میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم: درست نقطۂ نظر
عطیہ صدیقہ
دنیا میں جتنی بھی عظیم شخصیات گزرتی ہیں، لوگ ان کی محبت میں ان کی پیدائش کے دن کو جشن کے طور پر مناتے ہیں ،جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں، غرباء و مساکین کو کھانا کھلایا جاتا ہے، ان کی زندگی کے سبق آموز پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا ہے، مسلمان بھی ہندوستانی تہذیب کے زیر اثر اس طرح کے جشن منانے لگے۔ مسلمانوں کے یہاں سب سے اہم شخصیت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
آپ کی پیدائش 12/ربیع الاول کو ہوئی، جسے مسلمان جشن کے طور پر عید میلاد النبی کے نام سے منانے لگے، اس دن جلسے اور جلوس نکالے جاتے ہیں، مساجد کو سجایا جاتا ہے، نعت خوانی اور درود شریف کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں،عید میلاد کی مبارکباد پیش کی جاتی ہے ،کچھ رفاہی و فلاحی کام انجام دیئے جاتے ہیں اور یہ سب کرکے سمجھا جاتا ہے کہ آپ سے محبت و عقیدت کا حق کردیا گیا۔
پہلے تو ہم یہ جانیں کہ عید میلاد النبی کی حقیقت اسلام میں کیا ہے؟ آپ نے تو ہمیں صرف دو عید یں منانے کا حکم دیا ہے، عید الفطر اور عید الاضحٰی؛ لیکن ہم نے اپنی جانب سے عید میلاد النبیؐ کا اضافہ کر لیا، جس کی کوئی حقیقت ہمیں نہ صحابہ اور نہ تابعین و تبع تابعین کے عمل سے ملتی ہے ۔ہم نے آپﷺ کی عقیدت و محبت میں حد سے تجاوز کر کے اپنے آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ نعت اور قوالیوں میں غلو کردیا۔ ’’غلو‘‘کے معنی ہیں :’’جس چیز کی جو حد مقرر ہے اس سے نکل جانا۔‘‘
آپﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’تم دین میں غلو کرنے سے بچو ،کیو نکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو کرنے ہی کی وجہ سے ہلاک کیا گیا ۔‘‘
محبت و عقیدت کا طریقہ بھی آپ ﷺ نے بتایا ہے کہ جس سے محبت کی جاتی ہے اس کی اطاعت کی جاتی ہے، اس جیسا عمل کیا جاتا ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اطیعو اللہ واطیعو الرسول
(اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی)
یعنی اللہ کی اطاعت گویا رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ آپ صلے اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیےرسول بنا کر بھیجے گئے ۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ
(آپ کی زندگی تمام انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔)
آپﷺ کی تعلیمات زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کرتی ہیں، چاہے وہ ہماری انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، معاشی، معاشرتی، سیاسی و سماجی زندگی کے ہر گوشے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے، اور اس پر عمل کر کے آپ ﷺ نے ہمیں دکھایا ہے۔زندگی گزارنے کا ایک مکمل ضابطہ ٔحیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پوری انسانیت کو ملا، آپ ﷺ کی تعلیمات کے تمام پہلو ایسے ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں۔ ویسے تو آپ ﷺ کی پوری زندگی ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے، لیکن ہم کچھ پہلوؤں پر غور کریں گے اور اس کے مطابق اپنے عمل کو ڈھالیں گے۔ مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و درگزر کا معاملہ۔ طائف کا وہ واقعہ جہاں آپﷺ دین کی دعوت پیش کرنے کے لیے گئے تھے ۔طائف کے لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول تو نہیں کیا ،بلکہ اوباش لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لہو لہان ہو گئے۔ جبرئیل امین آپ کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں کہ اگر آپ کا حکم مل جائے تو اس بستی کو تباہ کر دیا جائے، لیکن قربان جائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت عفو و درگزر سے کام لیا اور کہا کہ یہ میری بات نہیں مان رہے ہیں لیکن ہو سکتا ہے ان کی آئندہ نسلیں میری دعوت پر لبیک کہیں۔
اسی طرح دوسرا واقعہ فتح مکہ کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ داخل ہو رہے ہیں اور عام معافی کا اعلان کر دیتے ہیں، ان لوگوں کے لیے جنھوں نے 13 سال مکے میں اور دس سال مدینے میں ایک پل بھی آپ کو سکون سے گزارنے نہیں دیا ۔اگر ہم اسی اسوہ پر اپنی روز مرہ کی زندگی میں عمل میں کریں گے تو ہماری زندگی بھی پرسکون گزرے گی۔
پہلے تو ہم یہ جانیں کہ عید میلاد النبی کی حقیقت اسلام میں کیا ہے؟ آپ نے تو ہمیں صرف دو عید یں منانے کا حکم دیا ہے، عید الفطر اور عید الاضحٰی؛ لیکن ہم نے اپنی جانب سے عید میلاد النبیؐ کا اضافہ کر لیا، جس کی کوئی حقیقت ہمیں نہ صحابہ اور نہ تابعین و تبع تابعین کے عمل سے ملتی ہے ۔ہم نے آپﷺ کی عقیدت و محبت میں حد سے تجاوز کر کے اپنے آپ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ نعت اور قوالیوں میں غلو کردیا۔ ’’غلو‘‘کے معنی ہیں :’’جس چیز کی جو حد مقرر ہے اس سے نکل جانا۔‘‘
آج جس طرح ہم کئی ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، اس کا بڑا سبب عفو و درگزر سے کام نہ لینا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک اور وصف اعتدال اور توازن ہے، اعتدال اور توازن ہر معاملے میں۔ چاہے وہ عبادات میں ہو یا کھانے پینے میں ہو یا سونے جاگنے میں ہو ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے آپ کے خفیہ عمل یعنی نفلی عبادات کے بارے میں دریافت کیا، تو ان میں سے ایک نے کہا کہ میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا ۔ ایک نے کہا کہ میں گوشت نہیں کھاؤں گا۔ اور ایک نے کہا کہ میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی توآپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا :
’’لوگوں کا کیا حال ہے؟ کہ انھوں نے یہ یہ بات کہی لیکن میں نماز پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں جس نے میری سنت سے بےرغبتی اختیار کی وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ (بخاری مسلم)
اس حدیث سے ہمیں عبادات میں اعتدال کا درس ملتا ہے ۔کھانے کے بارے میں بھی آپﷺ نے اعتدال کو ملحوظ رکھنے کی ترغیب دی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’کھانا ہمیشہ وقت پر کھاؤ، پرخوری سے بچو، ہر وقت منہ چلاتے رہنے سے پرہیز کرو، بھوک لگنے پر ہی کھاؤ اور جب کچھ بھوک باقی ہو تو اٹھ جاؤ بھوک سے زیادہ ہرگز نہ کھاؤ۔‘‘ یہ بہت اہم سنت رسول ہے جو ہمیں صحت مند رکھتی ہے ۔آج جتنی بھی بیماریوں کا ہم شکار ہو رہے ہیں اس کے وجہ سیر ہو کر اور بےوقت کھانا ہے۔سونے اور جاگنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ رات گئے تک جاگنے سے پرہیز کرو، شب میں جلد سونے اور سحر میں جلد اٹھنے کی عادت ڈالو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’عشاء کی نماز کے بعد یا تو ذکر الہی کے لیے جاگا جا سکتا ہے یا گھر والوں سے ضرورت کی بات کرنے کے لیے۔ رات کو جاگنے اور دن میں نیند پوری کرنے سے پرہیز کرو ۔اللہ تعالی نے رات کو آرام اور سکون کے لیے بنایا ہے اور دن کو سو کر اٹھنے اور ضروریات کے لیے دوڑ دھوپ کرنے کا وقت قرار دیا ہے۔ سورۃ الفرقان آیت نمبر 47 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
’’اور وہ خدا ہی ہے جس نے رات کو تمھارے لیے پردہ پوش اور نیند کو راحت و سکون اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کو بنایا ہے۔عشاء کے بعد بلاوجہ نہ جاگو اور فجر میں فوراً اٹھ جاؤ۔‘‘
لیکن آج ہم نے اس فطری نظام میں تبدیلیاں کر لیں۔ رات دیر گئے تک جاگنا اور صبح دیر گئے تک سونا یہ ہمارا معمول بنتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنی صحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات پر اگر ہم عمل کریں تو ہماری صحت بہتر ہوگی اور ہم کئی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے ۔تندرستی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوتا ہے ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو دعوت و تبلیغ ہے ۔آپ دعوت و تبلیغ کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ کی اس جستجو کی جانب محبت بھرے انداز میں اشارہ کیا:
’’ فلعلک باخع نفسک علی آثارِھم ان لم یومنوا بھذ الحدیث اسفا ‘‘(سورۃالکہف)
( شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو، اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے ۔)
ہمیں وہ واقعہ بھی یاد ہے جب مکے میں ایک قافلہ آکر رکا۔آپ ﷺ دن بھر دعوت تبلیغ کا کام انجام دے کر جوں ہی گھر تشریف لائے، قافلہ آنے کی اطلاع ملتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے چین ہو کر اٹھ جاتے ہیں اور اس قافلے والوں کو دین کی دعوت دینے کے لیے جانا چاہتے ہیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ تو دن بھر کے تھکے ماندے آئے ہیں، کچھ دیر آرام کر لیجیے! جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں آرام کروں اور وہ قافلہ نکل جائے تو میں کیسے ان تک دعوت دین پہنچاؤں گا ؟
چاہے مکے کی گلیاں ہوں یا مدینے میں اسلامی نظام قائم کرنے کا مرحلہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر تبلیغ دین کی ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دیا ۔اگر امت مسلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوۂ حسنہ کے مطابق زندگی گزارےگی تو ابنائے وطن کے لیے ایک خاموش تبلیغ ہوگی۔ہم ہر عمل کے کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسنون طریقے کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ کھانا کھانے میں، پانی پینے میں ،اٹھنے بیٹھنے میں، سونے میں جاگنے میں،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا سب سے اہم مسنون طریقہ سب سے اہم سنت دعوت و تبلیغ کو بھلا بیٹھے ہیں۔
آج ملت اسلامیہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو زندہ کرنا ہے، اگر ہم تمام مسلمان مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کریں گے اور اسے دوسروں تک پہنچائیں گے تو یہ ایک بہت بڑا کام ہوگا ۔رائے عامہ تبدیل ہوگی۔دور حاضر میں اسلامی تعلیمات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسلاموفوبیا کا ماحول بن رہا ہے۔ اس ماحول میں ہم اسلام کی حقانیت کو اسی وقت پیش کر سکتے ہیں جب ہم خود اس پر عمل کرنے والے بنیں گے اور اپنےکردار سے لوگوں کو متوجہ کریں گے۔جھوٹ، دھوکہ دہی، چوری، ملاوٹ، لوٹ کھسوٹ،حقوق کا پامال کرنا، جھگڑا، غصہ، انتقام اس طرح کے منفی کردار سے خود کو بچا کر تمام انسانوں کے لیے رحمت بنیں گے تو ہم اسلام کی قولی شہادت کے ساتھ ساتھ عملی شہادت دینے والے بن جائیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوۂ حسنہ سے کئی مشرکین مکہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میلاد النبی کا جشن صرف ایک دن منا کر خاموش نہ ہو جائیں بلکہ میلاد النبی کا سبق یہ ہے کہ امت مسلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ عمل کی نیت سے کرے ۔ہماری زندگی کا ایک ایک عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزرے، مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جان دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسانی فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہمیں اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
(مضمون نگار ہادیہ ای میگزین کی چیف ایڈیٹر ہیں)