مودی کو حکومت بنانے کا اخلاقی حق نہیں
ایسی سات وجوہات جن کے تحت وزیر اعظم کوئی دوسرا ہونا چاہیے
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
بھارت کی اکثریت نے نفرت کی سیاست کو مسترد کرکے محبت کا پیغام دیا ہے
الیکشن کے نتائج سب کے سامنے ہیں ، عددی حساب سے بھاجپا سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے، لیکن اس کی کامیابی درحقیقت ناکامی ہے، جس طریقے سے مودی نے انتخابی دعوے اب کی بار چار سو پار کیے تھے، وہ سب کافور ہوگئے کیونکہ وہ چار سو پار سے فقط دو سو چالیس پر سمٹ کر رہ گئی ہے ۔جس غرورو تکبر کے ساتھ اس نے دعوے کیے تھے وہ تمام نعرے مکڑی کے جالے ثابت ہوئے اور عوام نے اسے تین سو کے پار بھی جانے نہ دیا جو کہ بھاجپا کی ایک طرح سے ناکامی ہی کہلائے گی۔ بھاجپا نے جملہ چار سواکتالیس سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے، جن میں اس نے دو سو چالیس سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ دیکھا جائے تو بھاجپا پچاس فیصد سے کچھ زیادہ سیٹیں ہی جیت پائی ہے۔
اگر ان نتائج پر غور کریں تو یہ بات واضح طور پر نظر آئے گی کہ یہ مودی اور شاہ کی ناکامی ہے، کیوں کہ سارا الیکشن انہی دونوں کے نام پر لڑا گیا تھا اور خاص طور پر مودی کے چہرے پر لڑا گیا تھا۔ اب جب کہ ان کی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پائی ہے، تو اخلاقی طور پر انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے تاکہ ان کی پارٹی ایک نیا لیڈر منتخب کر سکے۔ گزشتہ دو انتخابات میں جس ریاست نے انہیں دہلی کا تخت تحفے میں دیا تھا، اسی ریاست نے انہیں اپنی زندگی کی بدترین انتخابی شکست سے دوچار کیا ہے۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ عوام کا مینڈیٹ مودی کے خلاف تھا، اسی وجہ سے انہیں اخلاقی طور پر حکومت نہیں بنانی چاہیے، لیکن ان سے سیاسی اخلاقیات کی امید رکھنا عبث ہے۔
انتخابات مودی کے نام پر ہی لڑے گئے تھے جس میں ان کو واضح اکثریت نہیں ملی، اس کی چند ایک وجوہات ہیں:
پہلی وجہ: جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ یہ الیکشن مودی نے صرف اپنے نام پر لڑا، صرف اپنے لیے ووٹ مانگے اور یہاں تک کہ ان کی پارٹی کے منشور میں ’’مودی کی گارنٹی‘‘ لکھا تھا، عوام نے مودی کی گارنٹی پر بھروسہ نہیں کیا، جب عوام نے ان کی گیارنٹی پر بھروسہ نہیں کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ حکومت کی سربراہی کریں، انہیں کوئی اخلاقی یا سیاسی حق نہیں ہے کہ وہ عہدے پر برقرار رہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ بھاجپا کے منشور میں لفظ ’مودی‘ کا ذکر سینسٹھ مرتبہ کیا گیا ہے۔
دوسری وجہ: کئی ریاستوں میں ان کے بہت سے مرکزی وزراء بری طرح سے ہار گئے ہیں، جو مودی اور ان کی ٹیم پر عدم بھروسے کا زندہ ثبوت ہے۔ اسمرتی ایرانی، اجے مشرا ٹینی، ارجن منڈا، کیلاش چودھری، سنجیو بالیان، مہندر ناتھ پانڈے، کوشل کشور، راجیو چندر شیکھر، سادھوی نرنجن، پرتاپ سنگھ ورما، کپل موریشور پاٹل، آر کے سنگھ، وی مرلیدھرن، ایل مروگن، راؤ صاحب دادا راؤ دانوے، سبھاش سرکار وغیرہ۔ لوگوں کا ان وزراء پر سے اعتماد ختم ہو چکا تھا اس لیے وہ ہار گیے، اسی اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مودی کو بھی اپنی معزول شدہ ٹیم کی صف میں شامل ہو جانا چاہیے۔
تیسری وجہ: منی پور کی تباہی پر اپنی خاموشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں سے بھاجپا ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی، کانگریس نے تقریباً ایک لاکھ کے زائد فرق سے دونوں سیٹیں جیت لی ہیں، بھاجپا اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی، اسے ان منی پوری عوام کا جواب سن کر دوبارہ حکومت نہیں بنانی چاہیے۔
چوتھی وجہ: ایودھیا نے بھاجپا کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جس کا نام لے کر بھاجپا نے سارے ملک میں ووٹ مانگے تھے، رام کی نگری نے بھاجپا کو بتایا کہ دھرم کے نام پر نفرت پھیلانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔
پانچویں وجہ: مودی کو حکومت بنانے میں پچھلے دس سال میں یو پی نے سب سے اہم کردار ادا کیا تھا، اس کی جیت کا سہرا یو پی ہی کو جاتا ہے لیکن آج اسی یو پی نے مودی کو گنگا کے گھاٹ پر لا کر چھوڑ دیا، بالکل اسی طرح جس طرح کوویڈ کے دوران ان گنت لاشیں چھوڑی جا رہی تھیں۔ کانگریس نے چار دہائیوں کے بعد الٰہ آباد کی سیٹ پر قبضہ کیا ہے، بی جے پی کو تقریباً ساٹھ ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی ہے۔ یہی وہ ریاست ہے جس نے 2014 میں مودی کو 71 سیٹیں دی تھیں اور 2019میں 62سیٹیں دی تھیں، اب یہ گھٹ کر تینتیس رہ گئی ہیں۔ چونکہ بھاجپا سادہ اکثریت سے بھی بتیس سیٹ کم ہے، اسی لیے یو پی سے ملنے والے پیغام کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
چھٹی وجہ: جب کانگریس نے امیٹھی سے اپنے امیدوار کا اعلان کرنے میں تاخیر کی تو مودی نے راہل گاندھی پر طنز کستے ہوئے کہا تھا کہ ’ڈرو مت راہل جی ڈرو مت‘۔ کانگریس نے آخری لمحات میں کشوری لال جن کے بارے میں بھاجپا نے کہا تھا کہ یہ دیکھیے کانگریس نے گاندھی خاندان کے پی اے کو میدان میں اتارا ہے، یہ صحیح ہے کہ وہ کوئی بڑے لیڈر تو نہیں تھے، لیکن انہوں نے سمرتی ایرانی کو ایک لاکھ ستر ہزار ووٹوں سے شکست دے دی، جتنے ووٹوں سے کشوری لال نے ایرانی کو شکست دی ہے اس سے کافی کم ووٹوں سے مودی نے جیت حاصل کی ہے۔
ساتویں وجہ: جہاں جہاں مودی نے نفرتی تقریریں کی ہیں، تقریباً ان سارے مقامات پر بھاجپا کو ہار کا منہ دیکھنا پڑا، بانسواڑہ راجستھان کی تقریر کو یاد کیجیے، جہاں انہیں محسوس ہوگیا تھا کہ ان کی گاڑی پھنس چکی ہے، دال اب گلنے والی نہیں، یہی وہ پہلا مقام ہے جہاں سے انہوں نے کھلم کھلا نفرتی تقریروں کا آغاز کیا تھا، اس مقام پر بھاجپا کو تقریباً ڈھائی لاکھ ووٹوں سے ذلت آمیز شکست ہوئی ہے۔ صرف یوپی میں ہی نہیں بلکہ کئی ہندی بولنے والی ریاستوں کے اہم مقامات پر بھی بھاجپا اہم نشستیں کھو چکی ہے، وہاں مودی کی نفرتی سیاست کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
مودی اپنے پورے سیاسی کرئیر میں ناقابل شکست رہے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار کمزور اور شکست خوردہ نظر آرہے ہیں، ایک ایسا شخص جس نے اپنے اتحادیوں کو کمزور کرنے اور ان کی پارٹیوں کو توڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی اور اپنے اتحادیوں کے بیچ جھوٹی مردانگی کا مظاہرہ کیا کرتا تھا، آج انہی اتحادیوں کے رحم و کرم کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ یہ اتحادی بھی ایسے ہیں جو کسی بھی وقت ان کے پیروں تلے سے زمین کھسکا سکتے ہیں، ان کا کوئی بھروسا نہیں ہے مودی کو اپنا بچا کھچا وقار باقی رکھنے کے لیے، اپنے خود ساختہ چھپن انچ کے سینے کو لے کر خاموشی کے ساتھ کاشی کے گھاٹوں میں جا بسنا چاہیے اور اگلے پانچ سال تک اپنے منتخبہ حلقے میں ایم پی لوکل ایریا ڈیولپمنٹ اسکیم کی نگرانی کرنا چاہیے۔
میں اس موقع پر دلت، یادو اور مسلمانوں کو اور ان سارے شہریوں کو جنہوں نے مودی کی نفرتی سیاست کو مسترد کیا ہے مبارکباد پیش کرتا ہوں، انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ملک نفرتی سیاست پر نہیں چل سکتا ہے، ہمارا سماج بنیادی طور پر امن پسند سماج ہے یہاں نفرتی سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یو پی، بنگال، مہاراشٹر اور راجستھان والوں کو خاص طور پر مبارکباد کہ انہوں نے شدید دباؤ کے باوجود نفرتی سیاست کو مسترد کردیا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جون تا 22 جون 2024