیٹا آیا اس شخص نے اپنے بیٹے کا بوسہ لیا اسے اپنی ران پر بٹھالیا پھر اس شخص کی لڑکی آئی اور اس لڑکی کو اپنے سامنے بٹھالیا ۔ یہ دیکھ کر آپ نے اس شخص کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’تم نے ان دونوں کے ساتھ انصاف و برابری کا برتاو کیوں نہیں کیا‘‘ (بخاری)
ایک دفعہ ایک انصاری صحابی آئے اور کچھ آپ سے سوال کیا۔ آپ نے دریافت کیا ’’تمہارے پاس کچھ ہے یا نہیں‘‘؟ بولے ’’اس ایک بچھونا ہے جس کا کچھ حصہ بچھالیتا ہوں اور کچھ حصہ اوڑھ لیتا ہوں اور ایک پانی پینے کا پیالہ ہے‘‘ آپ نے دونوں چیزیں منگوائیں۔ لوگوں نے اس کے چار درہم لگائے درہم انصاری کو دے کر فرمایا کہ ایک درہم کا کھانا خرید کر گھر میں دے آو۔ رسی خرید لاو اور جنگل سے لکڑیاں لاکر شہر میں بیچو’’ پندرہ دن کے بعد وہ صحابی آئے تو پندرہ درہم ان کے پاس جمع تھے۔ فرمایا یہ اس سے اچھا ہے کہ قیامت کے دن چہرے پر داغ گداگری لگا کر جانا۔ کوئی شریف انسان داغ گداگری چہرے پر لگانا پسند نہیں کر سکتا۔
حضرت حکیم بن حزامؓ ایک مرتبہ حضورﷺ سے کچھ مانگا۔ حضور نے عنایت فرمایا۔ انہوں نے پھر مانگا پھر عنایت فرمایا۔ انہوں نے پھر مانگا۔ آپ نے پھر عنایت فرمایا ساتھ ہی ارشاد فرمایا ’’اے حکیم! یہ مال سبز باغ ہے اس سے سیری نہیں ہوئی اگر یہ استغنا سے حاصل ہو تو اللہ برکت دیتا ہے اگر طمع سے حاصل ہو تو برکت نہیں ہوتی چنانچہ حضرت حکیم نے پھر ساری عمر کسی سے سوال نہیں کیا۔
نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب کو تعلیم و تربیت کے لیے مختلف انداز اختیار کیے اور اپنی بات کو موثر و ذہن نشین کرانے کے لیے مثالوں سے بھی کام لیا کرتے تھے۔ مثالیں بھی آپ ایسی دیا کرتے تھے جو عام طور پر لوگوں کے مشاہدہ میں رہتی تھیں۔ ایک مومن کا دوسرے مومن سے تعلق کیسا ہونا چاہیے اس کو سمجھانے کے لیے آئینہ کی مثال دی۔ فرمایا: ’مومن، مومن کا آئینہ ہے‘‘ آئینہ صرف وہی بتاتا ہے جو دیکھتا ہے۔ اپنے طرف سے کسی قسم کی کمی و بیشی نہیں کرتا۔ ایک مومن کی خوشی و غم کو دوسرے مومن کے چہرے پر پڑھا جانا چاہیے۔ اگر ایک مسلمان بھائی کے چہرہ پر غم و رنج کے آثار ہوں تو دوسرا بھائی اس غم میں شریک نظر آنا چاہیے۔ اس کے چہرہ سے بھی رنج و غم چھلکنا چاہیے۔ اگر ایک مسلمان بھائی کے چہرے سے مسرت و شادمانی ظاہر ہو رہی ہو تو دوسرے مسلمان کے چہرے پر بھی مسرت و خوشی کی چمک ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کے باہمی تعلق کو ظاہر کرنے کی یہ آئینہ کی مثال بڑی ہپی موثر اور بڑی ہی دل نشین ہے۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اترجہ (سنترہ کی مانند ہے ایک خوش ذائقہ خوشبو دار پھل) کی مانند ہے جس کی بو بھی اچھی ہے اور ذائقہ بھی۔ اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحان (ایک خوشبودار پھول) کی مانند ہے جس کی بو اچھی ہوتی ہے اور ذائقہ کڑوا۔ اس فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی مانند ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی۔ برے ساتھی کی مثال بھٹی والے (لوہار) کی طرح ہوتی ہے اگر تمہیں اس کی سیاہی نہ ملے اس کا دھواں ضرور ملے گا۔ آپ نے ان مثالوں سے مومن اور فاجر، قرآن پڑھے اور نہ پڑھنے والوں کا فرق سمجھا دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ بری صحبت کا اثر انسان پر غیر اختیاری ہوتا ہے۔ لوہار کے پاس بیٹھنے والا سیاہی اور چنگاریوں سے اپنے آپ کو بچا بھی لے تو بھٹی کا دھواں بہرحال اس کو لگے گا۔ اس لیے انسان کو برے انسانوں سے بچنا چاہیے ورنہ وہ غیر شعوری طور پر اس کے اثرات کو قبول کرے گا۔ آخر وہ بھی برا بن جائے گا۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ صالح صحبت اختیار کرنا کس قدر ضروری ہے صحبت کا انسان پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی تعلیم سے صحابہ کرام کا حوصلہ قائم رکھتے ان کو نا امیدی کا شکار بننے نہیں دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ مصیبتوں کے طوفان گزر گئے لیکن صحابہ کرام نے اپنا حوصلہ قائم رکھا۔ ایک بار حضرت خباب بن الارتؓ نے رسول خدا سے عرض کیا :’’اے اللہ کے رسول! راہ اسلام میں ہمیں ستایا جارہا ہے، شدید ترین اذیتیں پہنچائی جارہی ہیں۔ کیا آپ ہمارے لیے دعائیں نہیں کریں گے۔ کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد طلب نہیں کریں گے؟ ‘‘ ان کی یہ بات سن کر آپ نے فرمایا : تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کی ہڈیوں سے گوشت اور پٹھوں کو لوہے کی کنگھیوں سے چھیل دیا گیا۔ ان میں سے کسی کے جسم کو دو ٹکڑے کر دیے گئے وہ ان تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے لیکن اپنے دین کو نہیں چھوڑا اس پر مضبوطی سے قائم رہے۔ اللہ اس دین کو ضرور غالب کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سوار صنعا سے حضرموت تک سفر کرے گا لیکن راستے میں خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو گا۔ یہ سب کچھ ہوکر رہے گا لیکن تم لوگ جلد بازی کررہے ہو‘‘۔ آپؐ جہاں دوسروں کی مثالیں دے کر صحابہ کرامؓ کی ہمت و حوصلہ اور دین پر مرمٹنے کا جذبہ پیدا کرتے وہیں مستقبل کی کامیابی و کامرانی کا مژدہ سناتے ہیں۔ آپ کی تعلیم وتربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام استقامت کی چٹان بن گئے۔
نبی کریم ﷺ کی حکیمانہ تعلیم کے نتیجے میں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا لوگوں کے لیے بار خاطر نہیں بنا۔ جب بھی آپ کو معلوم ہوتا کہیں اعتدال سے تجاوز ہو رہا ہے اس پر بندھ لگاتے۔ ایک بار حضرت معاذ ؓ بن جبل نے لوگوں کو نماز پڑھاتے وقت لمبی قرات کی۔ کسی نمازی نے حضورؐ سے آکر شکایت کردی۔ آپ نے حضرت معاذؓ بن جبل کو مخاطب کر کے فرمایا ’’اے معاذ! تم لوگوں کو آزمائش میں ڈال رہے ہو‘‘ آپ نے نا پسندیدگی کو ظاہر کرنے کے لیے ان کلمات کو تین بار دہرایا (بخاری)
آپ اس بات کا خاص خیال رکھا کرتے تھے کہ زندگی کے کسی معاملہ میں وہ عبادات کا ہی کیوں نہ، غلو نہ ہو کیونکہ عبادت میں حد سے زیادہ شغف ہو گا تو حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی ہوگی۔ چنانچہ آپ تک جب یہ خبر پہنچی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو عبادت میں اتنے مشغول رہا کرتے ہیں کہ گھر والوں کے حقوق بھی بھول گئے ہیں تو آپ نے ان سے پوچھا : ’’کیا تم دن میں روزے رکھتے ہو اور رات میں نمازیں پڑھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا ’’ہاں! یا رسول اللہ‘‘ یہ سن کر آپ نے فرمایا ’’ایسا کرو، روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو، سوو بھی اور جاگو بھی، اس لیے کہ تمہارے جسم کا بھی تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے جو لوگ تم سے ملنے آتے ہیں ان کا بھی تم پر حق ہے (بخاری)آپ نے لوگوں کو بیواوں مسکینوں کی مدد کی ترغیب اس انداز میں دی کہ دل پر نقش ہوکر رہ جاتا ہے کہ بندوں کی مدد قرب الٰہی کا ذریعہ ہے‘‘قیامت کے دن اللہ عز و جل کہے گا اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے نہیں کھلایا تو وہ کہے گا کہ اے میرے رب! میں تجھے کیوں کر کھلاتا جب کہ تو سب لوگوں کی پرورش کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا کیا تجھے خبر نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے نہیں دیا تو اسے کھلاتا تو اپنے کھلائے ہوئے کھانے کو میرے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے نہیں پلایا۔ تو کہے گا اے میرے رب! میں تجھے کیسے پلاتا جب کہ تو خود رب العالمین ہے۔ اللہ کہے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں دیا اگر تو اس کو پانی پلاتا تو وہ پانی میرے پاس پاتا (مسلم)یہ چند نمونے ہیں جو یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ نے کس حکمت و دانائی اور دلسوزی و لگن کے ساتھ صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کی کہ وہ عظمت کے نشان بن گئے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 نومبر تا 03 نومبر 2022