مودی کی قیادت میں بھارت بھوک میں ’’وشو گرو‘‘
تعلیمی نظام کی خامیاں غربت کی جڑیں مضبوط کر رہی ہیں
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ملک کو غربت کے خلاف موثر حکمت عملی کی ضرورت
اسلام کے معاشی اصولوں کو اپنا کر معاشی استحکام لایا جاسکتا ہے۔ زکوٰۃ سنٹر انڈیا کا 80 لاکھ کنبوں کو مالی استحکام فراہم کرنے کا منصوبہ
موجودہ حکومت ملک کو وشو گرو بنانے کے لیے میڈیا کے ذریعے خوب شور مچا رہی ہے کہ بھارت 2047 تک ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔ وزیر اعظم مودی ملک کو وشو گرو تو نہیں بنا سکے مگر باشندگانِ ملک کو بھوک میں "وشو گرو” ضرور بنا دیا ہے۔ نتیجے میں خوردنی مہنگائی میں اضافہ اور عالمی بھوک انڈیکس میں ہمارا مقام 127 ممالک میں 105واں ہوگیا ہے۔ مہنگائی نے قہر ایسا ڈھایا کہ غذائی تحفظ کے لیے 80 کروڑ سے زائد غریب راشن فراہم کرنے کے باوجود بھوک کا شکار ہیں۔ آج باشندگانِ ملک نان شبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں۔ 30 کروڑ آبادی خطِ افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ دوسری طرف سو امیروں کی دولت پہلی بار 90 لاکھ کروڑ روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ بڑے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کی دولت 2020 کے مقابلے میں چالیس فیصد کی رفتار سے بڑھ کر دوگنی ہو چکی ہے۔ اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ معاشی گرو کا گلوبل ہنگر انڈیکس میں مقام قابلِ فخر نہیں رہا۔ گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) میں ہمارا اسکور 27.3 ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں بھوک کی حالت سنگین ہے۔ اس سے قبل "ہنگر واچ” کی رپورٹ نے بھی ہماری حقیقی حالت کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ جب بھی کوئی عالمی ادارہ ہمیں آئینہ دکھاتا ہے تو ہم اسے مسترد کرنے میں تاخیر نہیں کرتے۔ جی ایچ آئی 2024 کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ناقص تغذیہ کی حالت تشویشناک ہے۔
تغذیہ کی کمی (undernourishment) سے واضح ہوتا ہے کہ کتنی آبادی کیلوریز کی مطلوبہ کھپت کے اعتبار سے سطح سے کم ہے۔ (child wasting) یعنی بچوں کا عمر کے لحاظ سے وزن کم ہونا، اس کے علاوہ بونے پن (child stunting) اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات (child mortality) جیسے مسائل شامل ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں ملک میں تغذیہ کی کمی دیکھی گئی ہے۔ کل ملا کر بھارت کا اسکور 27.3 ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ 2000 میں یہ اسکور 38.4، 2008 میں 35.2، 2016 میں 29.3 اور 2024 میں یہ اسکور قدرے بہتر ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں بھوک میں کمی ہو رہی ہے مگر حالت ابھی بھی سنگین ہے۔ عالمی بھوک کے خاتمے کا ہدف 2030 تک صفر تک پہنچنے کا ہے، جو کہ دنیا میں کہیں بھی حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ ہنگر انڈیکس میں اسکور صفر سے سو کے درمیان رکھا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے ہماری درجہ بندی پڑوسی ممالک سری لنکا (56) نیپال (68) اور بنگلہ دیش (84) سے کم ہے جبکہ پاکستان( 109) اور جنگ زدہ افغانستان سے قدرے بہتر ہے۔
127 ممالک میں 42 ممالک ایسے ہیں جہاں بھوک کی حالت بدتر ہے، اس کا تعلق سماجی حالات سے بھی ہے۔ آج بھی دنیا میں خواتین کو حاشیے پر رکھا گیا ہے۔ بھوک، موسمیاتی تبدیلی اور جنسی تفریق سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر خواتین بھوک کے مسائل سے دوچار ہوں گی تو ان کے بچے بھی متاثر ہوں گے۔ اس لیے بھوک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے معاشی سطح پر تغذیہ، صحت، صفائی اور سماجی بیداری لانا ضروری ہے۔ جنسی تفریق کا خاتمہ اور معاشی نا برابری کو کم کرنے کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔
ملک میں آمدنی اٹھنی اور خرچ روپیہ کا حساب چل رہا ہے، اس لیے کنبوں کے قرض کی مقدار جی ڈی پی کا 38 فیصد ہو چکی ہے۔ یہ ڈیٹا مالی سال 2023 کا ہے۔ "کیر ایچ ریٹنگز” کے مطابق رہائشی قرض اور غیر محفوظ قرض (پرسنل لون، کریڈٹ کارڈ ادھار وغیرہ) میں اضافے کی وجہ سے کنبوں پر قرض کا دباؤ بڑھ رہا ہے، حالانکہ جی ڈی پی کے مقابلے میں موجودہ تناسب مالی سال 2021 کے 39.2 فیصد سے کم ہے۔ گو کہ یہ بات تسلی بخش ہے کہ کنبے رہائشی قرض لے رہے ہیں اور خاندانی بچت میں بھی استحکام ہے مگر انفرادی قرض اور کریڈٹ کارڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے بچت پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ کورونا وبا کے بعد خرچ اور سرمایہ کاری کے لیے قرض کی بڑھتی ہوئی طلب سے خوردہ قرض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرعی اور کاروباری قرض بھی بڑھ رہا ہے۔ آر بی آئی کی رپورٹ کے مطابق جی ڈی پی کے مقابلے میں گھریلو قرض کی مقدار چالیس فیصد سے زائد ہے۔ آج خاندانی بچت میں کمی اور قرض میں اضافہ پر آر بی آئی نے بینکوں کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ افراط زر کی شرح میں اضافے کی وجہ سے بچت پر دباؤ بڑھا ہے۔ اس لیے وقتاً فوقتاً آر بی آئی گاہکوں کو کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں احتیاط برتنے کی ہدایت کرتا رہا ہے کہ جتنی چادر اتنے ہی پاؤں پھیلائیں۔
غربت کے ازالے کے لیے بھارتی معیشت میں وسعت کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ ماہ ہی ورلڈ بینک نے بھارت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے امریکہ کی موجودہ فی کس آمدنی کی ایک چوتھائی تک پہنچنے میں ابھی 75 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ورلڈ بینک نے یہ بھی واضح کیا کہ مڈل کلاس فی کس آمدنی کے جال میں پھنسنا بھارت کے لیے بہت ممکن ہے اور اسے 2047 تک ترقی یافتہ ملک بننے کے باوجود 20,080 ڈالر سالانہ فی کس آمدنی تک پہنچنے میں دشواری ہوگی، کیونکہ ہمارے ملک کی موجودہ فی کس آمدنی صرف 2,500 ڈالر سالانہ ہے۔ مزید برآں، عالمی معیار کے مطابق اونچے مڈل کلاس کی آمدنی کی حد 13,845 ڈالر تک ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق 1990 سے اب تک عالمی سطح پر صرف 34 ممالک وسطی درجہ کی آمدنی سے اپّر کلاس کی فی کس آمدنی کے دائرے میں پہنچ سکے ہیں جو مجموعی طور پر پچیس کروڑ کی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہمارا ملک بہت زیادہ جی ڈی پی والے دس بلند شرح والے ممالک میں سب سے کم فی کس جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، اور آج وہ 3.94 ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن 60ء سے 90ء کی دہائی تک معاشی اصلاحات کے باوجود فی کس آمدنی میں اضافہ دوگنے سے کم ہی درج ہوا ہے۔ اس لیے ورلڈ بینک کے مطابق بھارت کو بڑی انقلابی تبدیلیاں لانی ہوں گی ورنہ بڑی آبادی کے مڈل کلاس آمدنی کے جال میں پھنسے رہنا طے ہے۔
اس مقصد کے لیے حکومت کو معاشی پالیسیاں اور مالی کنٹرول کو مخصوص اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا اور اپنے مالی قرض پر انحصار کم کرنا ہوگا تاکہ نجی سرمایہ کاروں کے لیے سستے قرض کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ تعلیم پر صرفے کو سرمایہ کاری سمجھنا چاہیے اور معیشتی بچت کو بہتر سرمایہ کاری میں لگانے کے مقاصد پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ بازار کو اپنے روایتی طرز سے ہٹ کر زیادہ مقدار اور کم مارجن کے اصول پر چلنا ہوگا تاکہ قوتِ خرید بڑھ سکے۔ ہمارے ملک میں تعلیم اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ تعلیمی معیار بہتر نہ ہونے کے باعث بہت سے شہری اچھی تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں، کیونکہ حکومت کو خدشہ ہے کہ زیادہ تعلیم یافتہ عوام حکومت سے سوالات کرنے لگیں گے۔ ماہرین کے مطابق 2023 میں 24 کروڑ 40 لاکھ بچے اسکول نہیں جا پائے اور 2030 تک یہ تعداد مزید بڑھ جانے کا امکان ہے۔ غربت کے شکار والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے بجائے کھیتوں، ہوٹلوں اور گیراجوں میں بھیج دیتے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے برعکس، حقیقت میں ملک میں آٹھ کروڑ چالیس لاکھ بچے اسکول ہی نہیں جا پاتے۔
غربت کے خاتمے کے لیے حکومت روزگار کے مواقع، اسکول ڈیولپمنٹ، منریگا، نیشنل لائیولی ہڈ مشن اور اربن لائیولی ہڈ مشن جیسی اسکیمیں چلا رہی ہے۔ چھوٹے روزگار کے لیے مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کو سپورٹ دیا جا رہا ہے، لیکن بدعنوانی کی وجہ سے زیادہ تر اسکیمیں ناکام ثابت ہوتی ہیں۔
اسلام کی تعلیمات کے مطابق تمام انسان اللہ کی عیال ہیں اور دنیا کی تمام نعمتیں تمام انسانوں کے لیے یکساں ہیں۔ اسی تصور کو لے کر آگے بڑھنے میں ملک اور اہل ملک کی پائیدار ترقی ہے لیکن ملک میں اسلامی معیشت کا نفاذ مشکل نظر آتا ہے لیکن کمیونٹی کوششوں سے اسے کسی حد تک ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند زکوٰۃ سنٹر آف انڈیا کے ذریعے 80 لاکھ کنبوں کو مالی استحکام فراہم کرنے کا پروگرام رکھتی ہے۔ جماعت کی طرف سے دیہی غریبوں کے صحیح ڈیٹا کو مرتب کرنے اور معاشی بہتری کے لیے سہولتیں فراہم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔جماعت اسلامی نے مائیکرو فائنانس کا کام مؤثر طور پر جاری کر رکھا ہے جو غریبوں کو چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق زکوٰۃ اور عُشر کا نظام قائم کر کے اسے کمیٹیوں کے ذریعے جمع شدہ فنڈز کو مستحق افراد تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ بڑے زمینداروں کو ترغیب دی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی زمین کا کچھ حصہ غریبوں کے لیے وقف کریں۔ ان اقدامات کے ساتھ ہمیں حکومتی اسکیموں سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور بد عنوانی سے نمٹنے کے لیے مزید مؤثر نگرانی اور شفافیت کے نظام کو فروغ دینا چاہیے۔
ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے، غربت کے خاتمے اور معاشرتی استحکام کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو سرمایہ کاری کے طور پر لیا جائے، سماج کے معاشی مواقع کو بڑھانے کے لیے محنت کی جائے اور اسلامی معاشی اصولوں کی جانب رجوع کیا جائے۔ یہ تمام اقدامات مل کر غریب طبقے کو مفلسی کے جال سے نکالنے اور ملک کو ایک خوشحال اور باوقار مستقبل کی طرف لے جانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ٍ
***
اسلام کی تعلیمات کے مطابق تمام انسان اللہ کی عیال ہیں اور دنیا کی تمام نعمتیں تمام انسانوں کے لیے یکساں ہیں۔ اسی تصور کو لے کر آگے بڑھنے میں ملک اور اہل ملک کی پائیدار ترقی ہے لیکن ملک میں اسلامی معیشت کا نفاذ مشکل نظر آتا ہے لیکن کمیونٹی کوششوں سے اسے کسی حد تک ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند زکوٰۃ سنٹر آف انڈیا کے ذریعے 80 لاکھ کنبوں کو مالی استحکام فراہم کرنے کا پروگرام رکھتی ہے۔ جماعت کی طرف سے دیہی غریبوں کے صحیح ڈیٹا کو مرتب کرنے اور معاشی بہتری کے لیے سہولتیں فراہم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔جماعت اسلامی نے مائیکرو فائنانس کا کام مؤثر طور پر جاری کر رکھا ہے جو غریبوں کو چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق زکوٰۃ اور عُشر کا نظام قائم کر کے اسے کمیٹیوں کے ذریعے جمع شدہ فنڈز کو مستحق افراد تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ بڑے زمینداروں کو ترغیب دی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی زمین کا کچھ حصہ غریبوں کے لیے وقف کریں۔ ان اقدامات کے ساتھ ہمیں حکومتی اسکیموں سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور بد عنوانی سے نمٹنے کے لیے مزید مؤثر نگرانی اور شفافیت کے نظام کو فروغ دینا چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024