مودی حکومت کا نیا شوشہ ’سیکولر سیول کوڈ‘

77ویں یوم آزادی کے خطاب کو وزیر اعظم نے سیاسی رنگ دے دیا

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد،حیدرآباد

’ایک ملک ایک الیکشن‘ کا راگ لیکن الیکشن کمیشن کا چار ریاستوں میں ایک ساتھ الیکشن کرانے سے گریز
یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم کا خطاب بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ساری قوم کی نظریں ان کی تقریر کی طرف لگی رہتی ہیں۔ لال قلعہ کی فصیل سے کیے جانے والے وزیر اعظم کے خطاب کو اس لیے اہمیت دی جاتی ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ کے منصوبوں سے بھی عوام کو آگاہ کرتے ہیں۔ لیکن جب سے وزیر اعظم مودی یوم آزادی کے موقع پر خطاب کرنے لگے ہیں اس کی نوعیت بالکلیہ بدل گئی ہے۔وہ اس یادگار موقع پر ملک کے عوام کو کوئی مثبت پیغام دینے کے بجائے انتخابی انداز کی تقریر کرنے لگے ہیں۔ اس سال وزیر اعظم مودی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے مسلسل 11ویں مرتبہ یوم آزادی کے موقع پر قوم سے خطاب کیا۔ تیسری معیاد کے آغاز پر یہ ان کا پہلا خطاب تھا۔ ملک کے عوام یہ توقع کر رہے تھے کہ وزیراعظم عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ٹھوس اعلانات کریں گے۔ اس کے برعکس انہوں نے ایسے متنازعہ موضوعات کو اپنی تقریر کا عنوان بنایا جس کی نہ قوم کو ضرورت ہے اور نہ ملک کے حالات اس کا تقاضا کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں ملک میں ’’سیکولر سیول کوڈ‘‘ کی بات کہہ دی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ سیول کوڈ ’’فرقہ وارانہ‘‘ رنگ لیے ہوئے ہے۔ یہ سیول کوڈ ملک کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرتا ہے اور اس سے عدم مساوات کی فضاء ملک میں پھیلتی ہے۔ اس کے بجائے ان کی حکومت ملک میں ایک ’’سیکولر سیول کوڈ‘‘ کو نافذ کرنے کی جانب پیش رفت کر رہی ہے اور یہی وقت کا تقاضا ہے۔ وزیر اعظم نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ وہ سیکولر سیول کوڈ کس نوعیت کا ہوگا۔ دستور ہند میں جس یکساں سیول کوڈ کا تذکرہ کیا گیا وہ اس سے کس طرح مختلف ہے۔ دستور سازوں نے دستور کے رہنمایانہ اصولوں کے تحت جس یکساں سیول کوڈ کو عوام کو اعتماد میں لے کر لاگو کرنے کی بات کی تھی، اسے وزیر اعظم فرقہ وارانہ سیول کوڈ سے تعبیر کرتے ہیں تو یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے۔ دستور کی دفعہ 44 کے تحت یہ کہا گیا کہ مملکت اس بات کی کوشش کرے گی کہ ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کیا جائے۔ لیکن اس معاملہ میں کوئی زور و زبردستی نہیں کی جائے گی۔ دستور کے بانی ڈاکٹر امبیڈکر نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’کوئی فاتر العقل حکومت ہی زبردستی یکساں سیول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی ‘‘ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان کئی مذاہب کا گہوارہ ہے ۔ اس ملک کے شہریوں کے رسم و رواج بھی جداگانہ نوعیت کے ہیں۔ اس لیے ایسے ملک میں جو تکثیری سماج (Pluralistic Society ) کا جیتا جاگتا نمونہ ہو وہاں سب کے لیے ایک قانون بنا دینا ملک میں انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس لیے یکساں سیول کوڈ کو رہنمایانہ اصولوں میں شامل کیا گیا تاکہ کوئی حکومت زبردستی ان کو نافذ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ یہ محض ہدایات ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت یکساں سیول کوڈ کو سارے شہریوں پر نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ خود دستور کی خلاف ورزی ہوگی۔ ملک میں جب کبھی یونیفارم سیول کوڈ کی بحث چھڑی ہے سماج کے مختلف طبقات نے مخالفت کی۔ اب مودی حکومت سیکولر سیول کوڈ کے نام پر ایک مخصوص سیول کوڈ کو ملک کے تمام شہریوں پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔
بھارت میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ اور ایک ملک ایک الیکشن بی جے پی کے 2024کے لوک سبھا الیکشن کے انتخابی منشور کا حصہ رہے ہیں۔ بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ اسے تیسری مرتبہ حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو وہ ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرے گی اور سارے ملک میں بیک وقت انتخابات منعقد کرائے گی۔ اپنے اسی انتخابی ایجنڈہ کے پیش نظر 77ویں یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نے انہیں اپنے خطاب میں شامل کیا۔ بی جے پی عرصہ دراز سے ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا مسئلہ عوام کے درمیان لاتی رہی۔ لیکن اب ایک نئی بات وزیر اعظم نے یہ کہہ دی کہ ملک کا دستور جس یکساں سیول کوڈ کی بات کرتا ہے وہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے اس فرقہ وارانہ سیول کوڈ کے ساتھ 75سال گزار دیے ہیں جب کہ یہ سیول کوڈ امتیازی سلوک کو فروغ دیتا ہے۔ ملک کی 140کروڑ عوام وزیر اعظم کے اس بیان پر حیران و ششدر ہیں کہ وہ کونسے سیول کوڈ کی بات کر رہے ہیں۔ ملک کی آزادی کے 77مکمل ہوچکے ہیں لیکن ابھی ملک میں کوئی سیول کوڈ نافذ نہیں ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے ’’سیکولر سیول کوڈ ‘‘ کا شوشہ چھوڑ کر ملک کے سیکولر دستور پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ آیا ہمارا ملک سیکولر ہے یا نہیں یہ سب سے پہلے طے کرنا ہوگا۔بھارت کا دستور کہتا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے لیکن وزیراعظم نریندرمودی نے سیاسی مقصد براری کے لیے لال قلعہ سے ایسی متنازعہ باتیں کہہ دیں کہ اس پر ملک میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ یکساں سیول کوڈ کبھی بھی ملک کی ضرورت نہیں رہا البتہ بی جے پی کے لیے یہ ہمیشہ ایک انتخابی موضوع رہا۔ قوم سے اپنے 96 منٹ طویل خطاب میں جو ان کی سب سے طویل یوم آزادی کی تقریر تھی، وزیر اعظم نے گیارہ سال میں پہلی مرتبہ یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ پر بات کی ہے۔ جب کہ 1989 سے بی جے پی کے لوک سبھا کے انتخابی منشوروں میں اس کا تذکرہ ہر مرتبہ کیا جاتا رہا۔ 2024 کے لوک سبھا کے انتخابی منشور میں بی جے پی نے اسے اہم ترین مسئلہ کے طور پر شامل کیا۔ بی جے پی یہ دعویٰ کرتی رہی کہ وہ ایک ایسا یکساں سیول کوڈ وضع کرنا چاہتی ہے جو بہترین روایتی طریقوں اور جدید اصولوں کا حسین امتزاج ہو۔ لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک میں ایسا سیول کوڈ نافذ کیاجائے گا جو دستور میں دفعہ 44کے تحت بیان کردہ یکساں سیول کوڈ سے مختلف ہو گا۔ سب سے پہلے تو ان لوگوں کو سیکولرزم کے معنی اور مفہوم کو سمجھنا ہوگا جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کے دستور میں موجود سیول کوڈ، سیکولر نہیں ہے بلکہ فرقہ وارانہ اور امتیازی نوعیت کا ہے۔ الفاظ کے اس اُلٹ پھیر میں گئے بغیر حکومت کی نیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی اپنی تیسری معیاد کے دوران یکساں سیول کوڈ کو کسی نہ کسی شکل میں ملک میں نافذکرنے کی کوشش کرے گی۔ بی جے پی نے اپنی گزشتہ معیاد کے دوران بھی یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ کو چھیڑ کر ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی تھی۔ اس کے لیے لا کمیشن کو بھی استعمال کیا گیا۔ ایک سوال نامہ تیار کرکے عوام سے رائے لی گئی۔قومی سطح پر اگرچیکہ یکساں سیول کوڈ نافذ نہیں کیا گیا لیکن بعض بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستیں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان میں آسام، اتراکھنڈ اور اتر پردیش کی حکومتیں پیش پیش ہیں۔ 2024کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔ حکومت بنانے کے لیے حلیف پارٹیوں سے مدد لینی پڑی۔ اس لیے پارلیمنٹ میں یکساں سیول کوڈ کے لیے قانون سازی کا مرحلہ نہیں آسکا۔ اگر انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر مل جاتی اور بی جے پی کم ازکم تین سو لوک سبھا کے حلقوں میں کامیابی حاصل کرلیتی تو ملک میں یکساں سول کوڈ کا قانون منظور ہوجاتا اور لاگو بھی کر دیا جاتا ۔
ایک ملک-ایک الیکشن بھی وزیر اعظم مودی کی یوم آزادی کی تقریر کا اہم موضوع رہا۔ بی جے پی نے اس کا تذکرہ بھی اپنے انتخابی منشور میں کر دیا ہے۔سارے ملک کی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے الیکشن کو بیک وقت منعقد کرنے کا مقصد دراصل ایک پارٹی کی حکم رانی کو ملک میں قائم کرنا ہے۔ بھارت میں کثیر جماعتی نظام رائج ہے۔ بی جے پی اس کو ختم کرکے ایک جماعتی نظام کی طرف ملک کو لے جانا چاہتی ہے۔ سیاسی ماہرین جانتے ہیں کہ اسمبلی الیکشن میں علاقائی مسائل زیر بحث آتے ہیں جب کہ پارلیمنٹ الیکشن میں قومی مسائل پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ ملک میں اگر بیک وقت اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے الیکشن ہوں تو مقامی مسائل نظرانداز کردیے جاتے ہیں اور ساری توجہ قومی مسائل پر مرکوز ہوتی ہے۔ اسی لیے اپوزیشن پارٹیوں نے ایک ملک-ایک الیکشن کے تصور کی مخالفت کی ہے۔ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی۔ اس کمیٹی نے حکومت کو اپنی رپورٹ پیش کر دی جس میں ایک ملک-ایک الیکشن کی حمایت کی گئی ہے۔ کمیٹی کی تشکیل کے بعد سے ہی اندیشے ظاہر کیے جا رہے تھے۔ مذکورہ کمیٹی حکومت کی تشکیل کردہ ہے لہذا وہ حکومت کی حمایت کرے گی۔ بھارت جیسے وسیع و عریض ملک میں بیک وقت انتخابات کا انعقاد ناممکنات میں سے ہے۔ ابھی جو لوک سبھا کا الیکشن ہوا اس کو سات مرحلوں میں مکمل کیا گیا، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کی 29 ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمانی انتخابات ایک وقت میں منعقد ہوں؟ اس سے تو جمہوریت ہی خطرے میں پڑجائے گی اور صاف اور شفاف الیکشن کا تصور ہی ختم ہوجائے گا۔ الیکشن کمیشن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ سارے ملک میں بیک وقت انتخابات کرواسکے۔ ان زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بھی بی جے پی ایک ملک-ایک الیکشن کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جمہوری قدروں کی پامالی چاہتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی آزادی کے چند برسوں تک بیک وقت اسمبلیوں اور لوک سبھا کے الیکشن ہوتے رہے لیکن بعد میں عملی دشواریوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسے الگ الگ وقتوں پر منعقد کیا جاتا رہا۔ اب جب کہ ملک کی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے اور رائے دہندوں کی تعداد بھی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ایسے میں ایک ملک-ایک الیکشن کا تصور ایک خیال خام ہے۔ وزیراعظم نے اپنے یوم آزادی کے خطاب میں بنگلہ دیش میں ہونے والے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 140کروڑ بھارتی، پڑوسی ملک میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کی حفاظت و سلامتی کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ان کی یہ فکر مندی ٹھیک ہے لیکن خود ان کے اپنے ملک میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا گیا اس پر انہوں نے کوئی لب کشائی نہیں کی۔ خود انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے جو بیان بازیاں کی ہیں اس پر جہاں مسلمانوں کو ذہنی کوفت ہوئی ہے وہیں بین الاقوامی سطح پر ان کے غیر معیاری خطابات کا سخت نوٹ لیا گیا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ ‘‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا کہ وزیر اعظم مودی نے 2024کے لوک سبھا انتخابات کی مہم کے دوران 110انتخابی تقاریر میں ’’اسلاموفوبیائی‘‘ریمارکس کیے تھے۔ اگر وہ بنگلہ دیش کی اقلیتوں سے ہمدردی کے ساتھ اپنے ملک کی اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ انصاف اور مساوات کا سلوک کرتے تو بات انصاف کی ہوتی۔ پڑوسی ملک کی عوام سے اس قدر تعلق خاطر اور اپنے ہی شہریوں کے تئیں نفرت و عناد کا رویہ حکومت کی دوہری پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے ملک کی نیک نامی متاثر ہوتی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 اگست تا 31 اگست 2024