مودی کی نوازش، اڈانی کے لیے کوئلہ سونا اگل رہا ہے

ایک نیا گھوٹالہ بے نقاب۔ فائنانشیل ٹائمز کی رپورٹ

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

اڈانی گروپ کی لوٹ کا ایک اور ثبوت منظر عام آیا ہے۔ وزیراعظم مودی کے منظورِ نظر کی لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اب ایک نیا گھوٹالہ سامنے آیا ہے، وہ ہے کوئلے کی دلالی کا۔ کوئلے کو کالا سونا بھی کہا جاتا ہے اور پرانے زمانے سے ایک کہاوت چلی آرہی ہے کہ کوئلے کی دلالی میں منہ کالا ہو کے ہی رہتا ہے۔
آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) اور فائنانشیل ٹائمز کی جانب سے اڈانی گروپ کی کوئلہ معاملے میں دھوکہ دہی سے متعلق تحقیقات کی گئیں، انہوں نے تحقیقات کے بعد انکشاف کیا ہے کہ اڈانی گروپ نے کوئلے کی فروخت میں بے قاعدگیاں کی ہیں، اس پر ہر گوشے سے سوالات اٹھنے لگے ہیں اور جب اڈانی پر سوالات اٹھتے ہیں تو لازمی ہے کہ مودی پر بھی سوالات اٹھنے لگیں گے۔
لندن کے فائنانشیل ٹائمز میں ایک تحقیقاتی مضمون چھپا ہے، جس میں اس کوئلہ اسکام کی ساری تفصیلات بتائی گئی ہیں، اس سے قبل بھی اڈانی پر کوئلہ اسکام کی کچھ بازگشت سنائی دی تھی، ان پر الزامات لگ رہے تھے کہ انہوں نے کوئلے کے معاملے میں بے قاعدگیاں کی ہیں، لیکن کسی طرح سے اس کو منظر عام پر آنے سے روکا گیا تھا، کیوں کہ وہ مودی کے دست راز جو ٹھہرے۔ بہر حال فائنانشیل ٹائمز نے اس کی تفصیلات بیان کردی ہیں، اب دیکھنا ہوگا کہ مودی کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔
فائنانشیل ٹائمز کے مطابق گوتم اڈانی کی کمپنی نے جنوری 2014 میں انڈونیشیائی کوئلے کی ایک کھیپ خریدی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کوئلے کا معیار ساڑھے تین ہزار کیلوریز فی ٹن تھا۔ پھر اسی انڈونیشیائی کھیپ پبلک سیکٹر کی ایک کمپنی تمل ناڈو جنریشن اینڈ ڈسٹریبیوشن کمپنی جو ایک کمپنی کو چھ ہزار کیلوریز فی ٹن والے کوئلے کا معیار بتا کر بیچا گیا۔ کیلوری کوئلے کی کوالیٹی کو کہا جاتا ہے، چھ ہزار کیلوریز والے کوئلے کو اعلیٰ درجے کا کوئلہ مانا جاتا ہے، اڈانی نے انڈیا کی پبلک سیکٹر کمپنی کو دو طرح سے دھوکا دیا ہے، ایک تو زیادہ دام لگا کر کوئلہ بیچا اور دوسرے کوالیٹی میں بھی دھوکا دیا، کم کوالیٹی کو اچھی کوالیٹی کا بتا کر بیچا۔ اڈانی گروپ نے اس انڈونیشیائی کوئلے کو جو کہ کم کوالیٹی والا تھا اٹھائیس ڈالر فی ٹن کے حساب سے خریدا، پھر اسی کم کوالیٹی والے کوئلے کو اعلیٰ کوالیٹی کا بتا کر بانوے ڈالر میں بیچا ہے، یعنی آپ اندازہ لگائیے اس دھوکا دہی کا کہ ایک چیز جو بین الاقوامی بازار میں اٹھائیس ڈالر کی ہے، اسے بانوے ڈالر میں بیچا جا رہا ہے۔ اگر ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی جمع کرلیے جائیں تب بھی دوگنا سے بھی زیادہ منافع کمایا جا رہا ہے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ کوئلے کی دلالی میں منہ کالا ہوتا ہے لیکن یہاں تو منہ لال ہو رہا ہے۔
اڈانی نے انڈونیشائی کوئلے کو تمل ناڈو کی پبلک سیکٹر کمپنی کو اوسطاً چھیاسی ڈالر میں بیچا ہے، اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ اس کوئلے کی کوالیٹی تین ہزار پانچ سو کیلوریز ہی ہے، اسی کوئلے کو چھ ہزار کیلوری والے کوئلے کے طور پر بیچا گیا ہے، ہمارے ملک میں چھ ہزار کیلوریز والے کوئلے کی اوسطاً قیمت اکیاسی سے نواسی ڈالر فی ٹن ہوتی ہے، کم کوالیٹی کا کوئلہ منہگے داموں میں بیچا گیا۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو نکال لیا جائے تو اڈانی نے فی ٹن چھیالیس سے پچاس ڈالر اضافے میں بیچا ہے۔ اتنا بڑا دھوکا دیا گیا وہ بھی پبلک سیکٹر کمپنی کو۔ اور پبلک سیکٹر کمپنی کو دھوکا دینے کا مطلب عوام کو دھوکا دینا ہی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ سارا دھوکا دہی کا کام کسی حکومت کی پشت پناہی کے بغیر ہو؟ جو چیز سارے اخراجات کے بعد پینتیس تا چالیس ڈالر فی ٹن ملتی ہے اسی کو چھیاسی اور نوے ڈالر فی ٹن بیچا گیا ہے۔ اتنا بڑا اسکام حکومت کی ناک کے نیچے چل رہا ہو اور حکومت کو اس کی خبر نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ اڈانی پر اسکام کے الزامات لگے ہیں، اس سے پہلے بھی کئی بار ان پر دھوکا دہی کے الزامات لگ چکے ہیں۔ 2021 – 2022 میں ان پر اسی طرح کے الزامات لگے ہیں کہ انہوں نے کم کوالیٹی کا کوئلہ کم قیمت پر خرید کر اعلیٰ کوالیٹی کا بتا کر زیادہ قیمت پر بیچا ہے۔ 2016 میں ڈائریکٹر ریوینیو انٹیلیجنس نے بھی اسی طرح کے دھوکا دہی کے معاملات میں کیس درج کیے ہیں۔ ان معاملات سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کوئی ایک دن کا معاملہ نہیں ہے، اس طرح کی دھوکا دہی دس سال سے چلی آرہی ہے۔
اس کوئلے کی خرید و فرخت کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ ہے، اگر بالراست انڈونیشیا سے کوئلہ خرید کر تامل ناڈو کی پبلک سیکٹر کمپنی کو بیچا جاتا تو یہ دھوکا دہی ایک لمحے میں پکڑی جاتی، ان کی عیاری بھی بے مثال ہے۔ مثال کے طور پر اڈانی گروپ انڈونیشیائی کمپنی سے کوئلہ خرید رہا ہے، جو کہ اچھی کوالیٹی والے کوئلے کی کان کنی نہیں کرتی، پھر یہ کوئلہبرطانیہ کے ایک ورجن آئی لینڈ کی ایک انوسٹمنٹ کمپنی سپریم یونین انوسٹرس کے پاس جاتا ہے، وہاں سے سنگاپور کی ایک کمپنی جو کہ اڈانی کی ہی ایک معاون کمپنی ہے اس کے پاس آتا ہے، پھر وہاں سے تمل ناڈو کو منتقل ہوتا ہے۔ اس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے سے ہر ایک جگہ کے الگ الگ انوائیس بنتے ہیں، یہی وہ کھیل ہے جس سے پیسہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ کھیل اس وقت ظاہر ہوا جب انڈونیشیائی کمپنی اس کوئلہ کو برطانیہ بھیجنے کے لیے لوڈ کر رہی تھی، ایکسپورٹ ڈاکومنٹس میں واضح لکھا ہوا تھا کہ اس کوئلے کا فائنل ڈسٹینیشن تمل ناڈو ہے اور یہ کوئلہ ساڑھے تین ہزار کیلوریز والا ہے اور اس کی قیمت اٹھائیس ڈالر ہے۔ تمل ناڈو کی پبلک سیکٹر کمپنی جب اسی کوئلے کو انلوڈ کر رہی تھی اس کے ڈاکومنٹس میں لکھا تھا کہ یہ کوئلہ چھ ہزار کیلوریز کا ہے اور اس کی قیمت بانوے ڈالر ہے، جب ان ڈاکومنٹس کو کمپیر کیا گیا تو یہ سارا کھیل سامنے آ گیا اور چوری و دھوکہ دہی پکڑی گئی۔ یعنی ایک ایک ٹن پر تقریباً چھیالیس ڈالر منافع لیا جا رہا ہے، فنانشیل ٹائمز نے محض بائیس ٹرانزیکشن کی ہی اسٹڈی کی ہے، محتاط اندازے کے مطابق ان بائیس ٹرانزیکشن میں دیکھا گیا ہے کہ اڈانی نے ستر ملین ڈالرز یعنی سات کروڑ ڈالرز کمائے ہیں، جو ہندوستانی کرنسی کے تقریباً چھ سو کروڑ روپے کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ تو صرف بائیس ٹرانزیکشن کا حساب کتاب ہے، یہی عمل دس سال سے لگاتار جاری ہے، اندازہ لگائیے کہ یہ کتنا بڑا اسکام ہو گا۔ اس سارے اسکام میں مرکزی حکومت بھی حصہ دار ہے جس نے ریاستی حکومتوں کو یہ آرڈر جاری کیا کہ دیسی کوئلے کی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے اس لیے ریاستی حکومتیں لازمی طور پر کم از کم دس فیصد امپورٹیڈ کوئلہ خریدیں، لہٰذا ریاستی حکومتیں مرکزی حکومت کے دباو میں آ کر مجبوراً امپورٹیڈ کوئلہ خرید رہی ہیں۔ اب آپ کو بات واضح ہوگئی ہوگی، یہ پورا چکر آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ امپورٹیڈ کوئلہ کون بیچ رہا ہے؟ یہ اڈانی گروپ ہے جو کم کوالیٹی کا کوئلہ منہگے داموں پر بیچ رہا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ پاؤر جنریشن کمپنیاں گھاٹے میں چلی گئیں اور وہ منافع میں آنے کے لیے بجلی مہنگی فرخت کر رہی ہیں حکومت مہنگی بجلی خرید رہی ہے اور عوام کو مہنگی بجلی بیچ رہی ہے، بالآخر کنزیومر یعنی عوام بجلی کی مہنگائی سے بے حال اور پریشان ہیں۔ یہی وہ چکر ہے جو مودی اور اڈانی نے رچایا ہوا ہے جس سے راست طور اڈانی کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور عوام پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور مڈل کلاس پریشان ہے۔
ان سارے اسکامس کی بھر پور جانچ ہونی چاہیے اور اس کے لیے عوام کو تحقیقات کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ عوام نہ صرف مطالبہ کریں بلکہ انہیں سڑکوں پر اتر آنا چاہیے

 

***

 فائنانشیل ٹائمز کے مطابق گوتم اڈانی کی کمپنی نے جنوری 2014 میں انڈونیشیائی کوئلے کی ایک کھیپ خریدی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کوئلے کا معیار ساڑھے تین ہزار کیلوریز فی ٹن تھا۔ پھر اسی انڈونیشیائی کھیپ پبلک سیکٹر کی ایک کمپنی تمل ناڈو جنریشن اینڈ ڈسٹریبیوشن کمپنی جو ایک کمپنی کو چھ ہزار کیلوریز فی ٹن والے کوئلے کا معیار بتا کر بیچا گیا۔ کیلوری کوئلے کی کوالیٹی کو کہا جاتا ہے، چھ ہزار کیلوریز والے کوئلے کو اعلیٰ درجے کا کوئلہ مانا جاتا ہے، اڈانی نے انڈیا کی پبلک سیکٹر کمپنی کو دو طرح سے دھوکا دیا ہے، ایک تو زیادہ دام لگا کر کوئلہ بیچا اور دوسرے کوالیٹی میں بھی دھوکا دیا، کم کوالیٹی کو اچھی کوالیٹی کا بتا کر بیچا۔ اڈانی گروپ نے اس انڈونیشیائی کوئلے کو جو کہ کم کوالیٹی والا تھا اٹھائیس ڈالر فی ٹن کے حساب سے خریدا، پھر اسی کم کوالیٹی والے کوئلے کو اعلیٰ کوالیٹی کا بتا کر بانوے ڈالر میں بیچا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024