مودی 3.0 ایک جائزہ

مرکزی حکومت کے ایک سال میں سات یوٹرن!

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

کامیاب جمہوریت کے لیے ’چیک اینڈ بیلنس‘ انتہائی ضروری
ہم ذات پات کی مردم شماری کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس سے سماج میں تفریق پیدا نہیں ہونی چاہیے، اسے سماج کو الگ الگ خانوں میں بانٹنے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے، اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، یہ سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، لیکن سماج کی خدمت کے لیے غریبوں کی مدد کرنے کے لیے حاصل شدہ معلومات کو استعمال کیا جا سکتا ہے، حکومت حاصل شدہ ڈیٹا کا استعمال کرسکتی ہے۔ یہ کہنا ہے آر ایس ایس کا۔ شاید پہلی بار ہے کہ آر یس یس نے ذات پات مردم شماری پر لب کشائی کی ہے۔ یہ گفتگو آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان ہونے والی سمنوئے بیٹھک میں ہوئی، جس میں آر یس یس کے لیڈروں نے پہلی بار اتنی وضاحت کے ساتھ کاسٹ سنسیس کے بارے میں بات کہی ہے۔
اس بیان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مودی حکومت ایک اور یو ٹرن لینے والی ہے۔ ویسے تو مودی حکومت یو ٹرن لینے میں مشہور ہے ہی۔ مودی 3.0 حکومت اب تک کافی یوٹرنیں لے چکی ہے۔
پہلا یوٹرن
بے جے پی وقف ترمیمی بل پیش کر کے اسے پاس کروانا چاہتی تھی، یہ ترمیمی بل نہیں تھا بلکہ اس کو سرے سے ہی نیا بل بنا دیا گیا تھا، بی جے پی نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے جے پی سی کو ریفر کردیا ہے۔ وہ تو بھلا ہو ٹی ڈی پی اور جے ڈی یو کا کہ انہوں نے جے پی سی کا مطالبہ کردیا، تب جا کر وہ جے پی سی کو دیا گیا، بہر حال یہ بھی مودی 3.0 کا یو ٹرن تھا۔
دوسرا یوٹرن
اسی طرح بجٹ میں کیپٹل گین پر بھی کچھ پروپوزل تھے، لیکن اس پر کافی ہنگامہ ہوا، مڈل کلاس جو بی جے پی کا کور ووٹر مانا جاتا ہے، اس طبقے میں کافی ناراضگی نظر آئی۔ یہ طبقہ توقع کر رہا تھا کہ بجٹ میں کچھ راحت ملے گی، ٹیکس میں چھوٹ ملے گی کیوں کہ ملک انفلیشن کی مار جھیل رہا ہے، مہنگائی مڈل کلاس کی کمر توڑ رہی ہے، لہٰذا توقع تھی کہ ٹیکس میں چھوٹ دی جائی گی، لیکن نرملا سیتا رمن نے کسی قسم کی چھوٹ نہیں دی اور الٹے کپیٹل گینس پر ان کی نگاہ بد پڑ گئی، اس دوران پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کارپوریٹ انکم ٹیکس سے زیادہ ذاتی انکم ٹیکس وصول ہوا ہے، تب ہی تو نرملا سیتا رمن کی نگاہ یہاں ٹک گئی اور کپیٹل گینس کا پروپوزل لایا گیا، لیکن جب دیکھا گیا کہ اس پروپوزل پر مخالفت شدید تر ہوتی جا رہی ہے تو یوٹرن لے لیا گیا اور پروپوزل کو چھوڑ دیا گیا، یہ دوسرا یوٹرن تھا۔
تیسرا یوٹرن
یونین پبلک سرویس کمیشن میں لیٹرل انٹری کے سلسلے میں مودی 3.0 حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ اس چور دروازے سے اپنے مادری تنظیم کے کارندوں کو داخل کرے گی، اس کے لیے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا اور کہا گیا کہ اس میں کوئی ریزرویشن لاگو نہیں ہوگا، اس پر شدید تنازعہ کھڑا ہو گیا، اپنے حلیفوں سے اس کی مخالفت شروع ہو گئی، چراغ پاسوان نے کھلم کھلا اس کی مخالفت کی، تب جا کر وزیر اعظم کی آفس کے منسٹر جتندر سنگھ نے یو پی ایس سی چیئرمین کو خط لکھا کہ سماج انصاف کے دھارے کے نظام سے الائین ہونا ہی پڑے گا۔ عجب بات ہے کہ 2018 میں کسی ریزرویشن کے بغیر ہی لیٹرل انٹری پر عمل کیا گیا تھا، اس وقت سماجی انصاف کا خیال نہیں آیا، اس لیے کہ مودی حکومت کے پاس پوری اکثریت تھی اور جو چاہے وہ کر رہی تھی، کہاں سے خیال آتا؟
چوتھا یوٹرن
نیو پنشن اسکیم یا نیشنل پنشن اسکیم، مودی سرکار اس اسکیم پر اب عمل کرتی آرہی ہے، یہ مسئلہ کانگریس کا انتخابی موضوع رہا، مختلف ریاستوں جیسے ہماچل پردیش، راجستھان اور کرناٹک میں انتخابات کے موقع پر اس نے اعلان کیا کہ وہ پرانی پنشن اسکیم لاگو کرے گی، جس کا اسے فائدہ بھی ہوا، کیونکہ تقریباً تیس لاکھ مرکزی حکومت کے ملازمین ہیں اور ریاستی حکومت کے نوے لاکھ ملازمین ہیں، اس طرح تقریباً ایک کروڑ سے زائد سرکاری ملازمین ہیں، مودی سرکار تو کسی صورت پرانی پنشن اسکیم قبول کرنے سے انکار کر رہی تھی، کہہ رہی تھی کہ یہ اولڈ پنشن اسکیم ملک کی معیشت تباہ کر رہی ہے، ملک کی ترقی کے لیے خطر ناک ہے، لیکن اس پر بھی یوٹرن لیا گیا ہے، اب اسے ایک نئے نام یونیفائیڈ پنشن اسکیم کے ساتھ لاگو کرنے کی بات کہی گئی ہے جو تقریباً اولڈ پنشن اسکیم ہی کی طرح ہوگی، یعنی اشیرڈ پنشن، اشیریڈ فیملی پنشن، ریٹائرمنٹ کے وقت یکمشت رقم دی جائے گی وغیرہ۔ یہاں بھی یو ٹرن لیا گیا ہے۔
پانچواں یوٹرن
اگنی ویر اسکیم پر بھی مودی 3.0 نے واضح طور پر یوٹرن لے لیا ہے۔ ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش میں اس کی بڑی مخالفت ہوئی ہے، نوجوانوں نے اس کو سرے سے خارج کردیا ہے، انتخابات میں اس کا اثر دیکھنے کو ملا۔ آرمی چیف اور بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم اگنی ویر اسکیم کے تحت ریزرویشن دیں گے، یعنی اگنی ویر کے سپاہیوں کو ریاستی حکومت ریزرویشن دے گی، ان ساری باتوں سے لگ رہا ہے کہ اس اسکیم میں بھی بڑے پیمانے پر ترامیم ہوں گی یا
ہو سکتا ہے کہ سرے سے اس کو بدل ہی دیا جائے۔ بہر حال انداز تو یہی بتا رہے ہیں کہ دیر سویر اس پر بھی یوٹرن لے لیا جائے گا۔
چھٹا یوٹرن
بی جے پی اور آر ایس ایس کے تین بڑے اور دیرینہ خواب میں سے ایک یونیفارم سول کوڈ ہے، بقیہ دو یعنی رام مندر اور آرٹیکل 370 تو پورے ہوگئے اب تیسرے کی تیاری چل رہی تھی، لیکن اکثریت مل نہیں پائی ورنہ اس بار پوری تیاری تھی کہ اس بل کو لایا جائے۔ پہلی بار مودی نے لال قلعہ سے یہ بات کہی ہے کہ سیکولر سِول کوڈ لایا جائے گا، سیکولر لفظ سے ہی جسے نفرت تھی، اسی لفظ کو دستور سے ہٹانا چاہتے تھے، اب یہ کہا جا رہا ہے کہ سیکولر سِول کوڈ لایا جائے گا۔
ساتواں یوٹرن
ذات پات پر مبنی مردم شماری: بی جے پی شروع ہی سے ذات پات پر مبنی مردم شماری کی مخالف رہی ہے، کیوں کہ اس کی پوری سیاست مذہب کی بنیاد پر کھڑی ہے، منڈل اور کمنڈل کی سیاست کا یہ کھیل دہائیوں سے جاری ہے، ہندتو ایجنڈے پر عمل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی منڈل کی سیاست ہے، نتیش کمار اور بہار کی ساری سیاسی پارٹیاں یہاں تک کہ خود بہار بی جے پی کے لوگوں نے بھرپور مطالبہ کیا کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری ہو لیکن بی جے پی اس کی سخت مخالف رہی اس مطالبے کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا، لیکن اب حالات بدلے ہوئے نظر آ رہے ہیں، یہ مسئلہ اس کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے، اگر وہ ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں کراتی ہے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ اس کے سماجی انصاف کے دعوے کھوکھلے ہیں، اس کی سوشل انجینئرنگ کے لیے بڑا چیلنج ہوگا اور اگر وہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کرنے کی بات کو مان لیتی ہے تو وہ جس بنیاد پر کھڑی ہے اس سے ہٹ جائے گی یعنی ہندوتو اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا، اسی لیے آر ایس ایس اس میں مدد کے لیے آگے آئی ہے، کچھ راستہ نکالا جا رہا ہے، کنڈیشنس اپلائیس کے ساتھ ذات پات پر مبنی مردم شماری کو ہری جھنڈی دکھا دی گئی ہے، توقع کی جارہی ہے کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
بدلتا ہوا سیاسی منظر نامہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، پچھلے دس سال میں مودی نے کہیں یوٹرن نہیں لیا، سوائے تین زرعی قوانین کے، وہ بھی کم و بیش طویل احتجاج کے بعد اس کو واپس لیا گیا تھا، لیکن اس بار سیاسی مجبوریاں ہیں کہ ایک سال کے اندر اندر سات یوٹرن لے لیے گئے ہیں۔
ابھی تو یہ شروعات ۔۔۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 ستمبر تا 21 ستمبر 2024