’مٹی میں ہاتھ، دل وطن کے ساتھ‘

عملی میدان میں بچے بھی آگے آئیں تو بنے گا ’ہرا بھرا بھارت‘

0

ایم آئی شیخ، لاتور

چلڈرن اسلامک آرگنائزیشن کی شجر کاری مہم وقت کی اہم ضرورت اور بہترین نکتہ تربیت
’مٹی میں ہاتھ، دل وطن کے ساتھ‘ اس عنوان کے تحت جماعتِ اسلامی ہند کے چلڈرن اسلامک آرگنائزیشن (CIO) کی طرف سے 25جون سے 15جولائی کے درمیان جہاں ملک بھر مہم شروع کی گئی وہیں مہاراشٹرا میں بھی اس شجر کاری مہم کو بہترین انداز سے چلانے کا فیصلہ کیا گیا اور اس پر عمل درآمد جاری ہے۔
یہ ایک نہایت اطمینان بخش بات ہے، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ بچپن میں کی گئی اخلاقی تربیت انسان عمر بھر نہیں بھولتا۔ اسی لیے اگر بچوں کو شجر کاری کے ذریعے ماحولیات کے تحفظ کا شعور دیا جائے تو یہی بچے کل بڑے ہو کر نوجوان نسل بنیں گے، حکم راں بنیں گے، اور بچپن میں ملے ہوئے انہی اصولوں کی بنیاد پر ماحول کا تحفظ کریں گے۔
ماحولیات انسانی زندگی کا بنیادی ستون ہے۔ ہوا، پانی، زمین، پودے اور جانور جیسے قدرتی عناصر سے ہماری زندگی جڑی ہوئی ہے۔ مگر تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی، شہر کاری اور انسانی لالچ کی وجہ سے ماحول کی آلودگی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ آج کی نوجوان نسل کی توجہ اپنے کیریئر پر مرکوز ہونے کی وجہ سے ان کا روزمرہ کا بیشتر وقت پڑھائی اور موبائل فون پر صرف ہوتا ہے۔ اس لیے ماحولیات جیسے خشک اور غیر دلچسپ موضوع پر انہیں تعلیم دینا میرے خیال میں نہایت ہی مشکل امر ہے۔ لہٰذا بچوں کو اس کام کے لیے منتخب کرنا وقت کی ضرورت تھی اور اسی ضرورت کو پہچان کر CIO نے یہ مہم شروع کی، جس پر جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔
آج کے دور میں عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، ہوا کی آلودگی، پانی کی کمی، جنگلات کی کٹائی اور پلاسٹک کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے ماحول کا معیار تیزی سے گر رہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج، دریاؤں میں کیمیکل فضلہ، اور حیاتیاتی تنوع (بایوڈائیورسٹی) کی تباہی جیسی وجوہات سے زمین پر زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں خود حکومتیں ماحولیات کو نقصان پہنچانے کی مجرم پائی گئی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال برازیل ہے۔ وہاں سرکاری نگرانی میں امیزون کے جنگلات کی کٹائی جاری ہے اور عالمی ماحولیاتی اداروں کے دباؤ کو بھی برازیل نظر انداز کر رہا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے امیزون جنگل کا تقریباً 60 فیصد حصہ برازیل کے پاس ہے اور وہاں جانوروں کی پرورش، سویا کی کاشت، شہری توسیع، سڑکوں کی تعمیر اور ان سے حاصل ہونے والی بھاری کمیشن کی وجہ سے سب سے زیادہ جنگلات کی کٹائی ہو رہی ہے۔
دوسری مثال حیدرآباد کی ہے۔ حال ہی میں یہاں جنگلات کی کٹائی کی کوشش پر بڑا تنازعہ کھڑا ہوا۔ یہ تنازعہ گچی باؤلی علاقے کے 400 ایکڑ جنگلات سے متعلق ہے۔ تلنگانہ حکومت نے حیدرآباد یونیورسٹی کے قریب 400 ایکڑ جنگلات کو کاٹ کر وہاں آئی ٹی پارک بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ 30 مارچ 2025 کو اچانک بلڈوزر کی مدد سے جنگلات کی کٹائی شروع ہوئی، جس سے تقریباً 100 ایکڑ جنگل تباہ ہو گیا۔ لیکن 3 اپریل 2025 کو سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے اس پر روک لگا دی اور تلنگانہ حکومت کو وارننگ دی کہ اگر جنگل دوبارہ اگایا نہ گیا تو چیف سکریٹری سمیت تمام افسروں کو جیل بھیجا جائے گا۔ تب جا کر یہ معاملہ رکا۔ دراصل یہ جنگل مقامی ماحولیات کے لیے نہایت اہم ہے اور اسے "حیدرآباد کے پھیپھڑے” کہا جاتا ہے۔ یہاں 233 پرندوں کی اقسام، ہرن، مور اور دیگر جنگلی جانور بستے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی سے یہ جانور بے گھر ہو گئے اور کتوں نے انہیں تنگ کیا، جس کی ویڈیوز عدالت کے سامنے پیش کی گئیں۔ حیدرآباد کی زمینوں کی اونچی قیمت اس کٹائی کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ دراصل حکومت کی نظر اس جنگل پر صنعتی توسیع کے بہانے سے ہے، لیکن اس سے ماحول کو پہنچنے والے طویل مدتی نقصان کی انہیں پروا نہیں۔
ان دونوں مثالوں سے قارئین کو سمجھ آ جائے گا کہ خود حکومتیں ہی ماحول کو تباہ کرنے میں پیش پیش ہیں۔ ایسی صورت میں شہریوں کو ہی ماحولیات کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔ اسی لیے CIO کی یہ شجر کاری مہم بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ با شعور قارئین کو چاہیے کہ اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق بھرپور مدد کریں۔ ماحولیات کا تحفظ صرف حکومت یا اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر فرد کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ بچوں کو اپنی تخلیقی سوچ اور عملی قدموں کے ذریعے ماحول کے تحفظ کی شروعات شجرکاری سے کرنی چاہیے۔ اگر یہ مہم کامیاب ہوئی تو آئندہ نسلوں کے لیے ایک صحت مند اور خوبصورت زمین محفوظ رہے گی اور "ہرا بھرا بھارت، خوشحال بھارت” کا خواب پورا ہوگا۔
اسلام میں ماحولیات کا تحفظ
اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ یعنی نمائندہ ہے۔ بطور نمائندہ، انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف انسانوں کی نہیں بلکہ زمین اور اس کے ماحول کی بھی حفاظت کرے۔ انسان فطرت کا نگہبان (Custodian) ہے اور اس حیثیت سے قرآن و حدیث میں ماحول کے تحفظ، قدرتی وسائل کے اعتدال پسند استعمال اور حیوانات و نباتات کے احترام کی کئی تعلیمات موجود ہیں، جن کا اجمالی تذکرہ حسب ذیل ہے:
سورہ البقرہ، آیت 30 میں فرمایا گیا:
"ہم زمین پر ایک خلیفہ (نمائندہ) بنانے والے ہیں۔”
اس سے مراد ہے کہ انسان کو زمین کی حفاظت کرنی چاہیے۔
سورہ الاعراف، آیت 31 میں فرمایا:
"فضول خرچی نہ کرو، بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں”
یعنی قدرتی وسائل کا ضیاع نہ کیا جائے۔
ایک حدیث میں فرمایا گیا:
"اگر کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے اور اس سے انسان، پرندے یا جانور کھاتے ہیں تو اسے اس کا ثواب ملتا ہے۔” (بخاری)
ایک اور حدیث میں ہے:
"اگر قیامت قائم ہونے ہی والی ہو اور تمہارے ہاتھ میں کوئی بیج ہو تو اسے زمین میں بو دے۔”
بچوں کو صفائی، صبر، شجر کاری اور فطرت سے محبت سکھانا بھی اسلام ہی کی تعلیمات میں شامل ہے۔
مختصراً، اسلامی اعتبار سے دیکھا جائے تو ماحولیات کا تحفظ صرف اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ مذہبی ذمہ داری بھی ہے۔ درخت لگانا، پانی بچانا، جانوروں پر رحم کرنا اور فضول خرچی سے بچنا دین کا حصہ ہیں۔ یہ تعلیمات گھروں سے نسل در نسل منتقل ہونی چاہئیں تاکہ معاشرہ اور ماحول دونوں کو فائدہ پہنچے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025