مودی جی : عدلیہ سے پنگا ،پڑے گا مہنگا

الیکشن کمیشن کی سلیکشن کمیٹی سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہٹانے کا ارادہ

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

کمشنر کی آزاد حیثیت ختم کرکے اسے بھی پنجرے کا طوطا بنانے کی کوشش!
مودی سرکار نےبہت سارے آزاد اداروں کے گلے میں پٹہ ڈال کر اپنا غلام بنارکھا ہے۔ عدالت کے ساتھ یہ نہیں کیا جاسکتا اس لیے اس کے اختیارات کو کم کرنے کی سعی کی جارہی ہے ۔ نت نئے قانون بناکر گھیرا بندی کی جارہی ہے۔ عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کی محاذ آرائی کانیا میدان الیکشن کمیشن ہے۔
عقلمند اور بیوقوف میں فرق یہ ہے کہ ایک اپنے دشمن کم کرتا ہے جبکہ دوسرا دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ انسان کا غرور جب اسے دوستوں سے بے نیاز کردے تو اس کے لیے یہ حماقت بہت ہی سہل ہوجاتی ہے۔ بی جے پی فی الحال اسی مصیبت میں گرفتار ہے۔ پہلے تو اس نے اپنے سیاسی مسابقین کو ڈرا دھمکا کر آپس میں متحد کردیا اور اس کے سبب ’انڈیا‘ نام کا ایک طاقتور الحاق عام وجود میں آگیا۔ اس نے تحریکِ عدم اعتماد کے دوران مودی سرکار کے بڑے بڑے مہارتھیوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ یہ مودی کی خانہ ویرانی کے لیے یہ مصیبت کیا کم تھی کہ ان لوگوں نے عدلیہ سے پنگا لے لیا ۔ یہ لوگ اس حقیقت کو بھول گئے کہ اس گئی گزری حالت میں بھی عدالتیں عوام کے امید کی آخری کرن ہیں۔ عام آدمی انتظامیہ اور مقننہ سےکہیں زیادہ اعتماد عدلیہ پر کرتا ہے۔ فی الحال کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب عدالت کی جانب سے بی جے پی کی مرکزی یا کسی نہ کسی ریاستی سرکار کو پھٹکار نہ پڑتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ کے تئیں دن بہ دن زعفرانیوں کا غصہ بڑھتا جارہا ہے۔ مودی جی کے ایک جانب فی الحال راہل کی آگ اور دوسری طرف چندرچوڑ کی کھائی ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ ’ اِ دھر جائیں یا اُدھر جائیں؟ بڑی مشکل میں ہیں وہ کدھر جائیں؟‘
مودی سرکار نےبہت سارے آزاد اداروں کے گلے میں پٹہ ڈال کر اپنا غلام بنارکھا ہے۔ عدالت کے ساتھ یہ نہیں کیا جاسکتا اس لیے اس کے اختیارات کو کم کرنے کی سعی کی جارہی ہے ۔ نت نئے قانون بناکر گھیرا بندی کی جارہی ہے۔ عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کی محاذ آرائی کانیا میدان الیکشن کمیشن ہے۔موجودہ حکومت نے الیکشن کمیشن کی سلیکشن کمیٹی سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہٹانے کا ارادہ کرلیا ہے تاکہ کمشنر کی آزاد حیثیت ختم کرکے اسے اپنے پنجرے کا طوطا بنا لیا جائے۔ مرکزی حکومت نے ایوان بالامیں ایک ایسا بل پیش کردیا ہے جو ملک کے اعلیٰ انتخابی عہدیداروں کی تقرری کے عمل سے چیف جسٹس کو باہر کردے گا۔ اس قانون کا نام چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کےتقرری، ملازمت کی شرائط اور دفتر کی میعاد بل، 2023 ہے۔اسے بالکل آخری وقت میں اچانک پیش کردیا گیا۔اس نئے بل میں پولنگ افسران کا تقرر کرنے کے لیے پینل تو ہوگا اور اس کی سفارش صدر مملکت کی خدمت میں پیش بھی ہوگی مگر اس کے اجزائے ترکیبی بدل جائیں گے یعنی اوپر سے تو کوئی تبدیلی نہیں ہوگی مگر اندر کایا پلٹ جائے گی ۔
فی الحال اس سہ رکنی کمیٹی میں وزیر اعظم کے ساتھ ایوان پارلیمان میں قائدِ حزب اختلاف اور چیف جسٹس ہوتے ہیں ۔ اس لیے اگر وزیر اعظم و چیف جسٹس کے درمیان اختلاف ہوجائے تو مؤخر الذکر کو فوقیت حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ حزب اختلاف کا قائد توسرکار کو زیر کرنے کا موقع کبھی بھی نہیں گنوا ئے گا ۔ اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ ایک ایسے فرد کو الیکشن کمشنر نامزد کردیا جائے جو دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو لیکن ایسا کرنا مودی جی کی رعونت کو گوارا نہیں ہے۔ وہ تو اپنی من مانی میں یقین رکھتے ہیں اس لیے اب کمیٹی سے حزب اختلاف کے قائد کو نہیں چھیڑا گیا مگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کودودھ سے مکھی کی مانند نکال پھینکنے کا بندو بست کیا جارہا ہے۔
سلیکشن کمیٹی میں چیف جسٹس کی جگہ وزیر اعظم کے ذریعہ نامزد کردہ مرکزی کابینہ کے وزیر کی موجودگی نہ صرف حزب اختلاف کی موجودگی کو بے اثر کردے گی بلکہ حکومت کو اپنی پسند کے الیکشن کمیشن بنانے کا راستہ صاف کردے گی۔ یہی کرنا ہے تو کمیٹی کا ڈھونگ کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ سیدھے سیدھے وزیراعظم کا دفتراعلان کردے ۔ نہ رہے کمیٹی اور نہ صدر مملکت کے ذریعہ توثیق کا ناٹک ۔ وزیر اعظم کی آمریت چونکہ اب زبان زدِ عام ہوچکی ہے اس لیے انہیں ان بیجا تکلفات سے بے نیاز ہوجانا چاہیے۔ وزیراعظم کو پینل کی جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے ہمت کرکے اپنے پالتو افسر کا تقرر کردینا چاہیے تاکہ وہ احسان مند رہے اور ان کے اشارے پر بھونکے اور حکم پاتے ہی مخالفین کو کاٹ کھائے۔ اس متنازعہ بل کا مقصد سپریم کورٹ کے مارچ 2023 میں صادر کیے جانے فیصلے کو کمزور کرنا ہے۔ اس وقت ایک آئینی بنچ نے کہا تھا کہ صدر مملکت چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کا تقرر وزیراعظم، چیف جسٹس آف انڈیا اور قائد حزب اختلاف پر مشتمل پینل کے مشورے پر کریں گے۔
مودی حکومت کے اس اقدام سے نہ صرف الیکشن کمیشن کی آزادانہ حیثیت پوری طرح ختم ہوجائے گی بلکہ ٹی این سیشن یا شہاب الدین قریشی جیسے کسی افسر کا پایا جانا ناممکن ہوجائے گا۔ فی الحال چیف الیکشن کمشنر کی طاقت سپریم کورٹ کے جج کے برابر ہے۔ وہ کابینی سیکریٹری کو جوابدہی کے لیے طلب کرسکتا ہے لیکن آگے چونکہ اسے کابینہ کے سیکریٹی کاہم پلہ کردیا جائے گا اس لیے اسے کوئی فوقیت نہیں ہوگی ۔ اس کے دانت توڑ دئیے جائیں گے اور ناخن کتر دئیےجائیں گے اور وہ سرکس کا شیر بن کر رہ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے ۔ اس کے خزانے میں سب سےزیادہ ما ل ودولت ہے۔ اس کے پیچھے سنگھ کا شاطر دماغ ہے۔ مودی جی کی مقبولیت آسمان کو چھورہی ہے اور وہ 2024کے بعد 2029 بھی انتخاب جیتنے کے لیے پرامید ہیں تو انہیں اپنی پسند کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور دیگر انتخابی افسران کی محتاجی کیوں ہے؟ سی جے آئی کو کنارے کرکے اپنی خواہش کے مطابق تقرر کرنا ایک تو یہ بتاتا ہے کہ انہیں یقین ہے چیف جسٹس ان کی پسند کے آدمی کو الیکشن کمشنر بننے نہیں دیں گے۔ وہ جسے اس عہدے پر فائز کریں گے وہ ان سے نہیں ڈرے گا اور آزادانہ فیصلے کرے گا ۔ ایسی صورتحال میں وہ انتخاب ہار جائیں گے۔
مودی جی کے دل میں شکست کا خوف ان سے یہ رسوا کن فیصلے کروا رہا ہے لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کامیابی بزدلوں کے قدم نہیں چومتی ۔ وزیر اعظم کو یہ ڈر مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اس تنازع کی ابتداء نومبر 2022 میں ہوئی جب سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے سامنے وکیل پرشانت بھوشن نے ارون گویل کی الیکشن کمشنر کی حیثیت سے تقرری کا مسئلہ اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ گویل موجودہ سکریٹری ہیں۔ عدالت میں ان کا معاملہ زیرِ سماعت تھا پھر بھی حکومت نے تقرری کردی۔ انھیں ازخود سبکدوشی کے ایک دن بعد کمشنر مقرر کیا گیا اور اگلے کام کے دن انہوں نے الیکشن کمشنر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کردیا۔ بھوشن نے طریقہ کار اور سیکورٹی کی ترکیب پراستفسار کیا ۔ جسٹس کے ایم جوزف کی صدارت والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے اٹارنی جنرل وینکٹ رمنا سے کہا کہ اس افسر کی تقرری کی فائلیں پیش کریں۔ آپ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہےتو الیکشن کمشنر کی تقرری سے متعلق فائلوں کو پیش کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں ہونا چاہیے۔
اٹارنی جنرل کی آنا کانی پر جسٹس جوزف نے یہ بھی کہا کہ جب تک کہ آپ کچھ خصوصی اختیار کا دعویٰ نہیں کرتے، ہم دیکھیں گے کہ چیزیں کیسے کام کرتی ہیں؟انہوں نے دورانِ سماعت الیکشن کمیشن سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے یہ تلخ تبصرہ بھی کیا کہ ملک میں یکے بعد دیگرے مرکزی حکومتوں نے الیکشن کمیشن کی آزادی کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔ اپنے اس تلخ تبصرے کے حق میں عدالت عظمیٰ کی یہ دلیل تھی کہ 1996 کے بعد سے کسی بھی چیف الیکشن کمشنر (CEC) کو 6 سال کی پوری مدت نہیں ملی کیونکہ کہ اس کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔ اس کا فائدہ اٹھاکر ہر حکومت مختصر مدت کے لیے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرتی رہی ہے۔جسٹس کے ایم جوزف کی آئینی بنچ نے اس اقدام کو خطرناک قرار دیا۔
سپریم کورٹ میں اس وقت چار مفاد عامہ کی عرضیاں (PILs) زیر سماعت تھیں ۔ ان میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ سی ای سی اور الیکشن کمیشن میں تقرریوں کے لیے صدر کو نام تجویز کرنے کے لیے ایک غیر جانبدار اور آزاد سلیکشن پینل تشکیل دیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر عدالت کو چاہیے کہ وہ مرکزی حکومت کو ہدایت دے۔ عدالت نے پہلے تو سوال کیا تھاکہ آخر بہترین فرد کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ اس کے لیے درکار شفاف نظام کیسا ہو؟ کئی دہائیوں کے بعد بھی اگر پیش رفت نہیں ہورہی ہو تو عدالت خاموش تماشائی نہیں بنی رہ سکتی۔ اس کے ساتھ اعتراف کیا گیا کہ اسے پتہ ہے یہ آسان حل نہیں ہےلیکن عدالت کم از کم روشنی کی تلاش تو کرہی سکتی ہے۔عدالت عظمیٰ نے سرکاری وکیل یعنی اے جی سے دریافت کیا کہ وہ واضح انداز میں بتائیں کیا حکومت سی ای سی یا ای سی کی تقرری میں‌ کسی طریقہ پرعمل کرتی بھی ہے یا نہیں ؟ اپنے تبصرے کے دوران سابق الیکشن کمشنر ٹی این شیشن کا حوالہ دے کر بینچ نے کہا ایسا شخص کبھی کبھی آتا ہے۔ ہمیں ایسے سی ای سی کی ضرورت ہے، جسے دبایا نہیں جا سکتا۔ اس لیے تقرر کا ضابطہ اہم ہے۔عدالت نے فرد کے کردار کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا الیکشن کمشنر اتنا پروقار ہوکہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے اوپر بلڈوزرچلانے کی اجازت نہ دے ۔ اس کو وزیراعظم یا کسی اور سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو۔ ایسے آدمی سے مودی جیسے خود سر حکمراں کو بہت فرق پڑتا ہے اس لیے وہ عدلیہ کے ہی پیچھے پڑجاتے ہیں۔
مودی جی اپنے آپ کو کتنا بھی بڑا سمراٹ کیوں نہ سمجھتے ہوں لیکن جب سے چندر چوڑ چیف جسٹس بنے ہیں یکے بعد دیگرے کئی فیصلے سرکار کی مرضی کے خلاف ہوئے ہیں ۔ ان میں مودی کی دشمنِ خاص تیستا سیتلواد کی ضمانت بہت اہم ہے۔ وہ فیصلہ تو خیر چیف جسٹس نے خود کیا تھا مگر اس سے حوصلہ پاکر جسٹس گوائی نے بھی راہل گاندھی کو ضمانت دے دی اور گجرات کی عدلیہ پر کچھ بولنے ہی والے تھے کہ ہاتھ جوڑ کر سرکاری وکیل تشار مہتا نے انہیں روک دیا لیکن یہ معاملہ وہیں ختم نہیں ہوا بلکہ عدالت عظمیٰ نے صفائی ستھرائی کا کام شروع کردیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی ابتداء تین اگست کو ہو گئی تھی مگر اس کی خبرذرائع ابلاغ میں ایک ہفتہ بعد آئی۔ سپریم کورٹ کے کالجیم نے گجرات ہائی کورٹ کے چار ججوں کے تبادلے کی سفارش کرکے بتا دیا کہ اب مودی اور شاہ کے آگے دم ہلانے والے ججوں کی خیر نہیں ہے۔ اس سے دیگر لوگوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ انہیں مودی سرکار سے ڈرنے کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں نے اگر سرکار سے ڈر کر انصاف کو بالائے طاق رکھا تو انہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی اور مودی جی و شاہ جی نہیں بچا سکیں گے۔
سپریم کورٹ کے کالجیم نے اس بار چن چن کر بدلا لیااور ایک کو بھی نہیں چھوڑا۔ گجرات سے جن لوگوں کو گجرات سے تڑی پار کیا گیا ان میں سرِ فہرست کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے میں سزا معطل کرنے سے انکار کرنےوالےجسٹس ہیمنت پراچک ہیں ۔ ان کو بہار کے پٹنہ ہائی کورٹ میں منتقل کیا جائے گا۔گجرات کے عیش پسند لوگوں کے لیے پٹنہ جانا کالے پانی سے کم نہیں ہے۔ تبادلہ شدگان میں سے ایک جسٹس گیتا گوپی بھی ہے ۔ انہوں نے خودراہل گاندھی کے مقدمہ سے معذرت چاہ لی تھی تو انہیں تمل ناڈو روانہ کردیا گیا۔ اس کے علاوہ جسٹس سمیر دوے کا تبادلہ راجستھان ہائی کورٹ کیا گیا۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں راحت کے بعد تیستا سیتلواد کے معاملے سے خود کو الگ کرلیا تھا۔ وہ بیچارے بھی کیا کرتے ؟ ایک طرف مودی جی کادباو کہ تیستا سیتلواد کو ضمانت نہیں دو اور دوسری جانب سپریم کورٹ کی پھٹکار کا اندیشہ۔ ان دونوں دباوسے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے بھاگ جاو اس لیے دوے تو کالیجیم کے شکر گزار ہوں گے اور ویسے بھی راجستھان دور کہاں ہے؟ ان کے علاوہ جسٹس اے وائی کوگجے کو نہ جانے کس بات کی سزا دی گئی یا انہوں نے خود آدرش گجرات کے جبر سے اپنی جان چھڑا لی۔ انسان کا بھی آخر ایک ضمیر ہوتا ہے سبھی لوگ مودی یا شاہ کی مانند سنگ دل نہیں ہوتے۔
یہ کمال گردشِ زمانہ ہے کہ نومبر 2018 میں گجرات ہائی کورٹ کے جسٹس عقیل قریشی کا ممبئی ہائی کورٹ میں تبادلہ کردیا گیا تو گجرات ہائی کورٹ کے وکلاء نے’’ آزاد عدلیہ ‘‘ پر کار ی ضرب قراردیا ۔احمد آباد۔ ایڈوکیٹ اسوسیشن نےاس کے خلاف غیر معینہ مدت کی ہڑتال کا اعلان بھی کیا تھا۔ جی ایچ اے اے نے الزام لگایا تھا جسٹس قریشی کا تبادلہ مخص اس لیے کیاگیا کیوں وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔سال2010-11کے درمیان قریشی ایسے بہت سارے مقدمات میں پریسائڈنگ جج تھے جس میں مودی اور شاہ ملوث تھے۔ اپنی قرارداد میں جی ایچ اے اے نے کہاکہ’’ بار اسوسی ایشن نے اتفاق رائے سے اس تبادلہ کو افسوسناک فیصلہ بتا کر اسے انتظامی انصاف کی سخت خلاف ورزی قرار دیا۔ جسٹس قریشی گجرات ہائی کورٹ کے سب سے سینئر جج تھے اور انہیں چیف جسٹس آر سبھاش ریڈی کے سپریم کورٹ میں تبادلہ کے بعد گجرات ہائی کورٹ کے کارگذار چیف جسٹس کی خدمات انجام دینی تھی۔اس ترقی سے انہیں محروم رکھنے کی خاطر یہ بدلے کی کارروائی کی گئی تھی لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ کالجیم احمد آباد ہائی کورٹ کے ججوں کا تبادلہ کرنے پر تلا ہوا ہے اور اس کے سامنے مودی اور شاہ بے بس ہیں ۔
چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے قبل جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کئی متنازع فیصلوں کے حصے دار رہے ہیں لیکن اب ان کے تیور بدلے ہوئے ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کےتعلقات ہمیشہ سے خراب رہے ہیں۔ ان کی حلف برداری کے موقع پر مودی کے علاوہ سارے اہم لوگ موجود تھے۔ مودی جی کے پاس بھی کوئی معقول عذر نہیں تھا بلکہ وہ انتخابی مہم میں مصروف تھے اس لیے انہوں نے ایک ٹویٹ پر اکتفاء کیا تھا ۔ حلف برداری کے بعد جسٹس چندر چوڑ نے کہا تھا کہ ان کی ترجیحات عوام اور ان کے حقوق ہیں یعنی سرکار کے عوام دشمن فیصلوں کی تائید و حمایت کی غلطی وہ نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عدلیہ کے وقار کو بحال کرنے کا عزم بھی کیا تھا۔ جسٹس گوگوئی اور جسٹس بوبڑے جیسےلوگوں کے ذریعہ عدالتوں کی مٹی پلید کے بعد اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ وہ اختلاف رائے کو ’پریشر والو‘ قرار دے کر اس کو ضروری سمجھتے ہیں جبکہ وزیراعظم مودی کے لیے اختلاف کے معنیٰ بغاوت ہوتا ہے ایسے میں الیکشن کمیشن کی تقرراتی کمیٹی سے ان کو دور رکھا جانا توقع کے عین مطابق ہے ۔ اس کے ساتھ گجرات کے ججوں کاتبادلہ بتاتا ہے کہ چندرچوڑ نے اپنے اعلان کہ ’ ان کے ’الفاظ‘ یا جملے نہیں بلکہ ان کا کام بولے گا‘ کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں ۔ آئندہ انتخاب میں اگرمودی کا کام تمام ہوجائے تو اس میں چیف جسٹس چندر چوڑ کا بھی حصہ ہوگا کیونکہ انہوں نے موجودہ استبداد کے خوف کوختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے؟
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 مودی جی کے دل میں شکست کا خوف ان سے یہ رسوا کن فیصلے کروا رہا ہے لیکن انسانی تاریخ گواہ ہے کامیابی بزدلوں کے قدم نہیں چومتی ۔ وزیر اعظم کو یہ ڈر مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اس تنازع کی ابتداء نومبر 2022 میں ہوئی جب سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے سامنے وکیل پرشانت بھوشن نے ارون گویل کی الیکشن کمشنر کی حیثیت سے تقرری کا مسئلہ اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ گویل موجودہ سکریٹری ہیں۔ عدالت میں ان کا معاملہ زیرِ سماعت تھا پھر بھی حکومت نے تقرری کردی۔ انھیں ازخود سبکدوشی کے ایک دن بعد کمشنر مقرر کیا گیا اور اگلے کام کے دن انہوں نے الیکشن کمشنر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کردیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اگست تا 26 اگست 2023