2023 ملیٹس کا سال

صحت بخش تغذیہ کے لیے امیروں میں باجرہ کے استعمال کا رجحان

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

اجناس کی برآمدات میں بھارت پانچویں مقام پر ۔پیداوار میں اضافہ کی ضرورت
بین الاقوامی سطح پر سال 2023کو بطور ملیٹس (چھوٹے حجم والے اجناس جیسے جو باجرا وغیرہ) منانا طے کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک نے بھی اس قسم کے اجناس کو مقبول عام کرنے اور ان کے فوائد سے متعلق عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف پروگراموں کو ترتیب دیا ہے۔ آج بھی لوگوں میں ان اجناس کے متعلق زیادہ شعور نہیں پایا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ساٹھ کی دہائی تک جملہ پیداوار کا چالیس فیصد حصہ انہیں اجناس پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ یہ جملہ نو اقسام کے ہوتے ہیں، اردو زبان میں ان سب کے الگ الگ نام نہیں ہیں بلکہ سب کو باجرہ ہی کہا جاتا ہے جبکہ دیگر مقامی زبانوں میں ان کو الگ الگ ناموں مثلا راگی اور جو وغیرہ سے پکارا جاتا ہے۔ انگریزی میں انہیں گریٹ ملیٹ، پریل ملیٹ یا فنگر ملیٹ کہا جاتا ہے، یہ سارے باجرے کی ہی اقسام ہیں جن کا استعمال دیہی علاقوں میں زیادہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ کبھی یہ اجناس غریب عوام کی اہم خوراک ہوتے تھے، آج ان کی قدر بڑھ گئی ہے کیوں کہ ان اجناس کو اب امیر لوگ ملیٹس کے نام سے کھا رہے ہیں۔ لازمی بات ہے جب امیر لوگ کسی چیز کا استعمال کرنے لگتے ہیں وہ بازار میں مہنگی ہوتی چلی جاتی ہے اور آخر میں صرف امیروں کے تصرف کی چیز ہو کر رہ جاتی ہے۔
بنیادی طور پر ان اجناس میں چاول اور گیہوں کے مقابلے میں کم مقدار میں گلیسمک ہوتا ہے۔ چاول و گیہوں میں گلیسمک انڈیکس زیادہ ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے مضر ہوتا ہے، اس لیے یہ اجناس خاص طور پر ذیابیطس کے مریضوں میں مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹرز ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ روزآنہ ایک وقت ان ہی اجناس کا استعمال کریں تاکہ ان کی ذیابیطس کو قابو میں رکھا جا سکے۔ 1960 کی دہائی تک جملہ اناج کی پیداوار کا 40 فیصد یہی ملیٹس ہوا کرتے تھے لیکن آج اس کا فیصد گھٹتے گھٹتے 16 فیصد رہ گیا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں ملک میں اناج کی بڑی قلت پیدا ہو گئی تھی اور ایک طرح کی قحط سالی کا سامنا تھا۔ اس وقت حکومت نے اناج کی کمی کو دور کرنے کے لیے چاول اور گیہوں کی درآمد شروع کردی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ہمہ گیر منصوبہ بھی بنایا تھا تاکہ قحط سالی کا مقابلہ کیا جا سکے اور مستقبل میں ملک کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا نہ پڑے۔ اسی منصوبے کے تحت چاول اور گیہوں کے مختلف اقسام کی کاشت کو بڑھاوا دیا گیا اور کسانوں کو بھی ان کی پیداوار بڑھانے کے لیے اسکیم لائی گئیں، مراعات دی گئیں، اسی منصوبے کے تحت آبپاشی کے نظام کو مضبوط کیا گیا، ڈیم بنائے گئے، نہریں بنائی گئیں، ان نہروں کے لیے زرعی زمین کو پانی فراہم کیا گیا، کھاد کی بڑے پیمانے پر فراہمی کی گئی جیسے یوریا، پوٹاش وغیرہ اور زرعی ادویات جیسے کیڑے مار دوائیں فراہم کی گئیں جس کی وجہ سے چاول اور گیہوں کی پیداوار میں غیر معمولی اضافہ ہوا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہمارا ملک نہ صرف غذائی اجناس میں خود کفیل بن گیا ہے بلکہ وہ ان کی برآمدات بھی بڑے پیمانے پر کر رہا ہے، یعنی چاول اور گیہوں کی اتنی پیداوار ہو رہی ہے کہ جملہ پیداوار کا تقریباً تیس فیصد حصہ حکومت خود کسانوں کے پاس سے خرید رہی ہے جو ملک کے غریب عوام کو اور اسکولوں پڑھنے والے بچوں کو دوپہر کے کھانے کے طور پر مہیا کرتی ہے، جو عوامی تقسیم کے شعبے کے تحت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جہاں ساٹھ کی دہائی سے قبل ملیٹس کی پیداوار زیادہ ہوتی تھی وہ گھٹ کر اب سولہ فیصد ہوگئی ہے۔ حکومت نے ان اجناس پر کسی قسم کی مراعات نہیں دی اور اپنی پوری توجہ چاول اور گیہوں کی کاشت پر ہی لگا دی۔ اس قسم کے اجناس کی کاشت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جبکہ یہ لوگوں کی صحت اور قیمتوں کے اعتبار سے زیادہ مفید تھے۔ یہ غلہ راجستھان، مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور گجرات میں زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ کو یہ معلوم کر کے حیرت ہوگی کہ انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ ملیٹس پیدا کرنے والا ملک ہے، دنیا میں جملہ پیداوار کا 41 فیصد حصہ ہمارے ملک میں پیدا ہوتا ہے، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ان اجناس کی برآمدات میں ہمارا مقام پانچواں ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ پیداوار ہمارے ملک میں ہوتی ہے لیکن برآمد کرنے میں ہم پانچویں مقام پر ہیں۔ ان اجناس کی برآمدات سے ہمیں محض تین کروڑ ڈالر کی آمدنی ہو رہی ہے جبکہ ہمارے کسانوں میں اتنی قابلیت ہے کہ وہ اس کی پیداوار دوگنی کر سکتے ہیں جس سے نہ صرف عوام کو سستے داموں میں یہ غلہ حاصل ہو سکتا ہے بلکہ برآمدات کے ذریعہ اچھی خاصی آمدنی بھی ہو سکتی ہے جس سے نہ صرف ملک کی معیشت اچھی ہو گی بلکہ کسانوں کو بھی اچھا منافع حاصل ہوسکتا ہے۔
جب سے حکومت نے چاول اور گیہوں پر سبسیڈی دینی شروع کی کسان بھی وہی کاشت کرنے لگے کیوں انہیں اس بات کا یقین تو ہوتا ہے کہ دھان اور گیہوں کی کاشت پر کم از کم قیمت خرید وصول ہو ہی جائے گی، یہی وجہ ہے کہ کسانوں نے بھی ملیٹس کی کاشت کرنے میں اپنا نقصان محسوس کیا اور وہ دھان اور گیہوں کی کاشت کرنے لگے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں ان کی پیداوار کی صحیح قیمت اب بھی نہیں ملتی لیکن ان کی کم از کم قیمتیں تو مستحکم رہتی ہیں۔ دوسری طرف عوام کا بھی یہی حال ہے کہ جو چیز بازار میں ملتی ہے وہی خریدتے ہیں، پھر ایک طبقے میں ایک خام خیالی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ملیٹس غریب عوام کی غذائیں ہیں اس لیے ان کے استعمال میں انہیں عار محسوس ہوتا ہے۔ آپ اپنے اطراف نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ باجرے یا جوار سے کوئی پکوان نہیں ہوتا شادیوں کی تقاریب میں بھی ان چیزوں سے کوئی پکوان نہیں ہوتا، کیوں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ ان سے بھی کوئی اچھا پکوان کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے تو سن رکھا ہے کہ ہمارے بزرگ ان کا دلیا یا ستو وغیرہ بنا کر کھایا کرتے تھے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جس زمانے میں ان کا استعمال ہوتا تھا اس وقت بھی چاول اور گیہوں کا استعمال صرف امراء ہی کرتے تھے غریب عوام شاذ و نادر ہی چاول یا گیہوں کا استعمال کرتے تھے ورنہ ان کی روزآنہ کی غذا یہی ملیٹس ہوا کرتی تھی۔ جب سے لوگوں کی معاشی صورتحال بہتر ہوتی گئی تب سے لوگوں نے باجرے اور جوار کو چھوڑ کر چاول اور گیہوں کا استعمال شروع کیا ہے۔ ماضی میں جو غذائیں غریب عوام کی ہوتی تھیں وہی آج امیروں کے دسترخوانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ ماضی میں بڑی بوڑھیاں اپنے پوتوں اور نواسوں کو کہتیں کہ اچھا پڑھ لکھ لو ورنہ تمہیں دلیا کھا کر گزارا کرنا پڑے گا، لیکن آج صورتحال بدل گئی ہے۔ آج امیر لوگ فخر سے اوٹس کھا رہے ہیں، باجرہ سے بنے ہوئے بسکٹیں مہنگے داموں میں خرید کر کھا رہے ہیں، کیوں کہ آج کے طبیب حضرات اور نیوٹریشینس لوگوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر انہیں اپنی ذیابیطس، موٹاپے کو کم کرنا ہے تو ملیٹس کھانا ہو گا چنانچہ آج امیر گھرانوں میں ان اجناس کا رواج عام ہوگیا ہے۔ اگر حکومت ان کی پیداوار پر بھرپور توجہ دے گی تو یہ عوام و خواص دونوں کے لیے بہتر ہوگا، صحت کے اعتبار سے بھی اور کسانوں کے لیے بھی، کیونکہ اس کی زراعت آسان ہے، ان کے پودوں کو زیادہ پانی کی ضرورت نہیں پڑتی تھوڑے پانی میں بھی بھر پور فصل حاصل ہو جاتی ہے۔ چاول اور گیہوں کے لیے سالانہ اوسطاً 120 سنٹی میٹر بارش کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ملیٹس کی کاشت کے لیے صرف 20 سنٹی میٹر بارش کافی ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ماحول دوست بھی ہے اور پھر انہیں زیادہ کیڑ بھی نہیں لگتی اسی لیے انہیں کیڑے مار دوائیں یوریا، پوٹاش وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیوں کسان ان کی کاشت نہیں کرتے تو جواب یہ ہے کہ کسی شئے کی طلب ہی اس کی پیداوار بڑھاتی ہے، طلب و رسد کا اصول یہاں بھی لاگو ہوتا ہے۔ عوام میں اگر اس کی طلب ہوگی تو وہ بازار میں وافر مقدار میں دستیاب ہو گی اور اگر طلب ہی نہیں ہوگی تو کسان بھلا اس کی کاشت کرکے کیا فائدہ حاصل کرے گا؟ دوسری بات ان اجناس کو مختلف کھانے کی اشیاء میں ڈھالنے کے طریقہ کار کی سہولتوں کا نہ ہونا یعنی پروسیسنگ کا نہ ہونا ہے۔ تیسری بات ان اجناس کی پیداوار کو بڑھانے پر کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں جس طرح دھان اور گیہوں کی کاشت کو بڑھانے کے لیے کی گئیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی کم سے کم قیمت خرید نہیں ہوتی بلکہ ان کی بھی حکومت قیمت خرید طے کرتی ہے لیکن پیداوار کم ہونے کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر کسان ان اجناس کی کاشت کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ ابھی حال ہی میں بعض ریاستی حکومتوں نے کچھ اقدامات کیے ہیں جیسے اڑیسہ کی حکومت نے اسکول کے طلبا کو دیے جانے والے دوپہر کے کھانے میں باجرہ دینا طے کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ مرکزی حکومت کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے اقدامات کرے تاکہ اس کی کاشت سے کسانوں کو بھی فائدہ ہو اور عوام کو بھی۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس کی کھپت میں بہت اضافہ ہوا ہے لیکن ہمارے ملک میں ابھی ان اجناس کا چلن عام نہیں ہو سکا۔ عوام کو چاہیے کہ ان اجناس کا استعمال کریں اور صحت مند رہیں، ان کا استعمال صحت اور معاش دونوں اعتبار سے فائدہ مند ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023