موہن بھاگوت : دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

مذہبی ہم آہنگی کا پاٹ پڑھانے پر سنگھ کے سربراہ کو عتاب کا سامنا۔ ’سیکولر‘ ہوجانے کا الزام

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

شیر کی سواری کا منطقی انجام ۔ ہندوانتہا پسندی قابو سے باہر ہورہی ہے؟
یوپی میں منافرت کینسر کی طرح پھیل رہی ہے۔ کانپور کی میئر قدیم مندروں کی بحالی کے مشن پر!
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت وقفہ وقفہ سے شوشے چھیڑنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس پر کبھی ان سے مسلمان ناراض ہو جاتے ہیں تو کبھی ہندووں کی ناراضی ان کے حصے میں آتی ہے۔ ان کے بیانات کو سن کر سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ آج کل ملک بھر میں مساجد سے آگے بڑھ کر گھروں میں بھی مندروں کی کھوج شروع ہوگئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ کسی عمارت کا کھنڈر بن جانا کوئی نئی بات نہیں ہے اور مندر بھی اس میں شامل ہیں۔ ہر خالی زمین کو کھودا جائے تو کسی کا گھر، دکان یا مندر نکل آئے گا۔ ایسے میں اگر پرانے وارثین اپنا دعویٰ کر دیں تو ملک بھر میں افراتفری کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ اگر ایوان پارلیمنٹ کے نیچے پرتھوی راج چوہان کے محل کا ملبہ نکل آئے یا عدالتِ عظمیٰ کے بارے میں یہ انکشاف ہو جائے کہ وہاں کسی زمانے میں جین مندر تھا تو کیا اسے مسمار کر کے اس کی پرانی حیثیت بحال کر دی جائے گی؟ غالب کے مکان پر قابض لوگ کیا اپنا حقِ ملکیت چھوڑ کر الگ ہو جائیں گے؟ کیا مکیش امبانی کے محل کو پھر سے یتیم خانے میں تبدیل کر دیا جائے گا؟ ہندووں کے وہ سارے مندر جو بودھ مت کے مٹھ ہوا کرتے تھے کیا ان میں دوبارہ گوتم بدھ کی مورتی بٹھائی جائے گی؟
یہ سب نا ممکنات میں سے ہیں لیکن اگر کسی یوگی کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوجائے تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے چناں چہ سنبھل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ عبدالمتین نامی مسلمان نے ایک ہندو سے گھر خریدا جس کے اندر پرانے مالک نے مندر بھی بنا رکھا تھا۔ نئے مالکِ مکان نے اسے ویسے ہی چھوڑ دیا۔ اب انتظامیہ اس کے بہانے عبدالمتین کو پریشان کر رہا ہے۔ اس آگ کو گرم رکھ کر اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی غرض سے یو پی کے محکمہ آثارِ قدیمہ کو کام سے لگا دیا گیا ہے۔ اس کی ٹیم نے سنبھل کا دورہ کر کے سروے کیا اور کسی مسجد کو تو نہیں چھیڑا مگر شہر کی 19 باؤلیوں اور 5 تیرتھ استھل کی تاریخی اہمیت کا پتہ چلانے میں لگی رہی۔ وہ لوگ صبح کے وقت کالکی وشنو مندر پہنچے اور اس کے قریب میں واقع کرشنا باؤلی کا معائنہ کیا۔ سنبھل کی ایس ڈی ایم وندنا مشرا نے اس بابت تفصیل بتائی کہ ریاستی محکمہ آثارِ قدیمہ کی ٹیم علاقہ میں تقریباً 15 منٹ رہی۔ اس نے ایک باؤلی کی جانچ کی اور وہ کالکی وشنو مندر بھی گئی۔ ہندوؤں کے لیے اچانک سنبھل شہر مقدس بن گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کئی مذہبی کتابوں میں اس شہر کو وشنو کے دسویں اوتار کالکی کا مقام پیدائش بتایا گیا ہے۔ کالکی وشنو مندر کے نگراں مہندر شرما کی موجودگی میں محکمہ آثارِ قدیمہ کے عہدیداروں نے مندر کے احاطہ میں موجود باؤلی کا معائنہ کرنے کے بعد تصاویر لیں۔
مسجدوں میں مندروں کی تلاشی کا معاملہ یو پی میں کینسر کی مانند پھیل رہا ہے۔ کانپور کی میئر اور بی جے پی کی سینئر رہنما پرمیلا پانڈے لاپتہ مندروں کی تلاش میں پولیس کے ساتھ سڑک پر نکل پڑی ہیں۔ پرمیلا پولیس کی بڑی تعداد کے ساتھ پرانے اور بند مندروں کو ڈھونڈ رہی ہیں تاکہ ان کی تزئین و آرائش کی جا سکے۔ ایک جگہ کے بارے میں میئر پرمیلا پانڈے نے کہا کہ یہ جگہ سنار گلی کہلاتی ہے۔ یہاں اگروال برادری کے لوگ رہتے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہاں ہر 10 گھروں کے بعد ایک مندر اور کنواں ہوا کرتا تھا مگر اب نہیں ہے۔ مندر ہیں تو مورتیاں کہاں گئیں؟ ان کا خیال ہے کہ کوئی بھی مذہبی طبقہ ہو، مندر ہے تو اس کی حفاظت کرنا وہاں کے لوگوں کا فرض ہے۔ اب یہاں کوئی مندر نہیں ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ان لوگوں کو یہاں سے نکالنا پڑے گا اور اب دوبارہ پوجا ہو گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہاں کوئی ہندو ہو تو پوجا کرے۔ ویسے بھی مندروں کے حوالے سے ہندو انتہا پسندوں کو بالعموم پوجا پاٹ سے زیادہ سیرو سیاحت اور لڑائی جھگڑے میں دل چسپی ہے ورنہ وہ گیان واپی کی جامع مسجد کے نیچے آرتی اتارنے کے بجائے ان سیکڑوں مندروں کے تحفظ کے لیے احتجاج کرتے جن کو کاریڈور بنانے کے لیے مودی سرکار نے توڑ دیا ہے۔
میئر نے مسلم اکثریتی علاقے میں پانچ پرانی مندروں کا دورہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگ ہمارے لیے برابر ہیں۔ ہمیں یہاں رہنے والوں سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ لیکن خستہ حال مندروں کی مرمت کی جائے گی اور درشن اور پوجا کا آغاز ہوگا۔ وہ کہتی ہیں کانپور میں کئی ایسے مندر ہیں جو بہت دنوں سے بند پڑے ہیں جن پر ماضی کی دھول کی تہہ برسوں سے اتنی گہری ہو چکی ہے کہ کانپور انتظامیہ کو اسے ہٹانے کے لیے سڑک پر آنا پڑا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر مندر مسلم اکثریتی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہر کے حساس علاقوں میں واقع ہیں۔ اس سے پہلے میئر کانپور کے سیسماؤ میں نالے پر تجاوزات ہٹانے کو لے کر سرخیوں میں تھے۔ اس دوران ان کی سماجوادی رکن اسمبلی سے بحث بھی ہوئی۔ اس بحث کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی اور رکن اسمبلی عرفان سولنکی اب جیل میں ہیں۔
کانپور کے سیسماو میں بی جے پی کا مسئلہ مندر نہیں انتخاب ہے۔ 1996 کے بعد اس حلقۂ انتخاب میں کمل نہیں کِھلا۔ پچھلے 20 سالوں سے یہاں مصطفیٰ سولنکی اور ان کے بیٹے عرفان سولنکی کا بول بالا ہے۔ یوگی سرکار نے عرفان سولنکی پر اوٹ پٹانگ الزامات لگا کر جیل بھجوا دیا تو ضمنی انتخاب کی نوبت آگئی۔ سماجوادی پارٹی نے عرفان سولنکی کی زوجہ نسیم سولنکی کو ٹکٹ دے دیا اور انہوں نے پہلی مرتبہ گھر سے باہر نکل کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ یوگی انتظامیہ نے سولنکی خاندان کو خوف و ہراس کا شکار کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ وزیر اعلیٰ نے خود کانپور کا دورہ کرکے ایسے کارخانوں کو دوبارہ شروع کرنے کا وعدہ کیا جن کا دوبارہ چل پڑنا نا ممکن ہے لیکن بات نہیں بنی۔ عرفان سولنکی کا بینک اکاونٹ منجمد کردیا گیا تو ان کے بیٹے کو کالج کی فیس ادا کرنے کے لیے قرض لینا پڑا۔ ان دشوار گزار حالات میں نسیم سولنکی کی جیت نے بی جے پی کو سمجھا دیا کہ اب کارخانوں سے بات نہیں بنے گی اس کے لیے مندر ڈھونڈو کہ شاید اسی کے گربھ گرہ میں کہیں انتخابی کامیابی کی کنجی ہاتھ آجائے۔
مندروں کی تلاش کا معاملہ صرف یو پی تک محدود نہیں بلکہ امسال اکتوبر میں راجستھان کے ہوا محل اسمبلی حلقے سے منتخب ہونے والے بی جے پی رکن اسمبلی بال مکند آچاریہ نے از خود یہ مہم چھیڑ دی تھی۔ وہ بد تمیز اپنے حامیوں کے ساتھ جوتے سمیت شیعہ امام باڑہ مسجد میں داخل ہو گیا اور اس کے مندر ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر دیا۔ اس سے علاقہ میں کشیدگی پھیل گئی۔ واقعہ کے دوران مسجد میں نماز کی تیاری ہو رہی تھی۔ بال مکند کے مسجد میں داخل ہونے سے نمازیوں میں شدید غصہ پیدا ہوگیا ۔اس کی وائرل ویڈیو پولیس کو ملی تو وہ وہاں پہنچ گئی۔ مسلمانوں نے قانونی دستاویزات پولیس کو دکھائے جس کے بعد بال مکند کو وہاں سے رسوا ہوکر بھاگنا پڑا۔ بال مکند کی یہ عادت ہے کہ وہ کہیں بھی داخل ہو کر جھوٹی بنیادوں پر اراضی کو مندر یا کچھ اور قرار دے کر قبضہ کی کوشش کرتا ہے۔ مقامی لوگ اسے لینڈ مافیا کے طور پر جانتے ہیں۔ اس کی نظرِ بد وقف کی 14 بیگھا قیمتی زمین پر ہونے کا الزام ہے۔ اب اس پر پولیس تھانے میں مسجد کے اندر داخل ہوکر خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی شکایت درج کر دی گئی ہے۔ ایسے لوگوں کو بی جے پی رکن اسمبلی بناکر ملک کو وشو گرو بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔
سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کے حالیہ بیان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے ملک بھر میں ابھرتے مندر-مسجد تنازعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک ایسا بیان دے دیا کہ جس کو سن کر میڈیا ایوانِ پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ کے ذریعہ ڈاکٹر امبیڈکر کا تمسخر اڑانا بھی بھول گیا۔ موصوف نے خود کو ہندوؤں کا نیتا دکھانے کے لیے ایسے مسائل کا استحصال کرنے والوں پر بڑی سخت تنقید کی۔ وشوا گرو بھارت کے مرکزی خیال پر ایک لیکچر سیریز میں انہوں نے اپنے پروچن میں زور دے کر کہا کہ ہندوستان کو مختلف مذاہب اور نظریات کے ماننے والوں کے بقائے باہم کی مثال قائم کرنی چاہیے۔ ان کے اس تبصرے کو حالیہ تنازعات بشمول درگاہ اجمیر اور شاہی جامع مسجد سنبھل سے گہرا تعلق ہے۔ موہن بھاگوت نے ملک کے باشندوں سے کہا کہ وہ تاریخی غلطیوں سے سبق لیں اور سبھی کے ساتھ چلنے والا عالمی ماڈل بنانے کے لیے کام کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ایسے تنازعات کو پھر زندہ کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ اس سے ملک کا اتحاد درہم برہم ہوتا ہے۔
ان سارے مسائل کا منبع و مرجع چونکہ ایودھیا کا رام مندر ہے اس لیے اس کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ رام مندر آستھا کا معاملہ تھا اور ہندو اسے بنانا چاہتے تھے لیکن نفرت کے تحت نئے تنازعات پیدا کرنا قابلِ قبول نہیں ہے۔ ان تنازعات کے پس پشت کار فرما اہم ترین سبب کی جانب اشارہ کرکے بھاگوت نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ بعض لوگوں کاخیال ہے کہ وہ نئے تنازعات پیدا کرکے ہندوؤں کے رہنما بن سکتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس کی اجازت کیسے دی جائے؟ انہوں نے انتہا پسندی اور مذہبی عدم برداشت کی مذمت میں کہا کہ ایسا رویہ ہندوستان کی ثقافتی اقدار کے خلاف ہے۔ دوسرے مذاہب کا احترام نہ کرنا یا زور و زبردستی ہمارے کلچر میں نہیں ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے مگر پھر بھی اگر بھاگوت جی اس اصول پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ موصوف نے مساوات پر زور دیتے ہوئے اقلیت اور اکثریت کا انکار کرتے ہوئے سب کو برابر بتایا لیکن پھر یوگی کا اسی اور بیس والا فارمولا کہاں جائے گا؟ جسٹس شیکھر یادو کا یہ بیان کہ ملک تو اکثریت کی مرضی سے چلے گا، اس کا کیا مطلب سمجھا جائے گا؟ کیا موہن بھاگوت، شیکھر یادو کی مذمت کرنے ہمت رکھتے ہیں جبکہ یوگی ان کی حمایت کر رہے ہیں؟ یوگی اور بھاگوت کی آنکھ مچولی پر رام لیلا کی ایک چوپائی صادق آتی جس میں رام کو مخاطب کرکے پرشورام کہتے ہیں؎
ہے رام تمہاری باتوں سے نرمائی مجھ میں آتی ہے
پر دیکھ تمہارے بھائی کو گرمائی پھر آجاتی ہے
دیکھو تنک اُدھر دیکھو وہ انگارے مجھ پر پھینک رہا
تو میٹھی میٹھی باتوں سے گھاوں کو میرے سینک رہا
موہن بھاگوت کا بیان سن کر ایسا لگا کہ گویا راون کے منہ سے رامائن بیان ہو رہی ہے۔ وہ بولے ملک کی روایت ہر ایک کو اپنے مذہب و عقیدہ پر عمل کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس کی شرطِ واحد ہے کہ ہم آہنگی کے ساتھ رہا جائے اور قانون کی پاس داری کی جائے۔ آر ایس ایس سربراہ نے خبر دار کیا کہ تفرقہ پسند بیانیہ سے ملک کی ترقی کی نفی ہوتی ہے لیکن فی الحال قومی ترقی میں کسی کو دل چسپی نہیں ہے ہر کوئی اپنا اقتدار باقی رکھنا چاہتا ہے۔ ہندوستانی معاشرے کی تکثیریت کو اجاگر کرتے ہوئے، آر ایس ایس کے سربراہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ رام کرشن مشن میں بھی کرسمس منایا جاتا ہے اور یہ نہایت چھوٹی سی مثال ہے ورنہ ہم آہنگی کی اس ملک میں روزانہ سیکڑوں مثالیں سامنے آتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف ہم ہی اس طرح سے تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں کیونکہ ہم ہندو ہیں اور ہندو ازم کی بنیادی فلسفہ ہی تحمل و برداشت کا جذبہ ہے۔ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے پھر بھی کانوں کو سننے میں بھلا معلوم ہوتا ہے۔ موہن بھاگوت اس سے قبل بھی اس طرح کے بیانات دے چکے ہیں کوئی اس پر کان نہیں دھرتا کیونکہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے اور ان کی اپنی سرکاریں ان باتوں کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھتیں۔
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے بیان پر جہاں ہندو انتہا پسند ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑگئے ہیں وہیں ان کے مخالفین حمایت میں آگئے ہیں۔ کانگریس رکن پارلیمنٹ راجیو شکلا نے اس پر کہا کہ کہ بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے لوگوں کو موہن بھاگوت کی بات پردھیان دینا چاہیے۔ موہن بھاگوت تیسری بار یہ بات دہرا رہے ہیں کہ جگہ جگہ ایودھیا کے طرز پر مندر تلاش کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ معاشرہ سب کا ہے۔ یہ ملک سب کا ہے۔ مندر کے نام پر فساد کرنا صحیح نہیں ہے۔ این ڈی اے کی اتحادی پارٹی راشٹریہ لوک سمتا پارٹی کے صدر اوپیندر کشواہا نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے بیان کی حمایت میں کہا کہ ایسے ہر موضوع کو چھیڑنے سے بچنا چاہیے جس سے سماج میں کشیدگی پیدا ہو یا معاشرہ کا ماحول خراب ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ آر ایس ایس کا بیان بالکل صحیح ہے۔ شیو سینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے بھاگوت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ سچ ہے کہ کوئی بھی صرف مندر بنانے سے لیڈر نہیں بن سکتا۔ یہ ملک ایک مندر ہے، آپ کو اسے بنانا چاہیے۔ موجودہ صورت حال پر انہوں نے کہا کہ موہن بھاگوت آپ ایسے ہی لوگوں کو اقتدار میں لائے ہیں، اس لیے اب آپ ہی ذمہ داری لیں۔
مسلم دانشوروں، نجیب جنگ اور جنرل نجیب شاہ جیسے کئی لوگوں نے بھاگوت کے تبصروں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شکریہ کے مکتوب میں لکھا کہ ہم بطور ہندوستانی مسلمان اور عیسائی، حالیہ دنوں میں معاشرے کے ایک طبقے کی طرف سے دیے گئے بیانات اور بعض واقعات سے بہت فکر مند ہیں جو کہ شدید فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب بنے ہیں۔ اسی لیے سرسنگھ چالک کی جانب سے آنے والا یہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے تمام اچھی سوچ رکھنے والوں کے لیے امید کا باعث ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ بیان ان کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنے گا جو ہمارے ملک کی بنیادوں پر حملے کر رہے ہیں‘۔ آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ نے موہن بھاگوت کے بیان کا استقبال کیا ہے۔ بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا یعسوب عباس نے کہا کہ مسجد کے نیچے سے مندر تلاش کرنا غلط ہے۔ آر ایس ایس سربراہ کا بیان اچھا ماحول پیدا کرے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت سیاست چمکانے والوں پر لگام لگائے۔
بھاگوت کے بیان کی مخالف فریق میں تو خوب پزیرائی ہوئی مگر اس کو سن کر ہندو انتہا پسندوں کو ایسا لگا جیسے گھر کا بھیدی لنکا ڈھا رہا ہے۔ اس سے سوشل میڈیا میں بھونچال آگیا۔ لوگوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے انہیں یاد دلایا کہ وہ ہندوؤں کے ٹھیکیدار نہیں ہیں۔ بھاگوت نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ سو سال کی محنت کے بعد ہندو سماج ان کی ایسی درگت بنائے گا۔ یہ دراصل ایک ایسے شیر کی سواری کا انجام ہے جو ان کے قابو سے باہر ہو چکا ہے۔ ٹرول کرنے والے منچلوں سے ہٹ کر جب اے بی پی کا ترجمان کمبھ میلے کے اندر سادھو سنتوں کے پاس پہنچا تو وہ بھی آگ اگل رہے تھے۔ ان لوگوں نے بھاگوت کو نہ صرف اپنا بیان واپس لینے کا آدیش (حکم) دیا بلکہ پورے ہندو سماج سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا۔ ایک نے آگے بڑھ کر یہ کہہ دیا کہ ڈاکٹر ہیڈگیوار نے تو کہا تھا کہ ’ہم ہندو راشٹر قائم کریں گے چاہے اس کے لیے سو سال کیوں نہ لگ جائیں مگر وہ تو پہلے ہی اپنے مقصد سے پِھر گئے‘۔ اب ہندو انتہا پسند یہ کہنے لگے ہیں کہ بھاگوت سیکولر ہوگئے ہیں یعنی سنگھ پریوار نے جس اصطلاح کو ایک گالی بنا دیا تھا اب اسی کو سر سنگھ چالک پر چسپاں کیا جا رہا ہے۔ ان کے اس طرح چراغ پا ہو کر غم و غصے کا اظہار پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 بھاگوت کے بیان کی مخالف فریق میں تو خوب پزیرائی ہوئی مگر اس کو سن کر ہندو انتہا پسندوں کو ایسا لگا جیسے گھر کا بھیدی لنکا ڈھا رہا ہے۔ اس سے سوشل میڈیا میں بھونچال آگیا۔ لوگوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے انہیں یاد دلایا کہ وہ ہندووں کے ٹھیکیدار نہیں ہیں۔ بھاگوت نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ سو سال کی محنت کے بعد ہندو سماج ان کی ایسی درگت بنائے گا۔ یہ دراصل ایک ایسے شیر کی سواری کا انجام ہے جو ان کے قابو سے باہر ہو چکا ہے۔ ٹرول کرنے والے منچلوں سے ہٹ کر جب اے بی پی کا ترجمان کمبھ میلے کے اندر سادھو سنتوں کے پاس پہنچا تو وہ بھی آگ اگل رہے تھے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024