’محروم تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے ‘

ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر کے بانی

محمد عارف اقبال

محمد ابوالفضل فاروقی
آمد:26 اگست 1940 – رخصت:24 مارچ 2018
دہلی کی معروف سماجی، تعمیری اور جامعہ نگر (نئی دلی) کے وسیع علاقے میں مقبول عام شخصیت محمد ابوالفضل فاروقی اپنی انسان دوستی، خدمت خلق اور فلاحی و رفاہی کاموں کے لیے مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔ ان کا ایک بڑا کارنامہ جامعہ نگر (اوکھلا گاؤں) میں ابوالفضل انکلیو کا قیام ہے۔ اسی وجہ سے ’شاہین باغ‘ کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے جماعت اسلامی ہند کو ایک بڑی اراضی دوسرے گاہکوں سے کم قیمت پرفروخت کی۔ اس معاملے کو ڈیل کرنے میں جماعت کے سکریٹری (مولانا) محمد شفیع مونس مرحوم اور صاحبزادہ عبدالعظیم خاں مرحوم (سکریٹری مالیات جماعت اسلامی ہند) کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ خود مرحوم فاروقی صاحب دونوں بزرگوں کی بہت عزت کرتے تھے اور عبدالعظیم خاں صاحب کو تو اپنا پیر مانتے تھے۔ مرکز جماعت اسلامی ہند نے سب سے پہلے وہاں مسجد اشاعت اسلام کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس کے برسوں بعد مرکز کی عمارتوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ اس مرکز کی وجہ سے ہی وہاں دیگر افراد بھی آکر بسنے لگے جن کو فاروقی صاحب نے واجبی قیمت پر زمینیں فراہم کیں۔ مرکز جماعت اسلامی کے عزم و ارادے کو دیکھتے ہوئے ہی دیگر مسلم تنظیموں اور اداروں کو تحریک ملی۔ ابوالفضل فاروقی صاحب زمین کی تجارت ضرور کر رہے تھے لیکن ان کے نزدیک جامعہ نگر میں مسلمانوں کو آباد کرنا ایک مشن کی طرح تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی جمع ہوگئی۔ متعدد تعلیمی ادارے اور مدارس کے ساتھ 53 سے زائد مسجدیں تعمیر ہوگئیں۔ ملک کی بڑی بڑی اہم ملّی جماعتوں کے مراکز یہاں قائم ہوگئے۔ فاروقی صاحب نے تجارت ضرور کی لیکن اس سلسلے میں ان کو جو قربانی دینی پڑی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی سدا بہار اور قابل رشک صحت مسلسل متاثر ہونے لگی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد کاروبار کی بساط عملاً لپیٹ دی تھی اور اپنے گھر تک محصور ہوگئے تھے۔ ان کی زندگی میں بے شمار ’نشیب و فراز‘ تھے لیکن ’نشیب‘ کا کرب ان پر زیادہ اثر انداز ہوا تھا۔ ابوالفضل انکلیو میں انہوں نے جن دیگر افراد کو زمین فروخت کی تھی ان میں سے بعض نے مکاریاں دکھانی شروع کردی تھیں، جس سے وقتی طور پر فاروقی صاحب کی شبیہ مجروح ہوئی۔
ان کے انتقال پر دہلی کی سرکردہ شخصیات، ملّی رہنماؤں اور انجمنوں کی طرف سے اظہار افسوس کیا گیا۔ ایک تعزیتی نشست کا اہتمام عالمی یومِ اردو آرگنائزنگ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر سید احمد خاں کی طرف سے دریاگنج، نئی دہلی میں کیا گیا۔ اظہار تعزیت کرتے ہوئے ڈاکٹر سید احمد خاں نے کہا کہ ’’ابوالفضل فاروقی ہماری تنظیم کے سرپرستوں میں شامل تھے۔ مرحوم انتہائی ملنسار، مخیّر اور خدا ترس انسان تھے۔ سماجی اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اور اس کے حصول کے لیے آخری دم تک کوشاں رہے۔ انہوں نے اپنی سوانح حیات ’نشیب و فراز‘ کے نام سے جنوری 2000 میں شائع کرائی تھی جس کی تدوین اور ایڈیٹنگ ’اردو بک ریویو‘ کے ایڈیٹر محمد عارف اقبال نے کی تھی۔‘‘
محمد ابوالفضل فاروقی اترپردیش کے ضلع بلیا کے تحصیل چندائربلی پور گاؤں میں 26 اگست 1940 کو پیدا ہوئے۔ اب یہ تحصیل بلتھرا روڈ سے موسوم ہے۔ ان کے والد ابوالبرکات (مرحوم) پولیس ہیڈ کانسٹبل تھے۔ انتہائی شریف النفس انسان تھے۔ ان کی والدہ بھی دین دار خاتون تھیں۔ فاروقی صاحب اپنی والدہ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ وہ بھی ان کو عزیز رکھتی تھیں کیونکہ فرماں بردار تھے۔ ان کا گھرانہ خوش حال تھا۔ 1959 میں گورکھپور کے جارج اسلامیہ ہائر سکنڈری اسکول، بخشی پور سے بارہویں درجہ (F.Sc) کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے بہنوئی پروفیسر قاضی اشفاق احمد صاحب کے مشورے سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں قاضی اشفاق احمد جامعہ کے انجینئرنگ فیکلٹی میں استاد تھے۔ وہ کچھ دن IIT دہلی میں بھی استاد رہے۔ 1963 میں انہوں نے آسٹریلیا جانے کا فیصلہ کرلیا جس کی وجہ سے فاروقی مرحوم ان کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ سڈنی میں ان کی ذاتی لائبریری تھی اور اپنا Multilingual اخبار "Insight” نکالتے تھے۔ فاروقی صاحب نے 1965 میں سول انجینئرنگ میں ڈپلوما کے بعد اسی سال D T U یعنی دہلی ٹرانسپورٹ یونین میں سیکشن آفیسر کی حیثیت سے جوائن کر لیا۔ اس وقت حکومت دہلی کے اس ادارے کے جنرل منیجر خورشید عالم خاں تھے۔ یہی ادارہ اب D T C کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خورشید عالم خاں سے ابوالفضل فاروقی کے گھریلو تعلقات تھے۔ خورشید عالم خاں بعد میں صوبہ کرناٹک کے گورنر بھی بنائے گئے۔ فاروقی صاحب نے نوکری تو کرلی تھی لیکن مطمئن نہیں تھے، اس لیے 13 برسوں کے بعد ملازمت سے مستعفی ہوگئے اور اپنا کاروبار شروع کیا۔ شروع میں Stone Crushing Co.میں اشتراک کیا۔ بعد میں کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی غازی آباد بنائی اور اس کے جنرل سکریٹری ہوئے۔ یہیں سے ان کے عروج یا فراز کی کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ اللہ نے انہیں بے انتہا نوازا۔ انہوں نے دہلی وسندھرا سے قریب ابوالفضل اپارٹمنٹ قائم کیا جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تاجر، گورنمنٹ ملازمین اور آفیسروں کو مناسب داموں پر فلیٹس مہیا کرائے۔ اوکھلا گاؤں میں ابوالفضل انکلیو کی بنیاد رکھی۔ اپنی قیام گاہ بھی انہوں نے اسی گاؤں میں تعمیر کرائی۔ کیونکہ وہ شروع سے سادہ مزاج اور گھل مل کر رہنے والے انسان تھے۔ وہ چاہتے تو خود کسی اپارٹمنٹ میں رہنے کو ترجیح دیتے۔ ان کی شادی 15 فروری 1968 کو دیوریا کے ایک نامور وکیل اور ایم ایل اے کی بیٹی محترمہ جعفری سے ہوئی۔ ان کی اہلیہ جعفری فاروقی بی اے، بی لب تھیں اور شادی سے قبل منسٹری آف ڈیفنس کے تحت لکھنؤ میں لائبریرین رہیں۔ شادی کے بعد چند برس انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ذاکر حسین لائبریری میں بھی کام کیا۔ محترمہ جعفری ایک وفا شعار خاتون ہیں۔ وہ اپنے شوہر ابوالفضل فاروقی صاحب کا خاص خیال رکھتی تھیں۔
محمد ابوالفضل فاروقی (مرحوم) سے راقم کا تعارف 1999 میں سی سی آریو ایم کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سید احمد خاں کے ذریعہ ہوا۔ پہلی ہی ملاقات میں وہ میرے گرویدہ ہوگئے اور مجھے اپنی ’سوانح حیات‘ لکھنے کے لیے آمادہ کرلیا۔ کم سے کم تین مہینے تک ہر ہفتہ وہ اپنی داستانِ حیات بیان کرتے اور راقم نوٹس (notes) لیتا رہتا۔ اس کے بعد میرے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوانح مکمل ہونے کے بعد فاروقی صاحب نے اسے حرف بہ حرف سنا اور پڑھا بھی۔ اس کے بعد ان کا تبصرہ یہی تھا کہ میں نے باتیں لکھی تھیں گویا وہ وہی تھیں جو ان کے دل میں تھیں۔ مسودے کی ایڈیٹنگ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد ان کی سوانح ’نشیب و فراز‘ کا پہلا ایڈیشن 2000ء میں منظر عام پر آیا۔ اسی سال ان کے اکلوتے بیٹے اسعد فاروقی کا عقد محترمہ نویرہ سے 26 جنوری کو ہوا۔ نویرہ کے والد یعنی فاروقی صاحب کے سمدھی عمادالحسن آزاد فاروقی جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں پروفیسر تھے۔ اس وقت ان کی بہو نویرہ نے جامعہ سے انگریزی میں بی اے اور بی ایڈ کی ڈگریاں لی تھیں۔ بعد میں انہوں نے ایم اے پاس بھی کیا۔
ابوالفضل فاروقی فی الحقیقت پکے اور پیشے ور تاجر نہیں تھے۔ لہٰذا تجارتی ذہن نہیں رکھتے تھے۔ تاہم معاملات کے کھرے انسان تھے۔ وہ ایک حساس دل رکھتے تھے۔ Real Estate کی تجارت میں اپنی انسانیت نوازی سے انہوں نے تلخ تجربات کے کڑوے گھونٹ بھی نگلے تھے۔ اس کا اندازہ ان کی سوانح حیات ’نشیب و فراز‘ کے مطالعے سے ہوسکتا ہے۔ اس کا ہندی اور انگریزی ایڈیشن بھی بعد میں شائع ہوا۔ انگریزی ایڈیشن فاروس میڈیا کے زیراہتمام شائع ہوا تھا جس کے مترجم معروف سینئر صحافی رضوان اللہ فاروقی تھے۔ فاروقی صاحب نے اپنی اس ’سوانح حیات‘ میں اپنے طالب علمی کے دور کے جامعہ کا بھی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے بڑے واضح انداز میں جامعہ کیمپس کی خوبیوں اور خرابیوں کو بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کو وہ ایک شفیق اور دین دار انسان سمجھتے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ان کی حیثیت جامعہ میں ایک ’شفیق ماں‘ کی تھی۔‘‘ (نشیب و فراز، ص:31) دوسری طرف پروفیسر مجیب کے بارے میں فاروقی صاحب نے لکھا:
’’پروفیسر مجیب صاحب کا طویل دورِ وائس چانسلری جامعہ کے لیے انتہائی مہلک اور دردناک تھا۔ وہ تاحیات ایک ’ڈکٹیٹر‘ کی حیثیت سے جامعہ میں رہے۔ ان کا تعلق ابتدا ہی سے کانگریسی لیڈروں سے رہا لہٰذا باوجود مخالفت کے وہ اپنے عہدے پر قائم رہے۔ ان کی اولین کوشش یہی رہی کہ جامعہ کسی بھی اعتبار سے ترقی کی منزل پر گامزن نہ ہو سکے۔‘‘ (نشیب و فراز، ایڈیشن:2003، ص:32) انہوں نے اس زمانے میں جامعہ میں موجود دیگر اساتذہ کا بھی ذکر کیا ہے۔
فاروقی صاحب اپنی ’سوانح حیات‘ میں جہاں جامعہ کے خوش گوار دور کو یاد کرتے ہیں جبکہ وہ طالب علم تھے، 1999 کے آخر میں یعنی آج سے تقریباً 24 سال قبل انہوں نے جامعہ کے ماحول پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا:
’’جامعہ کے ایک سابق طالب علم اور ایک پڑوسی ہونے کے ناطے جو کرب میں محسوس کرتا ہوں شاید کم ہی لوگوں کے حصے میں آیا ہے۔ ممکن ہے کہ جامعہ کے قریب رہنے والے دیگر معزز حضرات بھی جامعہ کی موجودہ افسوس ناک صورت حال پر آنسو بہاتے رہے ہوں۔ چونکہ میں نے اپنی کھلی آنکھوں سے جامعہ کے شفاف ماحول کو دیکھا ہے، اپنی جوانی کا ایک معتدبہ حصہ جامعہ کے محنتی، ایماندار اور باکردار اساتذہ کے درمیان گزارا ہے لہٰذا جب اس شفاف ماحول کو بے گور و کفن دفن ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں تو کرب کا احساس دوبالا ہو جاتا ہے۔‘‘ (نشیب و فراز، ص:35، ایڈیشن:2003)
ابوالفضل فاروقی صاحب نے اپنی حیات میں ایک بڑا فیصلہ یہ لیا کہ انہوں نے زمین کے کاروبار کی بساط لپیٹ کر اپنے اکلوتے بیٹے اسعد فاروقی کے لیے اور بہو نویرہ کی خصوصی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے نوئیڈا کے سیکٹر 62 میں ایم اے ایف اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ اس کی تعمیر میں انہوں نے اپنا پورا سرمایہ لگادیا۔ اس اسکول کی کمیٹی میں انہوں نے بااثر افراد اور ماہرین تعلیم کو رکھا۔ یہ پبلک اسکول سینئر سکنڈری سطح کا تھا۔ اس کا نصاب CBSE کے مطابق رکھا گیا اور اسکول کے آغاز سے قبل ہی CBSE سے رجسٹرڈ کرایا گیا۔ راقم کے مشورے سے انہوں نے درجہ اول سے اپنے اسکول میں ایک مضمون اردو بھی رکھا جسے CBSE سے منظور کرایا۔ اسی طرح انہوں نے راقم کی تجویز پر حضرت علیؓ کے قول ’العلم سلاحی‘ کی بنیاد پر اسکول کا سلوگن ‘Knowledge is our Weapon’ کو منظور کیا۔ انہوں نے اپنی ’سوانح حیات‘ میں لکھا ہے:
’’نوئیڈا میں فی الوقت 10+2 اسکولوں کی تعداد 50 ہے۔ لیکن ایم اے ایف اکیڈمی پہلا اسکول ہے جس کا فاؤنڈر ایک مسلمان ہے۔ 10+2 اسکولوں کی ایک بڑی تعداد کے درمیان ہمارے اسکول کی حیثیت 32 دانت کے درمیان ایک زبان کی سی ہے۔ لیکن اسکول کے مشاورتی بورڈ سے جو شخصیات وابستہ ہیں ان کے تعارف کے بعد یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ اس اسکول کا فاؤنڈر یقیناً ایک مسلمان ہے لیکن تنگ نظر نہیں ہے۔ ہم ہر مسئلہ کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں۔‘‘
(نشیب و فراز، ایڈیشن:2003، ص:214)
ان کا مشاورتی بورڈ جن آٹھ افراد پر مشتمل تھا ان میں دو مسلمان پدم شری ڈاکٹر ایم رحمٰن (I A S) اور مسٹر منظور احمد (I P S) کے علاوہ چھ معروف و ممتاز غیر مسلم افراد ماہرین تعلیم تھے۔ وہ خود اس اسکول کے فاؤنڈر چیئرمین تھے اور بسترِ علالت سے تمام امور سنبھالے ہوئے تھے۔ بیس ہزار مربع میٹر کی اراضی پر اسکول کی تعمیر کا کام 2001 میں شروع ہوگیا تھا۔ یہ اسکول اس لحاظ سے بے حد مثالی تھا کہ اس میں طلبا کے لیے تمام جدید سہولیات کے ساتھ صفائی ستھرائی اور کھلی فضا میں تعلیم کا انتظام کیا گیا تھا۔ پہلا سیشن 2003-2002 سے شروع ہوا۔ اس طرح یہ اسکول تقریباً دس برسوں تک کامیابی سے چلتا رہا۔ ان کے بیٹے اور بہو کے لیے یہ ایک نعمت غیر مترقبہ کی مانند تھا۔ لیکن فاروقی صاحب کی زندگی میں ایک ایسی آزمائش آئی کہ ان کے حسین خواب کی عمارت یک لخت زمین بوس ہوگئی۔ ایک کربناک و المناک حادثے نے ان کو اندر سے ریزہ ریزہ کردیا۔ انہوں نے اس مثالی اسکول کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی حیات میں ہی تمام بچوں (بالخصوص بیٹیوں) کو وراثت کے طور پر ان کا حق دے دیا۔ فاروقی صاحب ایک دردمند دل انسان تھے۔ سخاوت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ وہ کسی بھی سائل کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے تھے۔ وہ اپنے محسن کو بڑے احترام اور شفقت سے یاد کرتے تھے۔ ایسا انسان یقینی طور پر اپنے رب سے قریب ہوگا۔
آخری ایام میں وہ اپنا احتساب زیادہ کرنے لگے تھے۔ وہ دین کے جاننے والوں سے ماضی کے اپنے ان گناہوں کا تذکرہ کرتے تھے جن کا ارتکاب خاص طور سے کاروبار کے سلسلے میں انہوں نے کیا تھا۔ ان میں بیشتر گناہ ہندوستانی سرکاری مشنری کے حوالے سے تھے یعنی سرکاری عملے کو رشوت دے کر ہی بہت سے معاملات طے کیے جاتے تھے۔ اس بارے میں وہ سخت افسوس کرتے تھے اور اللہ سے معافی مانگتے رہتے تھے۔
فاروقی صاحب کی اس مقبولیت کا اندازہ کیجیے کہ جب ان کی کتاب ’نشیب و فراز‘ منظر عام پر آئی تو جہاں اردو کے قارئین نے ایک Real Estate Builder کی سوانح کو دلچسپی سے پڑھا وہیں پیرس کے ایک ریسرچ اسکالر لاریں گیئے (Laurent Gayer) نے اس کتاب کو اپنے ایک تحقیقی مقالے کا موضوع بنایا۔ اس مقالے کا عنوان ہے:
"I never held Money with my Teeth: Constructions of Exemplarity in Abul Fazl Farooqi’ Nasheb-o Faraz”
لاریں گیئے نے ابوالفضل فاروقی کی سوانح ’نشیب و فراز‘ اور اس کا انگریزی ترجمہ ‘Ups & Downs’ کی روشنی میں تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ریسرچ اسکالر کے اس مضمون کے مکمل متن کا آن لائن مطالعہ http.//samaj.revues.org پر کیا جاسکتا ہے۔ اس مضمون کا اردو ترجمہ و اختصار ڈاکٹر سید تنویر حسین نے کیا تھا جو ’اردو بک ریویو‘ کے دو شماروں (جولائی، اگست، ستمبر اور اکتوبر، نومبر، دسمبر 2016) میں شائع ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ محمد ابوالفضل فاروقی جیسے فراخ دل اور سخی تاجر پیشہ انسان نایاب ہوا کرتے ہیں۔ ملک و ملت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ مولا کا بلاوا آیا اور ہزاروں خوبیوں کا مالک 24 شخص مارچ 2018 کو اس دنیا سے کوچ کر گیا ۔ اناللہ وانآ الیہ راجعون۔
ابوالفضل فاروقی کی عمر تقریباً 78 برس تھی۔ مرحوم گزشتہ 25 برسوں سے شوگر اور دیگر قسم کے عوارض میں مبتلا ہونے کے سبب اپنے گھر واقع ابوالفضل انکلیوI کے اپنے مخصوص کمرے تک محدود ہوگئے تھےاور مسلسل ڈاکٹروں کی نگہداشت میں رہتے تھے۔ پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں ایک بیٹا شامل ہیں۔ ایک بیٹی عائشہ فاروقی (45 سال) ذہنی طور پر معذور ہے جس کی شادی نہیں ہوسکی۔ مرحوم کی تدفین دوسرے دن بعد نماز ظہر بٹلہ ہاؤس قبرستان میں ہوئی۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور نیکیوں کو قبولیت کا شرف بخشے۔ آمین۔
(مضمون نگار اردو بک ریویو، نئی دہلی کے ایڈیٹر ہیں،ان سے مذکورہ نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:9953630788)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025