مودی حکومت 3.0 کا پہلا سال

ملک میں لاقانونیت اور اقلیت مخالف مہم میں شدت

0

نوراللہ جاوید، کولکاتا

حکمراں جماعت، ہندتو تنظیمیں، پولیس اور میڈیا کا گٹھ جوڑ۔ہندو تہواروں کو مسلم فوبیا کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے
نفرت انگیز تقاریر میں وزیراعظم مودی، وزیر داخلہ سمیت بی جے پی کی اعلیٰ قیادت شامل۔ مبنی بر تعصب واقعات پر اے پی سی آر کی رپورٹ
عجیب اتفاق ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کی تیسری مدت کا پہلا سال اور ایمرجنسی کے 50 برس ایک ساتھ مکمل ہو رہے ہیں۔ حکم راں جماعت بی جے پی جہاں پہلے سال کے مکمل ہونے پر جشن منا رہی ہے، وہیں ایمرجنسی کے بہانے کانگریس کے آئین کے احترام پر سوالات کھڑے کر رہی ہے۔ دوسری طرف کانگریس، بی جے پی کے طرز حکم رانی پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ الزامات عائد کر رہی ہیں۔ اس بہانے یہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ گیارہ سالہ مودی حکومت کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی زیادہ خطرناک ہے یا پھر پچاس سال قبل سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ذریعہ لگائی گئی ایمرجنسی؟ دو سالہ ایمرجنسی میں اظہارِ رائے کی آزادی، مذہبی آزادی، وفاقی اداروں کی خود مختاری اور ملک کی اقلیت، بالخصوص مسلمانوں کی سلامتی اور شناخت پر زیادہ حملے کیے گئے تھے یا ان گیارہ برسوں میں؟ یہ بحث کافی طویل ہو سکتی ہے۔ انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس میں ایمرجنسی کے پچاس برس مکمل ہونے پر کمیونسٹ لیڈر و سابق ممبر پارلیمنٹ برندا کرات کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کا اختتام وہ اس طرح کرتی ہیں:
’’ایمرجنسی دو سال سے کم وقت تک نافذ رہی۔ اس کے بعد ملک سنبھل گیا، اس کے باوجود آج جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ صرف ایک ریہرسل تھا۔ آج ہمارے آئینی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے انتھک اقدامات کیے جا رہے ہیں، طاقت کا ارتکاز ہو رہا ہے، ملک کے وسائل اور سرمایے کو چند بڑے کاروباری گھرانوں کے حوالے کیا جا رہا ہے، اقتصادی عدم مساوات کی خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے، اقلیتی برادریاں مسلسل نشانے پر ہیں۔ ایمرجنسی کی 50ویں سالگرہ بھارت کی جمہوریت اور بھارت کے آئین کو بچانے کے عہد کی تجدید کا ایک اہم موقع ہے۔‘‘
اس کے علاوہ مذکورہ اخبار نے 27 جون کے اپنے اداریہ 50 Years Since Emergency: Lest We Forget میں اشارہ و کنایہ میں ملک کے موجودہ حالات سے متعلق بہت کچھ کہہ دیا ہے کہ آج ملک کس ڈگر پر چل رہا ہے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ دو سالہ ایمرجنسی اور مودی حکومت کے گیارہ برسوں کا موازنہ کیوں کیا جا رہا ہے اور ملک میں اقلیتوں کی سلامتی، مذہبی شناخت اور مذہبی آزادی کا سوال کتنا اہم ہوگیا ہے۔
مودی حکومت کے گیارہ سالہ دور میں اقلیتوں کو جن حالات و مشکلات کا سامنا ہے، اس کی سیاسی محرکات کو حکم راں جماعت کی نظریاتی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ تاہم، سوال صرف نظریہ و فکر کا نہیں بلکہ قانون کی حکم رانی تک پہنچ گیا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا ہے وہ سراسر لاقانونیت کی مثال ہے۔ سوال صرف یہ نہیں ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ملک کی اقلیت، آئین و جمہوریت کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ملک میں قانون کی حکم رانی باقی ہے؟ گڈ گورننس اور لاقانونیت، عدم مساوات اور آئین مخالف اقدامات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ 2006 میں قائم ہونے والی حقوقِ انسانی کی تنظیم The Association for Protection of Civil Rights (APCR) نے اس ہفتے ایک رپورٹ Hate Crime Report: Mapping First Year of Modi’s Third Government جاری کی ہے۔
یہ رپورٹ ملک میں لاقانونیت، اقلیت مخالف جذبات میں شدت، اس کے پس پشت سیاسی عوامل اور حکمت عملی کی نشان دہی کرتی ہے۔ رپورٹ میں ہندتوا طاقتوں، پولیس انتظامیہ اور میڈیا کے گٹھ جوڑ کی تفصیل دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کس طرح دائیں بازو کی جماعتیں منصوبہ بند طریقے سے اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں اور پولیس انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے — بلکہ بعض اوقات پشت پناہی بھی کر رہی ہے۔ قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے اور اس پورے منظر نامے میں میڈیا کا کردار سب سے زیادہ مشکوک ہے۔ میڈیا نے نفرت انگیز ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں معاون کا کردار ادا کیا ہے۔ اے پی سی آر کی رپورٹ میں وزیر اعظم مودی کے تیسرے دور حکومت (7 جون 2024 سے 7 جون 2025) کے درمیان پیش آنے والے نفرت انگیز جرائم اور واقعات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں مجرموں اور متاثرین کی شناخت، واقعات کے محرکات اور شدت کو واضح کرتے ہوئے نفرت انگیز جرائم اور تقاریر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نفرت پر مبنی جرائم ’’متاثرین کی سماجی شناخت‘‘ کی بنیاد پر انجام دیے جاتے ہیں۔ نفرت انگیز جرائم میں جان لیوا حملے، بائیکاٹ، بے دخلی، قتل، آتش زنی، توڑ پھوڑ جیسے واقعات یا اس نوع کے جرائم اور دھمکیاں شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سماجی و مذہبی شناخت کی بنیاد پر کی جانے والی نفرت انگیز تقاریر کے سبب تشدد اور اقلیتوں پر حملے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ میں 947نفرت انگیز جرائم کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں 602 نفرت پر مبنی جرائم اور 345 نفرت انگیز تقاریر شامل ہیں۔ ان جرائم میں سے 173 واقعات جسمانی تشدد کے ہیں، جن کے متاثرین میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
اے پی سی آر کی رپورٹ جامعیت کا دعویٰ نہیں کرتی۔ اس میں صرف ان واقعات کو شامل کیا گیا ہے جن کی رپورٹنگ پولیس اسٹیشن یا میڈیا کے ذریعے ہوئی ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ ملک میں نفرت انگیز جرائم کے اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اے پی سی آر کی اس رپورٹ کی تائید کئی بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں بھی کرتی ہیں۔ یہ رپورٹ سوالوں سے ماورا ہے کیونکہ اس میں کیے گئے دعووں کی تصدیق مختلف انداز میں عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں کرتی رہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اے پی سی آر نے نفرت انگیز تقاریر اور جرائم کے ایک مخصوص دائرے میں واقعات کی درجہ بندی کی ہے۔
مذہبی آزادی، اقلیتوں کے حقوق، سکیورٹی، آزادیِ اظہار اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق متعدد رپورٹیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اسی سال جنوری 2025 میں ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ورلڈ رپورٹ 2025 جاری کی تھی۔ 546 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کے 35 ویں ایڈیشن میں سو سے زائد ممالک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کا جائزہ پیش کیا گیا۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا کی ڈپٹی ڈائریکٹر، میناکشی گنگولی — جو ماضی میں مختلف صحافتی اداروں سے وابستہ رہی ہیں — نے اپنے ابتدائیے میں لکھا ہے:
’’وزیر اعظم مودی بھارت کی جمہوری روایات پر فخر کرتے رہے ہیں لیکن ان کے لیے اقلیتوں اور ناقدین کے خلاف اپنی حکومت کے بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن کو چھپانا اب مشکل ہو گیا ہے۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت کے گیارہ سالہ دور میں امتیازی پالیسیوں اور ریاستی جبر نے ملک میں قانون کی حکم رانی کو کمزور کر دیا ہے اور اقلیتوں و پسماندہ طبقات کے سماجی و معاشی حقوق محدود ہو چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جون 2024 میں تیسری مدت کے آغاز کے بعد سے حکم راں جماعت نے منصوبہ بند انداز میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک، دشمنی اور تشدد کو فروغ دینا شروع کیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر میں خود وزیر اعظم مودی سرفہرست رہے ہیں، جنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دیے تاکہ مسلمانوں کے خلاف تشدد اور سماجی تقسیم کو ہوا دی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق مودی نے خود اپنی 110 تقاریر میں اسلاموفوبک ریمارکس دیے۔
اے پی سی آر کی رپورٹ کی تائید مارچ 2025 میں امریکہ کے ایک مذہبی ادارے کی بین الاقوامی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے:
’’2024 میں بھارت میں مذہبی آزادی روبہ زوال رہی۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا۔ ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات اور گمراہ کن معلومات کو فروغ دیا تاکہ ہندو ووٹروں کو اپنے حق میں متحد کیا جا سکے۔‘‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مودی نے متعدد مواقع پر مسلمانوں کو ’’درانداز‘‘ اور ’’زیادہ بچے پیدا کرنے والا‘‘ قرار دیا۔
نفرت انگیزی کو سیاسی سرپرستی
بھارت میں نفرت انگیزی کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ آزادی کے بعد ہی اس کی شروعات ہو چکی تھی۔ 90 کی دہائی میں رام جنم بھومی کی تحریک نے اسے مزید فروغ دیا۔ مسلمانوں کو مجرم قرار دینے کا کھیل کافی پرانا ہے، مگر فرق یہ ہے کہ ماضی میں نفرت انگیز تقاریر اور جرائم میں ہندتوا تنظیمیں اور بی جے پی کے عام کارکنان ملوث ہوتے تھے، جب کہ سینئر قیادت براہِ راست اس میں شامل ہونے سے گریز کرتی تھی۔ مگر 2014 کے بعد بی جے پی کی اعلیٰ قیادت براہِ راست اس میں شریک دیکھی گئی ہے۔
گزشتہ سال 2024 میں نفرت انگیز تقاریر کے 345 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جن میں 178 تقاریر بی جے پی کے لیڈروں نے کیں اور اس اعتبار سے وہ سرفہرست ہیں۔ ان کے بعد وشوا ہندو پریشد کی 21 اور بجرنگ دل کی 20 نفرت انگیز تقاریر درج ہوئیں۔ چنانچہ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ اے پی سی آر کی رپورٹ محض نفرت انگیز تقاریر اور جرائم کی نشاندہی نہیں کرتی، بلکہ یہ واضح کرتی ہے کہ ملک اس وقت ایک خطرناک تبدیلی سے دوچار ہے۔ ہندتوا صرف ایک نظریہ نہیں رہا بلکہ وہ اب حکومت کا ایک عملی فریم ورک بن چکا ہے جس میں تشدد، اقلیتوں پر حملے اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنا معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ، سیکیورٹی اور آزادی سے متعلق سوالات پر عدلیہ اور میڈیا خاموش ہیں۔
اے پی سی آر کی رپورٹ کے اہم نتائج
اے پی سی آر (APCR) کی رپورٹ میں جون 2024 سے جون 2025 کے درمیان پیش آئے نفرت انگیز تقاریر و جرائم کو ماہ بہ ماہ دستاویزی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق نفرت پر مبنی جرائم اس حد تک معمول بن چکے ہیں کہ ہر ماہ اوسطاً 80 واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
اکتوبر 2024 اور اپریل 2025 (پہلگام حملے کے بعد) کے درمیان ملک بھر میں نفرت انگیز جرائم اور تقاریر کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے۔ رپورٹ کے مطابق 23 اپریل سے 6 مئی تک نفرت انگیز جرائم کے 87 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ یہ حملے پہلگام میں سیاحوں پر دہشت گردانہ حملے کے بعد سامنے آئے، جس کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
بنگلہ دیشی دراندازی کے نام پر گجرات، مہاراشٹر، راجستھان اور دہلی میں کچی بستیوں میں رہنے والوں کے خلاف پولیس نے کارروائی کی اور درجنوں بنگالی مسلمانوں کو واپس بنگلہ دیش میں دھکیلا گیا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں درگا پوجا، گنیش پوجا، دیوالی اور چھٹ جیسے بڑے تہواروں کے دوران نفرت انگیز جرائم کے 80 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جو اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہندو تہواروں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سنٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم نے بھی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس میں اس رجحان کو واضح کیا گیا۔ ’’ہفت روزہ دعوت‘‘ میں اس رپورٹ پر تفصیلی مضمون شائع ہو چکا ہے۔
اپریل میں رام نومی اور ایسٹر کی تقریبات کے موقع پر بھی متعدد نفرت انگیز واقعات پیش آئے۔ احمد آباد اور رائے گڑھ میں ایسٹر کی تقریبات میں خلل ڈالا گیا جب کہ رام نومی کے جلوس کے دوران ممبئی، جودھپور اور دیگر شہروں میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی مہینے نینی تال میں جنسی حملے کے بعد مسلمانوں کو نشانہ بنا کر فرقہ وارانہ تشدد بھڑکایا گیا۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر آسام میں گئو کشی کے نام پر بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائیاں ہوئیں۔
مودی حکومت کے گیارہ سالہ دور میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو صرف عوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی مسلسل نشانہ بنایا گیا ہے۔ مسلم مخالف قوانین کی ایک پوری سیریز سامنے آئی، جن میں وقف ترمیمی قوانین سب سے تازہ مثال ہیں۔
صنفی اعتبار سے متاثرین
رپورٹ میں صنفی اعتبار سے بھی نفرت انگیز جرائم کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کل 2,964 متاثرین میں سے 1,264 مرد اور 942 خواتین تھیں۔
مسلمانوں میں 1,460 افراد متاثر ہوئے، جن میں 691مرد اور 376خواتین شامل تھیں۔ عیسائی برادری میں صنفی تناسب تقریباً مساوی رہا۔ 1,504 عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا، جن میں 573 مرد اور 566 خواتین شامل تھیں۔
345 نفرت انگیز تقاریر میں سے 178تقاریر بی جے پی سے وابستہ افراد کی تھیں۔ نابالغوں کے خلاف بھی نفرت انگیز جرائم سامنے آئے۔ سال بھر میں 32 ایسے جرائم میں 62 بچے متاثر ہوئے جن میں 30 مسلمان اور 10 عیسائی نابالغ شامل تھے۔
نفرت انگیزی اور میڈیا کا کردار
2014 کے بعد سے میڈیا کا کردار تیزی سے بدل رہا ہے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ میڈیا حکومت کی پیروی کر رہا ہے بلکہ وہ دائیں بازو کی نفرت انگیزی میں سرگرم کردار ادا کر رہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف بیانیہ کو آگے بڑھا رہا ہے۔
رپورٹ میں سدرشن ٹی وی کے ایک پروگرام "گربا کے نام پر جہاد؟” کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں اکتوبر کے دوران یہ بے بنیاد دعویٰ کیا گیا کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو بہکانے اور تبدیلی مذہب کے لیے گربا ایونٹس میں شریک ہوتے ہیں۔
مئی 2025 میں انگریزی ویب سائٹ SabrangIndia.com نے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی:
"How India’s Commercial Media Channels Are Using Provocative Thumbnails to Boost Viewership and Provoke Vicarious Responses”
اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمرشل ٹی وی چینلز، جو پہلے ہی طاقتور طبقے کے ترجمان بن چکے تھے اب مذہبی جذبات کو بھڑکانے کا کام بھی کر رہے ہیں۔
نفرت انگیزی میں سیاست اور پولیس کا کردار
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے زیرِ اقتدار ریاستوں میں سب سے زیادہ نفرت انگیز جرائم ریکارڈ کیے گئے۔ اترپردیش میں سب سے زیادہ 217 واقعات درج ہوئے، جہاں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ خود لوک سبھا انتخابات کے دوران نفرت انگیز تقاریر کرتے رہے۔
مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور چھتیس گڑھ جیسے بی جے پی کی زیرِ حکومت ریاستوں میں بھی یہ واقعات نمایاں رہے۔ ملک کی 25 ریاستوں میں نفرت انگیز جرائم کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے، جن میں 12 ریاستوں میں بی جے پی برسراقتدار ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ صرف لوک سبھا یا اسمبلی انتخابات کے دوران نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں، مگر اب پنچایت اور بلدیاتی انتخابات میں بھی بی جے پی کے لیڈر مذہبی تقسیم پر زور دیتے ہیں۔ 2025 میں جموں و کشمیر، ہریانہ، جھارکھنڈ، مہاراشٹر اور دہلی میں اسمبلی انتخابات، اور اتراکھنڈ میں مقامی کونسلوں کے انتخابات ہوئے جن میں بی جے پی نے چھ میں سے چار میں کامیابی حاصل کی۔ ان چار ریاستوں میں نفرت انگیز جرائم اور تقاریر میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا۔
نفرت انگیز جرائم کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟
اصل سوال یہ ہے کہ نفرت انگیز جرائم کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ رپورٹیں تو آتی رہتی ہیں مگر ان کا عملی فائدہ کیا ہے؟ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں کہ:
"ہندوؤں میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی صرف اقلیتوں کے لیے ہی خطرہ نہیں، بلکہ خود ہندو سماج ایک اخلاقی بحران سے دوچار ہے۔ یہ صرف قانونی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ضمیر کی سطح پر ایک چیلنج ہے۔”
رپورٹ اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ کس طرح نفرت انگیز تقریر سیاسی گفتگو کا معمولی آلہ بن چکی ہے۔ جب تک بی جے پی اقتدار میں ہے اور نفرت حکم رانی کا ذریعہ بنی رہے گی ایسے واقعات بڑھتے ہی رہیں گے ۔
جب خود حکومت ہی نفرت کو ہوا دینے لگے، اقلیتوں کے خلاف کھلے عام تقاریر کی سرپرستی کرے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی بن جائیں تو یہ محض انفرادی جرائم نہیں رہتے بلکہ ریاستی سرپرستی میں منظم ظلم بن جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا صرف مظلوم کا حق نہیں بلکہ ہر باشعور شہری کی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اس کا مقابلہ تنہا قانونی راستوں یا احتجاج سے ممکن نہیں بلکہ ایک وسیع تر فکری، سماجی اور اخلاقی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرے کے باشعور طبقات — اساتذہ، طلبہ، دانشور، صحافی، مذہبی رہنما اور کارکنان — سب کو ظلم کے خلاف اتحاد، شعور اور مسلسل مزاحمت کے ذریعے اجتماعی آواز بننا ہوگا۔ میڈیا کی جانبداری ہو یا عدلیہ کی خاموشی، ان سب کے درمیان حقائق کو قلم بند کرتے رہنا، سچ بولنا اور عالمی برادری تک آواز پہنچانا نہایت ضروری ہے۔ جب ریاست خود تعصب پر مبنی پالیسیاں اپنائے تو سماج کا ضمیر بیدار کرنا سب سے مؤثر ہتھیار ہوتا ہے، کیونکہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں مگر زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو اندھیرے میں بھی سچ کا چراغ جلائے رکھتی ہیں۔

 

***

 سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ اے پی سی آر کی رپورٹ محض نفرت انگیز تقاریر اور جرائم کی نشاندہی نہیں کرتی، بلکہ یہ واضح کرتی ہے کہ ملک اس وقت ایک خطرناک تبدیلی سے دوچار ہے۔ ہندتو صرف ایک نظریہ نہیں رہا، بلکہ وہ اب حکومت کا ایک عملی فریم ورک بن چکا ہے، جس میں تشدد، اقلیتوں پر حملے اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنا معمول کا حصہ بن چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ، سکیورٹی اور آزادی سے متعلق سوالات پر عدلیہ اور میڈیا خاموش ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 جولائی تا 12 جولائی 2025