ملت کے طویل مدتی لائحہ عمل پر مستقل مزاجی سے عمل کریں: امیر جماعت اسلامی ہند
نفرت کے ماحول میں بھی کام کے مواقع موجود ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کو عام کریں
لکھنؤ: (دعوت نیوز نیٹ ورک)
تعلیم، معیشت اور تجارت کے ذریعے امت کو مضبوط بنانے پر زور
ملک کے موجودہ حالات کے سلسلہ میں جب گفتگو ہوتی ہے تو عام طور پر مسلمانوں پر ظلم و ستم، ناانصافی وغیرہ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ہماری تقریریں، ہمارے اخبارات، ہمارے بیانات انہیں چیزوں کو حالات حاضرہ کے سلسلہ میں بیان کرتے ہیں۔ ملک کے حالات کو صرف منفی نظریہ سے دیکھنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس میں ملت کو کام کرنے کے جو مواقع فراہم ہیں اس کا بہتر استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ کیونکہ اس امت کا کام صرف اپنے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ امت تو تمام انسانوں کے لیے نکالی گئی ہے۔ یہ خیر امت ہے جسے فلاح انسانیت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ ایسی امت کا دائرہ کار صرف اپنے لوگوں تک محدود نہیں ہو سکتا۔
ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی ہند انجینئر سید سعادت اللہ حسینی نے جامع مسجد منشی پلیا، اندرا نگر میں جماعت اسلامی شہر لکھنؤ و مسلم ویلفیئر سوسائٹی کی جانب سے ’ملک کا موجودہ منظر نامہ اور ملت کا لائحہ عمل‘ کے موضوع پر ہونے والے خطاب عام سے کیا۔
امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک تمام محاذ پر بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے، پوری دنیا میں ہمارے انجینئرس، معاشی ماہرین اور آئی ٹی کے ماہرین کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارا ملک تمدنی بحران سے گزر رہا ہے۔ لوگوں کے درمیان تفریق پیدا کی جا رہی ہے۔ آپس میں نفرت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب کسی ملک میں اقتدار پر فائز لوگ عوام کے درمیان تفریق پیدا کرنے، ذات، مذہب اور دوسری بنیادوں پر تقسیم اور نفرت پیدا کرنے میں لگ جاتے ہیں تو وہ ملک تمدنی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں امت کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ ملک کو تمدنی بحران سے بچائے۔
پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے جناب سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ ہمارے لیے آزمائشوں کی بھٹی اس لیے سلگائی گئی ہے تاکہ ہم اس سے کندن بن کر نکلیں۔ صحیح معنوں میں ہم امت مسلمہ اور امت وسط بن کر نکلیں۔ قرآن مجید میں تو صاف طور پر کہا گیا ہے کہ یقیناً مشکل کے ساتھ آسانیاں ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا کہ بڑی مشکلات کے ساتھ بڑا بدلہ رکھا گیا ہے۔ ہمیں ان حالات کو صرف مشکل حالات نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ان حالات میں کام کے مواقع کی تلاش کرنا چاہیے۔ ان حالات میں آگے بڑھنے کے امکانات بھی ہیں جن پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔
امیر جماعت نے ملک کے موجودہ حالات میں ملت کے لیے لائحہ عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس سلسلہ میں ہمیں جو لائحہ عمل اپنانا چاہیے، اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ امت کے طرز فکر کو بدلا جائے، سوچنے سمجھنے کے زاویے کو تبدیل کیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو کبھی نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے انفس یعنی اپنی نفسیات کو نہیں بدلتی ہے۔ ہمارا پورا کردار ہماری سوچ اور فکر پر منحصر ہوتا ہے۔
ہمارا یہ نظریہ مستحکم ہونا چاہیے کہ یہ امت مسلمہ کوئی نسلی گروہ نہیں ہے جو کہ صرف اپنے لوگوں کے مفاد کے لیے کام کرے بلکہ یہ ایک ایسی امت ہے جو ایک مقصد کے لیے برپا کی گئی ہے جو سارے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وجود میں لائی گئی ہے۔ اس وقت یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ہم نے اپنے مقصد وجود کو فراموش کر دیا ہے۔
ان حالات میں ہمارا لائحہ عمل یہ ہونا چاہیے کہ امت کے اندر مقصد کا شعور پیدا کیا جائے، صحیح طور پر امت وسط بنایا جائے۔ یہ عظیم مقصد ہمارے سامنے ہوگا تو ہمارے اندر عزم و حوصلہ بھی پیدا ہوگا اور آسانیاں پیدا ہوں گی۔
جناب سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ مسلمانوں کے سامنے جو مسائل ہیں ان کا کوئی قلیل مدتی حل نہیں ہے۔ اس کے تصفیہ کے لیے ہمیں مسلسل اور طویل جد و جہد کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہوگا، بے صبری اور عجلت سے کام نہیں چلے گا۔ اس ملک میں بھلے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیا جائے برادران وطن کے اندر غلط فہمیاں پھیلائی جائیں، لیکن اسی کے ساتھ ہی ہمارے لیے کام کرنے کے مواقع پوری طرح سے کھلے ہیں، آج مذہب اسلام موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں اسلام میں موجود عدل و قسط، سماجی برابری اور انسانوں کے حقوق کی تعلیمات سے برادران وطن کو واقف کرانا چاہیے۔ اس ملک کی فضا کو بدلنے کے رائے عامہ کو ہموار کرتے ہوئے برادران وطن کے اندر پھیلی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے۔
تیسرا اور آخری لائحہ عمل یہ ہونا چاہیے کہ امت مسلمہ کو اسلام کا سچا نمونہ بنایا جائے اور اس کے ساتھ انہیں امپاور کیا جائے، تعلیم، معیشت اور تجارت کے لحاظ سے لوگوں کو طاقتور بنایا جائے۔
یہ ایسے طویل مدتی لائحہ عمل ہیں جن پر ہمیں مستقل عمل کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے پوری ملت کو تیار کرنا ہوگا۔
خطاب عام سے قبل سورۃ حج کی آیت نمبر ۷۸ کا درس قرآن پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، سکریٹری جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ اس آیت میں دین کا مکمل تعارف کرا دیا گیا ہے۔ سخت ترین حالات میں ہمیں کیسے کام کرنا ہے، اس سلسلہ میں واضح ہدایات ملتی ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ ہم نے تمہارا نام مسلم رکھا جس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں بلکہ ہمارا وصف مسلمان قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کا مطلب یہی ہے کہ خود کو اللہ کے سامنے سپرد کر دیا جائے۔
پروگرام کی نظامت ناظم شہر ڈاکٹر امجد سعید فلاحی نے کی۔ کلمات تشکر مسلم ویلفیئر سوسائٹی کے صدر قاضی احمد رضا نے پیش کیے۔ اس موقع پر سیکڑوں کی تعداد میں مرد و خواتین موجود تھے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 دسمبر تا 28 دسمبر 2024