زعیم الدین احمد، حیدرآباد
قرضوں کا بوجھ فرد کا نہیں سماج کا مسئلہ ہے اس پر غوروفکر کرنا لازمی
مائیکرو فائنانس کا جال ایک ایسا جال ہے جس میں ایک ضرورت مند، غریب شخص کو سبز باغ دکھا کر پھنسایا جاتا ہے، یہ قرض بھی اتنا نہیں ہوتا ہے کہ اس سے اس کی ضرورت پوری ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی پریشانیاں ختم ہوتی ہیں مگر قرض پر سود میں دن دگنی رات چوگنی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ کبھی یوپی سے خبر آتی ہے کہ مائیکرو فائنانس کے قرض کے جال میں پھنس کر کسی نے خودکشی کرلی ہے، کبھی خبر آتی ہے کہ کسی جوڑے نے مائیکرو فائنانس کے جال میں پھنس کر اپنے اولاد کو محض بیس ہزار روپے کے عوض فروخت کردیا، کبھی حیدرآباد سے خبر آتی ہے کہ اسی مائیکرو فائنانس کے جال میں پھنس کر ایک باپ نے اپنی جان دے دی ہے۔ یقیناً اس طرح کے واقعات ہمارا سر شرم سے جھکا دیتے ہیں۔ ایک طرف ملک کی معیشت تین کھرب ڈالر کو پار کرنے جا رہی ہے، لیکن ملک کا غریب آج بھی دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے، ملک میں ہزاروں این جی اوز غریبی مٹانے کے لیے بنے ہوئے ہیں اور کام کر رہے ہیں، لیکن کروڑوں غریب عوام اپنی ضروریات زندگی کو پوری کرنے سے قاصر ہیں اور ایسے واقعات کو روکنے میں بری طرح سے ناکام نظر آتی ہیں۔
اسی طرح کے مائیکرو فائنانس کمپنیوں کے قرض کے جال میں پھنسے ہوئے ضلع کشی نگر یوپی کے ایک غریب نوجوان شیلیش کی منگل 17 ستمبر کو مشتبہ حالات میں موت ہو گئی۔ اس کی بیوی مالا نے چھ مختلف مائیکرو فنانس کمپنیوں سے 2.3 لاکھ روپے کا قرض لیا تھا۔ قرض کی واپسی کو لے کر تنازعہ ہوگیا اور جھگڑا ہوگیا، اس لڑائی میں اس کی حالت خراب ہوگئی جس پر اسے ضلع اسپتال لے جایا گیا، جہاں اس کی موت واقع ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ شیلیش کی موت کو معمولی نہیں لینا چاہیے، اس کی موت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مائیکرو فائنانس اس وقت کا سب بڑا مسئلہ بن گیا ہے، اس مسئلے کو انفرادی مسئلے کے طور پر ہرگزنہیں لینا چاہیے، بلکہ یہ ایک ابھرتا ہوا سماجی بحران ہے، جہاں غریب لوگ مائیکرو فائنانس کمپنیوں کے قرضوں کے دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس ضلع میں پیش آنے والا یہ تیسرا واقعہ ہے، یعنی ایک سال میں کشی نگر ضلع میں یہ تیسری موت ہے۔ مزید برآں، اسی ضلع کے دودھی علاقے کے دساہوان گاؤں کا ایک غریب خاندان قرض کے جال میں پھنس کر بیس ہزار روپے میں اپنا بچہ بیچنے پر مجبور ہو گیا، یہ کوئی پرانی بات نہیں ہے بلکہ اسی ماہ کی بائیس تاریخ کی بات ہے۔ پینتیس سالہ شیلیش کشی نگر ضلع کے ہیڈکوارٹر سے محض چھ کلو میٹر دور جنگل کھرکیا گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں کے تمام مشاعر باشندے انتہائی غربت میں اپنی زندگی بسر کر رہے تھے اور مزدوری کر کے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔
چھ سال پہلے، 13 ستمبر کو اس گاؤں میں دو بھائی، فیکو اور پپو، بھوک اور غذا کی کمی کی وجہ بیمار ہو کر فوت ہو گئے۔ اس علاقے کے نوجوان اب شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں، کیونکہ انہیں اب گاؤں میں کوئی کام نہیں مل رہا ہے۔ یہ صورت حال ہے۔
یہ مشاعر کون ہیں؟
دراصل یہ ایک انتہائی غریب قبیلہ ہے، جو کشی نگر ضلع میں تقریباً 100 تولے یا مشاعروں کے علاقے پائے جاتے ہیں اور ان کی آبادی ایک لاکھ بتائی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ قبیلہ کھیتی باڑی کا کام کرتا ہے یعنی فارم لیبر ہیں، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ زراعت کے کاموں میں اس وقت انسانوں سے زیادہ مشینوں کو استعمال کیا جا رہا ہے اور مشینوں کا استعمال بڑھنے کی وجہ سے زرعی مزدوروں کو کام نہیں مل رہا ہے، جس سے دن بہ دن ان زرعی مزدوروں کی حالت قابل رحم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک دلچسپ بات عرض کردوں ان کا نام مشاعر اس لیے پڑا ہے، کہ ان کے بارے میں ایک عام خیال یہ ہے کہ وہ چوہے کھاتے ہیں (جہاں موس کا مطلب چوہا ہے) لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کھیتوں میں اناج کو تلاش کرنے کے لیے چوہوں کے بلوں کو تلاش کرتے تھے، تاکہ اناج حاصل کر کے اپنی بھوک مٹا سکیں۔ بہر حال انہیں چوہے کھانے والے کہا جائے یا ان کے بلوں کے ذریعے اناج تلاش کرنے والے کہا جائے، بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اپنے پاپی پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے وہ چوہوں کے بلوں کی تلاش کرتے تھے۔ اس عمل سے ہم ان کی غربت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا اکتوبر 2004 کا واقعہ اسی کشی نگر کے ڈوگھرا گاؤں میں بھوک کی وجہ سے نگینہ مشاعر کی موت ہوگئی تھی جو ملک گیر سطح پر ایک سنسنی خیز خبر بن گئی تھی، اس واقعے نے ساری قوم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تھی، حکومت نے بھی اس قبیلے کی طرف توجہ دی، پچھلی دو دہائیوں میں رہائش، پینے کے پانی، غذائی اجناس وغیرہ سے متعلق مختلف سرکاری اسکیموں کی بدولت ان کی حالت میں قدرے بہتری آئی ہے، لیکن ذریعہ معاش کا بحران حکومتی سہولیات سے کہیں زیادہ اور گہرا ہوا ہے۔
شیلیش اور مالا انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے تھے اور ان کے لیے دن میں دو وقت کا کھانا بھی ملنا مشکل تھا۔ دریں اثنا مالا گاؤں کے ایک سیلف ہیلپ گروپ کے رابطے میں آئی جہاں اس نے چھ مختلف مائیکرو فائنانس کمپنیوں سے 2.3 لاکھ روپے کا قرض لیا۔ یہاں سے شروع ہوتی ہے مائیکرو فائنانس کے قرض کی کہانی، ان کی غربت کا استحصال کرنے کے لیے سیلف ہیلپ گروپ آجاتے ہیں، ایک قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے دوسرا قرض لیا گیا، اور دوسرے قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے تیسرا قرض لیا گیا۔ نتیجتاً قرض کا بوجھ بڑھتا رہا اور مالا قرض کے جال میں بری طرح پھنس گئی۔ مالا جو شیلیش کی بیوی ہے اس نے کہا کہ اس نے یہ قرض چھ مائیکرو فائنانس کمپنیوں سے لے رکھے تھے۔ تین قرضوں کی قسطیں ہر پندرہ دن میں اور ایک کی ہر ہفتے اور دو قرضوں کی ہر مہینے ادا کرنی پڑتی تھیں۔ تمام چھ قرضوں کی قسط ماہانہ نو ہزار روپے بنتی تھی۔ وہ پچھلے چار ماہ سے کوئی قسط ادا کرنے سے قاصر تھے۔
مالا کی بھاوج میرا دیوی کا کہنا ہے کہ، "پورا گاؤں قرض کے جال میں پھنسا ہوا ہے، اس گاؤں میں کسی کے پاس بھی زرعی زمین نہیں ہے اور کوئی کام بھی نہیں ہے۔ جب قرض لیا گیا ہے تو قسطیں تو ادا کرنا ہی پڑتا ہے، قسطیں تو ادا ہوتی ہیں لیکن اصل رقم کی واپسی ہی نہیں ہوتی، صرف سود ادا ہوتا رہتا ہے۔ ایجنٹ قرض کی وصولی کے لیے گھر میں گھس جاتے ہیں۔ لوگ گاؤں سے بھاگ رہے ہیں اور ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔‘‘
میرا نے یہ بھی بتایا کہ شیلیش نے کچھ کمانے کے لیے گاؤں میں سبزیاں اور روزمرہ کی دیگر ضروری اشیاء بیچنے کے لیے ایک اسٹال لگایا تھا، لیکن یہ بھی بے سود ثابت ہوا، جب وہ قرض کی قسط ادا نہ کر سکا تو ایک مائیکرو فائنانس کمپنی کے ایجنٹ نے اس کی اسٹال بیچ کر قسط کی رقم وصول کر لی۔ اسی طرح مالا نے کپڑے سی کر کچھ کمائی کرنے کی کوشش کی، اس نے ایک سلائی مشین بھی خریدی تھی۔ قرض کی قسط کی عدم ادائیگی پر مائیکرو فائنانس کمپنی کے ایجنٹ نے سلائی مشین اپنے قبضے میں لے لی۔ اس طریقے سے مائیکرو فائنانس کمپنی کے ایجنٹ ان پر قسط کی ادائیگی کے لیے مسلسل دباؤ ڈالتے رہتے تھے۔
31 سالہ نظام الدین جو حیدرآباد کا رہنے والا تھا اس نے کچھ بینکوں سے قرض حاصل کیا تھا تاہم گزشتہ 6 ماہ سے بیروزگار تھا اور قسط ادا کرنے سے قاصر تھا، اس نے خودکشی کرلی۔ خودکشی سے قبل نظام الدین نے ویڈیو بناکر بتایا کہ وہ انتہائی مقروض ہوچکا ہے اور اب وہ قرض ادا نہیں کر پارہا ہے، لہٰذا اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے، اسی لیے وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہے۔ یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ آئے دن اس طرح کے واقعات ہماری نظروں سے گزر رہے ہیں۔ یہ کسی ایک فرد کا انفرادی مسئلہ نہیں ہے، کہ وہ قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، اس کا مسئلہ ہے وہ خود حل کرلے، ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ایسا نہیں ہے، یہ تو سارے سماج کا مسئلہ ہے، اس کے حل کے لیے ہم سب کو مل کر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ ورنہ یہ ناسور سارے سماج کو تباہ کردے گا۔
***
یہ کسی ایک فرد کا انفرادی مسئلہ نہیں ہے، کہ وہ قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، اس کا مسئلہ ہے وہ خود حل کرلے، ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ایسا نہیں ہے، یہ تو سارے سماج کا مسئلہ ہے، اس کے حل کے لیے ہم سب کو مل کر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ ورنہ یہ ناسور سارے سماج کو تباہ کردے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024