محمد علی جوہر یونیورسٹی کی اراضی پر کسٹوڈین کا قبضہ، توجہ ضروری

یو پی کے دو متنازع بل:اپوزیشن کے ساتھ حلیف جماعتیں بھی ناراض

محمد ارشد ادیب

لَو جہاد کے مفروضے کو قانونی بنانے کی کوشش، ٹارگٹ پر مسلمان
شمالی ہند کی سب سے اہم ریاست اتر پردیش کا بجٹ اجلاس اس بار کافی ہنگامہ خیز رہا، جب یو پی اسمبلی میں دو قانونی بل ایسے پیش کیے گئے ہیں جن کی اپوزیشن کے ساتھ حکومت کی حلیف جماعتیں بھی مخالفت کر رہی ہیں۔ ان میں ایک بل نزول کی زمین سے متعلق ہے جس کی حکم راں جماعت کے ارکان اسمبلی کے ساتھ حلیف جماعتیں بھی مخالفت کر رہی ہیں جس کے سبب اس مجوزہ بل کو ودھان پریشد میں ناکامی کے بعد سلیکٹ کمیٹی کو نظر ثانی کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ یعنی عام زبان میں بات کریں تو اس مجوزہ بل کو مخالفت کے بعد ٹال دیا گیا ہے۔
یو پی اسمبلی سے پاس ہونے والا دوسرا ترمیمی بل وہ ہے جسے مفروضہ لو جہاد کے خلاف بتایا جا رہا ہے۔ اس کے تحت مذہب تبدیل کروا کے شادی کرنے پر یا شادی کے لیے گمراہ کرنے پر بیس سال یا عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس ترمیمی قانون میں پانچ لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی لگایا جا سکتا ہے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ بین مذاہب شادی کے لیے دھوکہ دیا گیا ہے یا لالچ دیا گیا ہے یا اپنی شناخت چھپا کر شادی کی گئی ہے تو سزا اور جرمانہ دونوں دیے جا سکتے ہیں۔ اس قانون کا نام ہے انسداد غیر قانونی تبدیلی مذہب ترمیمی بل 2024۔ اس بل کے تحت اب سماج کا کوئی بھی شخص اس طرح کی شادی کی شکایت کر سکتا ہے۔ شکایت کرنے والے کا فریقین کا خاندانی یا رشتہ دار ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس قانون کے تحت مقدمہ درج ہونے کے بعد ضمانت حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہوگا، اسے غیر ضمانتی جرم کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔
حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے سرگرم ایڈووکیٹ رندھیر سنگھ سمن نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش سرکار یا بی جے پی کے زیر اقتدار صوبے جو بھی قانون بنا رہے ہیں وہ صریح دستور کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ دستور ہند کے مطابق ہر شخص کو اپنی مرضی سے شریک حیات چننے کا اختیار ہے، وہ کس مذہب یا مسلک کو مانے گا یہ اس کا خصوصی اختیار ہے۔ لیکن آر ایس ایس کی زیر سرپرستی بی جے پی کی سرکاریں آئین مخالف قانون بنا کر ملک کے اتحاد اور سالمیت کو منتشر کر رہی ہیں۔ رندھیر سنگھ سمن نے اس ترمیمی قانون کے منشا پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی قانون بنایا جاتا ہے وہ سب پر نافذ ہوتا ہے لیکن اس قانون کو ایک مخصوص طبقے کو ٹارگٹ کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے اسی لیے اس کے مخالفت ہو رہی ہے۔ انہوں نے لو جہاد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا سنگھ پریوار نے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت لو جہاد کی اصطلاح وضع کی ہے، اس کے تحت انہوں نے ہندو سماج میں ایک جنون پیدا کیا ہے جس پر کہا جاتا ہے کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر شادی کرنے کے دوران ان کا مذہب تبدیل کرا دیتے ہیں جبکہ کیرالا ہائی کورٹ سے لے کر پارلیمنٹ تک یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ صرف مفروضہ ہے۔ عالمی سیوک سنگھ نے میانمار سے لے کر پوری دنیا میں اس پروپیگنڈے کو عام کیا ہے۔ اس کے بر عکس بی جے پی کے کئی لیڈروں کی بیٹیوں نے مسلم نوجوانوں سے شادی رچائی ہے۔ مثال کے طور پر بی جے پی رکن پارلیمنٹ ہیمامالینی نے مسلم خاتون کی حیثیت سے دھرمیندر سے شادی رچائی ہے جبکہ شتروگھن سنہا کی بیٹی سوناکشی سنہا کی ظہیر اقبال سے حال میں ہونے والی شادی اس کی تازہ مثال ہے۔
آر ٹی آئی کارکن ایڈووکیٹ خالد جیلانی نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ ” بھارتی سماج میں بین المذاہب شادیاں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فلمی دنیا اس طرح کی جوڑیوں سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے یو پی کے ترمیمی قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا نئے قانون کی منشا سماج کو پولرائز کرنا اور ہندو جذبات کو ابھارنا ہے ورنہ پہلے سے ایسے قوانین موجود ہیں جن میں دھوکہ دہی یا بہلانے پھسلانے پر کارروائی کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک بین مذاہب شادیوں کی بات ہے تو پہلے کی سرکاریں اس طرح کی شادیوں پر گیارہ ہزار روپے کی ترغیبی رقم انعام میں دیتی تھیں اور ہمیشہ سے اس طرح کی شادیاں ہوتی رہی ہیں۔شادیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے بریلی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کے پنڈت کے کے شنکھدار درجنوں مسلم لڑکیوں کی شادی ہندو رسم و رواج کے مطابق ہندو لڑکوں کے ساتھ کرانے کا دعویٰ کر چکے ہیں لیکن آئی ایم سی کے صدر مولانا توقیر رضا نے اجتماعی شادیوں کی اجازت مانگی تو ضلع انتظامیہ نے انکار کر دیا۔ اس سے انتظامیہ کا دوہرا معیار واضح ہو گیا ہے۔ انہوں نے شنکھدار کے گھر واپسی کےدعوے کو پروپگینڈا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر آر ٹی آئی کے ذریعے صحیح اعداد و شمار حاصل کیے جائیں تو اس کی قلعی کھل جائے گی انہوں نے جگر مرادبادی کا شیر پیش کرتے ہوئے کہا کہ
جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہاں سے
جو ادھر پیو تو حلال ہے ادھر پیو تو حرام ہے
ایڈووکیٹ خالد جیلانی نے نزول اراضی سے متعلق مجوزہ قانون پر خدشہ ظاہر کیا کہ اس کے بارے میں پہلے سے ایک قانون موجود ہے جس کے تحت نزول کی اراضی کو فری ہولڈ کرانے کے قواعد موجود ہیں، نیا قانون اقلیتوں کو ٹارگٹ کر کے بنایا جا رہا ہے، اس قانون کے تحت انہیں نزول کی اراضی سے بے دخل کر دیا جائے گا اس سے بڑی تعداد میں عوام بے گھر اور بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ بی جے پی کی حلیف جماعتیں بھی اس مجوزہ قانون کی مخالفت کر رہی ہیں۔ کانگریس اقلیتی شعبہ کے چیئرمین شاہ نواز عالم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس قانون سے دلت اور کمزور طبقات زمینوں سے محروم کر دیے جائیں گے۔ ان کی پارٹی یو پی میں ہر سطح پر اس قانون کی مخالفت کرے گی۔ واضح رہے کہ یو پی میں این ڈی اے کی حلیف جماعت اپنا دل ایس اور نشاد پارٹی نے بھی اس قانون کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جن ستا پارٹی کے راجہ بھیا نے اسمبلی ہاؤس میں بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے مجوزہ قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی لیے ابھی اس بل کو مزید غور و فکر کے لیے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔
یو پی کے ضلع رامپور میں واقع مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کی ایک لاکھ 38 ہزار مربع میٹر اراضی کو محکمہ کسٹوڈین نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اس اراضی کو اینیمی پراپرٹی قرار دیا جا چکا ہے۔ اس میں یونیورسٹی کی دو عالی شان عمارتیں بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ اس یونیورسٹی کو سماجوادی پارٹی لیڈر محمد اعظم خان نے قائم کیا ہے۔ یو پی کی موجودہ حکومت انہیں جیل بھجوانے کے بعد ان کے زیر سرپرستی چلنے والے تعلیمی اداروں کو برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ رامپور پبلک اسکول اور ہمسفر ریزورٹ کے بعد مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی بھی ان کے نشانے پر آگئی ہے، جبکہ ان کی پارٹی حالیہ پارلیمانی انتخابات میں مسلم حمایت سے 37 حلقوں میں جیتنے کے بعد بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
آگرہ سے خبر موصول ہوئی ہے کہ پوری دنیا میں ساتویں عجوبے کے طور پر مشہور تاج محل کے اندر گنگا جل چڑھانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔ آگرہ کے ڈی سی پی سٹی سورج رائے کے مطابق اس سلسلے میں دو نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ہندو شدت پسند محبت کی شاندار نشانی کو تیجو مہالیہ یعنی شیو جی کا مندر بتا کر منافرت پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔ ساون کے مہینے میں اسی لیے جل چڑھانے کی کوشش کی گئی۔
آخر میں بہار سے ایک حیران کن خبر آئی ہے کہ نرسری کی ایک بچے نے تیسرے درجے کے ایک طالب علم کو کلاس روم میں گولی مار دی۔ بچے کا باپ اسی اسکول میں سیکیورٹی گارڈ تھا جو اس واقعے کے بعد بچے کے ساتھ فرار ہو رہا تھا کہ مقامی افراد نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ مشتعل والدین نے اسکول میں توڑ پھوڑ کر کے اپنا غصہ نکالا۔ بہار کے ضلع سپول کے تروینی گنج میں واقع سینٹ جان بورڈنگ اسکول میں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ ملزم طالب علم کی عمر صرف چھ سال ہے اور وہ اپنے بستے میں غیر قانونی پستول چھپا کر لایا تھا۔ زخمی طالب علم زیر علاج ہے۔ ویڈیو کے سوشل میڈیا میں وائرل ہونے کے بعد لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آخر ہمارے بچوں میں اتنا غصہ کہاں سے آ رہا ہے؟
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 اگست تا 17 اگست 2024