محمد جعفر خان مرحوم

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

کُرلا ( ساجد محمود شیخ ) زکوٰۃ سنٹر انڈیا کی ممبئی برانچ کے جوائنٹ سکریٹری محمد جعفر خان کا سنیچر ۱۰ دسمبر ۲۰۲۲ء کو انتقال ہو گیا۔ مرحوم اپنی نوجوانی کے دنوں میں طلبہ تنظیموں سے وابستہ رہے نوجوانوں کی اصلاح اور ان کی تربیت کے لیے کوشاں رہے تھے۔ وہ بھابھا اٹومک ریسرچ سنٹر میں بطورِ سائنسدان اپنی خدمات انجام دے کر گزشتہ فروری میں سبکدوش ہو گئے تھے۔ سبکدوشی کے بعد زکوٰۃ سنٹر انڈیا سے وابستہ رہے اور رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔ مرحوم محمد جعفر کے بڑے صاحب زادے عرفان نے بتایا کہ وہ خون کے کینسر کے مرض کا شکار ہو گئے تھے۔ انہیں ٹاٹا میموریل اسپتال میں داخل کروایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے اور سنیچر کے روز اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
زکوٰۃ سنٹر کے جنرل سکریٹری ضمیر الحسن خان نے کہا میں انہیں گزشتہ پینتیس سالوں سے جانتا ہوں۔ دنیا میں بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اسٹیج پر آتے نہیں ہیں اور بہت مشہور نہیں ہوتے مگر پروگرام کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، جعفر صاحب انہیں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے برسوں قبل آئیڈیل اسکول چیتا کیمپ میں کمپیوٹر سنٹر قائم کیا تھا پھر ان کا تبادلہ پہلے بھونیشور پھر کلکتہ ہو گیا تھا، جب وہ گزشتہ فروری میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو پوری طرح سے زکوٰۃ سنٹر انڈیا ممبئی سے وابستہ ہوگئے اور انہیں کی بدولت ممبئی کا زکوٰۃ سینٹر متحرک ہے۔ ضمیر الحسن خان نے مزید کہا کہ جعفر بھائی نوجوانوں کی شادی کروانے کے لیے بہت مشہور تھے۔ کوئی نوجوان بے راہ روی کا شکار ہونے لگتا تو وہ اس کی شادی کروادیتے تھے۔ کسی فرد کے مسئلہ کو اپنا مسئلہ سمجھ کر اس کو حل کرتے تھے۔ جب بھی کوئی پروگرام ہوتا تو وہ مکمل اسٹیج سجا کر دیتے تھے اور خود نیچے بیٹھ جاتے تھے۔انہوں نے کبھی کوئی منصب قبول نہیں کیا۔ اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ ان کی خوبیاں ہم سب میں منتقل ہوں۔ آج ملت کی سبھی تنظیموں کو بغیر نام کے کام کرنے والے افراد کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی ممبئی شہر کے ناظم عبدالحسیب بھاٹکر نے مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر وہ اپنی یادوں کے سہارے ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ وہ کسی کو بھی محرومی کا احساس ہونے نہیں دیتے تھے۔ اجتماع کے موقع پر سب کو اپنے پیسوں سے کتابیں خرید کر دیتے تھے۔اجتماعات میں بڑھ چڑھ کر کام کرتے تھے۔ انہوں نے نوجوانی کے زمانے کا ذکر کیا جب ۱۹۸۸ء میں ممبئی میں طلبہ و نوجوانوں کی کانفرنس ہوئی اس کی تشہیر کے لیے وال رائٹنگ ہو رہی تھی۔ میں کرلا میں رہتا تھا مگر ملازمت کی مصروفیات کے باعث وال رائٹنگ نہیں کر پا رہا تھا، جب میں نے اس بات کا ذکر جعفر بھائی سے کیا تو میں نے دوسری صبح دیکھا کہ کرلا میں ہر طرف دیواروں پر وال رائٹنگ ہو چکی تھی اور یہ جعفر بھائی نے وکھرولی سے آ کر رات بھر میں کی تھی اور صبح خود اپنی ملازمت پر چلے گئے تھے۔
مشہور سماجی وسیاسی تجزیہ نگار غلام عارف نے محمد جعفر خان مرحوم کی زکوٰۃ سنٹر میں انجام دی گئی خدمات کے حوالے سے کہا کہ آج کے زمانے میں پیسہ جمع کرنا آسان ہے مگر اصل مستحقین تک پہنچانا بہت مشکل کام ہے مگر یہ کام جعفر صاحب کی بدولت ممکن ہوا۔ وہ صحیح معنوں میں ہیرو تھے۔ زکوٰۃ سنٹر کے انچارج مفتی اشفاق نے جعفر خان صاحب کو یاد کرتے ہوئے کہا زکوٰۃ سنٹر کی دستاویزات ہمیشہ انہیں یاد رکھیں گی۔ان کے اخلاق پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا خوش مزاج اور نرم گفتار تھے یہاں تک کہ مستحق افراد سے بھی عاجزی سے بات کرتے تھے۔ زکوٰۃ سنٹر کے ایک ذمہ دار عزیز الرحمن نے کہا مرنا تو سب کو ہے مگر موت ایسی ہو کہ دنیا یاد رکھے۔ممبرا سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن عبد الرؤف لالہ نے جعفر خان صاحب کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک مجلس میں ان کی خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے کہا تھا کہ میرا جس خاندان سے تعلق ہے وہ پسماندہ ہے میں ان کی حتی المقدور مدد کرتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرے بعد میری اولاد بھی اس سلسلے کو جاری رکھے۔رائٹ وے نامی این جی او کے بانی وصدر سعید خان نے کہا کہ وہ جس تحریک و تنظیم میں شمولیت اختیار کرتے وہاں کے کاموں کو اوڑھ لیتے اور اپنی طبیعت کا بھی خیال کیے بغیر کام کیا کرتے تھے۔ سلمان شہاب نے کہا وہ تیز بارش میں بھی زکوٰۃ سنٹر کی میٹینگ میں شرکت کی خاطر ممبرا سے اسکوٹر پر سوار ہو کر ممبئی آئے تھے۔ ایسی ہی قربانیاں دینے سے انقلاب آتا ہے۔
جعفر خان صاحب کے بیٹے عرفان نے کہا کہ اس تعزیتی نشست میں آنے پر مجھے پتہ چلا کہ وہ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ کئی ایک کو یتیم کر گئے ہم بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلیں گے۔
مشہور سیاسی و سماجی تجزیہ نگار اور جماعت اسلامی مہاراشٹر کے نائب امیر حلقہ ڈاکٹر سلیم خان نے محمد جعفر خان صاحب کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کیفی اعظمی کے اس شعر سے اپنی بات شروع کی:
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
انہوں نے کہا چالیس سال قبل جب میں ان سے ملا وہ نوجوان تھے۔ اس وقت اُن کے چہرے پر جیسی مسکراہٹ تھی وہی مسکراہٹ انتقال سے چند دن قبل بھی تھی۔ قرآن مجید کے مراٹھی ترجمہ کے وقت جعفر بھائی پیش پیش تھے۔ وہ اسٹوڈیو میں رات بھر اکیلے بیٹھے رہتے اور صبح اپنے دفتر چلے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سلیم خان نے مرحوم کی بے لوث خدمت کا ایک نمونہ پیش کرتے ہوئے کہا جب وہ بھونیشور میں تھے اس وقت حیدرآباد میں جماعت اسلامی کے ارکان کا ایک اجتماع منعقد ہوا وہ اس میں پہنچ گئے۔ جب ان سے میں نے کہا کہ یہ تو ارکان جماعت اسلامی کا اجتماع ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ اجتماع سنیں گے مگر یہاں والینٹر کی بھی ضرورت ہوگی اور وہ والینٹر بن گئے۔
ایسے ہی افراد کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022