میلاد النبیؐ اورایک مسلمان کا طرز عمل
محبتِ رسول ؐکا سب سے بہترین طریقہ’ اسوۂ حسنہ ‘اختیار کیا جائے
جلیل الرحمن ندوی،غازی آباد
ماہِ ربیع الاول ؛ ملت اسلامیہ کے مابین اختلافات کے بجائے اتحاد و اتفاق کا ذریعہ بن سکتا ہے
ہمارے اکثر مسلمان بھائی بر صغیر پاک وہند میں 12؍ ربیع الاول کو عیدمیلاد النبی کے نام سے جشن وجلوس وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔اور یہ سب کچھ وہ دعویٰ حب رسول کے نام پر کرتے ہیں اور اس سے اختلاف کرنے والوں یاان کی طرح جشن وجلوس نہ منانے والوں پر رسول اللہﷺ سے محبت نہ کرنے کاالزام عائد کرتے ہیں۔دوسری طرف کسی خاص دن کو متعین کرکے جشنِ میلادالنبی منانے اورشوروغوغاکے ساتھ جلوس منعقد کرنے والوں کو بدعتی اور گناہ گار کہاجاتاہے۔اس کا حاصل یہ ہواکہ ربیع الاول کا مہینہ جو نبی کریمﷺ کی ولادت باسعادت سے منسوب ہے اسی نبی کی امت اتحاد واتفاق کے بجائے پورے ماہ اختلاف وانتشار کاشکار رہتی ہے یہ ہمارے لیے کتنی بڑی محرومی کی بات ہے؟ اس لیے ضرورت ہے کہ ان دونوں گروہوں کو انتہاپسندی سے نکل کر خالص قرآن وسنت کی روشنی میں غورفکر کی دعوت دی جائے۔
جہاں تک محبت رسول کا تعلق ہے تو یہ ہرمسلمان کے ایمان کا لازمی اورتکمیلی تقاضہ ہے ۔رسول اللہﷺ کی مشہور حدیث ہے۔ جس میں آپ نے فرمایا’’تم میں سے کوئی شخص مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے والدین اور اولاد اوردنیا کے تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘(بخاری)
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ آپ سے محبت کاطریقہ اور تقاضا کیاہے ؟تو سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک مومن کے لیے دنیا کی تمام محبتوں کا مرجع ومرکز صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: جو لوگ اللہ کے سوادوسروں کواس کا مد مقابل بناتے ہیں وہ ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی گرویدگی اللہ کے ساتھ ہونی چاہیے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں (البقرہ آیت نمبر 165)۔ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا’’جس شخص نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ ہی کے لیے نفرت کی اللہ کی رضا کی خاطر خرچ کیا اور اللہ کی نافرمانی کے راستہ میں کرچ کرنے سے پرہیز کیا تو حقیقت میں اس نے اپنے ایمان کو کامل کرلیا‘‘۔اس سے معلوم ہواکہ مومن کی تمام محبتیں اللہ کی محبت کے تابع ہوں گی۔یعنی اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ہر محبت اللہ کی مرضی کے مطابق اور اس کی خوشنودی کے لئے ہو۔حضرت محمدمصطفیٰﷺ سے بھی ہر مومن کی محبت کی وجہ یہ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ نے ہمیں آپ سے محبت کرنے کے حکم کے ساتھ اس کا طریقہ بھی بتایاہے۔اس سلسلہ میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے کچھ احکام وہدایات پیش خدمت ہیں:
’’اے محمدؐ! کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے حقیقی محبت رکھتے ہوتو میری پیروی اختیار کرو پھر اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گاوہ بڑامعاف کرنے والااور رحم فرمانے والاہے(آل عمران آیت31) ’’اے محمد ان سے کہہ دو ،اگر تمہارے باپ ،تمہارے بیٹے،تمہارے بھائی،تمہاری بیویاں اور تمہارے دیگر قرابت دار تمہارے کمائے ہوئے مال اور تمہاری وہ تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمہاری وہ عمارتیں جن سے تم خوش ہوتے ہو (یعنی یہ ساری چیزیں)تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں دین کے غلبہ کے لیے جدوجہد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں توتم اللہ کے حکم ( اس کے عذاب )کاانتظار کرواور اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘(سورہ توبہ آیت 24)۔’’اے ایمان والو!اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان کی جوتم میں سے تمہارے امیرہوں،پھراگر کسی معاملہ میں تمہارے درمیان اختلاف ہوجائے تواس کو اللہ اوراس کے رسول کی طرف لوٹادواگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو ،یہی طریقہ تمہارے لئے بھلائی (ا لور آخرت میں )بہترین انجام کاذریعہ ہے‘‘(سورۂ نساء آیت 59) ’’قسم ہے تمہارے پروردگار کی یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس کے تمام اختلافات میں تم کو اپناحاکم تسلیم نہ کرلیں پھرجو فیصلہ بھی تم کردو اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناگواری محسوس نہ کریں اور مکمل جذبۂ اطاعت کے ساتھ اس کو قبول کرلیں ‘‘(سورۂ نساء آیت 65) ’’اورجولوگ بھی اللہ اوررسول کی اطاعت وفرمان برداری کریں گے وہ ان انبیاء ،صدیقین،اللہ کے راستہ میں شہیدہونے والوں اور صالح بندوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا خاص انعام فرمایاہے (اورآخرت میں )یہی لوگ بہترین رفیق ہیں( سورۂ نساء آیت 69)۔’’نبیؐ کاحق مومنوں پر خود ان کی جانوں سے زیادہ ہے ،اور نبی کی بیویاں تمام مومنین کی مائیں ہیں‘‘(سورۂ احزاب آیت 6)۔’’تمہارے لیے اللہ کے رسول کی ذات گرامی میں سب سے بہتر نمونہ ہے ہراس شخص کے لیے جو اللہ کی خوشنودی اورآخرت کی کامیابی کاامیدوار ہواوراللہ کو کثرت سے یاد کرنے والاہو‘‘(سورۂ احزاب آیت21)
قرآن کریم کے ان تمام ارشادات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کااظہار ، رضائے الٰہی اور فلاحِ آخرت کاکوئی شارٹ کٹ عمل یامنتر ہم کو نہیں بتایاگیاجیساکہ پیشہ ور پیر اور دنیاپرست پیشوایان دین مسلمانوں کو بتاتے رہتے ہیں بلکہ پیدائش سے لے کر موت تک ایک مسلمان کی پوری زندگی میں اللہ اور رسول کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کے مکمل اسوۂ حسنہ یعنی زندگی کے تمام انفرادی واجتمادعی ،معاشرتی ومعاشی اور سیاسی معاملات میں آپ کے حسنِ عمل ونمونہ کی پیروی کرنی ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے ہرمسلمان کو قرآن وسیرتِ رسول( جس کو قرآن میں اسوۂ حسنہ کہاگیاہے )کاعلم حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کے مطابق اپنی مکمل زندگی کو اس کے سانچہ میں ڈھالناہے۔یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ اوران کے بعد تابعین وتبعِ تابعین ہمیشہ قرآن کریم اور سیرتِ رسول یعنی اسوۂ حسنہ کو اپنے سامنے رکھتے تھے ۔اس لیے ان کو کسی مخصوص دن یامہینہ میں جشنِ میلاد النبی یاجلسۂ سیرت النبی منعقد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔اس وقت تو مسلمانوں کے دلوں میں ائمۂ مجتہدین اورائمۂ محدثین کی قدرومنزلت اپنے وقت کے بادشاہوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ظالم بادشاہوں کی اطاعت وہ جبرواکراہ کے ساتھ کرنے پر مجبور ہوتے تھے لیکن ائمۂ مجتہدین ومحدثین کی اطاعت وہ خوش دلی ورضاکاری کے ساتھ کرتے تھے۔یہاں تک کہ عام مسلمانوں کاان کے لیے جذبہ اطاعت دیکھ کر وقت کے بادشاہ اپنی غاصبانہ خاندانی حکومتوں کے لیے ایک بڑاخطرہ سمجھتے تھے اورصرف یہی وجہ تھی کہ تقریباًتمام سنی وشیعہ ائمۂ کرام کو ان کے عتاب ومظالم سے دوچار ہوناپڑتاتھا۔مثال کے طور پر حضرت امام ابوحنیفہؒ کوان کے آخری ایام میں قید خانہ میں ڈال دیاگیا اور وہیں ان کی وفات ہوئی ۔امام مالکؒ اور امام احمد ابن حنبلؒ کو کوڑوں کی سزاکاسامنا کرنا پڑا اورامام بخاریؒ کو کسی ایک شہر میں مستقل قیام پذیر ہونے کاموقع نہیں دیاگیا۔کیونکہ وہ جہاں بھی قیام کرتے وہیں عوام الناس کا ایک جم غفیر ان کے درسِ حدیث واجتماعات میں شریک ہونے لگتا اور ظالم بادشاہوں کی طرف سے ان کو وہ شہر چھوڑدینے کافرمان جاری ہوجاتا۔ان تمام واقعات سے یہ بتانامقصود ہے کہ اس دور کے عام مسلمان علم دین یاعلم قرآن سنت کے کتنی متمنی اورکتنے متلاشی تھے۔لیکن ہم لوگ جس دور میں زندگی بسرکررہے ہیں وہاں عام مسلمان علم دین اورقرآن وسنت سے مکمل طور پر ناواقف ہیں ۔اس لیے اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو قرآن اورسیرتِ رسولﷺ سے وابستہ رکھنے کی مسلسل کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کو قرآن کریم کے ساتھ خاص نسبت عطافرمائی ہے اسی طرح یہ بھی اللہ ہی کی حکمت ہے کہ اس نے قرآن کو لانے والے اپنے آخری رسول کی دنیا میں تشریف آوری کے لیے ماہِ ربیع الاول کاانتخاب فرمایا۔اور اس چیز میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا مکمل اتفاق ہے کہ آپؐ کی پیدائش ماہِ ربیع الاول کے کسی دوشنبہ کے دن ہوئی۔ لیکن ماہِ ربیع الاول کی کسی تاریخ کے تعین میں دورِاول ہی سے اختلاف پایاجاتاہے۔جس میں 9،12،اور17،ربیع الاول زیادہ مشہور ہیں۔ جبکہ آپ کی تاریخ وفات 12ربیع الاول ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اس لیے عوام الناس اس کو 12وفات کے نام سے بھی جانتے ہیں۔حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتاتووحی کے ذریعہ آپ کو آپ کی صحیح تاریخ پیدائش کا علم بھی دیاجاسکتاتھا۔لیکن اللہ اور اس کے رسول نے شاید اسی لیے اس کو مخفی رکھا کہ کسی وقت مسلمان بھی دوسری قوموں کی طرح اپنے انبیاء کا سال میں صرف ایک دن یوم پیدائش منانے پر اکتفاء نہ کربیٹھیں۔اور ہر مسلمان اس بات سے واقف ہے کہ اسلام میں اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے کسی خاص عبادت یاعمل کا حکم ہوتاہے تواس کے ماہ وتاریخ واضح طورپر متعین کردیے جاتے ہیں۔مثال کے طور پرپوراماہِ رمضان المبارک روزوں کے لیے خاص ہے۔امت مسلمہ کو جو دوعیدیں اللہ کی جانب سے عطافرمائی گئی ہیں ان کی تاریخ عیدالفطر کے لیے یکم شوال اور عیدالاضحی کے لئے 10ذی الحجہ اور اسی طرح فریضۂ حج اداکرنے کے ایام بھی بالکل واضح ہیں۔یہاں تک کہ یوم عرفہ یعنی 9ذی الحجہ اور یوم عاشورہ یعنی 10محرم کے روزوں کی فضیلت بھی اللہ کے رسول نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے۔لیکن ماہِ ربیع الاول کی کسی خاص تاریخ میں کسی خاص عمل کی تاکیدقرآن یااحادیث رسول میں نہیں پائی جاتی ۔اس لیے ہمارے وہ مسلمان بھائی جوجشنِ میلادالنبی نہ منانے والوں پر مُحب رسول نہ ہونے کی طعنہ زنی کرتے ہیں انہیں اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسے مسلمان ہیں جواپنے بچو ں کی سالگرہ یایوم پیدائش تومناتے ہیں لیکن اللہ کے رسول کے یوم پیدائش منانے کو بدعت کہتے ہیں۔حالانکہ ایساکہنے والے یاتوجانتے ہی نہیں یاجان بوجھ کر تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں کہ جو مسلمان بھی اپنا یااپنے بچوں کایوم پیدائش اور برتھ ڈے مناتے ہیں وہ سنت رسول کی پیروی نہیںکرتے۔بلکہ وہ سب انگریز قوم کی ذہنی غلامی میں مبتلاہوکر ایساکرتے ہیں۔کیونکہ اللہ نے ہمیں یہ زندگی گزرے ہوئے ایام پر خوشی منانے کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ اور ہروقت اپنی اوراپنے اہل خانہ کی عاقبت وآخرت سنوارنے کی فکر اور عمل کے لیے عطافرمائی ہے۔ہماراتوصرف آپ سے یہ کہنا ہے کہ آپ کے اس عمل کو بدعت یاگناہ نہ بھی کہاجائے لیکن اگرہماری زندگی اطاعت رسول اور اسوۂ رسول سے خالی ہے تو سال کے ایک خاص دن میں جشن وجلوس کے ساتھ محبت رسول کا دعویٰ کرناایک لاحاصل ونمائشی عمل ہے۔جوآخرت میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے لیے ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا۔یہ بس ایک فریب نفس ہے ۔
آخر میں صرف اتنا عرض کرناہے کہ اگر کسی خاص تاریخ کی تعیین کیے بغیر پورے ماہ ربیع الاول کو ہم عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اپنے غیرمسلم برادرانِ وطن کو سیرتِ رسولﷺ سے واقف کرانے،ان تک حضرت محمدﷺکاپیغام پہنچانے کااہتمام کریں اور اس کے لیے ملک کی تمام زبانوں میں سیرتِ رسولﷺ پر کتابوں کی تقسیم وسیرت النبی ﷺ کے جلسوں واجتماعات کاانعقاد کریں تواس کے عملِ خیر ہونے میں مسلمانوں کے کسی مکتب فکر کوبھی اختلاف نہیں ہے اور اس طرح ربیع الاول کا مہینہ مسلمانوں کے درمیان انتشار کاسبب بننے کے بجائے اتحاد واتفاق کاذریعہ بن سکتاہے۔حالانکہ اس مبارک عمل کی مسلسل ہر مہینہ اور ہمیشہ ضرورت ہے۔
محبت رسول کا دوسرا ضروری عمل ا ورکردار یہ ہونا چاہیے کہ اگرہم اپنے دعویٔ حب رسول میں سچے ہیں تولاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ کاکلمہ پڑھنے والے کسی مسلمان کو کافر نہ سمجھیں یعنی اگر رسولﷺ سے محبت ہے تو یہ بات ممکن نہیں ہے کہ امت رسول سے نفرت کی جائے۔ہمارے جن بزرگوں اور حضرات نے دیگر مسلمانوں پر کفر کے فتوے صادر کیے تھے وہ سب اللہ کے حضور میں حاضر ہوچکے ہیں ان سب کامعاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں۔اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 134اور141میں فرماتاہے’’تم سے پہلے جو لوگ (تمہارے بزرگ یاآباواجداد) تھے وہ سب گزر چکے ہیں ان کے لیے وہ ہے جو انہوں نے کمایااور تمھارے لیے وہ ہوگا جو تم نے کمایااور تم سے ان کے اعمال کے متعلق کوئی سوال نہ کیاجائے گا‘‘اوراللہ کے رسول ﷺ کاارشاد ہے کہ اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر کہے تواللہ کے نزدیک ان دونوں میں سے ایک کافر ضرور ہوجائے گا یعنی اگر اللہ کی نظر میں دوسراکافر نہ ہواتووہ کفرخود کہنے والے کی طرف لوٹ جائے گا‘‘اس لیے ہمیں اس عمل سے مکمل توبہ کرنی چاہیے۔اگراللہ اور رسول اللہﷺ سے سچی محبت ہے توملت اسلامیہ کو تقسیم کرنے والی جتنی دیواریں ہیں ان سب کو منہدم کردیں۔اور اپنے آپ کو دیوبندی ،بریلوی ،سنی یاشیعہ کہنے کے بجائے صرف ایک امت مسلمہ بن جائیں جس کا اللہ اور رسول نے ہمیں حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔
(مضمون نگار سے رابطہ: 7599440075)
***
***
اگر کسی خاص تاریخ کی تعیین کیے بغیر پورے ماہ ربیع الاول کو ہم عام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اپنے غیرمسلم برادرانِ وطن کو سیرتِ رسولﷺ سے واقف کرانے،ان تک حضرت محمدﷺکاپیغام پہنچانے کااہتمام کریں اور اس کے لیے ملک کی تمام زبانوں میں سیرتِ رسولﷺ پر کتابوں کی تقسیم وسیرت النبی ﷺ کے جلسوں واجتماعات کاانعقاد کریں تواس کے عملِ خیر ہونے میں مسلمانوں کے کسی مکتب فکر کوبھی اختلاف نہیں ہے اور اس طرح ربیع الاول کا مہینہ مسلمانوں کے درمیان انتشار کاسبب بننے کے بجائے اتحاد واتفاق کاذریعہ بن سکتاہے۔حالانکہ اس مبارک عمل کی مسلسل ہر مہینہ اور ہمیشہ ضرورت ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 ستمبر تا 28 ستمبر 2024